مردہ دفن کرنے کا سوال ہے بابا

عجب ستم ظریفی کہ انسان کو مرنے پر چھوٹا سا ٹکرا نہ مل سکے۔

ہم لوگ کس قدرمادہ پرست اور ابن الوقت ہو چکے۔ فوٹو: فائل

خبر کی رو سے لاہور کے ایک علاقے میں ایک میت ڈیڑھ دن تک گھر پر صرف اس وجہ سے پڑی رہی کیونکہ اس آبادی میں مقامی قبرستان موجود نہ تھا ... جبکہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر قریبی آبادی کی قبرستان انتظامیہ نے ''علاقہ غیر'' کا مکین ہونے کی وجہ سے قبر دینے سے انکار کر دیا ۔ بعدازاں جب یوسی چیئرمین اور قبرستان انتظامیہ کے خلاف احتجاج ہوا ، روڈ بلاک کی گئی تو پولیس کی مداخلت اور توسط سے ذمے داروں سے مذاکرات ہوئے اور مردے کو جگہ نصیب ہوئی۔

دوسری جانب مردے کو اس کا حق دلانے کی اس جدوجہد میں علاقے کی ایک سیاسی شخصیت کے خلاف تھانے میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی گئی۔ مدعا یہ تھا کہ قبر کے حصول کی خاطر اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قبرستان کے تالے توڑے ، گورکن پر تشدد کیا اور میت کی زبردستی تدفین کی ۔ یہ مضحکہ خیز نکتہ ہے جس سے قبرستان انتظامیہ کی بے حسی اور یوسی چیئرمین کی ڈھٹائی واضح دکھائی دیتی ہے ۔

قبرستان ہم میں سے ہر فرد کا آخری ٹھکانہ ہے ۔ موت کے بعد روز جزا تک ہمیں وہیں رہنا ہے ۔ بلکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا اصل یا ابدی گھر قبر ہی ہے ، تو بے جا نہ ہوگا ۔ لیکن اگر بعد از مرگ کسی مردے کو بوجوہ جگہ نہ دی جائے تو یہ پہلے ہی سے سوگ میں مبتلا لواحقین کے لیے زیادہ تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے۔

دس سال قبل خود میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آ چکا۔ جب میری دادی ماں کا انتقال ہوا تو اپنی سوسائٹی میں قبرستان نہ ہونے سے ہم نے قریبی علاقے کے قبرستان سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ قبرستان آپ کے علاقے کو نہیں لگتا ۔ ایک کے بعد ، دوسرے ، تیسرے ، چوتھے قبرستان میں گئے مگر جواب انکارکی صورت ملا۔ بڑی مشکل سے ، منت سماجت کے بعد اضافی پیسے دے کر بالآخر ایک قبرستان میں دادی اماں کو جگہ ملی اور انہیں آخری آرامگاہ میں اتارا گیا۔

اس قسم کے واقعات اب تمام بڑے پاکستانی شہروں خصوصاً کراچی،لاہور اور راولپنڈی میں معمول بن چکے۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اپنے پیارے کی تدفین پورے وقار کے ساتھ کرے لیکن بے شمار ایسی سوسائٹیاں ہیں جہاں قبرستان موجود نہیں ۔ اسی لیے میت کے ورثا مختلف قبرستانوں کے چکر لگاتے ہیں کہ کہیں انہیں جگہ میسّر آ جائے ۔آج لوگ اپنے پیاروں کو گھروں سے کئی کلومیٹر دور واقع بستیوں کے قبرستان میں دفنانے پر مجبور ہیں۔


یہ شہر خموشاں ہر علاقے ضرورت ہیں ، مگر حکومت اور سوسائٹی مالکان کی عدم دلچسپی کے باعث کئی علاقوں میں ان کا وجود عنقا ہے۔لہذا وہاں کے باسی فوت شدگان کو دفن کرنے کے لیے آس پاس کی قبرستان انتظامیہ کی منت سماجت کرتے اور ان کا اٹل انکار سنتے دکھائی دیتے ہیں ۔ انہیں ''یہ قبرستان آپ کے علاقے کا نہیں '' یا پھر ''ہاؤس فل ہے'' کہہ کر مایوس لوٹا دیا جاتا ہے ۔

کس قدر ستم ظریفی ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد زمین کا چھوٹا سا ٹکرا بھی میسر نہ آئے ۔ شاید قبرستانوں کے کرتا دھرتاؤں کو اپنی موت کا یقین نہیں ... اسی لیے انہوں نے قبر کو بھی تجارت کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ قبروں کے اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں ۔ ایک سفید پوش فرد کے لیے جو دن کو کنواں کھودتا اور رات کو پانی پیتا ہے ، یہ رقم دینا بھی عذاب ہے ۔ یعنی اب مرنا اتنا بڑا جرم بن چکا کہ انسان کو کسی قبرستان میں بآسانی 6 فٹ جگہ نہیںمل سکتی ۔ یہ عوامل موت کے بعد بھی مرنے والے کا استحصال کرنے کے مترادف ہیں ۔

ہم لوگ کس قدرمادہ پرست اور ابن الوقت ہو چکے ، اندازہ اس امر سے لگائیے کہ جب مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنیں تو نقشہ پاس کرتے ہوئے باقاعدہ ان میں قبرستان کے لیے جگہ مختص ہوتی ہے ۔ مگر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں تو ایک طرف خود کئی حکومتی / ایل ڈی اے سکیموں میں بھی قبرستان کے لیے مختص پلاٹوں پر گھر تعمیر ہو چکے ۔ یعنی یہ پلاٹ بیچ کھائے گئے اور کوئی اس پر تحقیقات کو تیار نہیں ۔

پنجاب حکومت نے ''شہر خموشاں'' کا ایک ماڈل پراجیکٹ شروع کیا ہے جسے تمام بڑے شہروں تک پھیلانے کا عزم ہے ۔ یہ قابل قدر منصوبہ ہے جس میں ایمبولینس اور مردہ خانہ جیسی سہولیات بھی میسر ہیں ... لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ شہر سے بہت دور واقع ہے ۔ شہرکے ایک کونے پر رہنے والا خاندان اپنے مردے کو دفنانے کبھی بھی دوسرے کونے پر نہیں جائے گا ۔ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لیے اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ لہذا شہر خموشاں لاوارث لاشوں کی تدفین کے حوالے سے تو معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن جن لاشوں کے وارث موجود ہوں ، وہ بھلا کیوں انہیں اتنی دور دفن کریں گے ؟

میری تمام اراکان اسمبلی سے گزارش ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر بھی اسمبلی میں آواز اٹھائیں، حکام بالا کی توجہ دلائیں اور اپنے اپنے حلقے کی آبادیوں میں قبرستان کے لیے جگہوں کا انتظام یقینی بنائیں تاکہ کم از کم انسان کو مرنے کے بعد تو سکون مل سکے ۔ وگرنہ آخری حل یہی ہوا کرے گا کہ یا تو لوگ میتیں لیے سڑکیں بلاک کرکے احتجاج اور اپیل کریں گے کہ ''مردہ دفن کرنے کا سوال ہے بابا'' ... یا پھر قبرستانوں میں جگہ نہ ملنے پر اپنے اپنے گھروں کے صحن اس مقصد کی خاطر استعمال کرنا شروع کر دیں گے ۔
Load Next Story