کرشنا کماری پیپلز پارٹی اور بکاؤ مال
اصولی بات یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ خیبر پختونخوا میں ایک برائی ہے ؟
سینیٹ کے الیکشن پر جتنا شور مچا تھا اُس سے کہیں زیادہ 'ہارس ٹریڈنگ' سننے میں آئی جس سے راقم کے اس موقف کی تائید ہوئی کہ جب تک چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا ہم یونہی ہارس ٹریڈنگ، ڈونکی ٹریڈنگ ، مونکی ٹریڈنگ اور نہ جانے کون کون سی ٹریڈنگ کی باتیں سنتے رہیں گے اور ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیلتے رہیں گے۔ جہاں معیشت تباہ، امن و سکون غارت، غربت کے ڈیرے، لوٹ مار، جھوٹ، اخلاقی پستی سمیت سب کچھ موجود ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہوئی کہ سینیٹ کے اس الیکشن کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نہیں ۔ تینوں نے پاور پالیٹکس کی۔ تحریک انصاف کو ان کی توقعات سے دو نشستیں کم ملیں۔
پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں، جب کہ ن لیگ کو پنجاب میں وائٹ واش نہ کرنے کا دکھ لے بیٹھا ہے۔ عمران خان خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے سات امیدواروں کی کامیابی کے بارے میں پراعتماد تھے اور دو اتحادی امیدواروں کو بھی کامیاب کرانا چاہتے تھے لیکن انھیں صرف پانچ نشستیں ملیں اور دونوں اتحادی امیدوار بھی ہار گئے۔جب کہ کپتان کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس خیبرپختونخوا اسمبلی میں سات ارکان تھے لیکن یہ پارٹی دو سینیٹر بنوانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ پنجاب والے یہ سوال کر رہے ہیں کہ پنجاب سے تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے امیدوار چوہدری سرور کے پاس صوبائی اسمبلی میں صرف 30ووٹ تھے لیکن انھیں 44ووٹ ملے ،کیا چوہدری سرور کو 14اضافی ووٹ مفت میں مل گئے؟
اصولی بات یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ خیبر پختونخوا میں ایک برائی ہے ؟اور پنجاب میں برائی نہیں ہے؟ مختصر یہ کہ سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ خریدے اور مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کیے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف آٹھ ارکان ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب شہزاد علی خان نے 26ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ (ق) کے آٹھ میں سے تین ووٹ کم ہوئے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دو درجن سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی نے ووٹ دوسری جماعتوں کو دیے حالانکہ پولنگ والے دن پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ہر ایم پی اے کو ووٹ ڈالنے سے قبل حلف دینا پڑ رہا تھا ۔یہ ایسے منتخب نمایندے ہوتے ہیں جن پر ان کی اپنی پارٹی کے لوگ یقین نہیں کر رہے ہوتے جب کہ منتخب نمایندوں کا حال بقول شاعر اس طرح ہوتا ہے کہ
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
کرشنا کماری ابھی سولہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی شادی لال چند سے ہو گئی تھی ۔ شوہر نے شادی کے بعد بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیا تھا۔ شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔کرشنا کماری نے 2013ء کے دوران سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ انھوں نے تھر کے غریبوں کے لیے فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ کرشنا کماری اور اقلیتوں کی سیٹ پرپیپلز پارٹی ہی کے غریب شخص لال دین کی جیت کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ بھارت میں بھی سراہا جا رہا ہے۔لیکن جو چیز نہیں سراہی جا رہی وہ یہ کہ ن لیگ اور تحریک انصاف نے اکثر ایسے لوگوں کو ٹکٹس دیں جو سینیٹ میں پہنچ کر ایک لفظ بولنے کے قابل نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان اسمبلی کی بغاوت کے پیچھے محض مالی مفادات نہیں ہیں۔ کچھ ارکان کو سینیٹ کے لیے دی جانے والی ٹکٹوں پر اعتراض تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ عمران خان کچھ ارب پتی افراد کو سینیٹ میں بھیج کر کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ ادھر نواز شریف نے مسلم لیگ (ق) کے سابق سیکریٹری جنرل مشاہد حسین کو اپنا ہم سفر بنا لیا ۔ اسد جونیجو کئی سال سے عملی سیاست میں غیرمتحرک ہیں۔ وہ محمد خان جونیجو جس کے مقابلے پر ایک دفعہ میں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھااُس جونیجو کا بیٹا آج میرے ساتھ ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دے دیے جو پاکستان میں رہتے ہی نہیں ۔
چیک اینڈ بیلنس ہو تو سسٹم ٹھیک ہوجائے۔موجودہ سسٹم کرپٹ عناصر کو سپورٹ کر نے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن اس سسٹم میں ایک امید کی کرن جماعت اسلامی بھی ہے جس نے اراکین بیچنے یا خریدنے کے بجائے اے این پی کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کے پاس سات ووٹ تھے۔ انھیں پانچ ووٹوں کی ضرورت تھی۔ یہ پانچ ووٹ انھیں اے این پی سے ملے۔ جماعت اسلامی اور اے این پی ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف ہیں لیکن اس الیکشن میں دونوں نے ایک دوسرے کو ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کو کامیابی مل گئی، اے این پی کو نہیں ملی لیکن دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث تعاون ہارس ٹریڈنگ کے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ جس سے کم از کم ضمیر بیچنے کی نوبت نہیں آئی!
پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں، جب کہ ن لیگ کو پنجاب میں وائٹ واش نہ کرنے کا دکھ لے بیٹھا ہے۔ عمران خان خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے سات امیدواروں کی کامیابی کے بارے میں پراعتماد تھے اور دو اتحادی امیدواروں کو بھی کامیاب کرانا چاہتے تھے لیکن انھیں صرف پانچ نشستیں ملیں اور دونوں اتحادی امیدوار بھی ہار گئے۔جب کہ کپتان کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس خیبرپختونخوا اسمبلی میں سات ارکان تھے لیکن یہ پارٹی دو سینیٹر بنوانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ پنجاب والے یہ سوال کر رہے ہیں کہ پنجاب سے تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے امیدوار چوہدری سرور کے پاس صوبائی اسمبلی میں صرف 30ووٹ تھے لیکن انھیں 44ووٹ ملے ،کیا چوہدری سرور کو 14اضافی ووٹ مفت میں مل گئے؟
اصولی بات یہ ہے کہ کیا ہارس ٹریڈنگ خیبر پختونخوا میں ایک برائی ہے ؟اور پنجاب میں برائی نہیں ہے؟ مختصر یہ کہ سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ خریدے اور مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کیے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف آٹھ ارکان ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب شہزاد علی خان نے 26ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ (ق) کے آٹھ میں سے تین ووٹ کم ہوئے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دو درجن سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی نے ووٹ دوسری جماعتوں کو دیے حالانکہ پولنگ والے دن پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ہر ایم پی اے کو ووٹ ڈالنے سے قبل حلف دینا پڑ رہا تھا ۔یہ ایسے منتخب نمایندے ہوتے ہیں جن پر ان کی اپنی پارٹی کے لوگ یقین نہیں کر رہے ہوتے جب کہ منتخب نمایندوں کا حال بقول شاعر اس طرح ہوتا ہے کہ
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
کرشنا کماری ابھی سولہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی شادی لال چند سے ہو گئی تھی ۔ شوہر نے شادی کے بعد بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیا تھا۔ شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں۔کرشنا کماری نے 2013ء کے دوران سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ انھوں نے تھر کے غریبوں کے لیے فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ کرشنا کماری اور اقلیتوں کی سیٹ پرپیپلز پارٹی ہی کے غریب شخص لال دین کی جیت کو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ بھارت میں بھی سراہا جا رہا ہے۔لیکن جو چیز نہیں سراہی جا رہی وہ یہ کہ ن لیگ اور تحریک انصاف نے اکثر ایسے لوگوں کو ٹکٹس دیں جو سینیٹ میں پہنچ کر ایک لفظ بولنے کے قابل نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان اسمبلی کی بغاوت کے پیچھے محض مالی مفادات نہیں ہیں۔ کچھ ارکان کو سینیٹ کے لیے دی جانے والی ٹکٹوں پر اعتراض تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ عمران خان کچھ ارب پتی افراد کو سینیٹ میں بھیج کر کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ ادھر نواز شریف نے مسلم لیگ (ق) کے سابق سیکریٹری جنرل مشاہد حسین کو اپنا ہم سفر بنا لیا ۔ اسد جونیجو کئی سال سے عملی سیاست میں غیرمتحرک ہیں۔ وہ محمد خان جونیجو جس کے مقابلے پر ایک دفعہ میں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا تھااُس جونیجو کا بیٹا آج میرے ساتھ ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دے دیے جو پاکستان میں رہتے ہی نہیں ۔
چیک اینڈ بیلنس ہو تو سسٹم ٹھیک ہوجائے۔موجودہ سسٹم کرپٹ عناصر کو سپورٹ کر نے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن اس سسٹم میں ایک امید کی کرن جماعت اسلامی بھی ہے جس نے اراکین بیچنے یا خریدنے کے بجائے اے این پی کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کے پاس سات ووٹ تھے۔ انھیں پانچ ووٹوں کی ضرورت تھی۔ یہ پانچ ووٹ انھیں اے این پی سے ملے۔ جماعت اسلامی اور اے این پی ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف ہیں لیکن اس الیکشن میں دونوں نے ایک دوسرے کو ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کو کامیابی مل گئی، اے این پی کو نہیں ملی لیکن دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث تعاون ہارس ٹریڈنگ کے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ جس سے کم از کم ضمیر بیچنے کی نوبت نہیں آئی!