ننگر پارکر ضرور دیکھنے جائیںپہلا حصہ

پانی بھی چوبیس گھنٹے ملتا ہے جو ٹینکر کے ذریعے منگوا کر بڑے ٹینک میں ڈالا جاتا ہے

جب سے سندھ کلچر، اینٹی کوئٹی اور سندھ ٹوئرازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے آنکھ پوری کھلی رکھنا شروع کی اور اپنے ورثے کو محفوظ کرنے کی ٹھان لی تو تھر اور پارکر کو بھی بڑے اچھے طریقے سے یاد رکھا ہے جس کا سہرا کلچر کے وزیر سید مراد علی شاہ کو جاتا ہے جن کا تعلق بھی تھرکے علاقے عمر کوٹ سے ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ ایک ادیب، شاعر اور محقق بھی ہیں جو تاریخی مقامات کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس کام میں انھوں نے کلچر ٹوئرازم اور اینٹی کوئٹی کو ایک دم متحرک کردیا جس میں خاص طور پر ٹورازم کے ایم ڈی، روشن قناصرو کا بڑا اہم کردار ہے۔

جب میں نے سندھ میں ترقیاتی کاموں میں کلچرکا رول دیکھا تو دل چاہا کہ اب سب سے پہلے ننگرپارکر دیکھا جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چلے۔ میں اپنے صحافی دوستوں میں فدا جیسر، منیر مہر اور رفیع الدین کو ساتھ لے کر ننگرپارکر کے لیے روانہ ہوئے۔ ٹھٹھہ، بدین، مٹھی اور اسلام کوٹ کے بائی پاس سے گزرتے دوپہر تین بجے ننگرپارکر سے 8 کلومیٹر پہلے بنے ہوئے روپلو کولھی ریزورٹ پہنچے۔ راستے میں شاہراہوں کی مرمت اور استرکاری کا کام جاری ہے جب کہ یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے تو پھر عوام 6 گھنٹے میں ننگرپارکر پہنچ جائیں گے۔ اس سال بھی اگر بارشیں ہوئیں تو تھرپارکر مزید خوبصورت اور خوشحال ہوجائے گا۔ گزشتہ سال کی بارش کی وجہ سے ریت کے ٹیلے ابھی تک سرسبز اور زمین میں کھدے ہوئے حصوں میں پانی نظر آیا، درختوں میں پھل اور رنگ برنگے پھول جس میں خاص طور پر لال اور پیلا رنگ بڑے انداز میں نظر آرہے تھے۔

اس مرتبہ گھوڑے، گدھے، اونٹ بھی بڑی تعداد میں صحرا میں اکیلے گھومتے دکھائی دیے۔ کئی مقامات پر مجھے ایک نئی چیز نظر آئی کہ مین روڈ کے قریب اچھی کوالٹی کے شامیانے، صوفہ سیٹ اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں جس کے برابر کھانے پکانے کی دیگیں رکھی تھیں جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ شادی کی تقریب ہو رہی ہے یا ہوچکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھر کے لوگوں کے معیار زندگی میں اچھی تبدیلی آرہی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو بارش کی وجہ سے فصل اچھی ہوئی، مال مویشی تندرست اور توانا نظر آئے، اب جیسے جیسے گرمی کا موسم قریب آرہا ہے گھاس سوکھنا شروع ہوگئی ہے ۔

روپلوکولھی ریسٹ ہاؤس کلچر ڈپارٹمنٹ نے ننگرپارکر میں بناکر وہاں پر آنے والوں کے لیے ایک بڑی سہولت مہیا کی ہے کیونکہ وہاں جانا اور پھر اسی دن واپس آنا بڑا مشکل ہوتا تھا کیونکہ اسلام کوٹ ننگرپارکر سے تقریباً 130 کلومیٹر دور ہے۔ وہاں پر جب قحط جیسی خشک سالی ہوجاتی ہے تو متاثرین میں امداد پہنچانے کا بڑا مسئلہ ہوجاتا تھا اب ہمارے فوجی جوانوں نے وہاں پر بڑا چوڑا دو کلومیٹر کا روڈ بنایا ہے جو ایئرپورٹ اور ہیلی پیڈ کے طور پر کام آتا ہے اور وہاں پر امدادی سامان جہاز اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔

ریسٹ ہاؤس جو چار ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں دس اے سی کمرے بنے ہوئے ہیں جن میں فریج، ڈش ٹی وی، بجلی کے پنکھے، ڈبل بیڈ، ماڈرن باتھ روم، دو سے تین لکڑی کی الماریاں لگی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ دس کمرے نان اے سی ہیں جن میں بجلی کے پنکھے، ڈبل بیڈ، فریج وغیرہ بھی ہیں مگر ان کے لیے باتھ روم ایک جگہ کامن بنے ہوئے ہیں۔ اے سی کمرے کا رینٹ 6 ہزار اور نان اے سی کے چارجز 3 ہزار روپے ہیں۔ یہاں پر بجلی 24 گھنٹے ملتی ہے کیونکہ اسٹینڈ بائی جنریٹرز اور سولر سسٹم کے ذریعے بجلی ہر وقت دستیاب رہتی ہے۔ پانی بھی چوبیس گھنٹے ملتا ہے جو ٹینکر کے ذریعے منگوا کر بڑے ٹینک میں ڈالا جاتا ہے۔


آنے والوں کی سہولت کے لیے ایک ڈائننگ روم بنا ہوا ہے جس میں بیک وقت 25 لوگ کھانا کھا سکتے ہیں اور انھیں تازہ اور لذیذ کھانا تین وقت مل جاتا ہے جس کی Payment الگ ہوتی ہے۔ ٹوئرازم والوں نے آنے والے مہمانوں کے لیے بڑے ماہر کک (Cook) رکھے ہوئے ہیں جو ہر قسم کا کھانا پکانا جانتے ہیں اور انھیں اچھی خاصی تنخواہ دینی پڑتی ہے۔ آنے والوں کے لیے سبزی، گوشت، مچھلی، انڈے، منرل پانی اسلام کوٹ یا پھر مٹھی سے لایا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں محفوظ رکھنے کے لیے بڑے فریج یا پھر ڈیپ فریزر بھی ہیں۔ جب کوئی کمپنی یا کوئی این جی اوز یا پھر بڑے ڈیلیگیشن آتے ہیں تو ان کے لیے میٹنگ ہال بھی بنا ہوا ہے جس میں چار سے چھ اے سی لگے ہوئے ہیں، ایک بڑی ڈش ایل ڈی بھی رکھی ہوئی ہے۔ کمروں میں اور میٹنگ ہال میں کرسیوں اور صوفہ سیٹ اچھے صاف اور کوالٹی کے ہیں جس سے آنے والوں کو تھری اسٹار ہوٹل جیسی سہولت اور ماحول مل جاتا ہے۔

صبح سویرے یا پھر رات کو بستر پر جانے سے پہلے آپ ریسٹ ہاؤس میں بنے ہوئے بڑے ٹریک پر واک کرسکتے ہیں، بارش کا یا رات میں کھلے آسمان میں ستاروں کی جھلملاہٹ اور چاند کی چاندنی کا نظارہ دیکھ کر بڑے خوش ہوں گے۔ یہاں پر دو بڑے لان بنانے کا پروگرام ہے مگر پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی یہ ممکن نہیں ہے ورنہ وہاں پر رنگ بہ رنگی پھول اور پودے لگ جائیں گے، چاروں طرف درخت بھی لگائے جا رہے ہیں۔

ہم دوپہرکا کھانا کھانے کے بعد 4 بجے شام کو کاسبو گاؤں کی طرف نکل پڑے جو ریسٹ ہاؤس سے تقریباً 15 کلومیٹر یا پھر تھوڑا زیادہ ہوگا۔ ننگرپارکر شہر سے گزرکر ہم جب گاؤں پہنچے تو مجھے یہاں پر بڑی تبدیلی نظر آئی جس میں سب سے پہلے یہ کہ زمین ہری بھری تھی جس میں پیاز اور دوسری سبزیاں اگی ہوئی نظر آئیں، نیم اور دوسرے درخت گہرے ہرے رنگ والے تھے جس پر طوطے، کوے اور مینا، چڑیاں بیٹھی تھیں۔ راستے میں جو عورتیں گزر رہی تھیں ان کا ثقافتی اور روایتی لباس نیا اور اچھا تھا، راستے میں کچھ پانی کے کنوئیں بھی نظر آئے۔ ہمارے ساتھ ٹوئرازم کے پرکاش نے بتایا کہ یہ گاؤں تین کلومیٹر پر محیط ہے اور یہاں سے انڈیا کا بارڈر 6 سے 8 کلومیٹر دور ہے اور رات کے وقت وہاں پر جلنے والی بتیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔

کاسبوگاؤں کی آبادی تقریباً 8 ہزار ہوگی جہاں پر ایک پرائمری اور ایک مڈل اسکول ہے جہاں پر بچے اور بچیاں ساتھ پڑھتی ہیں اور یہاں پر تعلیم کا تناسب تھر کے باقی علاقوں سے اچھا ہے۔ یہاں کے رہنے والوں میں کافی لوگ سرکاری نوکری کرتے ہیں یا پھر کئی پرائیویٹ اداروں میں بھی کام کر رہے ہیں اس گاؤں کا پانی میٹھا ہے اور زمین بڑی زرخیز ہے جس کی وجہ سے باقی رہنے والے کھیتی باڑی کرتے ہیں، یہاں پر رہنے والے 90 فیصد لوگ Scheduled Cast والے ہیں۔ اس گاؤں کا پیاز باہر ممالک میں Export کیا جاتا ہے اور اس کی فی ایکڑ پیداوار 400 من ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story