قانون فطرت اور عوامی معاشی آزادی
ملک میں بھی اثاثوں میں اضافے کرتے رہے ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت کو مزید کیا نام دیا جائے
کائنات کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور بڑے سے بڑے فلکی اجسام باقاعدہ قانون فطرت یا اصول فطرت کے مطابق عمل پذیر ہیں۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے اصول اور قانون فطرت کے سامنے ہیچ ہیں۔کرۂ ارض پر ہر ذی حیات کوکائنات میں زندہ رہنے کا تحفظ حاصل ہے۔ نباتات، آبی حیات، زمین میں رہنے والے جانداروں، زمین پر رہنے والے لاکھوں اقسام کے جانداروں اور ہوا میں اڑنے والے پرندوں سمیت ہر طرح کی انواع اپنی جسمی ساخت وداخلی تقاضوں کے مطابق زندہ رہنے کی جد وجہد کرتی رہتی ہے۔
ہم اپنے ارد گرد کے ماحول اور ملکی سسٹم کو دیکھتے ہیں تو عوام کے لیے زندہ رہنا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ قدرت کے دیے ہوئے تمام ذرایع زندگی پر چند لوگ قابض ہیں۔ برطانوی و امریکی اور یورپی ملکوں کا دیا ہوا سرمایہ دارانہ سسٹم اور جمہوری کلچر جس پر جاگیردار، سرمایہ دار سوار ہوکر ملکی تمام وسائل اور تمام اداروں پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر عوام پر آئے روز ٹیکسوں میں اضافے کرکے عوام کے نام پر ملکی خزانے کو بھرتے رہتے ہیں۔
ملکی خزانہ جو در حقیقت عوام کا خزانہ ہے اسے لوٹ لوٹ کر جاگیردار، سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے رہتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی کلچر جس پر چوہدری، وڈیرے قابض ہیں۔ ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ جاگیردارو، سرمایہ دارو تم سب ملکر آئے روز چیختے چلاتے ہوکہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیںگے۔ جمہوریت کے بغیر ملک تباہ ہوجائے گا۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو فوجی حکمرانوں کی چھتریوں تلے بھی جاگیردار، سرمایہ دار حکمرانی کرتے رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بھی جاگیردار، سرمایہ دار ملکی وسائل پر قابض ہوکر بیرونی ملکوں میں اثاثے اور بینکوں میں عوامی سرمایہ لے جاتے رہے ہیں۔
ملک میں بھی اثاثوں میں اضافے کرتے رہے ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت کو مزید کیا نام دیا جائے۔ اے سرمایہ دارو، جاگیردارو! 70 سالوں سے تم سب نے باری باری جمہوریت کے نام پر عوام کا خون بار بار نچوڑا ہے کہ عوام قدرت کی طرف سے دی گئی سہولتوں سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ اصول فطرت ہے جب گندم کا ایک بیج زمین میں بویا جاتا ہے تو گندم کے ایک دانے کے بدلے دسیوں دانے پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب ایک بیچ سے درخت وجود میں آتا ہے تو ہر سال اپنے موسم پر اس درخت پر ہزاروں پھل (اُگ آتے ہیں) پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت نے ہر جاندار کو اس کی جسمانی ساخت کے مطابق اسے زندہ رہنے کے لیے تمام سامان میسر کیا ہوا ہے۔
قدرت نے انسان تمام ذی حیات سے برتر اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ چند لوگوں نے پورے ملکی عوام کو قدرت کی دی ہوئی نعمتوں سے جبراً عوام دشمن قانون بناکر ''ذاتی ملکیت'' کے نام سے محروم کیا ہوا ہے۔ تاج برطانیہ کی غلامی میں غلام انڈیا میں گورنر جنرل لارڈ کارنوالس 1786ء سے 1793ء اپنے دور میں جو علاقے برطانیہ کے قبضے تلے تھے،ان علاقوں میں نوابوں، راجوں، قبیلے کے سرداروں کو زرعی زمینوں کی ذاتی ملکیت قرار دیا تھا۔
پہلے یہ راجے، نواب ودیگر اپنے اپنے کارندوں کے ذریعے غلام کسانوں سے اجناس کی شکل میں ٹیکس وصول کرتے تھے، اپنا حصہ رکھ کر باقی یہ آگے بادشاہ یا شہنشاہ کو پیش کرتے تھے۔ کیونکہ بادشاہ یا شہنشاہ کل زمینوں کا مالک ہوتا تھا۔ انگریزوں نے غلام انڈیا میں 1786ء سے 1793ء کے دور میں جاگیردار طبقہ پیدا کیا جو زرعی غلاموں کا خون نچوڑ کر خود بھی پلتا تھا اور انگریزوں کو پالتا تھا۔ انگریز اسلحے کی قوت پر غلام انڈیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ آج تک 1947ء سے ملک پر وہی جاگیردار طبقہ قابض چلا آرہا ہے جس کے بڑوں نے انگریزوں سے وفاداری کے بدلے جاگیریں حاصل کی تھیں۔ غداروں کو جاگیریں انگریزوں نے عطا کی تھیں۔
ان غداروں کو نواب، خان، سر کے خطابات کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں غلام عوام کو اپنے تابع رکھنے کے لیے ان کو سزائیں دینے کے لیے مجسٹریٹی اختیارات بھی دیے تھے۔ انگریزوں نے موجودہ معاشی غلامی کو مزید مضبوط کیا اور امریکی سامراج نے سیاسی غلامی کو جمہوریت کے نام پر مزید فروغ دیا۔ آج تمام سامراجی معاشی غلام ملکوں کے عوام جمہوری و معاشی غلامی میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ فطرت نے تمام خوراکی ضروریات کو کثرت میں پیدا کیا ہے۔
صنعتی کلچرکے فروغ کے بعد ایک مشین سے لا تعداد اشیا تیار ہوتی ہیں، لیکن عوام فطرت کی دی ہوئی وافر مقدار میں پیداواروں سے محروم ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکا یہ کہنا جو 28 فروری 2018ء کو اخبارات میں شایع ہواکہ ''خدا کی قسم میرا سیاسی ایجنڈا نہیں، چاہتاہوں عوام کو دو وقت کی روٹی، صاف پانی ملے، پاکستان کے 20 کروڑ سے زیادہ عوام کی یہی تمنا ہے، قدرت نے پاکستان کو تمام تر زرعی معدنیات، ذخائر سے نوازا ہے لیکن جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے عوام دشمن منصوبے بناکر عوام کو بے رزگاری، تمام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کیا ہوا ہے۔
چند لوگ ملکی تمام وسائل پر قابض ہیں۔ ان کے پاس افراط زر اور عوام قلت زرکا شکار ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار جمہوریت کے نام پر نوسر بازی کرکے عوام سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام دشمن قانون سازی کرتے ہیں۔ یہ تمام اسمبلیاں عوام دشمن اسمبلیاں ہیں۔ آئین کو مقدس قرار دینے والے جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین سے زیادہ مقدس عوام ہوتے ہیں۔ ملک، عوام، تمام ادارے مستقل ہیں۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بنائی ہوئی حکومتیں عارضی ہیں۔ ان عارضی حکومتوں کو ملکی وسائل، مالیاتی (خزانے) ذخائر کے استعمال کے اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ آج ضرورت ہے کہ عوام اور ادارے مل کر نئے عوامی سیاسی و معاشی معاہدے کرکے سیاسی و معاشی آزادی بحال کریں۔
ہم اپنے ارد گرد کے ماحول اور ملکی سسٹم کو دیکھتے ہیں تو عوام کے لیے زندہ رہنا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ قدرت کے دیے ہوئے تمام ذرایع زندگی پر چند لوگ قابض ہیں۔ برطانوی و امریکی اور یورپی ملکوں کا دیا ہوا سرمایہ دارانہ سسٹم اور جمہوری کلچر جس پر جاگیردار، سرمایہ دار سوار ہوکر ملکی تمام وسائل اور تمام اداروں پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر عوام پر آئے روز ٹیکسوں میں اضافے کرکے عوام کے نام پر ملکی خزانے کو بھرتے رہتے ہیں۔
ملکی خزانہ جو در حقیقت عوام کا خزانہ ہے اسے لوٹ لوٹ کر جاگیردار، سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے رہتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی کلچر جس پر چوہدری، وڈیرے قابض ہیں۔ ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ جاگیردارو، سرمایہ دارو تم سب ملکر آئے روز چیختے چلاتے ہوکہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیںگے۔ جمہوریت کے بغیر ملک تباہ ہوجائے گا۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو فوجی حکمرانوں کی چھتریوں تلے بھی جاگیردار، سرمایہ دار حکمرانی کرتے رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بھی جاگیردار، سرمایہ دار ملکی وسائل پر قابض ہوکر بیرونی ملکوں میں اثاثے اور بینکوں میں عوامی سرمایہ لے جاتے رہے ہیں۔
ملک میں بھی اثاثوں میں اضافے کرتے رہے ہیں۔ سرمائے کی جمہوریت کو مزید کیا نام دیا جائے۔ اے سرمایہ دارو، جاگیردارو! 70 سالوں سے تم سب نے باری باری جمہوریت کے نام پر عوام کا خون بار بار نچوڑا ہے کہ عوام قدرت کی طرف سے دی گئی سہولتوں سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ اصول فطرت ہے جب گندم کا ایک بیج زمین میں بویا جاتا ہے تو گندم کے ایک دانے کے بدلے دسیوں دانے پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب ایک بیچ سے درخت وجود میں آتا ہے تو ہر سال اپنے موسم پر اس درخت پر ہزاروں پھل (اُگ آتے ہیں) پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت نے ہر جاندار کو اس کی جسمانی ساخت کے مطابق اسے زندہ رہنے کے لیے تمام سامان میسر کیا ہوا ہے۔
قدرت نے انسان تمام ذی حیات سے برتر اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ چند لوگوں نے پورے ملکی عوام کو قدرت کی دی ہوئی نعمتوں سے جبراً عوام دشمن قانون بناکر ''ذاتی ملکیت'' کے نام سے محروم کیا ہوا ہے۔ تاج برطانیہ کی غلامی میں غلام انڈیا میں گورنر جنرل لارڈ کارنوالس 1786ء سے 1793ء اپنے دور میں جو علاقے برطانیہ کے قبضے تلے تھے،ان علاقوں میں نوابوں، راجوں، قبیلے کے سرداروں کو زرعی زمینوں کی ذاتی ملکیت قرار دیا تھا۔
پہلے یہ راجے، نواب ودیگر اپنے اپنے کارندوں کے ذریعے غلام کسانوں سے اجناس کی شکل میں ٹیکس وصول کرتے تھے، اپنا حصہ رکھ کر باقی یہ آگے بادشاہ یا شہنشاہ کو پیش کرتے تھے۔ کیونکہ بادشاہ یا شہنشاہ کل زمینوں کا مالک ہوتا تھا۔ انگریزوں نے غلام انڈیا میں 1786ء سے 1793ء کے دور میں جاگیردار طبقہ پیدا کیا جو زرعی غلاموں کا خون نچوڑ کر خود بھی پلتا تھا اور انگریزوں کو پالتا تھا۔ انگریز اسلحے کی قوت پر غلام انڈیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ آج تک 1947ء سے ملک پر وہی جاگیردار طبقہ قابض چلا آرہا ہے جس کے بڑوں نے انگریزوں سے وفاداری کے بدلے جاگیریں حاصل کی تھیں۔ غداروں کو جاگیریں انگریزوں نے عطا کی تھیں۔
ان غداروں کو نواب، خان، سر کے خطابات کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں غلام عوام کو اپنے تابع رکھنے کے لیے ان کو سزائیں دینے کے لیے مجسٹریٹی اختیارات بھی دیے تھے۔ انگریزوں نے موجودہ معاشی غلامی کو مزید مضبوط کیا اور امریکی سامراج نے سیاسی غلامی کو جمہوریت کے نام پر مزید فروغ دیا۔ آج تمام سامراجی معاشی غلام ملکوں کے عوام جمہوری و معاشی غلامی میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ فطرت نے تمام خوراکی ضروریات کو کثرت میں پیدا کیا ہے۔
صنعتی کلچرکے فروغ کے بعد ایک مشین سے لا تعداد اشیا تیار ہوتی ہیں، لیکن عوام فطرت کی دی ہوئی وافر مقدار میں پیداواروں سے محروم ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکا یہ کہنا جو 28 فروری 2018ء کو اخبارات میں شایع ہواکہ ''خدا کی قسم میرا سیاسی ایجنڈا نہیں، چاہتاہوں عوام کو دو وقت کی روٹی، صاف پانی ملے، پاکستان کے 20 کروڑ سے زیادہ عوام کی یہی تمنا ہے، قدرت نے پاکستان کو تمام تر زرعی معدنیات، ذخائر سے نوازا ہے لیکن جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے عوام دشمن منصوبے بناکر عوام کو بے رزگاری، تمام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کیا ہوا ہے۔
چند لوگ ملکی تمام وسائل پر قابض ہیں۔ ان کے پاس افراط زر اور عوام قلت زرکا شکار ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار جمہوریت کے نام پر نوسر بازی کرکے عوام سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام دشمن قانون سازی کرتے ہیں۔ یہ تمام اسمبلیاں عوام دشمن اسمبلیاں ہیں۔ آئین کو مقدس قرار دینے والے جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین سے زیادہ مقدس عوام ہوتے ہیں۔ ملک، عوام، تمام ادارے مستقل ہیں۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بنائی ہوئی حکومتیں عارضی ہیں۔ ان عارضی حکومتوں کو ملکی وسائل، مالیاتی (خزانے) ذخائر کے استعمال کے اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ آج ضرورت ہے کہ عوام اور ادارے مل کر نئے عوامی سیاسی و معاشی معاہدے کرکے سیاسی و معاشی آزادی بحال کریں۔