تحریک انصاف کے اندر توڑ پھوڑ کا پاکستان پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا
تحریک انصاف کے اندر توڑ پھوڑ کا پاکستان پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا
سینٹ انتخابات ایک اہم مرحلہ تھا جواپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور مذکورہ انتخابات کے حوالے سے جو توقع کی جا رہی تھی اس کے عین مطابق تحریک انصاف کے اندر توڑپھوڑ ہوئی جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو ایک جنرل نشست مل گئی جبکہ خاتون نشست بھی پی پی اپنی حکمت عملی کے تحت حاصل کرنے میں کامیاب رہی، حکومت کی جانب سے جب اپوزیشن کومشترکہ طور پر امیدوار میدان میں لاتے ہوئے بلامقابلہ منتخب کرانے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اسی وقت حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ چھ کی بجائے اپنے پانچ امیدوار میدان میں اتارے تاکہ اپوزیشن جماعتیں چھ نشستوں پر آپس میں ایڈجسٹمنٹ کرسکیں، تاہم تحریک انصاف کے قائدین نے نہ صرف یہ کہ اپنے چھ امیدوار برقراررکھنے کی بات کی بلکہ ساتھ ہی ٹیکنوکریٹ نشست پر مولانا سمیع الحق اور خاتون کی نشست پر قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہر خیلی کو بھی کامیاب کرانے کے لیے ایڈجسٹمنٹ کی، تاہم پی ٹی آئی اپنی سوچ کے مطابق منصوبہ بندی نہیں کرسکی جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا۔
تحریک انصاف کو ایک جنرل نشست کی صورت میں بڑا نقصان ہوا کیونکہ مذکورہ نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوارخیال زمان شکست سے دوچار ہوئے۔ تاہم یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے دیگر تین کامیاب امیدواروں کے ووٹوں کو اگردیکھاجائے تو عمران خان کے نامزد امیدوار فیصل جاویدکو پورے اٹھارہ ووٹ ملتے ہیں جن کے پینل میں وزراء اورمشیروں کو رکھا گیا تھا تاہم ایوب آفریدی اورفدامحمد کو فیصل جاوید کی طرح اٹھارہ،اٹھارہ ووٹ نہیں مل پائے اور دونوں کو پہلی ترجیح کے صرف دس،دس ووٹ ہی مل سکے اور یہی صورت حال ہارنے والے امیدوار خیال زمان کی بھی ہے کیونکہ انھیں بھی پہلی ترجیح کے دس ووٹ ہی مل سکے، یہ بات یقینی طور پر تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اس بغاوت کا لاوا بڑے عرصے سے تحریک انصاف کے اندر پک رہا تھا تاہم 2015ء کے سینٹ انتخابات کے بعد مختلف حربوں کے ذریعے اس آتش فشاں کو پھٹنے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی رہیں مگر سینٹ انتخابات کے موقع پر بالآخر لاوا باہر آہی گیا اور تحریک انصاف کے اندر ہونے والی اس بغاوت کا فائدہ کسی اور نے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور جے یوآئی نے اٹھایا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی جس کے اپنے ارکان کی تعدادصرف سات ہے وہ دوجنرل نشستوں پرمجموعی طور پر پہلی ترجیح کے انیس ووٹ حاصل کرتی ہے گو کہ فیصل سخی بٹ نو ووٹ لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔
کیونکہ انھیں دیگر کسی پارٹی کی جانب سے کوئی فائدہ نہیں مل سکا تاہم بہرہ مند تنگی دیگرپارٹیوں کے امیدواروں کے گنتی کے دوران مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونے پر فائدہ میں رہے اور ان کو ملنے والے ووٹوں کی بدولت کامیاب ہوگئے، چونکہ پیپلز پارٹی کا اتحاد جے یوآئی کے ساتھ تھا اس لیے خاتون کی نشست پر انھیں بائیس ووٹ ملنے تھے تاہم یہاں بھی بارہ اضافی ووٹوں سے روبینہ خالدچونتیس ووٹ لیتی ہیں اوردوسری وتیسری ترجیح کے ووٹوں کی بدولت کامیاب ہو جاتی ہیں۔
پارٹیوں کے اندر توڑ پھوڑ کا فائدہ جے یوآئی نے بھی لیا گوکہ اس صورت حال کی وجہ سے خود جے یوآئی میں دراڑیں پڑ گئی ہیں کیونکہ جے یوآئی تکنیکی اعتبار سے بہتر اور موثر انداز میں یا تو کھیل نہیں پائی یا پھر اس نے کسی خاص وجہ سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم ابھی یہ مرحلہ باقی ہے کہ پارٹی اس بات کی تحقیقات کرے کہ وہ کیا اسباب تھے کہ جن کی وجہ سے مولانا گل نصیب خان جو پارٹی کے صوبائی امیر بھی ہیں ناکامی سے دوچار ہوئے۔
مسلم لیگ(ن)شروع دن ہی سے دونشستوں کے حصول پر فوکس کیے ہوئے تھے اور وہ اپنا مطلوبہ نتیجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کیونکہ جہاں ایک جانب گزشتہ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ(ن)نے تحریک انصاف سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اپنے جنرل نشست کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل (ر)صلاح الدین ترمذی کو کامیاب کرایا تھا وہیں پر ٹیکنوکریٹ نشست پر جاوید عباسی کو بھی منتخب کرایا اور اب اس مرتبہ پی ٹی آئی کے ساتھ ابتدائی طور پررابطے کرنے اور معاملات طے ہونے کے باوجود راستے جدا ہونے پر جماعت اسلامی اور اے این پی کے ساتھ اتحاد کیا اور اس کے نتیجے میں اپنے ٹیکنوکریٹ امیدوار دلاورخان کو کامیاب کرا لیا۔
اسی وقت حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ چھ کی بجائے اپنے پانچ امیدوار میدان میں اتارے تاکہ اپوزیشن جماعتیں چھ نشستوں پر آپس میں ایڈجسٹمنٹ کرسکیں، تاہم تحریک انصاف کے قائدین نے نہ صرف یہ کہ اپنے چھ امیدوار برقراررکھنے کی بات کی بلکہ ساتھ ہی ٹیکنوکریٹ نشست پر مولانا سمیع الحق اور خاتون کی نشست پر قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہر خیلی کو بھی کامیاب کرانے کے لیے ایڈجسٹمنٹ کی، تاہم پی ٹی آئی اپنی سوچ کے مطابق منصوبہ بندی نہیں کرسکی جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا۔
تحریک انصاف کو ایک جنرل نشست کی صورت میں بڑا نقصان ہوا کیونکہ مذکورہ نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوارخیال زمان شکست سے دوچار ہوئے۔ تاہم یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے دیگر تین کامیاب امیدواروں کے ووٹوں کو اگردیکھاجائے تو عمران خان کے نامزد امیدوار فیصل جاویدکو پورے اٹھارہ ووٹ ملتے ہیں جن کے پینل میں وزراء اورمشیروں کو رکھا گیا تھا تاہم ایوب آفریدی اورفدامحمد کو فیصل جاوید کی طرح اٹھارہ،اٹھارہ ووٹ نہیں مل پائے اور دونوں کو پہلی ترجیح کے صرف دس،دس ووٹ ہی مل سکے اور یہی صورت حال ہارنے والے امیدوار خیال زمان کی بھی ہے کیونکہ انھیں بھی پہلی ترجیح کے دس ووٹ ہی مل سکے، یہ بات یقینی طور پر تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اس بغاوت کا لاوا بڑے عرصے سے تحریک انصاف کے اندر پک رہا تھا تاہم 2015ء کے سینٹ انتخابات کے بعد مختلف حربوں کے ذریعے اس آتش فشاں کو پھٹنے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی رہیں مگر سینٹ انتخابات کے موقع پر بالآخر لاوا باہر آہی گیا اور تحریک انصاف کے اندر ہونے والی اس بغاوت کا فائدہ کسی اور نے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور جے یوآئی نے اٹھایا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی جس کے اپنے ارکان کی تعدادصرف سات ہے وہ دوجنرل نشستوں پرمجموعی طور پر پہلی ترجیح کے انیس ووٹ حاصل کرتی ہے گو کہ فیصل سخی بٹ نو ووٹ لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔
کیونکہ انھیں دیگر کسی پارٹی کی جانب سے کوئی فائدہ نہیں مل سکا تاہم بہرہ مند تنگی دیگرپارٹیوں کے امیدواروں کے گنتی کے دوران مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونے پر فائدہ میں رہے اور ان کو ملنے والے ووٹوں کی بدولت کامیاب ہوگئے، چونکہ پیپلز پارٹی کا اتحاد جے یوآئی کے ساتھ تھا اس لیے خاتون کی نشست پر انھیں بائیس ووٹ ملنے تھے تاہم یہاں بھی بارہ اضافی ووٹوں سے روبینہ خالدچونتیس ووٹ لیتی ہیں اوردوسری وتیسری ترجیح کے ووٹوں کی بدولت کامیاب ہو جاتی ہیں۔
پارٹیوں کے اندر توڑ پھوڑ کا فائدہ جے یوآئی نے بھی لیا گوکہ اس صورت حال کی وجہ سے خود جے یوآئی میں دراڑیں پڑ گئی ہیں کیونکہ جے یوآئی تکنیکی اعتبار سے بہتر اور موثر انداز میں یا تو کھیل نہیں پائی یا پھر اس نے کسی خاص وجہ سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم ابھی یہ مرحلہ باقی ہے کہ پارٹی اس بات کی تحقیقات کرے کہ وہ کیا اسباب تھے کہ جن کی وجہ سے مولانا گل نصیب خان جو پارٹی کے صوبائی امیر بھی ہیں ناکامی سے دوچار ہوئے۔
مسلم لیگ(ن)شروع دن ہی سے دونشستوں کے حصول پر فوکس کیے ہوئے تھے اور وہ اپنا مطلوبہ نتیجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کیونکہ جہاں ایک جانب گزشتہ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ(ن)نے تحریک انصاف سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اپنے جنرل نشست کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل (ر)صلاح الدین ترمذی کو کامیاب کرایا تھا وہیں پر ٹیکنوکریٹ نشست پر جاوید عباسی کو بھی منتخب کرایا اور اب اس مرتبہ پی ٹی آئی کے ساتھ ابتدائی طور پررابطے کرنے اور معاملات طے ہونے کے باوجود راستے جدا ہونے پر جماعت اسلامی اور اے این پی کے ساتھ اتحاد کیا اور اس کے نتیجے میں اپنے ٹیکنوکریٹ امیدوار دلاورخان کو کامیاب کرا لیا۔