انگریز راج کی نشانیاں

انگریزوں کے زمانے کی سائیکل رکشہ جیسی انسانی سواری آج تک مری میں رائج ہے جو غریبوں پر ظلم کے مترادف ہے


انگریزوں کے زمانے کی سائیکل رکشہ جیسی انسانی سواری آج تک مری میں رائج ہے جو غریبوں پر ظلم کے مترادف ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ/ بلاگر)

گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں مجھے اپنے خاندان کے ساتھ مری جانے کا اتفاق ہوا۔ مری جہاں عرصہ دراز سے اپنی دیومالائی اور طلسماتی کشش اور لوگوں کو اپنی خوبصورتی و سحر میں مبتلا کرنے کےلیے مشہور ہے، وہیں اس وادی کی سیر کےلیے پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے خاصی بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرکے اس کی خوبصورتی اور سیاحت کے کاروبار میں منسلک افراد کا روزگار بڑھاتے ہیں جبکہ پاکستانیوں کےلیے سردی کے موسم میں برف باری کا منظر کسی نعمت سے کم نہیں۔

جو لوگ اس سے پہلے مری جاچکے ہیں وہ میری اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میری بات سے بڑی حد تک متفق ہوں گے۔ جو کچھ اس تحریر میں لکھا جارہا ہے، وہ سو فیصد درست ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں ان 70 سال میں اپنے اجتماعی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مری کی ایک سڑک جو مال روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے، بہت مشہور ہے اور وہاں پر آنے والے سیاح اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ رات گئے مال روڈ پر اپنے ہاتھوں میں ایک گرم کپ کافی کے ساتھ اپنے دوستوں، اپنی فیملی اور اپنے ہنی مون کو یادگار بنائیں۔

مال روڈ کے آغاز پر آپ کو پاکستان آرمی کی ایک چیک پوسٹ نظر آئے گی جس پر ایک نوجوان تعینات ہے جس کا کام پرائیویٹ گاڑیوں کو روکنا، اور اگر کوئی شخص مشکوک نظر آئے تو اس کی جامع تلاشی کے بعد اسے مال روڈ پر جانے کی اجازت دینا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ اس طویل مال روڈ پر چلتے جائیں تو یہ سڑک جب دوسری جانب پنڈی پوائنٹ پر اختتام پذیر ہوتی ہے، وہاں بھی بالکل آغاز کی طرح پاک آرمی کا ایک سیکیورٹی بیریئر موجود ہے جو تسلی اور جامع تلاشی کے بعد لوگوں کو داخلہ کی اجازت دیتا ہے۔

ان دونوں سیکیورٹی بیریئرز کے درمیان پاک آرمی کے دفاتر، اسٹیشن ہیڈ کوارٹر اور سی ایم ایچ موجود ہیں۔ اسی مناسبت سے وہاں پر سیکیورٹی فراہم کرنا شاید ضرورت سے زیادہ مجبوری بن گیا ہے۔ ان دونوں سیکیورٹی بیریئرز کے درمیان پرائیویٹ گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور گاڑیوں کی اس بندش کے باوجود اگر کسی شخص یا سیاح کو پیدل چلنے میں دشواری ہو تو اس دشواری سے بچنے کےلیے ان دونوں سیکیورٹی بیریئرز کے درمیان سائیکل رکشہ سے مشابہ ایک گاڑی دستیاب ہوگی جس میں آپ بیٹھ کر سفر کرسکتے ہیں۔



گاڑی کو کھینچنےکےلیے کسی مشین یا گھوڑے اور خچر کے بجائے جو طاقت استعمال کی جاتی ہے، وہ ہے انسانی طاقت؛ یعنی ایک شخص پانچ سے چھ لوگوں کو اس گاڑی میں بٹھا کر کھینچتا ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتا ہے۔

یہ انگریز سامراج کے اس زمانے کی تصویر ہے جب ان کے خاندان کے لوگ ایک سے دوسری جگہ جانے کےلیے برصغیر کے غریب لوگوں کو چند پیسوں کا معاوضہ دے کر اس انسانی سائیکل رکشہ کو دھکیلنے پر مجبور کرتے تھے۔ یہ تصویر غالباً 1870 کی ہے:



آج 2018 میں، ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی، انگریزوں کی نشانیاں ہمیں اپنے اس آزاد و خودمختار ملک میں جابجا نظر آتی ہیں اور انگریز سامراج کی وہ نشانیاں شاید ہمیں یہ کہنے یا سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ کیا ہم آج بھی آزاد ہیں؟ یہ کیسی آزادی ہے جس کےلیے ہمارے آبا و اجداد کا خون بہایا گیا۔ اسی انگریز کی باقیات آج بھی ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں ہماری اخلاقی اقدار کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ یہ تصویر 2017 کی ہے:



یاد دلاتا چلوں کہ نومبر 1991 میں پاکستان میں سائیکل رکشہ کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مری کی خوبصورت اور سرد موسم میں ان برف پوش پہاڑوں کے درمیان ڈیڑھ سو سال پرانی انگریز کی باقیات دیکھنے کے بعد میرے اندر جس طرح کی گرمی اور ہیجان پیدا ہوا، میں شاید وہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

ہمارے ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور سب سے بڑھ کر موجودہ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کا حلقہ بھی مری ہے، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ایک رہائش گاہ مری میں بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود مری کے مشہور مال روڈ پر جابجا سائیکل رکشہ اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ محض چند روپوں کےلیے ان مجبور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور انگریز کلچر کو، جو انتہائی انسانیت سوز ہے، ختم کیا جائے۔

خدارا اس کا کوئی متبادل تلاش کیا جائے اور ان مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچانے کے بجائے انہیں کسی باوقار پیشے سے منسلک کیا جائے۔ سیاحت کے فروغ کےلیے ہرگز اس طبقے کی قربانی قبول نہیں جو چند روپوں کی خاطر اپنی جان اور صحت خراب کرکے بستر سے لگ جائیں؛ ان کے خاندان میں اور کوئی کمانے والا نہ ہو۔

ہمیں بحیثیت قوم معاشرہ اور انفرادی حیثیت سے خود سوچنے اور چیزوں کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک صحت مند معاشرہ ایک صحت مند پاکستان کی روشن دلیل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں