دلائی لامہ سے بچ کے رہیں

اب یہ اختلاف مذہب یا عقیدے سے زیادہ سیاسی اور علاقائی اختلاف میں بدل چکا ہے

PESHAWAR:
بھارتی حکومت نے اپنے وزرا، مشیروں اور بیوروکریسی کو تاکیدکی ہے کہ وہ دلائی لاما کی جلاوطن حکومت کے ساٹھ سال مکمل ہونے کے موقعے پر منعقدکیے جانے والے ''لو یو انڈیا'' نامی پروگراموں میں شرکت سے اجتناب کریں۔ اس سلسلے کا مرکزی پروگرام یکم اپریل کو دہلی کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوگا اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی ایسے ہی پروگرام منعقدکیے جائیں گے۔کچھ لوگ اس بات پر حیرت کا اظہارکر رہے ہیں کہ جشن کی شروعات سے قبل ہی اسے سرکاری سطح پر موضوع بحث کیوں بنایا جا رہا ہے۔

دلائی لاما صدیوں قبل تبت میں پروان چڑھنے والے بدھسٹ مکتب فکر کی ایک شاخ کے چودھویں لاما ہیں۔ بدھ مت کے ابتدائی زمانے سے ہی ''مہایان'' اور ''تھرا ویدا'' کے نام سے دو قدیم اور مرکزی سلسلے قائم ہیں جن کے زیر اثر دنیا بھر میںبدھ مت کی کئی شاخیں مختلف ناموں سے وجود میں آئیں مگر ان میں سے زیادہ تر ''مہایان'' کے فلسفے پر ہی عمل پیرا رہیں۔ آٹھویں صدی کے دوران تبت میں بدھسٹوں کا تیسرا مکتب قائم ہوا جسے ''وجریان'' کا نام دیا گیا اور اسی کے تحت787 ء کے دوران تبت میں پہلا ''اسٹوپا'' تعمیر ہوا۔ دسویں صدی کے دوران اس مذہب یا تحریک کو اس وقت آس پاس کے علاقوں میں مزید عروج ملا جب ہندوستان اور چین کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔

پالی زبان میں''لاما'' عظیم اور عقل مند کو کہا جاتا ہے اور یہی نام تبت کے قدیم بدھسٹ مذہبی پیشوا کے لیے بھی مخصوص ہے۔ دلائی لاما چھ جولائی1935 ء کو تبت کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور صرف دو سال کی عمر میں تیرہویں''لاما'' نے انھیں اپنا جانشین یعنی چودھواں ''لاما''مقررکردیا۔ کم سن بچے کو مستقبل کا کابدھ لاما مقر رکرنے کا یہ سلسلہ تبت میں صدیوں سے چلا آرہا تھا جو اب تک قائم ہے، مگر اس عہدے میں ایک تبدیلی 1617ء میں ضرور آئی جب پانچویں لاما نے اپنے علاقے میں بدھ ازم کی روایت کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو بادشاہ کے درجے پر فائزکرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ دلائی لاما صرف بدھوں کے مذہبی پیشوا ہی نہیں بلکہ جلاوطن حکومت کے رہنما بھی سمجھے جاتے ہیں۔

دنیا تبدیلی کے جس تیز رفتار عمل سے گزر رہی ہے، اس نے بہت ساری دوسری روایات کی طرح نومولود بچے کوکسی مذہب کا پیشوا منتخب کرنے کی روایت کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ82 سال قبل پیدا ہونے والے موجودہ ''لاما'' یعنی دلائی لاما اب اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی نومولودکو مستقبل کا مذہبی پیشوا مقررکر سکیں۔ بات صرف جلا وطنی تک محدود رہتی تو صورت حال مختلف ہوتی، مگر جس علاقے کے نام پر دلائی لاما نے جلا وطنی اختیارکی چین اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے لہذا اب یہ اختلاف مذہب یا عقیدے سے زیادہ سیاسی اور علاقائی اختلاف میں بدل چکا ہے۔


نیا لاما مقررکرنے کے سوال پر کچھ عرصہ قبل دلائی لاما نے صحافیوں کو جواب دیا تھا کہ انھیں کچھ معلوم نہیں اگلا ''لاما'' کب اور کہاں پیدا ہو گا، لیکن انھوں نے اس بات کا بھی امکان ظاہرکیا کہ شاید مرنے سے قبل انھیں اس کا اشارہ مل جائے۔ دوسری طرف چینی حکومت جوکسی اشارے سے زیادہ حقیقت پر یقین رکھتی ہے، اپنے ایک بیان میں کہہ چکی ہے کہ تبت چین کا حصہ ہے اور یہاں پر صدیوں سے چینی بادشاہ ہی لاما کو منتخب کرتے چلے آرہے ہیں لہذا اب بھی چینی حکومت ہی تبت میں نیا ''لاما'' منتخب کرے گی۔ اس بیان کے جواب میں دلائی لامہ نے چینی حکومت کو لادین اور کمیونسٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے دوسرے جنم کے فلسفے کو تو تسلیم کریں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو انھیں ''لاما'' تلاش کرنے یا مقررکرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔

لگ بھگ آدھی صدی قبل بھارت کے بنیاد پرست ہندوؤں نے بدھ مت کو دیس نکالا دینے اور اس مذہب یا تحریک کو ہندو مت میں ضم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو بھارتی آئین کے خالق اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امبیڈکر نے ہزاروں دلتوں اور شودروں کے ساتھ مل کر ہندو مذہب سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے بدھ مت اپنا لیا تھا۔ اس کے باوجود بھارت کے مقامی بدھسٹوںکو حکومتی سطح پروہ عزت نہ مل سکی جو ماضی میں ان کے حصے میںآئی تھی، مگر تبت کی ملکیت کے تنازعے کے بعد ساٹھ سال قبل جب دلائی لاما بھارت پہنچے تو ایک بدھسٹ پیشوا ہونے کے باوجود انھیں انتہائی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ اس لیے کہ اس عمل میں مذہب سے زیادہ سیاست کا ہاتھ تھا۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق بھارتی حکومت کی جانب سے'' لو یو انڈیا'' نامی جشن میں سرکاری اہل کاروں کی شرکت پر پابندی کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ویتنام کے صدر اپنے تین روزہ دورے پر بھارت پہنچنے والے تھے۔ اس دورے میں بھارت اور ویت نام باہمی تعاون کے دوسرے شعبوں کے علاوہ ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر بھی دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

سرکاری عہدے داروں کو دلائی لاماکے پروگراموں سے دور رہنے کا مشورہ دے کر بھارتی حکومت شاید چین کو یہ باورکرانا چاہتی ہے کہ وہ دلائی لامہ کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا چینی حکومت سمجھ رہی ہے۔ یاد رہے کہ چین اور ویتنام کے درمیان تجارتی شعبے میںبہترین تعاون موجود ہے، مگر چین کے جنوبی سمندری علاقے کے دو جزیروں کی وجہ سے ان میں اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ متنازعہ جزیرے گیس اور تیل کی پیداوار سے مالا مال سمجھے جاتے ہیں جن کے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات پر بھی رضا مند ہوچکے ہیں۔اس کے باوجود پچھلے سال ان جزیروں پر چین نے جنگی مشقوں کا اعلان کیا تو ویتنام نے اس کی مخالفت کی تھی۔

حکومتی اہل کاروں کو ''لو یو انڈیا'' نامی جشن سے دور رہنے کا مشورہ شاید اس لیے بھی وقت کی ضرورت ہے کہ چین دلائی لاما کو ایک خطرناک شخص قرار دے چکا ہے اور بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے آنے والے مہینوں کو چین اور بھارت کے لیے ''انتہائی حساس'' قرار دیا ہے۔اس حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ جون کے مہینے میں نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین کا دورہ کرنا ہے مگر اس دورے سے قبل بھی وہ ایک اور چینی دورے کا ارادہ رکھتے ہیں جسے دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے حکومتی اہلکاروں کو دلائی لامہ سے دور رہنے کا مشورہ کیوں دیا۔
Load Next Story