خواتین کا عالمی دن اور ہماری خواتین
اس دن یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنی گھریلو خواتین کو عزت بھی دیں گے اور ان کی قدر بھی کریں گے۔
آٹھ مارچ پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
1908 میں نیویارک میں پندرہ خواتین پر مشتمل قافلہ اپنے حقوق، اجرت اور ووٹنگ کو بڑھانے کے لیے احتجاجی طور پر سڑکوں پر نکلا تھا جنہیں روکنے کے لیے سرکاری طور پر انہیں زدوکوب کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ اس کے بعد والے سال یعنی 1909 سے باقاعدہ طور پر یورپ میں خواتین کا عالمی دن منایا جانے لگا۔ 1913ء میں اس دن کو ''خواتین کا عالمی دن'' قرار دے دیا گیا اور ایک صدی گزرنے کے بعد بھی آج اس دن کو نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
جہاں تک خواتین کی ملازمت کی بات ہے تو اس تحریک کے بعد یا یوں کہہ لیجیے کہ اس طرح اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے بعد اس میں کافی حد تک ان کو سہولیات میسر آئی ہیں، مگر بہ حیثیت ایک ماں اور بیوی کے عورت کو بہت ساری ذمے داریوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، لیکن ان قربانیوں اور مشقتوں کے بدلے میں بہت کم عورتوں کو وہ درجہ اور اہمیت ملتی ہے جس کی وہ اصل حق دار ہیں۔
بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہی نظریہ ہے کہ ایک عورت پوری نسل کی تربیت کی ضامن ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی مائیں تاریخ میں گزری ہیں، جنہوں نے ایسے سپوت پیدا کیے اور ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیر بھی یورپی ممالک پیش نہیں کرسکتے۔
عورت چاہے ایک ورکنگ لیڈی ہو یا ایک ہاؤس وائف، اس میں اس کی قربانی ضرور پائی جاتی ہے۔ ایک شادی شدہ ورکنگ وومن کی ذمے داریاں دگنی ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ دونوں ذمہ داریوں سے بہت ہی عمدہ طریقے سے نمٹتی ہیں، لیکن کبھی کبھی وہ توازن برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں اور بے انتہا تھکن اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اگر ہم پاکستان کے متوسط طبقے کی عورت کا تجزیہ کریں تو متوسط طبقے کی بیش تر خواتین اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی صورت اپنے گھر والوں کے لیے گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی کچھ نہ کچھ ساتھ دینے کے لیے کرتی رہتی ہیں۔ جیسے گھریلو سطح پر ٹیوشن سنٹر، بیوٹی پارلر، قرآن کلاسز، سلائی کڑھائی، بوتیک ورک، کھانے پینے کی اشیاء کے آرڈر لینا وغیرہ سے لوگوں کو مستفید کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتی نظر آتی ہیں۔
اسی طرح ہم لوئر کلاس کی خواتین کو بھی دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہ خواتین تعلیمی لحاظ سے صفر ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنے مردوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے متوسط اور اعلیٰ درجے کے گھرانوں میں جاکر صفائی ستھرائی کا کام انجام دے کر اپنی گھریلو اور معاشی پریشانیوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے بچوں اور گھرکی دیکھ بھال کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔
عورت کا خمیر ہی چوں کہ محبت اور وفا سے اٹھایا گیا ہے، اس لیے وہ ہر آن اور ہر گھڑی اپنے گھر اور خاندان کو مستحکم بنانے کی جستجو میں سرگرم رہتی ہے۔ رات کے پچھلے پہر بھی جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے۔ اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے گھر اور اپنی اولاد و جگر گوشوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ خود تو بھوکی رہ جاتی ہے، مگر کسی بھی صورت میں اپنے گھر والوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔
نیویارک کی خواتین کے احتجاج کی یاد میں منایا جانے والا خواتین کا عالمی دن یورپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن دین اسلام نے عورت کو ہر جگہ اور ہر رشتے میں ایک انمول حیثیت سے نوازا ہے۔ بہ حیثیت ماں جب یہ عورت اپنے ناتواں کندھوں پر اولاد کی تربیت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے تو اس کے پیروں تلے جنت آجاتی ہے، جبھی اولاد کو ہر دن ماں کو محبت کی نظر سے دیکھنے سے ہزاروں نیکیوں کا مستحق قرار دے دیا ہے۔ بیٹی کی شکل میں یہی عورت رحمت اور بہن کی شکل میں مخلص دوست کی صورت یہ عورت مردوں کا سہارا ہے۔ نیک شریک حیات کو بہترین نعمت کہاگیا۔
عورتوں کے عالمی دن پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے گھر کی ہر خاتون کو اس کے مقام پر رکھ کر اسے عزت دیں گے اور اس کی قدر کریں گے۔
1908 میں نیویارک میں پندرہ خواتین پر مشتمل قافلہ اپنے حقوق، اجرت اور ووٹنگ کو بڑھانے کے لیے احتجاجی طور پر سڑکوں پر نکلا تھا جنہیں روکنے کے لیے سرکاری طور پر انہیں زدوکوب کیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ اس کے بعد والے سال یعنی 1909 سے باقاعدہ طور پر یورپ میں خواتین کا عالمی دن منایا جانے لگا۔ 1913ء میں اس دن کو ''خواتین کا عالمی دن'' قرار دے دیا گیا اور ایک صدی گزرنے کے بعد بھی آج اس دن کو نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
جہاں تک خواتین کی ملازمت کی بات ہے تو اس تحریک کے بعد یا یوں کہہ لیجیے کہ اس طرح اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے بعد اس میں کافی حد تک ان کو سہولیات میسر آئی ہیں، مگر بہ حیثیت ایک ماں اور بیوی کے عورت کو بہت ساری ذمے داریوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، لیکن ان قربانیوں اور مشقتوں کے بدلے میں بہت کم عورتوں کو وہ درجہ اور اہمیت ملتی ہے جس کی وہ اصل حق دار ہیں۔
بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہی نظریہ ہے کہ ایک عورت پوری نسل کی تربیت کی ضامن ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی مائیں تاریخ میں گزری ہیں، جنہوں نے ایسے سپوت پیدا کیے اور ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیر بھی یورپی ممالک پیش نہیں کرسکتے۔
عورت چاہے ایک ورکنگ لیڈی ہو یا ایک ہاؤس وائف، اس میں اس کی قربانی ضرور پائی جاتی ہے۔ ایک شادی شدہ ورکنگ وومن کی ذمے داریاں دگنی ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ دونوں ذمہ داریوں سے بہت ہی عمدہ طریقے سے نمٹتی ہیں، لیکن کبھی کبھی وہ توازن برقرار نہیں رکھ سکتی ہیں اور بے انتہا تھکن اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اگر ہم پاکستان کے متوسط طبقے کی عورت کا تجزیہ کریں تو متوسط طبقے کی بیش تر خواتین اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی صورت اپنے گھر والوں کے لیے گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی کچھ نہ کچھ ساتھ دینے کے لیے کرتی رہتی ہیں۔ جیسے گھریلو سطح پر ٹیوشن سنٹر، بیوٹی پارلر، قرآن کلاسز، سلائی کڑھائی، بوتیک ورک، کھانے پینے کی اشیاء کے آرڈر لینا وغیرہ سے لوگوں کو مستفید کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتی نظر آتی ہیں۔
اسی طرح ہم لوئر کلاس کی خواتین کو بھی دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہ خواتین تعلیمی لحاظ سے صفر ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنے مردوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے متوسط اور اعلیٰ درجے کے گھرانوں میں جاکر صفائی ستھرائی کا کام انجام دے کر اپنی گھریلو اور معاشی پریشانیوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور ساتھ ہی اپنے بچوں اور گھرکی دیکھ بھال کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔
عورت کا خمیر ہی چوں کہ محبت اور وفا سے اٹھایا گیا ہے، اس لیے وہ ہر آن اور ہر گھڑی اپنے گھر اور خاندان کو مستحکم بنانے کی جستجو میں سرگرم رہتی ہے۔ رات کے پچھلے پہر بھی جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے۔ اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے گھر اور اپنی اولاد و جگر گوشوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ خود تو بھوکی رہ جاتی ہے، مگر کسی بھی صورت میں اپنے گھر والوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔
نیویارک کی خواتین کے احتجاج کی یاد میں منایا جانے والا خواتین کا عالمی دن یورپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن دین اسلام نے عورت کو ہر جگہ اور ہر رشتے میں ایک انمول حیثیت سے نوازا ہے۔ بہ حیثیت ماں جب یہ عورت اپنے ناتواں کندھوں پر اولاد کی تربیت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے تو اس کے پیروں تلے جنت آجاتی ہے، جبھی اولاد کو ہر دن ماں کو محبت کی نظر سے دیکھنے سے ہزاروں نیکیوں کا مستحق قرار دے دیا ہے۔ بیٹی کی شکل میں یہی عورت رحمت اور بہن کی شکل میں مخلص دوست کی صورت یہ عورت مردوں کا سہارا ہے۔ نیک شریک حیات کو بہترین نعمت کہاگیا۔
عورتوں کے عالمی دن پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے گھر کی ہر خاتون کو اس کے مقام پر رکھ کر اسے عزت دیں گے اور اس کی قدر کریں گے۔