یکم اپریل نہیں گیارہ مئی
اب گیارہ مئی کو پاکستانی قوم کو جس طرح فول بنایا جائے گا وہ جلد ہی دیکھ لیں گے اور دیکھ کیا لیں گے ہم بہت کچھ دیکھ۔۔۔
اس بار زندہ دلان لاہور نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جھوٹوں کا تہوار' یکم اپریل فول' یکم اپریل کو نہیں گیارہ مئی کو منایا جائے گا۔ جب قوم کے جاگیردار، سرمایہ دار اور مفادات میں اندھے لیڈر سب مل کر قوم کو بے وقوف بنائیں گے اور اس سے اپنی حکمرانی کے لیے ووٹ طلب کریں گے جی بھر کر جھوٹ بولیں گے تاکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ان سب کی اجتماعی حکمرانی میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو وہ اسے پورا کر لیں۔ پاکستان جیسے گئے گزرے ملکوں میں بھی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک کے یکے بعد دیگرے دو وزرائے اعظم فوجداری مقدموں میں ماخوذ ہوں۔
یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے اور ان دنوں دو ایک ماہ کی ایک عارضی حکومت بھی ان سابق حکمرانوں کی کرپشن اور گھپلوں سے روا روی میں پردے اٹھا رہی ہے اور وہ یہ سب کسی پروگرام اور ارادے کے تحت نہیں بلکہ خود بخود اٹھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن جہاں دیکھتا ہے کہ کسی وجہ سے اس کے کام میں رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے تو وہ فوری احکامات جاری کر دیتا ہے تاکہ 11 مئی کو اس کے پروگرام میں خلل نہ پڑے۔
عدالتیں بھی کوئی رعایت نہیں برت رہیں اور قوم کے سابقہ نمایندوں کو جیل بھیج رہی ہیں یا ان پر جرمانے کررہی ہیں اگر الیکشن کمیشن اور عدالتوں کا نیکی اور قومی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو امید ہے بہت سارا گند ٹھکانے لگ جائے گا یعنی جیل میں ہو گا۔ قوم حیرت کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ایک تو وہ اندر سے خوش ہے دوسرے اس کو یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے یہ پکڑ دھکڑ کرنے والے لوگ کہاں سے آگئے ہیں۔ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں۔
اصل بات جو عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحیوں کا تہوار جو اس کی اصل حقیقت سے لاعلم مسلمان بھی مناتے تھے انھوں نے اس بار اس کے نام کے مفہوم سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنے نام کرلیا ہے یعنی اسے اپنے انتخابات کی تاریخ پر فٹ کر دیا ہے۔ یکم اپریل فول کی جگہ 11 مئی الیکشن۔ اب گیارہ مئی کو پاکستانی قوم کو جس طرح فول بنایا جائے گا وہ جلد ہی دیکھ لیں گے اور دیکھ کیا لیں گے ہم بہت کچھ دیکھ بھی چکے ہیں کہ آمدنی کے محدود ذرایع والے بھی کروڑ پتی ہیں۔
آپ کو معلوم نہیں کہ فوج کی اصل نوکری ایک غریب نوکری ہے تنخواہ میں گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے عہدہ جتنا بڑھتا جاتا ہے رکھ رکھاؤ بھی اتنا ہی بڑھ جاتا ہے یعنی اخراجات میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے مثلاً ہمارے سابقہ حکمران جنرل پرویز مشرف نے عمر بھر فوج کی نوکری کی پھر ملک پر قبضہ ضرور کر لیا لیکن بظاہر انھی مراعات کے تحت جو سابقہ حکمرانوں کو حاصل رہی ہیں مگر ان کے اثاثوں کی مالیت 64 کروڑ روپے سے اوپر ہے۔ یہ ان کے اپنے بیان کردہ اثاثے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کہاں سے آیا، معلوم ہوتا ہے کوئی کسر رہ گئی ہے جس کے لیے وہ اب ایک بار پھر دیوانہ وار اقتدار کی تلاش میں پاکستان میں موجود ہیں۔ قوم تو ان کو اقتدار دینے پر تیار نہیں انھوں نے کوئی ان داتا تلاش کر لیا ہے تو دوسری بات ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس وقت بہت کم اور کام بہت زیادہ ہے ورنہ وہ اگر ہمارے قومی نمایندوں کی چھانٹی کر لیتے تو یہ قوم پر بڑا احسان ہوتا۔
الیکشن تک کے عرصہ تک نگران حکومتیں بن گئی ہیں اور کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ عارضی حکومتیں ہیں اور یہ بہار عارضی ہے لیکن جو حالات ہیں ان کو سامنے رکھیں تو طرح طرح کے خدشات ذہن میں آتے ہیں۔ چوہدری شجاعت بھی اس افراتفری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ جو عارضی حکمران ہیں ان کے دل کی آواز بھی یہی ہے کہ کسی طرح یہ عرصہ لمبا ہو جائے۔ اس سے قبل کی ایک ایسی ہی حکومت میں ہمارے ایک دوست صحافی بھی وزیر تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی تھی کہ عمر میں برکت پڑ جائے لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہ دیا اس دفعہ تو ہمارے وزیراعظم بذات خود ریٹائرمنٹ کی عمر سے بھی گزر چکے ہیں۔ ان کے پاس فی الحال تو صرف مسلسل قہقہے ہیں خدا ان کے قہقہے سلامت رکھے اور وہ خوشی خوشی یہ وقت گزار لیں۔
ہمارے صوبائی وزیراعلیٰ کو صوبے میں پہلا کام بسنت کے تہوار کو زندہ کرنا نظر آیا ہے جس کے بغیر زندہ دلوں کا یہ صوبہ اداس اور بے رونق تھا چنانچہ وہ اس تہوار کو بحال کرنے پر مصر ہیں لیکن صوبے کے مولوی حضرات جو الیکشن میں بے کار بیٹھے تھے اب جاگ اٹھے ہیں اور اس تہوار کے خلاف اپنے وہ مخصوص اسٹائل میں مہم شروع کر چکے ہیں۔ ہمارے سیٹھی صاحب نے بلاوجہ ایک غیر متعلق کام شروع کر دیا ہے جس میں ان کے ساتھی ان جیسے میلوں ٹھیلوں کے شوقین چند لوگ ہیں جو جوابی بیان بھی نہیں دے سکتے۔ ہماری انتظامیہ کی بے عملی کا یہ حال ہے کہ وہ پتنگ فروشوں کے ہاں سے فولادی ڈور بھی ختم نہیں کر سکی جو اس تہوار کی اصل دشمن ہے اور جس سے گلے کٹتے ہیں۔ ہم تو دانشور سیٹھی صاحب سے کچھ زیادہ کی توقع رکھتے تھے وہ پتنگ بازی پر اتر آئے ہیں تو ان کی اپنی مرضی۔ہماری عارضی حکومتیں ابھی شروع ہوئی ہیں ہماری دعائیں جاری رہیں گی خدا کرے ان کے پتنگ اڑتے رہیں۔ قہقہے بلند ہوتے رہیں اور حکومت جاری رہے۔
یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے اور ان دنوں دو ایک ماہ کی ایک عارضی حکومت بھی ان سابق حکمرانوں کی کرپشن اور گھپلوں سے روا روی میں پردے اٹھا رہی ہے اور وہ یہ سب کسی پروگرام اور ارادے کے تحت نہیں بلکہ خود بخود اٹھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن جہاں دیکھتا ہے کہ کسی وجہ سے اس کے کام میں رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے تو وہ فوری احکامات جاری کر دیتا ہے تاکہ 11 مئی کو اس کے پروگرام میں خلل نہ پڑے۔
عدالتیں بھی کوئی رعایت نہیں برت رہیں اور قوم کے سابقہ نمایندوں کو جیل بھیج رہی ہیں یا ان پر جرمانے کررہی ہیں اگر الیکشن کمیشن اور عدالتوں کا نیکی اور قومی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو امید ہے بہت سارا گند ٹھکانے لگ جائے گا یعنی جیل میں ہو گا۔ قوم حیرت کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ایک تو وہ اندر سے خوش ہے دوسرے اس کو یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے یہ پکڑ دھکڑ کرنے والے لوگ کہاں سے آگئے ہیں۔ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں۔
اصل بات جو عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحیوں کا تہوار جو اس کی اصل حقیقت سے لاعلم مسلمان بھی مناتے تھے انھوں نے اس بار اس کے نام کے مفہوم سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنے نام کرلیا ہے یعنی اسے اپنے انتخابات کی تاریخ پر فٹ کر دیا ہے۔ یکم اپریل فول کی جگہ 11 مئی الیکشن۔ اب گیارہ مئی کو پاکستانی قوم کو جس طرح فول بنایا جائے گا وہ جلد ہی دیکھ لیں گے اور دیکھ کیا لیں گے ہم بہت کچھ دیکھ بھی چکے ہیں کہ آمدنی کے محدود ذرایع والے بھی کروڑ پتی ہیں۔
آپ کو معلوم نہیں کہ فوج کی اصل نوکری ایک غریب نوکری ہے تنخواہ میں گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے عہدہ جتنا بڑھتا جاتا ہے رکھ رکھاؤ بھی اتنا ہی بڑھ جاتا ہے یعنی اخراجات میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے مثلاً ہمارے سابقہ حکمران جنرل پرویز مشرف نے عمر بھر فوج کی نوکری کی پھر ملک پر قبضہ ضرور کر لیا لیکن بظاہر انھی مراعات کے تحت جو سابقہ حکمرانوں کو حاصل رہی ہیں مگر ان کے اثاثوں کی مالیت 64 کروڑ روپے سے اوپر ہے۔ یہ ان کے اپنے بیان کردہ اثاثے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کہاں سے آیا، معلوم ہوتا ہے کوئی کسر رہ گئی ہے جس کے لیے وہ اب ایک بار پھر دیوانہ وار اقتدار کی تلاش میں پاکستان میں موجود ہیں۔ قوم تو ان کو اقتدار دینے پر تیار نہیں انھوں نے کوئی ان داتا تلاش کر لیا ہے تو دوسری بات ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس وقت بہت کم اور کام بہت زیادہ ہے ورنہ وہ اگر ہمارے قومی نمایندوں کی چھانٹی کر لیتے تو یہ قوم پر بڑا احسان ہوتا۔
الیکشن تک کے عرصہ تک نگران حکومتیں بن گئی ہیں اور کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ عارضی حکومتیں ہیں اور یہ بہار عارضی ہے لیکن جو حالات ہیں ان کو سامنے رکھیں تو طرح طرح کے خدشات ذہن میں آتے ہیں۔ چوہدری شجاعت بھی اس افراتفری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ جو عارضی حکمران ہیں ان کے دل کی آواز بھی یہی ہے کہ کسی طرح یہ عرصہ لمبا ہو جائے۔ اس سے قبل کی ایک ایسی ہی حکومت میں ہمارے ایک دوست صحافی بھی وزیر تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی تھی کہ عمر میں برکت پڑ جائے لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہ دیا اس دفعہ تو ہمارے وزیراعظم بذات خود ریٹائرمنٹ کی عمر سے بھی گزر چکے ہیں۔ ان کے پاس فی الحال تو صرف مسلسل قہقہے ہیں خدا ان کے قہقہے سلامت رکھے اور وہ خوشی خوشی یہ وقت گزار لیں۔
ہمارے صوبائی وزیراعلیٰ کو صوبے میں پہلا کام بسنت کے تہوار کو زندہ کرنا نظر آیا ہے جس کے بغیر زندہ دلوں کا یہ صوبہ اداس اور بے رونق تھا چنانچہ وہ اس تہوار کو بحال کرنے پر مصر ہیں لیکن صوبے کے مولوی حضرات جو الیکشن میں بے کار بیٹھے تھے اب جاگ اٹھے ہیں اور اس تہوار کے خلاف اپنے وہ مخصوص اسٹائل میں مہم شروع کر چکے ہیں۔ ہمارے سیٹھی صاحب نے بلاوجہ ایک غیر متعلق کام شروع کر دیا ہے جس میں ان کے ساتھی ان جیسے میلوں ٹھیلوں کے شوقین چند لوگ ہیں جو جوابی بیان بھی نہیں دے سکتے۔ ہماری انتظامیہ کی بے عملی کا یہ حال ہے کہ وہ پتنگ فروشوں کے ہاں سے فولادی ڈور بھی ختم نہیں کر سکی جو اس تہوار کی اصل دشمن ہے اور جس سے گلے کٹتے ہیں۔ ہم تو دانشور سیٹھی صاحب سے کچھ زیادہ کی توقع رکھتے تھے وہ پتنگ بازی پر اتر آئے ہیں تو ان کی اپنی مرضی۔ہماری عارضی حکومتیں ابھی شروع ہوئی ہیں ہماری دعائیں جاری رہیں گی خدا کرے ان کے پتنگ اڑتے رہیں۔ قہقہے بلند ہوتے رہیں اور حکومت جاری رہے۔