بلوچستان میں انتخابی اَپ سیٹ

بلوچستان میں اس وقت برسر پیکار زیر زمین مسلح تنظیموں کو آسانی کے لیے دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔


عابد میر April 04, 2013
[email protected]

بلوچستان میں قوم پرست سیاسی تنظیموں کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد گو کہ انتخابات ہونے اور نہ ہونے کا سوال اب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے لیکن پُر امن انتخابات کے انعقاد کے سامنے اب بھی سوالیہ نشان ضرور ہے۔ بلوچستان میں انتخابات میں حصہ لینے والی قوم پرست جماعتوں نے بلا شبہ ایک کٹھن راہ کا انتخاب کیا ہے۔ انھیں اس کی کٹھنائیوں کا بخوبی ادراک ہو گا۔ یہ جماعتیں بلوچستان میں دو طرح کے خطرات کا شکار ہیں۔

ایک طرف بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں اور دوسری طرف ان کے مدمقابل قائم کی گئی زیر زمین مسلح تنظیمیں، جنھیں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تنظیمیں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کتنی قوت رکھتی ہیں۔ اس کے لیے ان تنظیموں کی قوت اور اندرونی ڈھانچے کا جائزہ ضروری ہے۔

بلوچستان میں اس وقت برسر پیکار زیر زمین مسلح تنظیموں کو آسانی کے لیے دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کو پاکستان مخالف اور ایک کو پاکستان پرست تنظیمیں کہا جا سکتا ہے۔ اول الذکر میں بی ایل اے، بی آر اے، بی ایل ایف اور لشکر بلوچستان سمیت لگ بھگ اتنی ہی دیگر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

مؤخرالذکر میں اہم نام بلوچ مسلح دفاع آرمی اور نفاذِ امن بلوچستان کا ہے، کچھ اور گروہ بھی ہیں جو اس طرح کی کارروائیوں میں خود کو ملوث بتاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان کی جغرافیائی تقسیم کی جائے تو بی ایل اے کی کارروائیوں کا مرکز کوئٹہ سے لے کر بولان، بی آر اے نصیر آباد سے لے کر ڈیرہ بگٹی، لشکر بلوچستان جھالاوان سے بیلہ و حب، جب کہ بی ایل ایف آواران سے لے کر مکران تک سرگرم عمل ہے۔ گو کہ یہ دیگر علاقوں میں بھی وقتاََ فوقتا کارروائیاں کرتے رہے ہیں، لیکن ان کے مرکزی علاقے یہی کہلاتے ہیں۔

دوسری طرف، ان کے مقابلے میں کھڑی کی گئی وہ مسلح تنظیمیں ہیں جن کا ظہور 2008ء کے بعد ہوا۔ یہ ایک طرح سے ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ گوریلوں سے نمٹنے کی نئی حکمت عملی تھی۔ ان میں اہم تنظیم بلوچ مسلح دفاع ہے، جو جھالاوان اور کوئٹہ میں سرگرم عمل رہی ہے۔ نفاذِ امن بلوچستان نے بھی کوئٹہ سمیت مچھ، قلات، مستونگ اور دیگر علاقوں میں کارروائیاں کی ہیں۔ ان زیر زمین تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں امریکی اور بھارتی ایجنٹ ہیں اور ایک اسلامی ملک کے خلاف برسرپیکار ہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف جنگ میں ہیں۔ جب کہ متاثرہ فریق ان پر مقتدر قوتوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں۔

بلوچستان میں عمومی خیال یہ ہے کہ بلوچ مسلح دفاع کو جھالاوان میں پنپتے ہوئے علیحدگی پسند رحجانات اور اختر مینگل کی سربراہی کے خاتمے کے لیے سامنے لایا گیا۔ بہر کیف ان متحارب قوتوں کی باہمی چپقلش نے جھالاوان بالخصوص خضدار میں امن و امان کی صورت حال کو مخدوش بنا دیا۔ ایک طرف علیحدگی پسند تنظیموں نے ریاستی اداروں کے لیے مخبر ی کے الزام میں کئی سیاسی کارکنوں سمیت صحافیوں کو نشانہ بنایا تو دوسری طرف ان تنظیموں نے متاثرہ خاندان کی داد رسی کے لیے قبائلی انتقام کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خضدار اور اس کا گرد و پیش خانہ جنگی کا میدان بن کر رہ گیا۔

یہی وہ حالات تھے جن میں اختر مینگل پر ان کی پارٹی کی جانب سے انتخابات میں شمولیت کا دبائو تھا۔ زمین پر موجود ان کے پارٹی کے احباب یہ سمجھتے تھے کہ اگر اب بھی وہ اقتدار کی قوت حاصل نہ کر پائے تو ان کا صفایا کر دیا جائے گا اور وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ پارٹی اور اس کے کارکنوں کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔ موجودہ حالات میں پارٹی قیادت کے پاس دو ہی راستے تھے؛ یا تو وہ پارٹی کو انڈر گرائونڈ کر دیں، یا پھر اقتدار میں شامل ہو جائیں۔ ایک سیاسی جماعت کے باوصف انھوں نے وہی فیصلہ کیا جو ایک پارلیمانی جماعت کو کرنا چاہیے تھا۔

دوسری طرف مکران میں بعینہٰ اسی صورت حال کا سامنا ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کو ہے۔ جہاں ڈاکٹر اللہ نذر کی قیادت میں سرگرم بی ایل ایف نے پارلیمانی سیاست کے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ نیشنل پارٹی اور اس کی قیادت بالخصوص اس عتاب کا شکار رہی ہے۔ اس لیے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی مکران اور اس سے ملحقہ علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مسلسل کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ بی ایل ایف کی موجودگی میں مکران میں انتخابات کا انعقاد سہل نہ ہوگا۔

بی این ایم اور بی آر پی جیسی غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں بھی کسی حد تک اثرانداز ہو سکتی ہیں، لیکن ان جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ چند مخصوص علاقوں تک محدود ہیں، ان کا دائرہ کار بلوچستان بھر تک وسیع نہیں ہے۔ لگ بھگ یہی صورت حال مزاحمتی تنظیموں کی بھی ہے ۔ یہ مختلف علاقوں میں بر سرپیکار سہی لیکن مکمل بلوچستان میں دسترس نہیں رکھتیں ۔ جہاں جہاں ان کی موجودگی ہے، ظاہر ہے وہاں یہ انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔ مکران اور جھالاوان بالخصوص نشانے پر ہوں گے۔

جہاں تک دائرہ کار کا تعلق ہے تو یہ معاملہ صرف مزاحتمی یا غیر پارلیمانی جماعتوں تک محدود نہیں، لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی عالم ہے۔ بلوچستان کا جغرافیہ اس قدر وسیع او ر گنجلک ہے کہ کسی جماعت کی بلوچستان بھر میں تنظیم کاری جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جو نچلی سطح تو دُور کی بات، بلوچستان کے تمام تیس اضلاع میں وجود رکھتی ہو۔ اس لیے اِن معنوں میں کوئی جماعت بلوچستان بھر کی نمایندگی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ نہ صرف جغرافیائی بلکہ لسانی، نسلی اور سیاسی و نظریاتی طور پر بھی بلوچستان اسی طرح منقسم ہے۔ اس لیے یہاں آج تک مجموعی عوامی نمایندہ جماعت ابھر کر سامنے نہیں آ سکی، نہ ہی یہاں کے عوام نظریاتی و فکری طور پر یکسو ہو سکے ہیں۔

اس سارے پس منظر میں یہ بات واضح ہے کہ موجودہ انتخابات کئی معنوں میں بلوچستان کے اہم انتخابات سہی، لیکن یہ یہاں کے عوام کی مجموعی حالت میں کسی قسم کی بہتری نہیں لا پائیں گے۔ بلوچستان کی اکثریتی ، بلکہ تقریباََ تمام ہی نشستیں آج بھی موروثی ہیں، جن میں اکثریت نوابوں اور سرداروں ہی کی ہے۔ انھیں آج تک نہ کسی نے للکارنے کی ہمت کی ہے نہ ہی ایسی کوئی توقع فی الوقت کی جا سکتی ہے۔ مقتدر قوتیں بھی ان کی 'کارکردگی' سے مطمئن ہیں۔

انھوں نے نہ صرف عوامی فلاح کا کبھی کوئی کام نہیں کیا بلکہ عوام کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر کچھ اس طرح دبایا ہوا ہے کہ اب تک کوئی آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکا۔ یہ نواب اور سردار مقتدرہ کو ترقی دشمن اور عوام دشمن نہیں لگتے۔ اس لیے نہ ان کی راہیں مسدود کی جاتی ہیں نہ انھیں پہاڑوں کی اَور دھکیلا جاتا ہے۔ بلکہ پاکستان کی نمایندہ سیاسی جماعتیں بھی انھیں اپنے سایہ عاطفت میں لینے کو بے قرار رہتی ہیں۔ وہ جو بلوچوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کے دعویدار ہیں، انھوں نے ہی چن چن کر ان نوابوں، سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو اپنے حلقہ احباب میں جمع کر لیا ہے۔ یہی سردار، وڈیرے ، اور جاگیردار باقی ماندہ مولویوں کے ساتھ مل کر آیندہ حکومت بنائیں گے۔ اپنی جان بچانے کے لیے اقتدار کی چھتری تلے آنے والے قوم پرست بھی اسی لولی لنگڑی عوام دشمن پارلیمنٹ کا حصہ ہوں گے۔

اس لیے یہ طے ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف موجودہ انتخابات بلکہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے دُور دُور تک کسی سیاسی اَپ سیٹ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ چند ایک نشستوں کی ہیر پھیر کے سوا وہی چہرے جو کبھی ق لیگ کے نام پر اسمبلی میں تھے، کبھی پیپلز پارٹی کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، اب کسی اور لیگ کا چولا پہنے بلوچستان کے محکوم عوام کا مذاق اڑانے کے لیے پھر سے طاقت کے ایوانوں میں ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں