بھٹو بہت یاد آ رہے ہو

بھٹو صاحب جالب صاحب کی تلاش میں کافی ہاؤس بھی آ جاتے تھے، مجھے یہ بات معروف شاعر جاوید شاہین نے بھی بتائی تھی کہ۔۔۔


Saeed Parvez April 04, 2013

ISLAMABAD: تمہارے عوام جن کے تم قائد ہو، بہت برے حالوں میں ہیں، حکمرانوں اور ان کے درباریوں نے جونکوں کی طرح عوام کا خون چوس چوس کر انھیں ادھ موا کر دیا ہے، اب وہ بس زندہ ہیں، سانس چل رہی ہے اور کہانی ختم ہو چکی، تمہاری برسی کن دنوں میں آئی ہے کہ جب الیکشن 2013ء اگلے ماہ 11 مئی 2013ء کو ہو رہے ہیں، آج کل کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن کے دفاتر میں جمع کروائے جا رہے ہیں۔

31 مارچ 2013ء کاغذات جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ آج تمہاری اور تمہارے خاندان کے شہیدوں کی پیپلز پارٹی کا حال بھی عوام جیسا ہو چکا ہے، ''دوستوں'' نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی، چلو آج کی بات کو یہیں چھوڑتا ہوں اور تمہاری یادوں کے چراغ روشن کرتا ہوں، کہ اندھیرا ہے بہت۔

آج کل الیکشن کا شور و غوغا ہے تو1970ء کے الیکشن کی بات کر لیتے ہیں، وہ بھی کیا الیکشن تھا، مگر کچھ بات جنرل ایوب خان کو چھوڑنے کی بھی ہو جائے، جب بھٹو صاحب ایوب حکومت سے نکل کر عوام میں آئے تو مایوس و بکھری ہوئی حزب اختلاف میں نئی جان سی پڑ گئی، جنرل ایوب اور اس کے حواریوں نے قائد اعظم کی بہن کا بھی خیال نہیں کیا تھا اور دھاندلی، دھونس، دھن کے بل بوتے پر ان کی شکست کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

ان حالات سے ملک میں موجود حزب اختلاف کے رہنماء بڑی مایوسی کا شکار تھے کہ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت چھوڑ کر باہر آ گیا، بھٹو صاحب کی آمد پر حزب اختلاف خصوصاً بائیں بازو کے سیاست دان بہت خوش ہوئے اور ملک کی سب سے مضبوط بنیادوں پر استوار نیشنل عوامی پارٹی نے بھٹو صاحب کا خوب سواگت کیا اور بھی جمہوریت پسند لوگ تھے، جنہوں نے بھٹو صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو قدرت نے ایسا منہ متھا عطا کیا تھا کہ وہ جس سے ملتے، جس محفل میں جاتے، جان محفل بن جاتے، اس کے ساتھ ساتھ خدا نے ان کو اعلیٰ ذہن عطا کیا تھا اور ساتھ ساتھ بولنے کی بہترین صلاحیت سے بھی نوازا تھا، وہ اپنی بات بڑی خوبصورتی سے سامنے والے کے ذہن میں اتار دیتے تھے، ایک اور بھی خوبی قدرت نے انھیں عطا کی تھی کہ وہ بلا کے مردم شناس تھے، ان تمام خوبیوں کے ساتھ ان کی ''چھب'' بھی ایسی اعلیٰ تھی کہ ہر لباس، ہر انداز ان پر پھبتا تھا، مجھے خوب یاد ہے یہ1966-67ء کی بات ہے میں اسلامیہ کالج کراچی میں پڑھتا تھا۔

بھائی معراج محمد خان طلباء کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی صدارت کے بعد اب اس کے سرپرست بن چکے تھے، انھوں نے مہوانی کلب، گرو مندر کراچی میں بھٹو صاحب کو مدعو کیا اور یہ وہ یادگار موقع تھا کہ جب طلباء کا ہر دلعزیز رہنماء معراج محمد خان، مستقبل کے اہم کردار، ذوالفقار علی بھٹو کو طلباء کراچی سے متعارف کروانے کی سعی کر رہا تھا، پورا پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، بھٹو صاحب لائٹ گرے کلر کا کوٹ پینٹ پہنے ہوئے تھے، انھوں نے اردو اور انگریزی میں خطاب کیا تھا، کراچی اور اندرون سندھ بلوچستان کے طلباء اس اجتماع میں شریک تھے اور یہ تعارفی جلسہ اپنے مقاصد میں بہت کامیاب رہا تھا۔

جنرل ایوب کی حکومت چاہتی تھی کہ بھٹو صاحب لوگوں سے نہ ملیں اور خاموشی سے ''لانگ لیو'' پر باہر چلے جائیں، اس بارے میں البانیہ کا انتخاب بھی ہو چکا تھا اور بھٹو صاحب کو جبراً ملک بدر کیا جا رہا تھا، اس واقعے پر حبیب جالب صاحب نے ایک نظم لکھی اور وہ نظم اس زمانے کے حزب اختلاف کے مشہور اخبار نے عقبی صفحے (مکمل صفحے) پر چھاپ دی، نظم کے چند شعر ملاحظہ کیجیے، نظم کا عنوان تھا ''چھوڑکے نہ جا''

دست خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا
آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا
دل تنگ کیوں ہے رات کی تاریکیوں سے تو
پھوٹے گی صبح نو کی کرن چھوڑ کے نہ جا
تیرے شریک حال ہیں منصور اور بھی
سونی فضائے دار و رسن چھوڑ کے نہ جا
البانیہ کے پھول بھی گو دل فریب ہیں
اپنے وطن کے سرو سمن چھوڑ کے نہ جا
اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسینؓ کی
کر احترام رسم کہن چھوڑ کے نہ جا

بھٹو صاحب تک نظم پہنچی تو جالب سے ملنے کا خیال آیا، بھٹو صاحب لاہور آئے تو اپنے دوست امان اﷲ خان کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ ''بھٹو صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں'' جالب صاحب اس وقت کافی ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے، جالب صاحب نے کہا ''گو میں وزیروں سے نہیں ملا کرتا، مگر بھٹو صاحب ملاقات چاہتے ہیں تو کافی ہاؤس آ جائیں'' اور مردم شناس بھٹو جالب سے ملنے کافی ہاؤس پہنچ گیا، ملاقات میں کافی باتیں ہوئیں پھر چلتے ہوئے کہنے لگے ''وہ جو آپ نے میرے لیے نظم لکھی ہے وہ سنائیں'' جالب صاحب نے کہا ''وہ نظم آپ کو سنانا سراسر خوشامد ہو گی، جو میری فطرت کے خلاف ہے'' بھٹو صاحب مسکرائے اور پھر یہ کہہ کر چلے گئے کہ ''اب دوستی ہوئی!'' اب آپ بھی مجھے ملنے آئیں گے!'' جالب صاحب بولے ''ضرور'' بھٹو صاحب اور جالب صاحب بعد میں خاصے قریب آ گئے اور اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔

جالب صاحب ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت پھر دھر لیے گئے، تو بھٹو صاحب پاک ٹی ہاؤس پہنچے اور حبیب جالب فنڈ جو شفقت تنویر مرزا، یوسف کامران، کشور ناہید کے شوہر) احمد مشتاق اور مسعود اﷲ خاں نے قائم کیا تھا اور اس کے سیکریٹری تھے پاک ٹی ہاؤس کے ہیڈ بیرا الہٰ بخش تو بھٹو صاحب نے الٰہی بخش کو جالب فنڈ کے لیے ساڑھے چار سو روپے دیے، یہ دور ایوب خان کا واقعہ ہے۔

بھٹو صاحب جالب صاحب کی تلاش میں کافی ہاؤس بھی آ جاتے تھے، مجھے یہ بات معروف شاعر جاوید شاہین نے بھی بتائی تھی کہ بھٹو صاحب جالب صاحب کی تلاش میں کافی ہاؤس آئے تو میں ان سے ملا اور کہا کہ آپ تشریف رکھیں، میں جالب صاحب کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں تو بھٹو صاحب نے کہا ''نہیں آپ رہنے دیں میں خود ہی جالب صاحب کو تلاش کر لوں گا'' بھٹو صاحب دل و جان سے چاہتے تھے کہ جالب صاحب پیپلز پارٹی میں آ جائیں وہ کہتے تھے آپ کو قومی اسمبلی کا ممبر بناؤں گا، مرکزی وزیر بناؤں گا مگر جالب صاحب کے قلندرانہ مزاج نے ایسا نہ ہونے دیا۔

مگر بھٹو صاحب اختلاف کے باوجود جالب صاحب کے مقام و مرتبے کو سمجھتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے، مجھے اس وقت لاڑکانہ میں منعقد ہونے والا مشاعرہ یاد آ رہا ہے۔ یہ بھی1967ء کی بات ہے، بھٹو صاحب نے مشاعرہ انتظامیہ سے کہا ''فیض صاحب اور جالب صاحب میرے ذاتی مہمان ہوں گے'' یوں یہ دونوں شعراء ''المرتضیٰ'' لاڑکانہ میں ٹھہرائے گئے۔اب ذرا سنیے:1970ء کے الیکشن میں یہ حال تھا کہ بھٹو صاحب کی تصویر کے ساتھ ملا کر ہر امیدوار نے تصویر بنوا رکھی تھی، جس میں بھٹو صاحب ہاتھ کا اشارہ امیدوار کی طرف کر رہے ہیں اور تصویر کے نیچے یہ عبارت درج ہوئی تھی ''ان کو ووٹ دینا مجھے ووٹ دینا ہے'' اور اب آج کے الیکشن2013ء کا اندازہ خود ہی لگا لیں کہ کیا حال ہے۔

بھٹو صاحب کی پھانسی پر جالب صاحب نے کہا تھا:

ہاتھ کس کا پس عدالت تھا
دار پر کس نے اس کو کھنچوایا
ایک ہی مجرم زمانہ ہے
اس پہ الزام تک نہیں آیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں