انتخابی اتحادوں کی سیاست
ابھی تو سبھی جماعتیں باقاعدہ طور پر الیکشن کی بھرپور تیاریاں کر رہی ہیں جس کا اصل مظاہرہ تو الیکشن شیڈول آنے کے بعد۔۔۔
جیسے جیسے انتخاب کے دن قریب آ رہے ہیں سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے، روزانہ یہی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں نے فلاں پارٹی چھوڑ کر فلاں پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے کا یہ عمل نیا نہیں ہے۔ اب تک ماضی میں جتنے الیکشن ہوئے ہیں اس وقت بھی یہی صورت حال تھی۔ لیکن کیا کیا جائے سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کا حسن ہی اسی اکھاڑ پچھاڑ میں ہے۔ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو وہ سیاست سے نابلد قرار دیا جاتا ہے۔
ہر ایک جماعت یہی دعویٰ کرتی نظر آ رہی ہے کہ ہماری جماعت ہی آیندہ حکومت بنائے گی۔ لیکن اصل صورت حال تو انتخاب کا عمل شروع ہونے پر سامنے آئے گی۔ ابھی تو سبھی جماعتیں باقاعدہ طور پر الیکشن کی بھرپور تیاریاں کر رہی ہیں جس کا اصل مظاہرہ تو الیکشن شیڈول آنے کے بعد دیکھنے میں آئے گا۔ یوں تو ہمارے ملک میں دو سو سے زیادہ جماعتیں ہیں جن میں سے تقریباً 19 جماعتیں ایسی ہیں جو کہ باضابطہ طور پر متحرک نظر آتی ہیں۔ لیکن سارا زور تو صرف دو بڑی جماعتوں پر صرف کیا جا رہا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)۔
دوسری جماعتوں کو تو محض اسٹینڈ بائی تصور کیا جاتا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (فنکشنل) کے صدر پیر پگاڑا متحرک ہیں کہ کسی طرح تمام مسلم لیگی دھڑے متحد ہو جائیں تو مسلم لیگ (متحدہ) قائم ہو جائے گی اس طرح مسلم لیگ کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مل جائے گا۔ اس صورت میں دیگر ہم خیال جماعتوں کو بھی ساتھ ملانے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے تا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں جو حکومت میں شامل ہیں ان کے خلاف ایک مضبوط متحدہ محاذ قائم ہو جائے اور مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ بظاہر تو منصوبہ بندی جو پیر پگاڑا بنا رہے ہیں محض خام خیالی ہی نظر آتی ہے۔
اصل صورت حال تو اس وقت سامنے آئے گی جب پیر پگاڑا ان تمام جماعتوں کو جن کے ساتھ مل کر وہ متحدہ محاذ بنانا چاہتے ہیں مذاکرات کی ٹیبل پر لائیں گے۔ عوام تو پچھلے 65 سال سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کی جو پوزیشن اور اہمیت قائد اعظم اور وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کے زمانے میں تھی وہ تو ان کی اموات کے بعد ہی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی کسی بھی مرحلے پر کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ مسلم لیگ کی پیدائشی حیثیت برقرار رہے۔ بلکہ ہر کوئی مسلم لیگی لیڈر جب چاہتا اپنی پسندیدہ مسلم لیگ بنا لیتا۔ یہ سلسلہ ایوب خان مرحوم کے دور حکومت سے شروع ہو گیا تھا۔
جب انھوں نے فوجی حکومت کو سول حکومت میں منتقل کرنے کے لیے مسلم لیگ کا پہلا دھڑا مسلم لیگ (کنونشن) کی شکل میں قائم کیا۔ بس کیا تھا کہ اس کے بعد جب حکومتوں (سول) کے ٹوٹنے اور بننے کا سلسلہ شروع ہوا تو ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ میں نئے نئے دھڑے سامنے آتے رہے۔ دراصل یہ سلسلہ نواز شریف کے دور تک جاری رہا۔ جب پرانے اور نئے مسلم لیگی رہنماؤں کے مابین اختلافات جیسے جیسے بڑھتے گئے مسلم لیگ کو فٹبال بنا دیا گیا۔ آخر کمند جا کر کہاں ٹوٹی، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) پر۔ مسلم لیگ (ن) ایسے ہی نہیں بنی تھی بلکہ نواز شریف نے جب اپنے لیگی ساتھیوں کو بن بتائے یا مشورے کے بغیر ہی جلا وطنی اختیار کر لی تھی، اس کی وجہ سے پہلے ایک فارورڈ بلاک بنا، پھر اس میں سے ہم خیال گروپ نے جنم لیا۔ اس میں سے چٹھہ گروپ بنا، اسی میں سے مسلم لیگ (ق) گروپ بنا۔
اس دھڑے بندی کی وجہ سے چند ایک ایسے گروپ بھی بن گئے جو چند ایک مسلم لیگی لیڈروں نے تن تنہا قائم کر لیے۔ مسلم لیگ کے اس پس منظر پر روشنی ڈالنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ دیکھیں پیر پگاڑا ایسی کون سی جادو کی چھڑی لائے ہیں جس کے گھماتے ہی سب مسلم لیگی دھڑے ایک ہو جائیں گے۔ نہیں جناب! ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ نواز شریف نے آج کل جو جوڑ توڑ کی سیاست شروع کی ہے وہ ایسے ہی خالی خولی نہیں شروع کی بلکہ اس جوڑ توڑ کی سیاست کر کے وہ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کو ایک ناقابل تقابل جماعت بنانا چاہتے ہیں۔
چونکہ پیپلز پارٹی جو خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس جماعت میں بھی دھڑے بندی موجود ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر نواز شریف صاحب نے پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے پنجاب کے حلقوں کے بجائے صوبہ سندھ کا رخ کر لیا ہے اور سندھی عوام کو پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے سندھ کی سیاست میں دراڑیں ڈال کر اپنی جماعت کا مقام بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ سندھی عوام تو اپنے ووٹ صرف اور صرف ''بھٹو'' کے نام پر استعمال کرتے ہیں۔ چاہے بھٹو خاندان نے انھیں کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔ کیا نواز شریف صاحب کو اس بات کا علم نہیں ہے۔
جب 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی (باوجود اس حقیقت کہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی دو گروپس میں تقسیم تھی ایک صرف تین پی پی کے ساتھ اور دوسرا گروپ چار پی پی کے ساتھ یعنی PPP اور PPPP۔ ایک صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین) بھاری اکثریت سے جیت کر ایوانوں میں آئی تو صدر زرداری نے ایوان صدر میں بھی ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے'' کے نعرے لگوائے تھے۔ اب تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ سندھ کی سیاست میں صرف ''بھٹو'' کا سکہ چلتا ہے۔
بہرحال باتیں اور بھی بہت ہیں، پاکستان کے عوام اپنے ان گزرے ہوئے 65 برسوں کے ماضی سے بخوبی واقف ہیں۔صرف الیکشن جیتنے کے لیے عوام اور قوموں میں نفرت والی سیاست کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا، انتخاب لڑنا اور قوم و ملک کی خدمت کا بیڑہ اٹھانا تمام سیاسی پارٹیوں کا حق ہے لیکن سب کا مشترکہ ایجنڈہ صرف اور صرف ملکی سلامتی اور خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہونا چاہیے۔ کیا 65 سال گزار لینے کے بعد بھی آپ لیڈر صاحبان نے تجربہ حاصل نہیں کیا کہ منفی سیاسیات کی وجہ سے ملک آج ایک خطرناک ''موڑ'' پر کھڑا ہوا ہے۔
خدارا ! اس ملک کو بچانے اور اس کی سلامتی کے لیے کام کیجیے، بس ہو گیا۔ اب اس ملک و قوم کو مزید کڑی آزمائشوں میں نہ ڈالیے، سب مل کر اسے دوبارہ ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کی کوشش کیجیے۔ یہ وقت ایک دوسرے کو ''نیچا'' دکھانے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ''ملانے'' کا وقت ہے۔
اسی سوچ و فکر کے ساتھ آنے والے انتخابات کی تیاریاں کریں اور اسی سوچ کے ساتھ الیکشن کی مہم چلائیں۔ جیسا کہ مختلف سیاستدانوں، دانشوروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں لیڈران کی گفتگو اور تجزیوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خدشات و خطرات نے گھیر رکھا ہے اور بہت محتاط انداز میں آیندہ انتخاب کا پرسکون اور خوشگوار ماحول میں انعقاد نہایت ضروری ہی نہیں بلکہ ''لازم'' ہے۔ ورنہ ایسی صورت حال نہ پیدا ہو کہ ''الٹی ہو گئیں سب تدبیریں' کچھ نہ دوا نے کام کیا''۔