ڈاکٹر عافیہ صدیقی ناقابلِ تسخیرعورت
ڈاکٹرعافیہ امریکی قید میں ہر طرح کےجسمانی،روحانی،اخلاقی تشدد سہنے کے باوجود بھی مسلم عورت کے طور پر ناقابلِ تسخیر ہے
اس سال ''پریس فور پروگریس'' (Press For Progress) کے عنوان سے عالمی یومِ خواتین تمام دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ مغرب کا ایجاد کردہ یہ دن خواتین کی ترقی و بہبود کی غرض سے ہر سال مختلف عنوانات سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے سیمینارز، کانفرنسوں اور دیگر پروگرام کے ذریعے عورت کے حقوق اور ترقی کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اگر چہ ہمارے دین میں عورت کے تمام حقوق اور ترقی کے تمام ذرائع نہایت وقار کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر عالمگیریت کی دوڑ میں شمولیت کی غرض سے اس دن کو منانا بھی ہماری معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ جدیدیت کا تقاضا بھی ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس کی عَلَم بردار زیادہ تر تنظیمیں مغربی اور سیکیولر سوچ کی حامل ہیں۔ ان کی کوششیں عورتوں پر ظلم اور ناانصافی سے آزادی کے نام پر دراصل اسلام کے عطا کردہ حفاظتی بندھنوں سے آزادی ہے۔ اسلامی فکر سے آگہی رکھنے والی تنظمیں اس دن کو اسلامی تہذیب کے تناظر میں استعمال کر رہی ہیں جو یقیناَ قابلِ ستائش ہے۔ نقطۂ نظر مختلف ہونے کے باوجود زندگی کے ہر میدان میں ''عورت کی فلاح'' ان تنظیموں کا مقصود ہے۔
عورت کے بنیادی انسانی حقوق، عزت اور جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے دیکھا جائے تو امن کے علاقوں کے مقابلے میں جنگی علاقوں میں مسائل سے دوچار خواتین، خصوصاََ اغیار کے ہاتھوں قید ظلم کا شکار خواتین زیادہ امداد کی مستحق ہیں۔ کشمیر، برما، فلسطین اور شام میں لاتعداد ایسی خواتین ہیں جو دن رات حادثات کا شکار ہو کر طرح طرح کے اندوہ ناک مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔
ایسی ہی خواتین کی ایک عظیم مثال ڈاکٹر عافیہ صیقی ہے۔ یہ عورت معاشرے کے اندھیروں کو دور کرنے والا ایسا چراغ ہے جس کو بجھانے میں عالمی مُنصِفوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ''عافیہ صدیقی اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ جہاں جائے گی تبدیلی لائے گی۔ '' پروفیسر نوم چومسکی کا یہ قول عافیہ صدیقی کی قابلیتوں اور کارناموں سے بھرپور مختصر زندگی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی بیک وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تحریری و تقریری صلاحیتوں کی مالک تھی۔ قرآن اور دینی علوم سے دلچسپی اور ان پر عبور اس کی اضافی قابلیت تھی۔ گلستان شاہ لطیف اسکول سے لے کر ایم آئی ٹی (MIT) برینڈیز (Brandeis) جیسی امریکہ کی بہترین جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شاندار رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا مضمون '' ایجوکیشن'' تھا۔ دین کے علم کی پیاس بجھانے وہ خاص طور پر امریکہ سے پاکستان آئی۔ شوق کے ساتھ قرآن حفظ کیا۔ قابل شخصیات کی معاونت کے ساتھ ''اسلام، عیسائیت اور یہودیت'' کے موضوع ہر تحقیق کی۔ انہوں نے ''پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور خواتین پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر بھی تحقیق کی اور کیرول وِلسن ایوارڈ حاصل کیا۔
بچوں سے محبت کی وجہ سے خصوصی طور پر ان کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کا موضوع بھی '' ابتدائی عمر میں بچوں کی نشو و نما'' تھا۔ ان کے مطابق، معاشرے کی زوال پذیری ہی نئی نسل کے انحطاط کی وجہ ہے۔ معاشرے کی مثبت تبدیلی اور خوشحالی ان کا خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے وہ تن من دھن سے مصروفِ عمل تھیں۔
وہ اسلامی نظامِ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لانے کی جستجو میں رہتی تھیں۔ وہ ایسا جدید نصاب تیار کر رہی تھیں جو کم وقت میں دلچسپی کے ساتھ بچوں کی سمجھ میں آ سکے۔ ان کا مرتب کردہ نصاب اسلام کے محور سے مربوط تھا۔
یونی ورسٹی سرگرمیوں میں دیگر مختلف تنظیمیں اپنی دلچسپی کے اسٹالز لگاتی تھیں۔ عافیہ کا بھی اسٹال ہوتا جس پر لکھا ہوتا ''فری انسائیکلو پیڈیا فور یور لائف"۔ وہ اپنے جیب خرچ سےقرآن کے تراجم خرید کر مفت تقسیم کیا کرتی تھی۔ لوگوں کے پوچھنے پر جواب ہوتا، ''یہ آپ کی زندگی کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔''
بزرگ خواتین سے محبت اور ان کی خدمت عافیہ کے شوق میں شامل تھی۔ وہ اولڈ ہومز میں جا کر ان کی اعزازی خدمت کر کے سکون محسوس کرتی تھی۔
عافیہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر روا ظلم و ستم پر افسردہ تھی۔ اس کے نزدیک اس ظلم و ستم کے ذمہ دار امتِ مسلمہ کے حکمران ہیں۔ اس نے بوسنیائی کشمیری فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہزاروں ڈالرز فنڈ جمع کیے۔
تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی عافیہ صدیقی کا خواب تھا۔ حالات کی ستم ظریفی اور حکمرانوں کی مفادپرستی کس طرح ان کے خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے؟ اس کا اندازہ ان کے ساتھ پیش آنے والے پےدرپے دردناک سانحات سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی تعلیم مکمل ہونے بعد کراچی منتقل ہو کر والدہ کے گھر رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ 2003 میں اپنے کاموں کی غرض سے اسلام آباد روانگی کے لیے ایئرپورٹ جاتے ہوئے حکمرانِ وقت پرویز مشرف کے حکم پر انہیں تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر لیا جاتا ہے۔ بگرام ایئربیس افغانستان لےجا کر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم میں قید رکھا گیا۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے یہیں سے رہائی پانے کے بعد عالمی میڈیا کے سامنے امریکی جیل میں موجود ''قیدی نمبر 650'' کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف کیا۔
ریڈلے نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M_4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کر دیتی ہے۔ فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں کہیں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے، مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہیں۔ ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللّٰہ کے حوالے کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 6×6 کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود اس کا عزم قوی تر ہے۔
دوسری جانب اس کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے اس کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کےلیے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔ پرویزمشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے، یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔ حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفّاک ہے۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔
عدم تعاون کے حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کےلیے عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر سے رضاکار پورے خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ عافیہ کی رہائی کےلیے مسلسل سرگرداں ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما، صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گذرتا رہا۔ بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔
سوچنے کی بات ہے، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی عزیز بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کےلیے پوری انتظامیہ اور ایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں !
امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ بے گناہ شہریوں کا قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا۔ پھر ریمنڈدیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کر کے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ حال ہی میں ہزاروں پاکستانیوں کی موت اور معذوریوں کے ذمہ دار بھارتی جاسوس کی انسانی ہمدردی کے ناتے عزت افزائی عافیہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ کیا عافیہ کا تعلق انسانی گروہ سے نہیں؟
اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکہ بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران، قومی غیرت کی ڈالرز کے عوض سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے الفاظ کہ '' پاکستانی تو چند ڈالرز کے عوض اپنی ماں تک کو بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ '' وزیرِاعظم نواز شریف نے عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔ آج وہ اس وعدے کی بےوفائی کے ایک اور داغ کے ساتھ نااہل ہیں۔
پھر ایک سابق وزیرِاعظم نوازشریف ہی کیا، پچھلے 14 برسوں میں جنرل پرویز مشرف، میر ظفراللّٰہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیرِاعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دورِحکومت گزر گئے۔ افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انور ظہیر جمالی جیسےقابل چیف جسٹس اپنی مدتیں پوری کر گئے۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔ مگر عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی، کسی کو، کبھی یاد رہی؟
استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں، ''اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔''
پریس فور پروگریس (Press For Progress) کے عنوان سے منائے جانے والے اس عالمی یومِ نِسواں میں قوم کی اس مظلوم بیٹی کی ناحق قید سے رہائی کی کوششوں کی کسی خواتین این جی او کی کوئی پروگریس کوئی پیش رفت ہے؟ ڈاکٹر عافیہ، امریکی قید میں ہر طرح کےجسمانی، روحانی اور اخلاقی تشدد سہنے کے باوجود بھی مسلمان عورت کے عنوان سے ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس کا یہ استقلال خواتین کے حقوق کی جنگ کے علم برداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر چہ ہمارے دین میں عورت کے تمام حقوق اور ترقی کے تمام ذرائع نہایت وقار کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر عالمگیریت کی دوڑ میں شمولیت کی غرض سے اس دن کو منانا بھی ہماری معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ جدیدیت کا تقاضا بھی ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس کی عَلَم بردار زیادہ تر تنظیمیں مغربی اور سیکیولر سوچ کی حامل ہیں۔ ان کی کوششیں عورتوں پر ظلم اور ناانصافی سے آزادی کے نام پر دراصل اسلام کے عطا کردہ حفاظتی بندھنوں سے آزادی ہے۔ اسلامی فکر سے آگہی رکھنے والی تنظمیں اس دن کو اسلامی تہذیب کے تناظر میں استعمال کر رہی ہیں جو یقیناَ قابلِ ستائش ہے۔ نقطۂ نظر مختلف ہونے کے باوجود زندگی کے ہر میدان میں ''عورت کی فلاح'' ان تنظیموں کا مقصود ہے۔
عورت کے بنیادی انسانی حقوق، عزت اور جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے دیکھا جائے تو امن کے علاقوں کے مقابلے میں جنگی علاقوں میں مسائل سے دوچار خواتین، خصوصاََ اغیار کے ہاتھوں قید ظلم کا شکار خواتین زیادہ امداد کی مستحق ہیں۔ کشمیر، برما، فلسطین اور شام میں لاتعداد ایسی خواتین ہیں جو دن رات حادثات کا شکار ہو کر طرح طرح کے اندوہ ناک مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔
ایسی ہی خواتین کی ایک عظیم مثال ڈاکٹر عافیہ صیقی ہے۔ یہ عورت معاشرے کے اندھیروں کو دور کرنے والا ایسا چراغ ہے جس کو بجھانے میں عالمی مُنصِفوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ''عافیہ صدیقی اپنی ذات میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ جہاں جائے گی تبدیلی لائے گی۔ '' پروفیسر نوم چومسکی کا یہ قول عافیہ صدیقی کی قابلیتوں اور کارناموں سے بھرپور مختصر زندگی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی بیک وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تحریری و تقریری صلاحیتوں کی مالک تھی۔ قرآن اور دینی علوم سے دلچسپی اور ان پر عبور اس کی اضافی قابلیت تھی۔ گلستان شاہ لطیف اسکول سے لے کر ایم آئی ٹی (MIT) برینڈیز (Brandeis) جیسی امریکہ کی بہترین جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شاندار رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا مضمون '' ایجوکیشن'' تھا۔ دین کے علم کی پیاس بجھانے وہ خاص طور پر امریکہ سے پاکستان آئی۔ شوق کے ساتھ قرآن حفظ کیا۔ قابل شخصیات کی معاونت کے ساتھ ''اسلام، عیسائیت اور یہودیت'' کے موضوع ہر تحقیق کی۔ انہوں نے ''پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور خواتین پر اس کے اثرات'' کے موضوع پر بھی تحقیق کی اور کیرول وِلسن ایوارڈ حاصل کیا۔
بچوں سے محبت کی وجہ سے خصوصی طور پر ان کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کا موضوع بھی '' ابتدائی عمر میں بچوں کی نشو و نما'' تھا۔ ان کے مطابق، معاشرے کی زوال پذیری ہی نئی نسل کے انحطاط کی وجہ ہے۔ معاشرے کی مثبت تبدیلی اور خوشحالی ان کا خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے وہ تن من دھن سے مصروفِ عمل تھیں۔
وہ اسلامی نظامِ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لانے کی جستجو میں رہتی تھیں۔ وہ ایسا جدید نصاب تیار کر رہی تھیں جو کم وقت میں دلچسپی کے ساتھ بچوں کی سمجھ میں آ سکے۔ ان کا مرتب کردہ نصاب اسلام کے محور سے مربوط تھا۔
یونی ورسٹی سرگرمیوں میں دیگر مختلف تنظیمیں اپنی دلچسپی کے اسٹالز لگاتی تھیں۔ عافیہ کا بھی اسٹال ہوتا جس پر لکھا ہوتا ''فری انسائیکلو پیڈیا فور یور لائف"۔ وہ اپنے جیب خرچ سےقرآن کے تراجم خرید کر مفت تقسیم کیا کرتی تھی۔ لوگوں کے پوچھنے پر جواب ہوتا، ''یہ آپ کی زندگی کا مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔''
بزرگ خواتین سے محبت اور ان کی خدمت عافیہ کے شوق میں شامل تھی۔ وہ اولڈ ہومز میں جا کر ان کی اعزازی خدمت کر کے سکون محسوس کرتی تھی۔
عافیہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر روا ظلم و ستم پر افسردہ تھی۔ اس کے نزدیک اس ظلم و ستم کے ذمہ دار امتِ مسلمہ کے حکمران ہیں۔ اس نے بوسنیائی کشمیری فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہزاروں ڈالرز فنڈ جمع کیے۔
تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی عافیہ صدیقی کا خواب تھا۔ حالات کی ستم ظریفی اور حکمرانوں کی مفادپرستی کس طرح ان کے خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے؟ اس کا اندازہ ان کے ساتھ پیش آنے والے پےدرپے دردناک سانحات سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی تعلیم مکمل ہونے بعد کراچی منتقل ہو کر والدہ کے گھر رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ 2003 میں اپنے کاموں کی غرض سے اسلام آباد روانگی کے لیے ایئرپورٹ جاتے ہوئے حکمرانِ وقت پرویز مشرف کے حکم پر انہیں تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر لیا جاتا ہے۔ بگرام ایئربیس افغانستان لےجا کر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم میں قید رکھا گیا۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے یہیں سے رہائی پانے کے بعد عالمی میڈیا کے سامنے امریکی جیل میں موجود ''قیدی نمبر 650'' کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف کیا۔
ریڈلے نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M_4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کر دیتی ہے۔ فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں کہیں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے، مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہیں۔ ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللّٰہ کے حوالے کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 6×6 کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود اس کا عزم قوی تر ہے۔
دوسری جانب اس کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے اس کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کےلیے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔ پرویزمشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے، یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔ حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفّاک ہے۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔
عدم تعاون کے حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کےلیے عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر سے رضاکار پورے خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ عافیہ کی رہائی کےلیے مسلسل سرگرداں ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما، صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گذرتا رہا۔ بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔
سوچنے کی بات ہے، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی عزیز بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کےلیے پوری انتظامیہ اور ایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں !
امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ بے گناہ شہریوں کا قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا۔ پھر ریمنڈدیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کر کے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ حال ہی میں ہزاروں پاکستانیوں کی موت اور معذوریوں کے ذمہ دار بھارتی جاسوس کی انسانی ہمدردی کے ناتے عزت افزائی عافیہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ کیا عافیہ کا تعلق انسانی گروہ سے نہیں؟
اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکہ بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران، قومی غیرت کی ڈالرز کے عوض سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے الفاظ کہ '' پاکستانی تو چند ڈالرز کے عوض اپنی ماں تک کو بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ '' وزیرِاعظم نواز شریف نے عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔ آج وہ اس وعدے کی بےوفائی کے ایک اور داغ کے ساتھ نااہل ہیں۔
پھر ایک سابق وزیرِاعظم نوازشریف ہی کیا، پچھلے 14 برسوں میں جنرل پرویز مشرف، میر ظفراللّٰہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیرِاعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دورِحکومت گزر گئے۔ افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انور ظہیر جمالی جیسےقابل چیف جسٹس اپنی مدتیں پوری کر گئے۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔ مگر عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی، کسی کو، کبھی یاد رہی؟
استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں، ''اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔''
پریس فور پروگریس (Press For Progress) کے عنوان سے منائے جانے والے اس عالمی یومِ نِسواں میں قوم کی اس مظلوم بیٹی کی ناحق قید سے رہائی کی کوششوں کی کسی خواتین این جی او کی کوئی پروگریس کوئی پیش رفت ہے؟ ڈاکٹر عافیہ، امریکی قید میں ہر طرح کےجسمانی، روحانی اور اخلاقی تشدد سہنے کے باوجود بھی مسلمان عورت کے عنوان سے ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس کا یہ استقلال خواتین کے حقوق کی جنگ کے علم برداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔