لاہورNA121 پسماندہ آبادیوں پر مشتمل باہر کے امیدواروں کا مفتوحہ حلقہ
اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے الیکشن کیلئے 94 درخواستیں وصول کی گئیں جن میں سے 44 جمع کروائی گئیں ذرائع
صوبائی دارالحکومت میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 121گلشن راوی، نواں کوٹ، نوناریاں ، شیرا کوٹ ، جعفریہ کالونی ، راجگڑھ ، شام نگر ، رام نگر اور بند روڈ کے پار کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔
یہاں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 149 اور پی پی 150 ہیں۔ شہر کا حصہ ہونے کے باوجود یہ شہر کی پسماندہ اور نظرانداز کی جانے والی آبادیوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں پر شہری اور دیہی زندگی کے مناظر جابجا دکھائی دیتے ہیں ۔زیادہ تر آبادی متوسط طبقہ اور غریب افراد پر مشتمل ہے لوگوں کی اکثریت ملازمت پیشہ ، دیہاڑی دار اور کاروباری طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔منشیات فروشی، تجاوزات اورگندہ نالہ یہاں کے بڑے مسائل ہیں اور یہ وہ مسائل ہیں جو برسوں سے اسی طرح موجود چلے آرہے ہیں اور علاقہ کے عوام کے لیے سوہان روح بن چکے ہیں ۔اس کے علاوہ یہاں کوئی بڑا ہسپتال اور لڑکیوں کے لیے کالج بھی نہیں ہے ۔چوری ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں اس اعتبار سے اسے جرائم پیشہ لوگوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے الیکشن کیلئے 94 درخواستیں وصول کی گئیں جن میں سے 44 جمع کروائی گئیں۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 149 کیلئے79 درخواستیں وصول کی گئیں اور51 جمع کروائی گئیں .اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ 150 کیلئے 68درخواستیں وصول کی گئیں اور 38جمع کروائی گئیں ۔
قومی اسمبلی کی نشست پر جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں ان میں نمایاں تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی، مسلم لیگ ق کے میاں منیر ، پیپلزپارٹی کے اورنگ زیب برکی ، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فرید احمدپراچہ اورمسلم لیگ ن کے بلال یاسین ،میاں مرغوب احمد شامل ہیں ۔دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کے بیرسٹر حماد اظہر،ناصر علی ، رانا محمد اشرف، محمد ایان سعید، عرفان مسعود، خواجہ سفیان ،حافظ محمد اعجازالحق، مہر محمدجہانگیر، مجید مہر، حافظ مسعود، بیگم شمیم، مہر اشتیاق، منظور علی بھٹی، طارق سرفراز ،ثوبیہ کمال، مظفر حسین شیخ، نعیم میر، ناہید سلطان ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، محمدشعیب خان نیازی اور سید امرحسن شامل ہیں۔
جبکہ پی پی 149 کے لیے نادر خان ، رانا مشہود احمد خان، مہر فیاض ، شاہد نوید ملک ، غزالہ رحمان، قاری نصیراﷲ خان، حبیب اﷲ ملک، رانا احمد خان، محمد امتیاز، ملک محمد آصف، پروفیسر محمد ابوبکر چوہدری ، رحمت اﷲ تونسوی، ایان حارث، حافظ فرحت عباس، شہزاد اکبر ، رضیہ انصاری ، میاں محمد عثمان، حافظ عبدالرحمان، محمد فیاض، یاسر خان نیازی ، شاہد منیر ملک، محمد علی بیگ ، ظفر حسین شیخِ میاں احمد واحد، حافظ محمد علی بیگ، ریاض عادل خان، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، محمد شعیب خان نیازی، ملک محمد جواد اور پی پی 150 میں مہر اشتیاق میاں محمد آصف، انور گوندل ، میاں منیر ، ثوبیہ کمال ، ذوالفقار خان، احمد دلشاد صدیق ، حاجی خلیل احمد بھٹی ،مہر محمد شفیع، جاوید اقبال ، میاں بشارت ، پیر مصطفیٰ حقانی ، سید محمد طارق اقبال ہمدانی ، محمد آصف ایان، حافظ اعجاز، محترمہ نرجس، خواجہ سفیان، مہر ناظم علی ، مشتاق احمد، محمد ارشاد ڈوگر ، امجد علی ، محمد اقبال ، علی عباس بخاری، سید ذیشان علی شاہ، ماجد حسین، شہزاد اسلم ، خواجہ طارق سرفراز، سید عادل عباس، عدنان خالد ، محمد شعیب نیازی اور ناہید سلطان بطور امیدوار سامنے آئے ہیں ۔تمام امیدواروں کے کاغذات جانچ پڑتال کے مرحلے میں ہیں۔ جو 5 اپریل تک مکمل ہوگی۔
اس علاقہ کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ماضی میں یہاں پر بیشتر سیاسی نمائندے اس حلقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ اپنی جماعت کے سائے تلے اس علاقے کو مفتوحہ علاقہ تصور کرتے تھے ۔2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاںمرغوب احمد نے اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی ۔انہوں نے اپنے قریبی حریف پیپلزپارٹی کے اورنگ زیب برکی کو شکست دی ۔ان انتخابات میں میاںمرغوب کو کل رجسٹرڈ ووٹوں 3,03,962 میں سے 72,227جب کہ اورنگزیب برکی کو 27,934 ووٹ ملے ۔دیگر امیدواروں میں سے مسلم لیگ ق کے میاں آصف کو 7,559 ووٹ ملے تھے ۔1993 ء اور 1997ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے ( متحدہ ) مسلم لیگ کے میاں منیر امیدوار تھے اور انہوںنے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی ۔
یہ حلقہ چونکہ زیادہ تر پسماندہ ، غریب اور نسبتاً کم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے اس لیے فطری طورپر یہاں کے لوگوں کا رجحان پیپلزپارٹی کی جانب ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔پیپلزپارٹی نے اس مرتبہ بھی اس حلقہ کے لیے سابقہ امیدوار اورنگزیب برکی کو ہی ٹکٹ دی ہے جو گزشتہ دو انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں تاہم ان کا اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ رابطہ و تعلق بدستور ہے۔
ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاںمرغوب احمد بظاہرزیادہ مضبوط پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئے کیونکہ ایک تو انہیں مسلم لیگ ن کی سرپرستی حاصل تھی اوردوسرے ان کی برادری نے بھی انہیں سپورٹ کیا تاہم حلقہ کے لوگ ان دونوں امیدواروں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں خصوصاً نوجوان نسل کو ان دونوں امیدواروں کی کارکردگی کے حوالے سے شکایات ہیں جس کا فائدہ حلقے کی تیسری قوت تحریک انصاف کے امیدوار اٹھا سکتے ہیں لیکن اس جماعت کی طرف سے بھی قومی اسمبلی کی اس نشست کے لیے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے جس بیرسٹر صاحبزادے میاں حماد اظہر کو نامزد کیا گیا ہے وہ بھی حلقہ کے لوگوں کے لیے اجنبی ہیں۔
اسی جماعت کے سینئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی یہاں سے بطور امیدوار کاغذات جمع کروارکھے ہیں ۔مسلم لیگ ق کے میاں منیر ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 121 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 150 سے امیدوار ہیں ۔993 1 اور1997 ء میں اس حلقہ سے بطور امیدوار قومی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔تب وہ متحدہ مسلم لیگ کے امیدوار تھے اب وہ مسلم لیگ ق کے امیدوار ہیں ۔دونوں مرتبہ انہوں نے اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھاری لیڈ سے شکست دی تھی ۔
اب بھی وہ بڑے پرآمید ہیں ۔تاہم اب ان کی جماعت کی قیادت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں مصروف ہے میاں منیر کے مطابق پیپلزپارٹی کے اورنگزیب برکی اور انہیں اس حلقہ سے ٹکٹ ملنے کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔اگر ان کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوئی تو دونوں کی جیت کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔صوبائی حلقوں میں ان کے ساتھ حبیب اﷲ بھٹی اور ارشاد ڈوگر پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں ۔
مسلم لیگ ہم خیال کے میاں آصف اسی حلقہ کے رہائشی اور فعال سیاستدان ہیں ۔اس کے علاوہ فرید احمد پراچہ بھی ماضی میں اس حلقہ سے 30,326 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں تب انہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حمایت بھی حاصل تھی ۔تاہم اس مرتبہ صورت حال کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے ۔ اگرچہ یہاں پر مسلم لیگ ن کو بھی کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی اس سے خاصے فاصلے پر ہے لیکن ان کے درمیان جوخلاء ہے اسے تحریک انصاف صرف اسی صورت پْر کرسکتی ہے اگر جماعت اسلامی اس کے ساتھ تعاون کرے اور فرید پراچہ اور حماد اظہر میں سے ایک ، دوسرے کے حق میں دستبردار ہو اور پھر مشترکہ انتخابی مہم چلائی جائے ۔
جماعت اسلامی کی قیادت اس حلقہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے ساتھ رابطے میں ہے ۔لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ خود کو تخت لاہور کی وارث قراردینے والی ن لیگ اس حلقے کو اب بھی تر نوالہ تصور کررہی ہے ، پیپلزپارٹی ابھی تیاریوں کے ان مراحل میں نہیں ہے جہاں کامیابی کی منزل نزدیک دکھائی دے سکتی ہو اور تحریک انصاف یہاں کی 30 فیصد نوجوان آبادی پر تکیہ کیے ہوئے ہے اور اس خوش فہمی میں ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہوجائے گی لیکن مکمل تیاری اور بھرپور ہوم ورک کے بغیر اس قسم کی خوش فہمیوں کے غبارے سے اکثر ہوا نکل جایا کرتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کی طرف سے اگرچہ اس حلقہ کے لیے واضح طورپر کسی امیدوار کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس جماعت کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اور سابق امیدوار پروفیسر ابوبکر چوہدری اس بار بھی صوبائی اسمبلی کے حلقہ 149 سے جماعت کے امیدوار ہیں اورایک عرصہ سے وہ ا س حلقہ میں کام بھی کر رہے ہیں ۔چونکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے تاحال امیدواروں کو فائنل نہیں کیا جاسکا اس لیے تمام امیدوار اپنے اپنے طورپر انتخابی مہم شروع کیے ہوئے ہیں اس لیے سردست پورے حلقہ میں انتخابی دھول سی اڑتی دکھائی دے رہی ہے امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آنے کے بعد ہی مطلع صاف اور یہاں کی سیاسی صورت حال واضح ہوسکے گی۔
یہاں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 149 اور پی پی 150 ہیں۔ شہر کا حصہ ہونے کے باوجود یہ شہر کی پسماندہ اور نظرانداز کی جانے والی آبادیوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں پر شہری اور دیہی زندگی کے مناظر جابجا دکھائی دیتے ہیں ۔زیادہ تر آبادی متوسط طبقہ اور غریب افراد پر مشتمل ہے لوگوں کی اکثریت ملازمت پیشہ ، دیہاڑی دار اور کاروباری طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔منشیات فروشی، تجاوزات اورگندہ نالہ یہاں کے بڑے مسائل ہیں اور یہ وہ مسائل ہیں جو برسوں سے اسی طرح موجود چلے آرہے ہیں اور علاقہ کے عوام کے لیے سوہان روح بن چکے ہیں ۔اس کے علاوہ یہاں کوئی بڑا ہسپتال اور لڑکیوں کے لیے کالج بھی نہیں ہے ۔چوری ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں اس اعتبار سے اسے جرائم پیشہ لوگوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے الیکشن کیلئے 94 درخواستیں وصول کی گئیں جن میں سے 44 جمع کروائی گئیں۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 149 کیلئے79 درخواستیں وصول کی گئیں اور51 جمع کروائی گئیں .اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ 150 کیلئے 68درخواستیں وصول کی گئیں اور 38جمع کروائی گئیں ۔
قومی اسمبلی کی نشست پر جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں ان میں نمایاں تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی، مسلم لیگ ق کے میاں منیر ، پیپلزپارٹی کے اورنگ زیب برکی ، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فرید احمدپراچہ اورمسلم لیگ ن کے بلال یاسین ،میاں مرغوب احمد شامل ہیں ۔دیگر امیدواروں میں تحریک انصاف کے بیرسٹر حماد اظہر،ناصر علی ، رانا محمد اشرف، محمد ایان سعید، عرفان مسعود، خواجہ سفیان ،حافظ محمد اعجازالحق، مہر محمدجہانگیر، مجید مہر، حافظ مسعود، بیگم شمیم، مہر اشتیاق، منظور علی بھٹی، طارق سرفراز ،ثوبیہ کمال، مظفر حسین شیخ، نعیم میر، ناہید سلطان ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، محمدشعیب خان نیازی اور سید امرحسن شامل ہیں۔
جبکہ پی پی 149 کے لیے نادر خان ، رانا مشہود احمد خان، مہر فیاض ، شاہد نوید ملک ، غزالہ رحمان، قاری نصیراﷲ خان، حبیب اﷲ ملک، رانا احمد خان، محمد امتیاز، ملک محمد آصف، پروفیسر محمد ابوبکر چوہدری ، رحمت اﷲ تونسوی، ایان حارث، حافظ فرحت عباس، شہزاد اکبر ، رضیہ انصاری ، میاں محمد عثمان، حافظ عبدالرحمان، محمد فیاض، یاسر خان نیازی ، شاہد منیر ملک، محمد علی بیگ ، ظفر حسین شیخِ میاں احمد واحد، حافظ محمد علی بیگ، ریاض عادل خان، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، محمد شعیب خان نیازی، ملک محمد جواد اور پی پی 150 میں مہر اشتیاق میاں محمد آصف، انور گوندل ، میاں منیر ، ثوبیہ کمال ، ذوالفقار خان، احمد دلشاد صدیق ، حاجی خلیل احمد بھٹی ،مہر محمد شفیع، جاوید اقبال ، میاں بشارت ، پیر مصطفیٰ حقانی ، سید محمد طارق اقبال ہمدانی ، محمد آصف ایان، حافظ اعجاز، محترمہ نرجس، خواجہ سفیان، مہر ناظم علی ، مشتاق احمد، محمد ارشاد ڈوگر ، امجد علی ، محمد اقبال ، علی عباس بخاری، سید ذیشان علی شاہ، ماجد حسین، شہزاد اسلم ، خواجہ طارق سرفراز، سید عادل عباس، عدنان خالد ، محمد شعیب نیازی اور ناہید سلطان بطور امیدوار سامنے آئے ہیں ۔تمام امیدواروں کے کاغذات جانچ پڑتال کے مرحلے میں ہیں۔ جو 5 اپریل تک مکمل ہوگی۔
اس علاقہ کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ماضی میں یہاں پر بیشتر سیاسی نمائندے اس حلقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ اپنی جماعت کے سائے تلے اس علاقے کو مفتوحہ علاقہ تصور کرتے تھے ۔2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاںمرغوب احمد نے اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی ۔انہوں نے اپنے قریبی حریف پیپلزپارٹی کے اورنگ زیب برکی کو شکست دی ۔ان انتخابات میں میاںمرغوب کو کل رجسٹرڈ ووٹوں 3,03,962 میں سے 72,227جب کہ اورنگزیب برکی کو 27,934 ووٹ ملے ۔دیگر امیدواروں میں سے مسلم لیگ ق کے میاں آصف کو 7,559 ووٹ ملے تھے ۔1993 ء اور 1997ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے ( متحدہ ) مسلم لیگ کے میاں منیر امیدوار تھے اور انہوںنے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی ۔
یہ حلقہ چونکہ زیادہ تر پسماندہ ، غریب اور نسبتاً کم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے اس لیے فطری طورپر یہاں کے لوگوں کا رجحان پیپلزپارٹی کی جانب ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔پیپلزپارٹی نے اس مرتبہ بھی اس حلقہ کے لیے سابقہ امیدوار اورنگزیب برکی کو ہی ٹکٹ دی ہے جو گزشتہ دو انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں تاہم ان کا اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ رابطہ و تعلق بدستور ہے۔
ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاںمرغوب احمد بظاہرزیادہ مضبوط پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئے کیونکہ ایک تو انہیں مسلم لیگ ن کی سرپرستی حاصل تھی اوردوسرے ان کی برادری نے بھی انہیں سپورٹ کیا تاہم حلقہ کے لوگ ان دونوں امیدواروں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں خصوصاً نوجوان نسل کو ان دونوں امیدواروں کی کارکردگی کے حوالے سے شکایات ہیں جس کا فائدہ حلقے کی تیسری قوت تحریک انصاف کے امیدوار اٹھا سکتے ہیں لیکن اس جماعت کی طرف سے بھی قومی اسمبلی کی اس نشست کے لیے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے جس بیرسٹر صاحبزادے میاں حماد اظہر کو نامزد کیا گیا ہے وہ بھی حلقہ کے لوگوں کے لیے اجنبی ہیں۔
اسی جماعت کے سینئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی یہاں سے بطور امیدوار کاغذات جمع کروارکھے ہیں ۔مسلم لیگ ق کے میاں منیر ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 121 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 150 سے امیدوار ہیں ۔993 1 اور1997 ء میں اس حلقہ سے بطور امیدوار قومی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔تب وہ متحدہ مسلم لیگ کے امیدوار تھے اب وہ مسلم لیگ ق کے امیدوار ہیں ۔دونوں مرتبہ انہوں نے اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھاری لیڈ سے شکست دی تھی ۔
اب بھی وہ بڑے پرآمید ہیں ۔تاہم اب ان کی جماعت کی قیادت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں مصروف ہے میاں منیر کے مطابق پیپلزپارٹی کے اورنگزیب برکی اور انہیں اس حلقہ سے ٹکٹ ملنے کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔اگر ان کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوئی تو دونوں کی جیت کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔صوبائی حلقوں میں ان کے ساتھ حبیب اﷲ بھٹی اور ارشاد ڈوگر پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں ۔
مسلم لیگ ہم خیال کے میاں آصف اسی حلقہ کے رہائشی اور فعال سیاستدان ہیں ۔اس کے علاوہ فرید احمد پراچہ بھی ماضی میں اس حلقہ سے 30,326 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں تب انہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حمایت بھی حاصل تھی ۔تاہم اس مرتبہ صورت حال کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے ۔ اگرچہ یہاں پر مسلم لیگ ن کو بھی کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی اس سے خاصے فاصلے پر ہے لیکن ان کے درمیان جوخلاء ہے اسے تحریک انصاف صرف اسی صورت پْر کرسکتی ہے اگر جماعت اسلامی اس کے ساتھ تعاون کرے اور فرید پراچہ اور حماد اظہر میں سے ایک ، دوسرے کے حق میں دستبردار ہو اور پھر مشترکہ انتخابی مہم چلائی جائے ۔
جماعت اسلامی کی قیادت اس حلقہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے ساتھ رابطے میں ہے ۔لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ خود کو تخت لاہور کی وارث قراردینے والی ن لیگ اس حلقے کو اب بھی تر نوالہ تصور کررہی ہے ، پیپلزپارٹی ابھی تیاریوں کے ان مراحل میں نہیں ہے جہاں کامیابی کی منزل نزدیک دکھائی دے سکتی ہو اور تحریک انصاف یہاں کی 30 فیصد نوجوان آبادی پر تکیہ کیے ہوئے ہے اور اس خوش فہمی میں ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہوجائے گی لیکن مکمل تیاری اور بھرپور ہوم ورک کے بغیر اس قسم کی خوش فہمیوں کے غبارے سے اکثر ہوا نکل جایا کرتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کی طرف سے اگرچہ اس حلقہ کے لیے واضح طورپر کسی امیدوار کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس جماعت کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اور سابق امیدوار پروفیسر ابوبکر چوہدری اس بار بھی صوبائی اسمبلی کے حلقہ 149 سے جماعت کے امیدوار ہیں اورایک عرصہ سے وہ ا س حلقہ میں کام بھی کر رہے ہیں ۔چونکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے تاحال امیدواروں کو فائنل نہیں کیا جاسکا اس لیے تمام امیدوار اپنے اپنے طورپر انتخابی مہم شروع کیے ہوئے ہیں اس لیے سردست پورے حلقہ میں انتخابی دھول سی اڑتی دکھائی دے رہی ہے امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آنے کے بعد ہی مطلع صاف اور یہاں کی سیاسی صورت حال واضح ہوسکے گی۔