سکھر NA199NA198 پیپلز پارٹی میں دھڑے بندی عروج پر پہنچ
نئے،پرانے سیاسی پہلوانوں نے اکھاڑے میں اتارنے سے قبل اپنی زندگی اورکامیابی کیلئے بکروں کا صدقہ دینا شروع کردیا ہے۔
سکھر سمیت گرد و نواح میں سیاسی دنگل کی تیاریاں اپنے آب و تاب پر ہیں۔
نئے، پرانے سیاسی پہلوانوں نے اکھاڑے میں اتارنے سے قبل اپنی زندگی اور کامیابی کیلئے بکروں کا صدقہ دینا شروع کردیا ہے۔ پرانے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کامیابی کے حصول کیلئے پیروں، مریدوں اور نامور درگاہوں پر دعا مانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ این اے 198اوراین اے199 سکھرشہراوراس کے مضافاتی علاقوں پرمشتمل قومی اسمبلی کے دوحلقے ہیں۔
2002ء سے2008ء تک ہونیوالے انتخابات اور اس میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کے نتائج کو دیکھیں تو 2002ء میں حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے بعد سکھر شہر کی نشست این اے 198بنی اس سیٹ پر سید خورشید شاہ نے ایک مرتبہ پھر 35229ووٹ حاصل کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے مولانا اسعد تھانوی نے 17230ووٹ حاصل کیے۔ فنکشنل لیگ کے عبدالقادر گھمرو نے 11043 ووٹ حاصل کیے۔ اور ایم کیو ایم کے سخی عبدالرزاق کھوسو نے 14945ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونیوالے 2008ء کے الیکشن میں سکھر اورروہڑی پرمشتمل حلقہ این اے 198 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار نعمان اسلام شیخ نے 74086 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ق کے امیدوار سید طاہر حسین شاہ نے 22854 ووٹ لے کر دوسری ، ن لیگ کے امیدوار مرحوم حافظ مسرور لطیف نے 4138 ووٹ حاصل کیے۔ مذکورہ الیکشن میں بھی ایم کیو ایم نے ق لیگ کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔اس حلقہ میں کل رجسٹرڈووٹوں کی تعداددولاکھ 65,679 تھی ،ایک لاکھ سات ہزار595 ووٹ کاسٹ ہوئے اورٹرن آؤٹ 41.41 فیصدرہاتھا۔2008 ء میں حلقہ این اے 199سے پی پی پی کے خورشید شاہ نے 93ہزار 394ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، ان کے مد مقابل پاکستان مسلم لیگ کے تاج محمد شیخ نے 34ہزار 304 ووٹ لیے۔
دونوں قومی حلقوں کے ذیلی صوبائی حلقوں میں 2002 ء میں حلقہ بندیاں تبدیل ہونے کے بعد پی ایس۔1 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر نصرا للہ بلوچ نے 15848ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم کے محمود خان یوسفی نے 12913ووٹ حاصل کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عبدالمتین بندھانی نے 10434ووٹ حاصل کیے۔
پی ایس ٹو پر پی پی پی کے حاجی انور خان مہر نے 22ہزار 756ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مد مقابل متحدہ مجلس عمل پاکستان کے میاں غلام رسول نے 8ہزار 894، متحدہ قومی موومنٹ کے نثار جتوئی نے 4ہزار 454ووٹ لیے۔ پی ایس تھری سے پی پی کے جام سیف اللہ دھاریجو نے 19 ہزار 891 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، مسلم لیگ فنکشنل کے سردار حاجی خان چاچڑ نے 16ہزار 393ووٹ لیے۔ پی ایس 4 سے پی پی پی کے سید جاوید شاہ نے 25ہزار 923ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، انکے مد مقابل نیشنل الائنس کے محمد علی شیخ نے 24ہزار 117ووٹ لیے۔
2008ء کے الیکشن میں پی ایس 1سے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ نے 32942ووٹ لیکر دوبارہ کامیابی حاصل کی اور ایم کیو ایم کے امیدوار سعید اقبال نے 21382ووٹ حاصل کیے۔ آزاد امیدوار مولانا اسعد تھانوی نے 2923ووٹ حاصل کیے۔پی ایس ٹو سکھر سے پی پی پی کے حاجی انور خان مہر نے 44ہزار 862، متحدہ مجلس عمل کے عبدالغنی کھوسو نے 10ہزار 207، پی ایس تھری سے پی پی پی کے جام سیف اللہ دھاریجو نے ایک مرتبہ پھر 40ہزار 583ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، مد مقابل مسلم لیگ ن کے سردار حاجی خان چاچڑ 15ہزار 597ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، پی ایس 4 سے پی پی پی کے سید جاوید علی شاہ نے 41ہزار 132ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) کے غلام شاہ مردان عرف زاہد حسین شاہ نے 9ہزار 70ووٹ لیکر دوسری پوزیشن لی۔
اب 2013 ء کے انتخابات میں سکھر شہر کی صوبائی نشست پی ایس 1پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اپنے سیاسی پتوں کو انتہائی احتیاط سے استعمال کر رہی ہیں۔ سیاست میں دیرپا نتائج اور شہری نشست پر کنٹرول کرنے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے تمام ذمہ داران کو نظر انداز کرتے ہوئے سابق رکن صوبائی اسمبلی سلیم بندھانی اور اشفاق منگی کو سیاسی اننگز شروع کرنے کیلئے پیڈ کرادیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی پارلیمانی بورڈ کی جانب سے سکھر ریجن میں ایک عرصے سے سیاست کی حکمرانی کا تاج پہننے والے سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہونے، پی ایس 1سے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ، پی ایس4سے خورشید شاہ کے بھتیجے سید اویس قادر شاہ کو ٹکٹوں میں نظر انداز کرنے کے بعد سیاست کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔
ضلع سکھر کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدواروں کو منتخب کرنے کے حوالے سے سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہونے سے سید خورشید احمد شاہ انتہائی نالاں نظر آتے ہیں۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ کا پلہ انتہائی وزنی نظر آتا ہے۔ سید خورشید احمد شاہ کی پارلیمانی بورڈ سے ناراضگی، ڈاکٹر نصراللہ بلوچ اور اویس قادر شاہ کو نظر انداز کیے جانے کے بعد پیپلزپارٹی میں دھڑے بندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ پارلیمانی بورڈ کی جانب سے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی نشست پر امیدواروں کے نام اعلان کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کے جیالوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ 3 دہائیوں کے بعد سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے اور انتہائی منفی اثرات 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ پارٹی بھی کئی حصوں میں بٹی نظر آرہی ہے۔ ایک جانب 2012ء میں مہر گروپ سے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سید ناصر حسین شاہ، تاج محمد شیخ، محمد اسلم شیخ، جبکہ سینیٹر اسلام الدین شیخ، سابق رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کے دھڑے الگ الگ کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے حامی پی پی کارکنوں نے ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ اور خورشید شاہ کے بھتیجے سید اویس قادر شاہ کو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کیخلاف علی واہن ٹول پلازہ کے قریب دھرنا دیکر شدید احتجاج کیا، مشتعل کارکنوں نے قومی شاہراہ پر ٹائروں کو آگ لگاکر سینیٹر اسلام الدین شیخ کیخلاف شدید نعرے بازی کی، دو گھنٹے تک جاری احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہ پر سندھ اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ٹریفک بند ہوگئی اور سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔
اس موقع پر پی پی رہنماؤں نبی بخش جسکانی، گل حسن ہالیپوٹو، سید عنایت شاہ، شرف دین شنبانی نے کہاکہ اویس مظفر ٹپی کی سفارش پر ضلع سکھر کی صوبائی نشستوں پر ایسے افراد کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو ماضی میں پی پی کیخلاف سازشیں کرتے تھے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے مظاہرین سے مذاکرات کرکے احتجاج ختم کرایا۔ اس موقع پر محمد عالم شیخ، ضمیر احمد شیخ، علی مرداں، قادر بخش چھجن اور منظور برڑو نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ محمد اسلم شیخ کے خاندان نے پیپلز پارٹی کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں، سابق وفاقی وزیر اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دلانے کیلئے پارٹی میں انتشار پھیلارہے ہیں، پی ایس 4پر محمد اسلم شیخ کی کامیابی یقینی ہے، وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے رہنما اپنے مفادات کی خاطر پارٹی کو تباہ نہ کریں۔
سکھر شہر کی نشست پی ایس 1پر پیپلزپارٹی کی جانب سے نظر انداز کیے جانیوالے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ نے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ضلع کی قومی اسمبلی کی 2، صوبائی اسمبلی کی 4نشستوں پر 3درجنوں سے زائد ذمہ داران کو سیاسی میدان میں اتارا ہے تاکہ عام انتخابات میں سیاسی مخالفین کو مشکل وقت دیا جاسکے۔ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور جے یو آئی کی تنظیموں کی تمام نظریں صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ 198پی ایس 1اور 2پر مرکوز ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اتحاد کر کے یہ سیٹیں حاصل کی جائیں۔
نئے، پرانے سیاسی پہلوانوں نے اکھاڑے میں اتارنے سے قبل اپنی زندگی اور کامیابی کیلئے بکروں کا صدقہ دینا شروع کردیا ہے۔ پرانے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کامیابی کے حصول کیلئے پیروں، مریدوں اور نامور درگاہوں پر دعا مانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ این اے 198اوراین اے199 سکھرشہراوراس کے مضافاتی علاقوں پرمشتمل قومی اسمبلی کے دوحلقے ہیں۔
2002ء سے2008ء تک ہونیوالے انتخابات اور اس میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کے نتائج کو دیکھیں تو 2002ء میں حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے بعد سکھر شہر کی نشست این اے 198بنی اس سیٹ پر سید خورشید شاہ نے ایک مرتبہ پھر 35229ووٹ حاصل کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے مولانا اسعد تھانوی نے 17230ووٹ حاصل کیے۔ فنکشنل لیگ کے عبدالقادر گھمرو نے 11043 ووٹ حاصل کیے۔ اور ایم کیو ایم کے سخی عبدالرزاق کھوسو نے 14945ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونیوالے 2008ء کے الیکشن میں سکھر اورروہڑی پرمشتمل حلقہ این اے 198 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار نعمان اسلام شیخ نے 74086 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ق کے امیدوار سید طاہر حسین شاہ نے 22854 ووٹ لے کر دوسری ، ن لیگ کے امیدوار مرحوم حافظ مسرور لطیف نے 4138 ووٹ حاصل کیے۔ مذکورہ الیکشن میں بھی ایم کیو ایم نے ق لیگ کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔اس حلقہ میں کل رجسٹرڈووٹوں کی تعداددولاکھ 65,679 تھی ،ایک لاکھ سات ہزار595 ووٹ کاسٹ ہوئے اورٹرن آؤٹ 41.41 فیصدرہاتھا۔2008 ء میں حلقہ این اے 199سے پی پی پی کے خورشید شاہ نے 93ہزار 394ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، ان کے مد مقابل پاکستان مسلم لیگ کے تاج محمد شیخ نے 34ہزار 304 ووٹ لیے۔
دونوں قومی حلقوں کے ذیلی صوبائی حلقوں میں 2002 ء میں حلقہ بندیاں تبدیل ہونے کے بعد پی ایس۔1 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر نصرا للہ بلوچ نے 15848ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم کے محمود خان یوسفی نے 12913ووٹ حاصل کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عبدالمتین بندھانی نے 10434ووٹ حاصل کیے۔
پی ایس ٹو پر پی پی پی کے حاجی انور خان مہر نے 22ہزار 756ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مد مقابل متحدہ مجلس عمل پاکستان کے میاں غلام رسول نے 8ہزار 894، متحدہ قومی موومنٹ کے نثار جتوئی نے 4ہزار 454ووٹ لیے۔ پی ایس تھری سے پی پی کے جام سیف اللہ دھاریجو نے 19 ہزار 891 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، مسلم لیگ فنکشنل کے سردار حاجی خان چاچڑ نے 16ہزار 393ووٹ لیے۔ پی ایس 4 سے پی پی پی کے سید جاوید شاہ نے 25ہزار 923ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، انکے مد مقابل نیشنل الائنس کے محمد علی شیخ نے 24ہزار 117ووٹ لیے۔
2008ء کے الیکشن میں پی ایس 1سے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ نے 32942ووٹ لیکر دوبارہ کامیابی حاصل کی اور ایم کیو ایم کے امیدوار سعید اقبال نے 21382ووٹ حاصل کیے۔ آزاد امیدوار مولانا اسعد تھانوی نے 2923ووٹ حاصل کیے۔پی ایس ٹو سکھر سے پی پی پی کے حاجی انور خان مہر نے 44ہزار 862، متحدہ مجلس عمل کے عبدالغنی کھوسو نے 10ہزار 207، پی ایس تھری سے پی پی پی کے جام سیف اللہ دھاریجو نے ایک مرتبہ پھر 40ہزار 583ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، مد مقابل مسلم لیگ ن کے سردار حاجی خان چاچڑ 15ہزار 597ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، پی ایس 4 سے پی پی پی کے سید جاوید علی شاہ نے 41ہزار 132ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) کے غلام شاہ مردان عرف زاہد حسین شاہ نے 9ہزار 70ووٹ لیکر دوسری پوزیشن لی۔
اب 2013 ء کے انتخابات میں سکھر شہر کی صوبائی نشست پی ایس 1پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اپنے سیاسی پتوں کو انتہائی احتیاط سے استعمال کر رہی ہیں۔ سیاست میں دیرپا نتائج اور شہری نشست پر کنٹرول کرنے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے تمام ذمہ داران کو نظر انداز کرتے ہوئے سابق رکن صوبائی اسمبلی سلیم بندھانی اور اشفاق منگی کو سیاسی اننگز شروع کرنے کیلئے پیڈ کرادیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی پارلیمانی بورڈ کی جانب سے سکھر ریجن میں ایک عرصے سے سیاست کی حکمرانی کا تاج پہننے والے سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہونے، پی ایس 1سے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ، پی ایس4سے خورشید شاہ کے بھتیجے سید اویس قادر شاہ کو ٹکٹوں میں نظر انداز کرنے کے بعد سیاست کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔
ضلع سکھر کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدواروں کو منتخب کرنے کے حوالے سے سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہونے سے سید خورشید احمد شاہ انتہائی نالاں نظر آتے ہیں۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ کا پلہ انتہائی وزنی نظر آتا ہے۔ سید خورشید احمد شاہ کی پارلیمانی بورڈ سے ناراضگی، ڈاکٹر نصراللہ بلوچ اور اویس قادر شاہ کو نظر انداز کیے جانے کے بعد پیپلزپارٹی میں دھڑے بندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ پارلیمانی بورڈ کی جانب سے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی نشست پر امیدواروں کے نام اعلان کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کے جیالوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ 3 دہائیوں کے بعد سید خورشید احمد شاہ کی تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے اور انتہائی منفی اثرات 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ پارٹی بھی کئی حصوں میں بٹی نظر آرہی ہے۔ ایک جانب 2012ء میں مہر گروپ سے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سید ناصر حسین شاہ، تاج محمد شیخ، محمد اسلم شیخ، جبکہ سینیٹر اسلام الدین شیخ، سابق رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ کے دھڑے الگ الگ کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے حامی پی پی کارکنوں نے ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ اور خورشید شاہ کے بھتیجے سید اویس قادر شاہ کو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کیخلاف علی واہن ٹول پلازہ کے قریب دھرنا دیکر شدید احتجاج کیا، مشتعل کارکنوں نے قومی شاہراہ پر ٹائروں کو آگ لگاکر سینیٹر اسلام الدین شیخ کیخلاف شدید نعرے بازی کی، دو گھنٹے تک جاری احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہ پر سندھ اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ٹریفک بند ہوگئی اور سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔
اس موقع پر پی پی رہنماؤں نبی بخش جسکانی، گل حسن ہالیپوٹو، سید عنایت شاہ، شرف دین شنبانی نے کہاکہ اویس مظفر ٹپی کی سفارش پر ضلع سکھر کی صوبائی نشستوں پر ایسے افراد کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو ماضی میں پی پی کیخلاف سازشیں کرتے تھے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے مظاہرین سے مذاکرات کرکے احتجاج ختم کرایا۔ اس موقع پر محمد عالم شیخ، ضمیر احمد شیخ، علی مرداں، قادر بخش چھجن اور منظور برڑو نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ محمد اسلم شیخ کے خاندان نے پیپلز پارٹی کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں، سابق وفاقی وزیر اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دلانے کیلئے پارٹی میں انتشار پھیلارہے ہیں، پی ایس 4پر محمد اسلم شیخ کی کامیابی یقینی ہے، وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے رہنما اپنے مفادات کی خاطر پارٹی کو تباہ نہ کریں۔
سکھر شہر کی نشست پی ایس 1پر پیپلزپارٹی کی جانب سے نظر انداز کیے جانیوالے ڈاکٹر نصراللہ بلوچ نے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ضلع کی قومی اسمبلی کی 2، صوبائی اسمبلی کی 4نشستوں پر 3درجنوں سے زائد ذمہ داران کو سیاسی میدان میں اتارا ہے تاکہ عام انتخابات میں سیاسی مخالفین کو مشکل وقت دیا جاسکے۔ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور جے یو آئی کی تنظیموں کی تمام نظریں صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ 198پی ایس 1اور 2پر مرکوز ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اتحاد کر کے یہ سیٹیں حاصل کی جائیں۔