’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘ اور جنرل الیکشن
نئی حلقہ بندیاں بھی تنازعات کا شکار ہیں، ہمیں ان تمام مسائل کو حل کرکے الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے اقدام کرنے ہیں۔
ISLAMABAD:
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان آج کل 24گھنٹے کی ''مشاورت'' چل رہی ہے ۔ زرداری صاحب محض 20سینیٹرز رکھنے کے باوجود اپنا چیئرمین لانے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں ۔ ایک عرصے بعد ان کے چہرے پر اس قدر مسکراہٹ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے خزانے کی کنجی اُن کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
بلاول بھی اس قدر خوش و خرم نظر آرہے ہیں جیسے مستقبل کی قانون سازی وہ اپنی مرضی کے مطابق کرائیں گے اور پھر اس ملک سے سونے کی کانیں دریافت ہو جائیں گی، دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گے اور کہیں نہ کہیں سے تیل کے کنویں بھی برآمد کر لیے جائیں گے۔ ادھر سب کے ''دوست'' مولانا فضل الرحمن 4سیٹوں کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ''مشاورت '' کرنے میں پورا پورا دن خرچ کر رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق سینیٹ کے ان 52افراد کے انتخاب سے لے کر چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب تک کم و بیش 25 سے 30ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس دوران تمام جماعتیں ایک دوسرے پر''ہارس ٹریڈنگ ''کا الزام لگا رہی ہیں مگر مجال ہے کوئی سنجیدہ ہو کہ چلو اس ناسور کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جائے۔ نوازشریف کا نیا '' بیانیہ''آ چکا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کمیشن بنایا جائے، مسلم لیگ ن ہارس ٹریڈنگ کے سخت خلاف ہے، ہماری پارٹی کبھی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہیں ہوئی، ہم سمجھتے ہیں اس حوالے سے کارروائی ہونی چاہیے حالانکہ مسلم لیگ ن نے ہی 1985ء سے ''ہارس ٹریڈنگ '' کی بنیا درکھی تھی ۔
آگے چلنے سے پہلے ''ہارس ٹریڈنگ'' کی اصطلاح پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک ایسی علامت ہے جسے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہونے والی بد دیانتی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر اس کا عمومی استعمال پارلیمنٹ میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوںکے لیے محدود کر دیا گیا ہے۔ بد دیانتی کے لیے اس اصطلاح کا استعمال امریکا میں اس وقت شروع ہوا جب وہاں انیسویں صدی میں گھوڑوں کی تجارت اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت وہاں گھوڑوں کی تجارت میں جھوٹ کا استعمال اس قدر تھا کہ کسی کا جھوٹ بولے بغیر گھوڑے بیچنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
1895ء کے دوران جب امریکی پارلیمنٹ میں اخباروں کے اپنی سرکولیشن کے متعلق جھوٹے دعووں کے خلاف قانون زیر بحث آیا تو اس مجوزہ قانون پر ''نیو یارک ٹائمز'' کے ادارتی صفحہ پر شایع ہونے والے ایک مضمون میں عجیب و غریب تنقید کی گئی۔
مذکورہ مضمون میں اس موقف کے تحت تنقید کی گئی کہ اگر پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے جھوٹ پر پابندی عائد کر دی تو امریکا میں گھوڑوں کی تجارت ممکن نہیں رہے گی اور اگر گھوڑوں کی تجارت ختم ہوئی تو ان کے ذریعے کی جانے والی ضروریات زندگی کی تجارت بھی ختم ہو جائے گی جس کے بعد ملک شدید قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ اس مضمون کا بہت مذاق اڑایا گیا مگر اس تحریر کا عمومی اثر یہ ہوا کہ وہاں ''ہارس ٹریڈنگ'' کا استعمال جھوٹ اور بد اعتمادی کے متبادل کے طور پر ہونا شروع ہو گیا۔
سینیٹ کے حالیہ انتخاب کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سب سے زیادہ ''ہارس ٹریڈنگ'' کے الزامات کی زد میں ہیں۔ آصف علی زرداری پر الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جن کے 2008ء تا 2013ء دور حکومت میں سینیٹ کے دو انتخابات ہوئے ۔ انھوں نے یہ کوشش کی تھی کہ جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ کے بجائے ہر جماعت کو سینیٹ میں نمایندگی کا اتنا حق ملنا چاہیے جتنے اس کے ممبران اسمبلیوں میں موجود ہیں۔
وہ کسی حد تک اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آصف زرداری نے فاٹا سے منتخب اپنے ایم این اے اخونزادہ چٹان کو مارچ 2012ء کے سینیٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے اس لیے منع کر دیا تھا کیونکہ اس وقت الزام لگ رہا تھا کہ فاٹا کے 12 ممبران قومی اسمبلی 4 سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں۔ جب آصف علی زرداری ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کوششیں کر رہے تھے، وہ اس وقت بھی سب سے زیادہ الزامات کی زد میں تھے اور آج بھی انھیں ہی تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ان کی کوششوں کے باوجود سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ رک سکی تھی اور نہ ہی حالیہ سینیٹ الیکشن کو اس علت سے پاک قرار دیا جا سکتا ہے۔
2013ء کے الیکشن کے بعد نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو عمران خان نے دھاندلی کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا، دھاندلی کے خلاف تحریک دھرنوں میں تبدیل ہوئی، چار حلقے کھولنے کے لیے پورے ملک کو بند کرنا پڑا، سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی، ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا، پوری دنیا میں سب کو علم ہوگیا کہ یہاں دھاندلی کے خلاف شور مچا ہوا ہے۔
عمران خان کو مخالفین کی طرف سے خاصی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن کیا ان ہنگاموں کے بعد ہمارے پارلیمنٹرین نے کچھ کیا؟جب ہم ان 52اراکین کے انتخاب میں اس قدر دھاندلی اور روپے پیسے کا استعمال دیکھ اور سن رہے ہیں تو عام جنرل الیکشن کا کیا حال ہوگا۔
خیر سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد عوام یہ اخذ کر رہے ہیں کہ سیاستدانوں نے دھاندلی پر قابو پانے کے لیے، ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے، ملک کے اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے، ملک میں منصفانہ طرز زندگی کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور اگر کچھ نہیں کیا تو ہم پھر یہ کیوں نہ کہیں کہ یہ اسمبلیاں عوام کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔لہٰذاہمیں حالیہ آنکھوں دیکھی ہارس ٹریڈنگ پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگلا جنرل الیکشن سر پر آچکا ہے، نئی حلقہ بندیاں بھی تنازعات کا شکار ہیں، ہمیں ان تمام مسائل کو حل کرکے الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے اقدام کرنے ہیں ورنہ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوگی جس کی آواز 2023ء تک سنائی دے گی اور ہم تب بھی کچھ نہیں کر سکیں گے!!!