تاریخ کے اوراق سے
محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
کشمیر کے لیڈر فاروق عبداللہ کے اس بیان میں کسی قدر سچائی موجود ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ محمد علی جناح تقسیم ہند کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل ذمے دار ہیں جب کہ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔
میں اس دور کا عینی شاہد ہوں اور میں ان واقعات کو کس طرح دیکھتا ہوں، جناح صاحب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے جیسا کہ اس زمانے کی کانگریس کی چوٹی کی لیڈر سروجنی نائیڈو کہتی تھیں کہ قائداعظم کو تقسیم کی طرف دھکیلا گیا جب کہ انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہاجاتا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ 1940ء کی دہائی کے اوائل میں ہندو مسلم اختلافات اس قدر شدت اختیار کر گئے تھے کہ تقسیم کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔
وہ لوگ جو ابھی تک تقسیم پر افسوس ظاہر کرتے ہیں ان کے لیے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر برطانوی حکومت 1942ء میں مقامی عوام کو زیادہ اختیارات دینے پر تیار ہو جاتی جب سر سٹیفورڈ کرپس کو اس مقصد کے لیے انڈیا بھیجا گیا تھا۔
کانگریس پارٹی اگر 1946ء کے کیبنٹ مشن کی تجاویز کو قبول کر لیتی جو مرکز میں محدود اختیارات دینے کی حامی تھی باقی کے تمام اختیارات ریاستوں کو دیدئے جاتے۔ محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تقسیم سے مسلمانوں کا مقصد پورا ہو گیا؟ یہ میں نہیں جانتا۔ پاکستان میں لفظ ''تقسیم'' کہنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
14 اگست کو وہ برطانوی حکومت سے آزادی نہیں مناتے بلکہ ہندوؤں کی ممکنہ حکومت سے آزادی کی خوشی مناتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ اس ملک میں گیا ہوں جہاں میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ کم از کم انھیں کوئی ایسی جگہ مل گئی ہے جہاں وہ ہندوؤں کی بالادستی سے آزاد ہو کر محفوظ ہوگئے ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ مسلمان بڑے خسارے میں رہے ہیں کیونکہ اب وہ تین ملکوں میں منقسم ہو چکے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش۔ آپ ذرا ان کے ووٹوں کی اس قدر بھاری تعداد کے حوالے سے ان کے اثر و رسوخ کے بارے میں تصور کریں کہ متحدہ ہندوستان میں ان کی کتنی بڑی طاقت ہوتی۔ کیونکہ ان کی تعداد مجموعی آبادی کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہوتی۔ میرے نزدیک مذہب کے نام پر تقسیم اچھی بات نہیں کیونکہ اس طرح سے دونوں اطراف میں دشمنی پیدا ہوتی ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔
دونوں ملکوں میں پہلے ہی 1965ء اور 1971ء میں درجنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے پر غراتے رہتے ہیں اور عوام کو امن سے رہنے نہیں دے رہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو برصغیر کے دوبارہ متحد ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن اتنا ضرور سوچتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ڈر، خوف اور عدم اعتماد کی بلند دیواریں ازخود منہدم ہو جائیں گی اور برصغیر کے عوام اپنی الگ شناخت چھوڑے بغیر باہمی طور پر مشترکہ بہتری کے لیے مل جل کر کام کرنے لگیں گے۔ اور اس سے ایسا دور شروع ہو جائے گا جس کے ثمرات کے بارے میں ان کا خواب و خیال بھی نہیں۔
یہ وہ یقین ہے جس کو میں اس دن سے اپنے دل میں پال رہا ہوں جب سے میں نے 70 سال پہلے اپنا آبائی شہر سیالکوٹ چھوڑا جو پاکستان میں رہ گیا ہے۔ جس طرح محاورہ ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اسی طرح میں اپنے اس امید افزا خیال کے سہارے زندہ ہوں اور اس تمام نفرت، دشمنی کو برداشت کر رہا ہوں جس نے پورے برصغیر کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔
محمد علی جناح اس لاء کالج میں آئے جہاں میں فائنل ایئر میں تھا۔ انھوں نے اپنی اسی روایتی سوچ کا اظہار کیا کہ ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں اور اگر ان کو الگ کر دیا جائے تو دونوں بہت خوش ہوں گے اور خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔
ایک ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہو گی اور دوسرے میں مسلمانوں کی۔ مجھے یہ نہیں پتہ کہ وہ دونوں ملکوں کو مذہبی بنیاد پر کیوں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ برطانوی حکومت کے جانے کے بعد کیا ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے گلے کی طرف نہیں جھپٹیں گے لیکن ان کا اندازہ درست ثابت نہیں ہوا۔ عدم اعتماد اور دشمنی کی وجہ سے دونوں کو بالجبر گھر چھوڑنا پڑا لیکن ان کے دل وہیں رہ گئے۔ ان کو امید تھی کہ جب یہ ہنگامہ سرد ہو گا تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ ہندو اور سکھ مغربی پنجاب سے جب کہ مسلمان مشرقی پنجاب سے چلے گئے۔
اس موقع پر مذہبی بنیادوں پر خاصی قتل و غارت ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق کم از کم 10 لاکھ لوگوں کی جانیں ماری گئیں۔ میں نے لندن میں لارڈ ریڈ کلف سے بات کرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے کس بنیاد پر سرحدیں بنائیں لیکن وہ تقسیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ انھوں نے تقسیم کے لیے دی جانے والی 40,000 روپے کی فیس وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس قدر قتل و غارت کی وجہ سے ان کی روح پر جو زخم لگے ہیں وہ مندمل نہیں ہو سکتے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے لوگوں نے ایک دوسرے کی قتل و غارت کیوں کی۔ اس کے لیے تقسیم کے ذمے دار کا تعین کرنے کی کوشش بالکل بے سود ہے۔ ہاں علمی سطح پر اس نکتے پر ضرور غور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اسلامی ملک کے طور پر محروف ہوا، بھارت نے سیکولرازم اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن ہندو توا غالب آگیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور چونکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے وہ ہندوتوا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھارت کے اولین پانچ عشروں کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس زمانے میں سیکولر ازم کے لیے جدوجہد کی جا رہی تھی لیکن آج آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے ہاتھوں میں ساری طاقت ہے۔
اس بات کے باوجود کہ بھارت کا آئین سیکولر ہے اور جو قوانین بنائے گئے ہیں وہ اسی کی روشنی میں بنے ہیں۔ فاروق عبداللہ کو نہرو اور پٹیل کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ انھوں نے تو اقتدار اگلی نسل کے سپرد کر دیا تھا وہ چاہتی تو حالات کا دھارا بدل سکتے تھے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
میں اس دور کا عینی شاہد ہوں اور میں ان واقعات کو کس طرح دیکھتا ہوں، جناح صاحب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے جیسا کہ اس زمانے کی کانگریس کی چوٹی کی لیڈر سروجنی نائیڈو کہتی تھیں کہ قائداعظم کو تقسیم کی طرف دھکیلا گیا جب کہ انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہاجاتا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ 1940ء کی دہائی کے اوائل میں ہندو مسلم اختلافات اس قدر شدت اختیار کر گئے تھے کہ تقسیم کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔
وہ لوگ جو ابھی تک تقسیم پر افسوس ظاہر کرتے ہیں ان کے لیے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر برطانوی حکومت 1942ء میں مقامی عوام کو زیادہ اختیارات دینے پر تیار ہو جاتی جب سر سٹیفورڈ کرپس کو اس مقصد کے لیے انڈیا بھیجا گیا تھا۔
کانگریس پارٹی اگر 1946ء کے کیبنٹ مشن کی تجاویز کو قبول کر لیتی جو مرکز میں محدود اختیارات دینے کی حامی تھی باقی کے تمام اختیارات ریاستوں کو دیدئے جاتے۔ محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تقسیم سے مسلمانوں کا مقصد پورا ہو گیا؟ یہ میں نہیں جانتا۔ پاکستان میں لفظ ''تقسیم'' کہنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
14 اگست کو وہ برطانوی حکومت سے آزادی نہیں مناتے بلکہ ہندوؤں کی ممکنہ حکومت سے آزادی کی خوشی مناتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ اس ملک میں گیا ہوں جہاں میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ کم از کم انھیں کوئی ایسی جگہ مل گئی ہے جہاں وہ ہندوؤں کی بالادستی سے آزاد ہو کر محفوظ ہوگئے ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ مسلمان بڑے خسارے میں رہے ہیں کیونکہ اب وہ تین ملکوں میں منقسم ہو چکے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش۔ آپ ذرا ان کے ووٹوں کی اس قدر بھاری تعداد کے حوالے سے ان کے اثر و رسوخ کے بارے میں تصور کریں کہ متحدہ ہندوستان میں ان کی کتنی بڑی طاقت ہوتی۔ کیونکہ ان کی تعداد مجموعی آبادی کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہوتی۔ میرے نزدیک مذہب کے نام پر تقسیم اچھی بات نہیں کیونکہ اس طرح سے دونوں اطراف میں دشمنی پیدا ہوتی ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔
دونوں ملکوں میں پہلے ہی 1965ء اور 1971ء میں درجنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے پر غراتے رہتے ہیں اور عوام کو امن سے رہنے نہیں دے رہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو برصغیر کے دوبارہ متحد ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن اتنا ضرور سوچتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ڈر، خوف اور عدم اعتماد کی بلند دیواریں ازخود منہدم ہو جائیں گی اور برصغیر کے عوام اپنی الگ شناخت چھوڑے بغیر باہمی طور پر مشترکہ بہتری کے لیے مل جل کر کام کرنے لگیں گے۔ اور اس سے ایسا دور شروع ہو جائے گا جس کے ثمرات کے بارے میں ان کا خواب و خیال بھی نہیں۔
یہ وہ یقین ہے جس کو میں اس دن سے اپنے دل میں پال رہا ہوں جب سے میں نے 70 سال پہلے اپنا آبائی شہر سیالکوٹ چھوڑا جو پاکستان میں رہ گیا ہے۔ جس طرح محاورہ ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اسی طرح میں اپنے اس امید افزا خیال کے سہارے زندہ ہوں اور اس تمام نفرت، دشمنی کو برداشت کر رہا ہوں جس نے پورے برصغیر کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔
محمد علی جناح اس لاء کالج میں آئے جہاں میں فائنل ایئر میں تھا۔ انھوں نے اپنی اسی روایتی سوچ کا اظہار کیا کہ ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں اور اگر ان کو الگ کر دیا جائے تو دونوں بہت خوش ہوں گے اور خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔
ایک ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہو گی اور دوسرے میں مسلمانوں کی۔ مجھے یہ نہیں پتہ کہ وہ دونوں ملکوں کو مذہبی بنیاد پر کیوں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ برطانوی حکومت کے جانے کے بعد کیا ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے گلے کی طرف نہیں جھپٹیں گے لیکن ان کا اندازہ درست ثابت نہیں ہوا۔ عدم اعتماد اور دشمنی کی وجہ سے دونوں کو بالجبر گھر چھوڑنا پڑا لیکن ان کے دل وہیں رہ گئے۔ ان کو امید تھی کہ جب یہ ہنگامہ سرد ہو گا تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ ہندو اور سکھ مغربی پنجاب سے جب کہ مسلمان مشرقی پنجاب سے چلے گئے۔
اس موقع پر مذہبی بنیادوں پر خاصی قتل و غارت ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق کم از کم 10 لاکھ لوگوں کی جانیں ماری گئیں۔ میں نے لندن میں لارڈ ریڈ کلف سے بات کرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے کس بنیاد پر سرحدیں بنائیں لیکن وہ تقسیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ انھوں نے تقسیم کے لیے دی جانے والی 40,000 روپے کی فیس وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس قدر قتل و غارت کی وجہ سے ان کی روح پر جو زخم لگے ہیں وہ مندمل نہیں ہو سکتے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے لوگوں نے ایک دوسرے کی قتل و غارت کیوں کی۔ اس کے لیے تقسیم کے ذمے دار کا تعین کرنے کی کوشش بالکل بے سود ہے۔ ہاں علمی سطح پر اس نکتے پر ضرور غور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اسلامی ملک کے طور پر محروف ہوا، بھارت نے سیکولرازم اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن ہندو توا غالب آگیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور چونکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے وہ ہندوتوا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھارت کے اولین پانچ عشروں کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس زمانے میں سیکولر ازم کے لیے جدوجہد کی جا رہی تھی لیکن آج آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کے ہاتھوں میں ساری طاقت ہے۔
اس بات کے باوجود کہ بھارت کا آئین سیکولر ہے اور جو قوانین بنائے گئے ہیں وہ اسی کی روشنی میں بنے ہیں۔ فاروق عبداللہ کو نہرو اور پٹیل کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ انھوں نے تو اقتدار اگلی نسل کے سپرد کر دیا تھا وہ چاہتی تو حالات کا دھارا بدل سکتے تھے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)