دو وقت کی روٹی اور صاف پانی
موجودہ چیف جسٹس نے کوئی غیر عوامی مطالبہ نہیں دہرایا۔
یہ کسی سائل کی آواز نہیں بلکہ ملک کے سب سے طاقتور انصاف پر عمل کرانے والے ادارے کے روح رواں جس کو انگریزی زبان میں چیف جسٹس کہا جاتا ہے، یہ ان کی پردرد اور پرسوز آواز تھی۔ یہ اس باظرف شخص کی پاکستانی لیڈروں سے فریاد تھی جو اس ملک کے حکمراں ہیں مگر عوام کو دو وقت کی روٹی اور صاف پانی مہیا نہ کرسکے اور نہ ہی یہ ان کے منشور میں شامل ہے۔ اپنی جیبیں بھرنا، ترقیاتی فنڈ کو غلط استعمال کرنا، جس پر سپریم کورٹ میں مقدمات کا سامنا ہے۔
اکثر مقدمات تو کرپشن پکڑ ادارے کے تحت رواں ہیں اور کچھ مخالفین کی تگ و دو کا مظہر ہیں۔ یہ معاملات صرف آج کے دور کی باتیں نہیں بلکہ متحدہ پاکستان یعنی مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا تھا مگر مشرقی پاکستان کے لیڈران شروع میں ہی مغربی پاکستان کے لیڈروں کے مزاج کو بھانپ چکے تھے، اسی لیے 50 کی دہائی کے وسط میں مشرقی پاکستان نے مسلم لیگ کو زبردست شکست سے دوچار کیا تھا اور پھر 70 میں مغربی پاکستان میں بھی مسلم لیگ کی شکست نے بظاہر تو ملاپ کا ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا تھا مگر مغربی پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو نے گھٹنے ٹیک دیے اور شیخ مجیب نے چھ نکات کی بنیاد پر ایک الگ ملک تشکیل دے دیا، جو اسلامی ری پبلک کے بجائے اب ایک مضبوط معیشت والا عوامی جمہوری ملک کی شکل میں افق پر نمایاں ہے۔ اس کا اپنے کسی ہمسایہ ملک سے کوئی سیاسی جھگڑا نہیں۔ گو بنگلہ دیش نے میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ملک میں پناہ دی بلکہ ان کی خاطر خواہ مدد کی، مگر بنگلہ دیش ہر قسم کے مذہبی انتہا پسندوں کی چیرہ دستی سے دور ہے۔
جب کہ حال ہی میں پاکستان میں جو سینیٹ کے انتخابات ہوئے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ صرف (ن) لیگ ہی مسلم لیگ کے ایک فرسودہ گروہ کی شاخ نہیں تھی بلکہ پی ٹی آئی بھی فکری اعتبار سے دائیں بازو کی نہ صرف ایک ذیلی تنظیم ہے بلکہ اندرونی طور پر وہ ان کے افکار کی گرویدہ ہے، اور مستقبل کی سیاسی رسہ کشی میں (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کی سیاسی فکر میں کوئی تضاد نہیں، ماسوا کہ اقتدار کی دوڑ میں دونوں ایک دوسرے کے متصادم ہیں، نہ کہ خارجہ اور داخلہ پالیسی میں کوئی واضح اختلاف ہے۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی جو دوسرے نمبر پر کھڑی تھی اب تیسرے درجے پر پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا ایسے ملک میں جہاں سیاسی کشمکش پہ کسی راہ کا کوئی واضح ساتھی نہ ہو اور ہر طرف سے مفاد پرستی کی یلغار ہو تو عدالت عالیہ کے لیے فیصلہ کرنا اور حق اور اصول کو مدنظر رکھنا کس قدر محال ہے۔
ایسے موقع محل پر موقع پرستوں کو اپنی عزت بچانے کے لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ فلاں فیصلہ نظریہ ضرورت کا حامل تھا۔ مگر ایسے پرخطر اور پرفریب وقت میں میزان عدل کے توازن کو برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب موجودہ سیاسی دوڑ لفافہ گروپ کے تابع ہے تو ایسی صورت میں سچائی کا گمان تو محال ہے مگر پھر بھی چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے حکومت کے تابع ہوکر فیصلے نہ کیے، جب کہ ہم نے وہ دور بھی دیکھا کہ ایک چیف جسٹس ملک میں ایسا بھی گزرا جس نے موقع پرستی کو نظریہ ضرورت کا ہار پہنا کر ایک منتخب وزیراعظم کو جو واقعی دو وقت کی روٹی، تن پر کپڑے اور ایک عارضی سی چھت کی طلب میں پھانسی چڑھا دیا گیا، تو اس پہلو کو دیکھتے ہوئے جو کچھ بھی چیف جسٹس نے کہا، خوب کہا، اور ایک سادہ سی بات کہی جس کے لیے اب کوئی سیاسی پارٹی بے چین نظر نہیں آتی، بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ حکمران اب عوام سے ووٹ کا حق بھی چھیننے والے ہیں اور تمام حکمران ایک کنونشن بلانے والے ہیں۔
جس میں حکمرانوں کی اولاد، ان کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کو ایک متفقہ امیدوار چن لینا چاہیے اور اس کو موروثی جمہوریت کا نام دے کر حکومت قائم کرلینی چاہیے، اس لیے ان حضرات کو موجودہ چیف جسٹس سے بڑی پرخاش نظر آتی ہے، کیونکہ موجودہ چیف جسٹس نے کوئی غیر عوامی مطالبہ نہیں دہرایا۔
اس میں زمین یا مکان کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ صرف صاف پانی کی بات کی ہے اور دو وقت کی روٹی، تین وقت کی بھی کہانی نہیں، تاکہ انسان کی زندگی بس رواں رہے، چاہے وہ ناتواں ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ دو وقت کی روٹی پر گزارا کرنا شروع کردیں تو اندازہ خود لگا سکیں گے کہ جسم کا وزن کہاں اور کس قدر کم اور ناتوانی کا حال کیا ہوا، اسی لیے علامہ اقبال نے ایسے غریبوں کے لیے جو فریادی شعر عرض کیا ہے، ذرا اس کی باریکی اور نزاکت تو دیکھے:
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
چیف جسٹس نے زمین کی جانب توجہ نہیں دی، کیونکہ زمین کا معاملہ بہت نازک ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ انویسٹر گروپ کے ہتھے چڑھ چکی ہے، ایک گروہ کراچی میں ایسا پیدا ہوگیا ہے جو دس اور بیس برس دور کی سوچ کر زمینوں کو کل کے منافع بخش دور کے لیے روکے رکھتا ہے اور بلڈر حضرات بھی انویسٹر حضرات کو یہی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں کرایہ داروں کی تعداد 40 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور جب ایک بار کرایہ دار بن گیا تو پھر جان چھڑانا مشکل ہے۔
ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بڑا کاروباری یا چھوٹا کاروباری یا صرف جس کو کاروباری کہیں، وہ اپنے اعتبار سے کرایہ پر رہنا چاہتا ہے، مگر نوکری پیشہ حضرات کے لیے کوئی اور راہ زندگی نہیں کہ وہ لینڈ لارڈ کو مضبوط تر کرنے کے لیے بس زندہ ہیں۔ ایران کے شہر تہران میں بھی ایسا ہی کچھ تھا مگر ایران میں ایک ایسا غریب پرور صدر احمدی نژاد عوام نے چنا، جس نے 30 برس کے لیے عوام کو قرض دیا اور ان کی آمدنی کے حساب سے فلیٹ دے دیا اور تہران کو کچی آبادی کی نحوست اور مشکلات کو ختم کرکے دکھا دیا۔ مگر کراچی کے گلی اور کوچے بلڈروں کی ایک بڑی آماجگاہ بن گئے ہیں۔ کراچی کو طول و عرض میں پھیلایا جا رہا ہے۔
مگر گٹر لائن اور پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے تو صاف پانی کی بات کی ہے مگر یہاں عام پانی کی بات ہے، یہ بھی غریب علاقوں میں میسر نہیں۔ سرجانی ٹاؤن تو پائپ لائن سے بھی مبرا ہے، وہ بھی مقامی لوگوں نے بورنگ کے پانی پر گزارا کیا ہے۔ سندھ کے چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی انکشاف حالیہ دنوں میں کیا ہے کہ گٹر باغیچہ میں چائنا کٹنگ کو اہل اقتدار نے دس روپے فی اسکوائر فٹ زمین فروخت کی۔
دراصل جمہوریت کے علمبرداروں کے پاس کوئی کام تو ہوتا نہیں اور نہ ہی یہ کرنا چاہتے ہیں، زمین ایک ایسا سودا ہوتا ہے جو ان کی انگلیوں کی جنبش کے تابع ہوتا ہے، اسی لیے زمین کا سکہ جمہوری دور میں بڑی تیزی سے گردش کرتا ہے۔ اور چیف جسٹس نے ایسی غیر اخلاقی اور غیر اصولی زمینوں پر ضرب کاری لگائی ہے اور ان کی خرید و فروخت کو اصولی بنادیا ہے، جس سے سرمایہ کاری کے معتبر نام آخری جنگ کا اعلان فرما رہے ہیں۔
ملک کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ حکمراں جماعت چیف جسٹس کے مدمقابل کھڑی ہے اور ان کی تابعدار بیوروکریسی جو چند لوگوں پر مشتمل ہے اس نے شیخ مجیب کے رنگ ڈھنگ کو اپنانے کی کوشش کی ہے، ان سے درخواست ہے کہ ستر کے اخبارات اٹھائیں اور قلم چھوڑ تحریک کا جائزہ لیں تو زمین اور آسمان کا فرق سامنے آجائے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی عوامی یکجہتی کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ ان کی عوامی سوچ سامنے آسکے۔ کینٹ اسٹیشن سے گزرتے یا ڈیفنس جاتے ہوئے ایک آبادی جو غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے اور کئی کئی منزلہ مکانات بنے ہوئے ہیں جہاں کرائے دار بھی ہیں۔
ان کئی منزلہ بلڈنگوں کو صرف ایک میٹر لگانے کی اجازت تھی لہٰذا موجودہ بلنگ سسٹم میں دو کمروں کا بل 12 ہزار تا 14 ہزار تک آتا تھا، لوگ محتسب کے یہاں گئے مگر مسئلہ حل نہ ہوا، بالآخر ایک خاتون یاسمین ریاض ایک این جی او کی سیکریٹری ہیں اور سوشل ورکر، انھوں نے ایک درخواست ایک عام سے لفافے میں چیف جسٹس ثاقب نثار کو 12-2-2017 کو دہلی کالونی سے ٹی سی ایس کی اور ثاقب نثار صاحب نے بجلی والوں کی یہ من مانی ختم کردی اور اب یہاں نئے میٹر لگنے سے غریبوں کے علاوہ متوسط طبقے کو بھی ریلیف ملا، جب کہ اس میں کسی سیاسی جماعت کا دخل نہیں۔
لہٰذا ایسے موقع پر چیف جسٹس سے یہ درخواست ہے کہ وہ جب کوئی نئی بستی کا اعلان ہو تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کراچی میں ان لوگوں کو 120 گز کے پلاٹ بے زمین لوگوں کو الاٹ کرائیں جن کو اس شہر میں رہتے ہوئے 40 برس ہوگئے ہوں اور اپنی رہائش سے محروم ہیں حالانکہ یہ کام سندھ کی حکمران جماعت کا ہے۔ لہٰذا چیف جسٹس پر مفروضوں کی بنیاد پر انگلیاں اٹھانا درست نہیں۔