کرشنا کماری کوہلی سندھ کی بہادر ہندو دَلت خاتون سینیٹر
کرشنا کماری کوہلی کے والدین ابھی تک استعجاب اور خوشی کی کیفیات میں ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہندو، سکھ اور مسیحی برادری کو اُن کے بنیادی حقوق نہیں دیے جارہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثریتی مسلم آبادی اقلیتوں کے حقوق پامال کردیتی ہے۔ ممکن ہے کہیں کہیں یہ دعویٰ اور بیان درست بھی ثابت ہوتا ہو لیکن وسیع تر معنوں اور پیمانے پر ایسے دعوے غلط ہی ثابت ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے پچھلے دنوں کٹاس راج میں ایستادہ صدیوں پرانے منادر ، تالاب اور مورتیوں کے تحفظ بارے جو شاندار اور مستحسن حکم سنایا تھا، یہ اِس بات کا عملی اظہار ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر ہماری بلند عدلیہ بھی پہرہ دے رہی ہے۔''ٹائمزآف انڈیا''ایسے مشہور بھارتی اخبار تک پاکستانی عدلیہ کے اس مستحسن حکم کی بازگشت پہنچی ہے۔
افواجِ پاکستان کے تینوں شعبوں میں اقلیتوں کو اُن کی نمایندگی دی جاتی ہے۔ کئی مسیحی اور سکھ افراد فوج اور پاکستان ایئر فورس میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ ہماری فلم، ڈرامہ اور تھیٹر میں کئی اقلیتی فنکاروں نے ناموری حاصل کی ہے۔ ہماری عدلیہ میں بھی کئی مسیحی اور ہندو معزز افراد نے شہرت حاصل کررکھی ہے۔
پچھلے دنوں، 3مارچ2018ء کو پاکستانی سینیٹ میں 52افراد کا انتخاب عمل میں آیا تو یہ پُرمسرت اور خوشنما منظر بھی سامنے آیا کہ محترمہ کرشنا کماری کوہلی بھی سینیٹر منتخب ہو گئی ہیں۔ کرشنا کماری کوہلی صاحبہ مذہبی اعتبار سے ہندو ہیں۔ اُن کا تعلق سندھ کے مشہور صحرائی علاقے ، تھر، سے ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے وہ اپنے علاقے میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ بانڈڈ لیبر کے خلاف اُن کی تگ ودَو قابلِ ذکر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے اُن کا سیاسی ناتہ ہے جس کے لیے وہ کئی برسوں سے کام کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی نے انھیں تازہ سینیٹ انتخابات میں کامیاب کرایا ہے۔ سندھ سے جنرل سیٹ پر۔ سچی بات یہ ہے کہ کرشنا کماری کوہلی کے سینیٹر منتخب ہونے سے پاکستان کے احترام اور وقار میں بجا طور پر اضافہ ہُوا ہے۔ دنیا بھر میں یہ مثبت پیغام پہنچا ہے کہ پاکستان میں ایک غریب، مسکین ، نہائیت پسماندہ اور دَلت ہندو خاتون بھی ایوانِ بالا کی معزز رکن بن سکتی ہیں۔
کرشنا کوہلی کے منتخب ہونے پر بھارتی اخبارات نے بھی پاکستان کی تحسین کی ہے ، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت نے تو قسم اُٹھا رکھی ہے کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، پاکستان کے بارے میں کوئی مثبت لفظ ادا نہیں کرنا۔ کرشنا کماری کے سینیٹر بننے پر تو اُس نے بھی پاکستان کی تعریف کرکے غیر معمولی ''فیاضی'' کا مظاہرہ کیا ہے۔ روز نامہ ''دی ہندو'' کے ساتھ ساتھ ،مشہور بھارتی ویب اخبار''سکرول''نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کرشنا کوہلی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
انتالیس سالہ کرشنا کماری کوہلی ہمت ، کمٹمنٹ اور بہادری سے اِس مقام تک پہنچی ہیں۔ تھر کے جس تہی دست اور غربت کی دلدل میں ڈُوبے خاندان میں وہ پیدا ہُوئیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سانولی سلونی بچی کبھی پاکستان کے ایوانِ بالا کی رکن بن جائیں گی۔ خالقِ کائنات کی دستگیری کے مگر انداز نرالے ہیں۔اُن کے والدین تو بانڈڈ لیبرکی زنجیروں میں جکڑے ہُوئے تھے اور ان زنجیروں کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بانڈڈ لیبر انسانی استحصال کی شائد مکروہ ترین شکل ہے۔ ایک طرح کی نسل در نسل غلامی۔ ہمارے قابلِ فخر ناول نگار، عبداللہ حسین، نے تو اِس ظالمانہ شکل کواپنے ناول ''نادار لوگ''کا حصہ بھی بنایا ہے۔
کرشنا کماری کوہلی خود بھی اس استحصالی سسٹم کا ہدف بنی رہی ہیں، اس لیے بخوبی جانتی ہیں کہ یہ نظام کس طرح انسانوں کا خون پیتا اور بیکسوں کو غلام بنائے رکھتا ہے۔ کرشنا کماری تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں جب وہ سندھ کے مشہور علاقے ، عمر کوٹ، کے ایک لینڈ لارڈ کی ذاتی جیل میں اپنے والدین (جگنو کوہلی) کے ساتھ تین سال تک قیدی بنی رہیں۔ اُن کا اور اُن کے والدین کا جرم وہی تھا: بانڈڈ لیبر!!عمرکوٹ کا وہ علاقہ، کُنری، آج بھی کرشنا کماری کی یادوں کا تلخ اور ناقابلِ فراموش حصہ ہے جہاں وہ زندانی رہیں۔آٹھ سال کی عمر میں جس بچے کو ناکردہ گناہ میں قید کر دیا جائے، وہ بھلا اس سزا کو کیسے اور کیونکر فراموش کر سکتا ہے؟
انسانی قافلے کو چونکہ آگے بڑھنا ہوتا ہے، اس لیے کرشنا کماری کوہلی بھی ان یادوں کو ذہن کے نہاں خانہ سے کھرچتے ہُوئے آگے بڑھ گئیں۔ آگے بڑھنا مگر اتنا آسان اور سہل بھی نہیں تھا۔ خاص طور پر ایک غریب تھری ہندو خاتون کے لیے۔ ایک پسماندہ ضلع تھرپارکر،جہاں سے کبھی پاکستان کے معروف اشتراکی دانشورجام ساقی نے الیکشن بھی لڑا تھا،کی لڑکی بہت سے بندھنوں میں بندھی تھیں۔ وہ نویں جماعت میں تھیں کہ بیاہ دی گئیں۔شوہر، لالچند، انھیں بہت اچھا ملا۔ ہر گام پر تعاون کرنے اور ہمت بندھانے والا۔ یوں کرشنا کماری ادھوری تعلیم کو پھر سے استوار کرنے میں کامیاب رہیں۔
عسرت اور تنگدستی کے باوجود یونیورسٹی تک پہنچیں اور سوشیالوجی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ کچے صحرائی گھر میں لالٹین کی روشنی میں کتابیں پڑھنے والی لڑکی کے ہاتھ میں ایم اے کی ڈگری آئی تو اُن کے گھر والوں کی خوشی اور مسرت دیدنی تھی۔ بیکراں ریت کے وسط میں واقع گوٹھ، نگر پارکر، کی بہت سی کوٹھریوں میں سے ایک اعلیٰ تعلیم کی روشنی سے جگمگا اُٹھی تھی۔ کرشنا کماری کے گاؤں(نگرپارکر) کو نئی امید کا نیا چراغ میسر آگیا تھا۔ اس چراغ سے نئے چراغ جلیں گے اور مزید روشنی کا دائرہ پھیلے گا۔ کماری کے گوٹھ کے ہر باسی کی یہی آرزو تھی۔
پاکستان کی بیس بائیس کروڑ آبادی میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً دوفیصد بتائی جاتی ہے۔ زیادہ سندھ میں آباد ہیں۔ انھیں کئی مسائل کا سامنا بھی ہے۔ بعض سندھی ہندو مایوسی میں، دل چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے مگر اب وہ پچھتا رہے ہیں کہ کسی کے کہنے پر پاکستان سے ناتہ کیوں توڑا؟ کرشنا کماری کے خاندان کو بھی اِس جال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کرشنا نے خود یہ سازش ناکام بنا دی۔ اُن کی دُوربیں نگاہیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔
وہ ایک غریب اور سماجی طور پر نچلے طبقے(دَلت)سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن اُن کی برادری کے افراد بہادری میں ہمیشہ منفرد رہے۔کہا جاتا ہے کہ جب مغلوں کے متحدہ ہندوستان پر انگریزوں نے غاصبانہ قبضہ کیا اور 1857ء کا شعلہ آزادی بھڑکا تو سندھ سے جس شخص نے انگریز سامراج کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، وہ کرشنا کماری کوہلی ہی کے خاندان کا ایک بہادر شخص تھا۔ اُن کا نام رُوپلو کوہلی تھا۔
نگر پار کے آس پاس بسنے والا ایک اولو العزم آدمی۔ رُوپلو کوہلی کو آخر انگریزوں نے گرفتار کیا اور یہ بہادر اور دلاور شخص 22اگست 1858ء کو پھانسی کے تختے پر جھول گیا۔ کرشنا کوہلی اِسی بہادر خاندان کی بہادر خاتون ہیں جنہیں 3مارچ 2018ء کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کے ایوانِ بالا کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ اِس سے قبل پیپلز پارٹی سندھ ہی سے ایک ہندو خاتون، رتنا بھگوان داس چاولہ، کو سینیٹر بنا چکی ہے۔
کرشنا کماری اِس کامیابی پر تو خوش ہیں ہی لیکن اصل واقعہ یہ ہے کہ اُن کی کامیابی سے دنیا بھر میں پاکستان کی شوبھا میں اضافہ ہُوا ہے۔ پاکستان کی جملہ اقلیتوں کے سینے میں امید کے کئی چراغ جَل اُٹھے ہیں۔'' پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم'' کیے جانے کا بیانیہ لے کر منفی پروپیگنڈہ کرنے والے دشمنانِ پاکستان کے منہ پر طمانچہ لگا ہے۔ بی بی سی ایسے برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی خوشی خوشی کرشنا کماری کوہلی کے سینیٹر بننے پر مبارکباد دی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے، جس سے بات چیت کرتے ہُوئے کرشنا نے کہا:''دل بہت خوش ہے۔ سینیٹ تک پہنچنا میرے لیے ناقابلِ تصور خیال تھا۔پاکستان، پیپلز پارٹی، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے میرے اَن دیکھے خوابوں کی مجھے تعبیر دے ڈالی ہے۔''
عالمِ عرب کے سب سے بڑے نجی ٹی وی، الجزیرہ، نے بھی ہماری اِس نَو منتخب بہادر سینیٹر پر تفصیلی رپورٹ نشر کی ہے۔کرشنا کماری کوہلی کے والدین ابھی تک استعجاب اور خوشی کی کیفیات میں ہیں۔ وہ بیچارے یہ تک نہیں جانتے کہ سینیٹ کیا ہوتا ہے؟ اور سینیٹر بننے کے فائدے کیا ہیں؟ وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُن کی بیٹی کو اسلام آباد میں کوئی بہت اچھی نوکری مل گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے پچھلے دنوں کٹاس راج میں ایستادہ صدیوں پرانے منادر ، تالاب اور مورتیوں کے تحفظ بارے جو شاندار اور مستحسن حکم سنایا تھا، یہ اِس بات کا عملی اظہار ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر ہماری بلند عدلیہ بھی پہرہ دے رہی ہے۔''ٹائمزآف انڈیا''ایسے مشہور بھارتی اخبار تک پاکستانی عدلیہ کے اس مستحسن حکم کی بازگشت پہنچی ہے۔
افواجِ پاکستان کے تینوں شعبوں میں اقلیتوں کو اُن کی نمایندگی دی جاتی ہے۔ کئی مسیحی اور سکھ افراد فوج اور پاکستان ایئر فورس میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ ہماری فلم، ڈرامہ اور تھیٹر میں کئی اقلیتی فنکاروں نے ناموری حاصل کی ہے۔ ہماری عدلیہ میں بھی کئی مسیحی اور ہندو معزز افراد نے شہرت حاصل کررکھی ہے۔
پچھلے دنوں، 3مارچ2018ء کو پاکستانی سینیٹ میں 52افراد کا انتخاب عمل میں آیا تو یہ پُرمسرت اور خوشنما منظر بھی سامنے آیا کہ محترمہ کرشنا کماری کوہلی بھی سینیٹر منتخب ہو گئی ہیں۔ کرشنا کماری کوہلی صاحبہ مذہبی اعتبار سے ہندو ہیں۔ اُن کا تعلق سندھ کے مشہور صحرائی علاقے ، تھر، سے ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے وہ اپنے علاقے میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ بانڈڈ لیبر کے خلاف اُن کی تگ ودَو قابلِ ذکر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے اُن کا سیاسی ناتہ ہے جس کے لیے وہ کئی برسوں سے کام کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی نے انھیں تازہ سینیٹ انتخابات میں کامیاب کرایا ہے۔ سندھ سے جنرل سیٹ پر۔ سچی بات یہ ہے کہ کرشنا کماری کوہلی کے سینیٹر منتخب ہونے سے پاکستان کے احترام اور وقار میں بجا طور پر اضافہ ہُوا ہے۔ دنیا بھر میں یہ مثبت پیغام پہنچا ہے کہ پاکستان میں ایک غریب، مسکین ، نہائیت پسماندہ اور دَلت ہندو خاتون بھی ایوانِ بالا کی معزز رکن بن سکتی ہیں۔
کرشنا کوہلی کے منتخب ہونے پر بھارتی اخبارات نے بھی پاکستان کی تحسین کی ہے ، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت نے تو قسم اُٹھا رکھی ہے کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، پاکستان کے بارے میں کوئی مثبت لفظ ادا نہیں کرنا۔ کرشنا کماری کے سینیٹر بننے پر تو اُس نے بھی پاکستان کی تعریف کرکے غیر معمولی ''فیاضی'' کا مظاہرہ کیا ہے۔ روز نامہ ''دی ہندو'' کے ساتھ ساتھ ،مشہور بھارتی ویب اخبار''سکرول''نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کرشنا کوہلی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
انتالیس سالہ کرشنا کماری کوہلی ہمت ، کمٹمنٹ اور بہادری سے اِس مقام تک پہنچی ہیں۔ تھر کے جس تہی دست اور غربت کی دلدل میں ڈُوبے خاندان میں وہ پیدا ہُوئیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سانولی سلونی بچی کبھی پاکستان کے ایوانِ بالا کی رکن بن جائیں گی۔ خالقِ کائنات کی دستگیری کے مگر انداز نرالے ہیں۔اُن کے والدین تو بانڈڈ لیبرکی زنجیروں میں جکڑے ہُوئے تھے اور ان زنجیروں کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بانڈڈ لیبر انسانی استحصال کی شائد مکروہ ترین شکل ہے۔ ایک طرح کی نسل در نسل غلامی۔ ہمارے قابلِ فخر ناول نگار، عبداللہ حسین، نے تو اِس ظالمانہ شکل کواپنے ناول ''نادار لوگ''کا حصہ بھی بنایا ہے۔
کرشنا کماری کوہلی خود بھی اس استحصالی سسٹم کا ہدف بنی رہی ہیں، اس لیے بخوبی جانتی ہیں کہ یہ نظام کس طرح انسانوں کا خون پیتا اور بیکسوں کو غلام بنائے رکھتا ہے۔ کرشنا کماری تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں جب وہ سندھ کے مشہور علاقے ، عمر کوٹ، کے ایک لینڈ لارڈ کی ذاتی جیل میں اپنے والدین (جگنو کوہلی) کے ساتھ تین سال تک قیدی بنی رہیں۔ اُن کا اور اُن کے والدین کا جرم وہی تھا: بانڈڈ لیبر!!عمرکوٹ کا وہ علاقہ، کُنری، آج بھی کرشنا کماری کی یادوں کا تلخ اور ناقابلِ فراموش حصہ ہے جہاں وہ زندانی رہیں۔آٹھ سال کی عمر میں جس بچے کو ناکردہ گناہ میں قید کر دیا جائے، وہ بھلا اس سزا کو کیسے اور کیونکر فراموش کر سکتا ہے؟
انسانی قافلے کو چونکہ آگے بڑھنا ہوتا ہے، اس لیے کرشنا کماری کوہلی بھی ان یادوں کو ذہن کے نہاں خانہ سے کھرچتے ہُوئے آگے بڑھ گئیں۔ آگے بڑھنا مگر اتنا آسان اور سہل بھی نہیں تھا۔ خاص طور پر ایک غریب تھری ہندو خاتون کے لیے۔ ایک پسماندہ ضلع تھرپارکر،جہاں سے کبھی پاکستان کے معروف اشتراکی دانشورجام ساقی نے الیکشن بھی لڑا تھا،کی لڑکی بہت سے بندھنوں میں بندھی تھیں۔ وہ نویں جماعت میں تھیں کہ بیاہ دی گئیں۔شوہر، لالچند، انھیں بہت اچھا ملا۔ ہر گام پر تعاون کرنے اور ہمت بندھانے والا۔ یوں کرشنا کماری ادھوری تعلیم کو پھر سے استوار کرنے میں کامیاب رہیں۔
عسرت اور تنگدستی کے باوجود یونیورسٹی تک پہنچیں اور سوشیالوجی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ کچے صحرائی گھر میں لالٹین کی روشنی میں کتابیں پڑھنے والی لڑکی کے ہاتھ میں ایم اے کی ڈگری آئی تو اُن کے گھر والوں کی خوشی اور مسرت دیدنی تھی۔ بیکراں ریت کے وسط میں واقع گوٹھ، نگر پارکر، کی بہت سی کوٹھریوں میں سے ایک اعلیٰ تعلیم کی روشنی سے جگمگا اُٹھی تھی۔ کرشنا کماری کے گاؤں(نگرپارکر) کو نئی امید کا نیا چراغ میسر آگیا تھا۔ اس چراغ سے نئے چراغ جلیں گے اور مزید روشنی کا دائرہ پھیلے گا۔ کماری کے گوٹھ کے ہر باسی کی یہی آرزو تھی۔
پاکستان کی بیس بائیس کروڑ آبادی میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً دوفیصد بتائی جاتی ہے۔ زیادہ سندھ میں آباد ہیں۔ انھیں کئی مسائل کا سامنا بھی ہے۔ بعض سندھی ہندو مایوسی میں، دل چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے مگر اب وہ پچھتا رہے ہیں کہ کسی کے کہنے پر پاکستان سے ناتہ کیوں توڑا؟ کرشنا کماری کے خاندان کو بھی اِس جال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کرشنا نے خود یہ سازش ناکام بنا دی۔ اُن کی دُوربیں نگاہیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔
وہ ایک غریب اور سماجی طور پر نچلے طبقے(دَلت)سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن اُن کی برادری کے افراد بہادری میں ہمیشہ منفرد رہے۔کہا جاتا ہے کہ جب مغلوں کے متحدہ ہندوستان پر انگریزوں نے غاصبانہ قبضہ کیا اور 1857ء کا شعلہ آزادی بھڑکا تو سندھ سے جس شخص نے انگریز سامراج کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، وہ کرشنا کماری کوہلی ہی کے خاندان کا ایک بہادر شخص تھا۔ اُن کا نام رُوپلو کوہلی تھا۔
نگر پار کے آس پاس بسنے والا ایک اولو العزم آدمی۔ رُوپلو کوہلی کو آخر انگریزوں نے گرفتار کیا اور یہ بہادر اور دلاور شخص 22اگست 1858ء کو پھانسی کے تختے پر جھول گیا۔ کرشنا کوہلی اِسی بہادر خاندان کی بہادر خاتون ہیں جنہیں 3مارچ 2018ء کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پاکستان کے ایوانِ بالا کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ اِس سے قبل پیپلز پارٹی سندھ ہی سے ایک ہندو خاتون، رتنا بھگوان داس چاولہ، کو سینیٹر بنا چکی ہے۔
کرشنا کماری اِس کامیابی پر تو خوش ہیں ہی لیکن اصل واقعہ یہ ہے کہ اُن کی کامیابی سے دنیا بھر میں پاکستان کی شوبھا میں اضافہ ہُوا ہے۔ پاکستان کی جملہ اقلیتوں کے سینے میں امید کے کئی چراغ جَل اُٹھے ہیں۔'' پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم'' کیے جانے کا بیانیہ لے کر منفی پروپیگنڈہ کرنے والے دشمنانِ پاکستان کے منہ پر طمانچہ لگا ہے۔ بی بی سی ایسے برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی خوشی خوشی کرشنا کماری کوہلی کے سینیٹر بننے پر مبارکباد دی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے، جس سے بات چیت کرتے ہُوئے کرشنا نے کہا:''دل بہت خوش ہے۔ سینیٹ تک پہنچنا میرے لیے ناقابلِ تصور خیال تھا۔پاکستان، پیپلز پارٹی، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے میرے اَن دیکھے خوابوں کی مجھے تعبیر دے ڈالی ہے۔''
عالمِ عرب کے سب سے بڑے نجی ٹی وی، الجزیرہ، نے بھی ہماری اِس نَو منتخب بہادر سینیٹر پر تفصیلی رپورٹ نشر کی ہے۔کرشنا کماری کوہلی کے والدین ابھی تک استعجاب اور خوشی کی کیفیات میں ہیں۔ وہ بیچارے یہ تک نہیں جانتے کہ سینیٹ کیا ہوتا ہے؟ اور سینیٹر بننے کے فائدے کیا ہیں؟ وہ تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُن کی بیٹی کو اسلام آباد میں کوئی بہت اچھی نوکری مل گئی ہے۔