انسانی تاریخ کا زریں باب

اسلامی ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔


[email protected]

اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ وہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کے لیے ہدایت دیتا ہے۔ اس ہمہ گیر ہدایت کا نام شریعت ہے۔ قرآن میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم پوری شریعت کا اتباع کریں اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی نظر انداز نہیں کیا۔ تمام انبیائے کرام وقت کی اجتماعی قوت کو اسلام کے تابع کرنے کی جد وجہد کرتے رہے۔

اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند مخصوص لوگوں کا اس پر عمل کرنا کافی نہیں، اسی طرح اسلام اکثر مذاہب کی طرح چند رسوم کا نام نہیں، وہ زندگی کا نظام ہے، وہ زمانے کی فضا، طبیعت بشری کا مذاق اور سواد اعظم کا رنگ بدلنا چاہتاہے اور عقائد کے ساتھ ساتھ اخلاق و معاشرت، زندگی کا مقصد اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ اس کو مادی و سیاسی اقتدار حاصل ہو، صرف اسی کو قانون سازی کا حق ہو۔

اسلامی ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس ریاست کی بنیاد نہ نسل پر ہے اور نہ رنگ پر، نہ زبان پر ہے اور نہ وطن پر۔ وہ ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا مقصد ایک نظریہ کو سربلند کرنا ہے اور اس میں اطاعت ایک اصول کی ہے محض اقتدار کی نہیں۔ اسلام میں ریاست خود ایک مقصد نہیں بلکہ ایک اعلیٰ تر مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔

اسلامی ریاست کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک شورائی اور جمہوری ریاست ہے۔ اس میں تمام انسان برابر ہیں اور رنگ، نسل، نسب یا کسی اور بنیاد پر کسی خاص گروہ کو کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ وحدتِ آدم اور انسانی مساوات اس کے بنیادی اصول ہیں۔

اسلامی ریاست کا مزاج نہ آمریت کو گوارا کرسکتا ہے اور نہ موروثی بادشاہت کو۔ اس کا مزاج خالص جمہوری اور شورائی ہے قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور حاکم اور محکوم، امرا اور غربا میں اسلام کوئی تمیز نہیں کرتا۔ قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ شوریٰ اسلامی نظام کی روح اور اس کا جوہر اصلی ہے۔

اسلامی ریاست کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک فلاحی اور خادم خلق ریاست ہے۔ اسلام کی نظر میں حکومت کا کام صرف یہ نہیں ہے کہ امن وامان قائم کرے اور ملکی دفاع کی خدمات انجام دے۔ بلکہ اس کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں فطری مساوات قائم کرے۔ تمام شہریوں کی خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اگر اسلامی ریاست کی حدود میں کہیں بھی فقر وفاقہ ، غربت و افلاس ہے، ظلم وجور ہے تو اس کا قلع قمع کرے اور اپنی تمام قوتیں ان انسانی مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف کردے۔

اسلامی ریاست کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے سپرد محض معاشی کفالت کی ذمے داریاں ہی نہیں ہیں بلکہ اخلاقی تعلیم اور تہذیب و شائستگی کی ترویج بھی اس کے ذمے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں'' وہ اپنے شہریوں کی بالخصوص اور تمام انسانوں کی بالعموم تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ یہ ریاست ایک طرف لوگوں کے معیار علم و اخلاق کوبلند کرتی ہے اور دوسری طرف ایک عالمگیر پیغام کی داعی ہے۔ یہ قومیت کے کسی تنگ نقطۂ نظر سے وابستہ نہیں، اس کی دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے۔

اسلام کے سیاسی نظام میں ملت اسلامیہ کی وحدت ایک بنیادی اصول ہے۔ دور حاضر میں پاکستان کا وجود اسلامی قومیت کا مظہر ہے۔ یہ ملک خاص نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا اور ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کے قیام کے لیے جد وجہد کی۔ یہ نہ ایک جغرافیائی وحدت ہے نہ اس میں ایک زبان ہے، نہ اس کے رہنے والے کی نسل ایک ہے اور نہ ان کا رنگ ایک سا ہے۔ جس چیز نے ان کو جوڑ کر ایک وحدت بنادیا ہے۔ وہ ان کا دین اور ان کا نظریۂ حیات ہے جسے غالب کرنے کے لیے انھوں نے یہ ملک قائم کیا ہے اور یہ ملک ہمارے لیے مقدس اسی لیے ہے کہ یہ اسلامی نظریہ کا علمبردار ہے۔

اسلام میں احترام انسانی کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ کل نوع انسانی کے لیے ہے اور نبی اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ نے سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ (الانبیا 107)

اسلام کے نزدیک صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسان اللہ کے بندے ہیں اور بحیثیت انسان ان کا احترام ہم پر اتنا ہی واجب ہے جتنا کہ مسلمانوں کا۔

''آدمیت'' اسلام کی نظر میں احترام آدمی ہے، قرآن کی رو سے غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو مسلمانوں کے مساوی حیثیت رکھتی ہے اور اللہ نے بار بار تنبیہ فرمائی ہے کہ کہیں دشمن کی زیادتی مسلمانوں کو عدل و انصاف کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہ کردے۔

میثاق مدینہ میں جو بلاشبہ دنیا کا پہلا تحریری آئین ہے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مساوی حقوق سے نوازا اور اپنے آخری خطبے میں آپؐ نے قرآن کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو ''یا ایھاالناس'' کہہ کر مخاطب فرمایا اور ان کو ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت کی حرمت کا پاس کرنے کوکہا اور اعلان فرمایا کہ خدا کی نظر میں کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضلیت نہیں سوائے نیک اعمال کے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔

غیر مسلموں سے رواداری اور مساوات کے ضمن میں مسلمانوں کا سلوک انسانیت کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔ اس طرح توحیدکے پیغام نے انسانیت کی وحدت کے لیے انجمن اقوام، اقوام متحدہ کے قیام سے صدیوں پیشتر ایک عالمی بنیاد پیش کی اسلام نے قوموں کے اس متفرق مجموعے کو ایک ایسی امت میں تبدیل کرکے جس کا اپنا مقام تھا پہلی مرتبہ وحدت انسانیت کا نمونہ پیش کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں