انسانیت غربت کے نرغے میں

محض خیرات کے ذریعے بھیک منگے تو پیدا کیے جاسکتے ہیں، خوددار انسان نہیں۔

محض خیرات کے ذریعے بھیک منگے تو پیدا کیے جاسکتے ہیں، خوددار انسان نہیں۔ فوٹو: فائل

اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے قومی حالات انتہائی ابتر اور دگرگوں ہوچکے ہیں اور تمام شعبہ ہائے حیات انتہائی تیزی سے رُو بہ زوال ہیں۔ مگر مایوسی بھی کفر ہے۔

اسی دنیا میں بعض اقوام ہم سے بدترین حالات میں جی رہی تھیں مگر جب انھوں نے سوچنے، سمجھنے اور پلٹنے کے بعد اجتماعی اصلاح احوال کا بیڑہ اٹھایا تو پھر پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا۔ جب کہ ہمارے پاس تو ایک ایسا نسخۂ کیمیا (قرآن حکیم) بھی ہے جس میں تمام انسانیت کے لیے کامل و عاجل شفا کا اصولی پروگرام اور مکمل سامان موجود ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر ابھی تک غور و فکر کی وہ خوابیدہ صلاحیتیں بیدار نہ ہوسکیں جن کی اساس پر انسانیت اس جہانِ رنگ و بُو میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور اپنی معراج تک رسائی کی اہل اور حق دار ہے۔

امام شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے '' تکمیل الاذہان'' میں انسان کی بڑی جامع اور بہترین تعریف کی ہے جو قدیم و جدیم اصولوں کے عین مطابق ہے۔ '' انسان وہ ہے جو غور و فکر کرتا اور آلات و مصنوعات کو اپنے کام میں لاتا ہے۔''

دوسرے الفاظ میں انسانی اجتماع کی سہولت و آسانی اور ارتقا و ترقی کا راز غور و فکر سے کام لینے اور نت نئی ایجادات و اختراعات اور دریافتیں کرنے میں ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی سماج کی فکری و ذہنی ترقی اس کے معاشی و اقتصادی مساوی و عادلانہ اور متوازن نظام کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ورنہ بھوک اور غربت و افلاس کا مرض انسانیت کی فکری و دماغی صلاحیتوں کو صلب اور زنگ آلود کرکے رکھ دیتا ہے۔ برباد ہوجائے یہ فرسودہ و ظالمانہ سرمایہ داریت، جس نے انسانیت کو سرمائے کی غلامی پر مجبور کرکے محض سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کے لیے ایک آلہ، روبوٹ اور مشین بناکر رکھ دیا ہے۔ فکر معاش کے اسیروں کو بھلا فکری آزادی کیسے میسر آسکتی ہے ۔۔۔۔ ؟

پچھلے دنوں ہمارے ادارے میں ستّر کلو میٹر دور ایک شہر سے ایک معصوم بچہ جو جماعت چہارم کا طالب علم تھا مالی امداد کی غرض سے وارد ہوا۔ اس چھوٹے سے بچے کی قدرتی صلاحیتیں، خود اعتمادی اور عمومی معلومات دیکھ کر ہمیں شک گزرا کہ یہ بچہ کہیں کسی تخریبی گروہ یا سماج دشمن عناصر کا تربیت یافتہ نہ ہو، لیکن اس کے گھر سے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد ہمارا یہ خدشہ فرو ہوا۔ حقائق یہ تھے کہ اس بچے کا باپ نابینا ہے، جس کی بھیک مانگنے پر اس کے بال بچوں کا دال دلیہ چلتا ہے مگر اب وہ نابینا بھکاری ٹانگوں سے بھی معذور ہوچکا ہے۔

لہٰذا گھر کا کچن چلانے کی غرض سے یونی فارم میں ملبوس اس ننھے طالب علم کو اب شام کے اوقات میں اور چھٹی کے دن باپ سے ورثے میں ملنے والی ذمے داری ادا کرنا ہوتی ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ بچہ حساس دل اور زرخیز دماغ کا مالک تھا اور بات چیت کے دوران اس نے یونی ورسٹی تک حصولِ تعلیم کا عزم بھی ظاہر کیا۔ اس بچے کی درد بھری گھریلو داستان اور روشن مستقبل سے بھرپور آنکھوں کی چمک دیکھ کر مجھے اپنے اندر ایک خوف ناک لرزش محسوس ہوئی۔ اس لیے کہ ابھی اس معصوم بھکاری کو اپنے قومی و اجتماعی حالات اور سرمایہ دارانہ نظام کی درندگی کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ کاش کہ ریاست واقعی ماں جیسا کردار نبھاتی اور کم یا زیادہ سے قطع نظر سبھی مل بانٹ کر روکھی سوکھی کھاتے اور کوئی فرد بھوکا سوتا اور نہ ہی کوئی نونہال اپنی آنکھوں میں حسین خواب سجائے در بہ در بھینک مانگنے کی اذیت ناک تعبیر پاتا۔

ایک عالمی ادارے کے اقتصادی جائزے کے مطابق دنیا کی کل دولت اور وسائل کا چوراسی فی صد حصہ صرف ایک فی صد سرمایہ داروں کے قبضے میں ہے، ورنہ کائنات کے خداوندی دستر خوان پر خداداد نعمتوں کا کوئی حد و حساب اور شمار نہیں۔

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے، مفہوم: '' اگر تم میری نعمتوں کو شمار میں لانا چاہو تو ہرگز ایسا نہ کرسکو۔'' خدا تعالیٰ نے حضرت آدم اور ابن آدم کو زمین پر بھیجنے سے قبل ہی ان کے گزران کا تمام سامان دنیا میں پیدا کردیا تھا۔ حتیٰ کہ اشرف المخلوقات انسان کے طفیل دیگر چوپائے، حیوانات، پرندوں اور حشرات الارض کے رزق کا ذمہ بھی خود خالق نے اپنے ذمے لیا۔ مفہوم: '' اور زمین پر کوئی جان دار ایسا نہیں کہ جس کا رزق خدا کے ذمے نہ ہو۔'' (قرآن حکیم، پارہ نمبر12)


البتہ آدمؑ کو سورۂ بقرہ کے مطابق ایک ہدایت نامہ بھی دیا گیا جو خلافت ارضی کا دستور اور منشور تھا کہ خداوندی نعمتوں کو تمام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے ذریعے بروئے کار لایا جاسکے۔ بعد ازاں آدمؑ سے خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم تک انبیا و رسلؑ کو کتاب کے ساتھ میزان بھی عطا کیا گیا تاکہ وہ معاشرے سے ظلم و استحصال کا خاتمہ کرسکیں اور انسانیت کو اس کے اصل شرف سے روشناس کرایا جاسکے۔

مفہوم: '' ہم نے واضح دلائل کے ساتھ رسولوں کا سلسلہ جاری کیا اور ہم نے ان پر کتاب اور میزان کو اتارا تاکہ وہ انسانیت کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کریں۔''

امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ اخلاق اور معاش کو باہم لازم و ملزوم ٹھہراتے ہیں۔ گویا انسانیت کا فکری و تہذیبی اور اخلاقی ارتقا ایک مساوی و عادلانہ اقتصادی نظام کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر دوسری طرف ہم اپنی اصل فکر اور تاریخ سے راہ نمائی لیے بغیر نیم حکیم کی مثل ادھورے علاج کے ذریعے اپنے قومی وجود اور انسانیت کی بقا کے درپے ہوچکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے جبری طور پر اسکول داخل کرانا تو ہمارے منشور کا لازمی نکتہ ٹھہرا جس کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں مگر دوسری طرف ان یتیموں، غریبوں، محروموں اور مظلوموں کے گھر چولھا جلانے کی ہمیں کوئی فکر لاحق نہیں۔

یاد رکھیے! قومی تعمیر و ترقی کے اس ادھورے پروگرام اور بے روح پالیسی سے ہم مہذب بھکاری اور مستند پیشہ ور لٹیرے تو پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنے وطن کو کارآمد شہری اور بہترین انسانوں کی کھیپ ہرگز نہیں دے سکتے۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ سرِراہ دو یتیم بچے ملے تو دریافت فرمانے پر آپؐ ان کے ناگفتہ بہ حالات اور لاچارگی پر آب دیدہ ہوگئے۔ رحمۃ العالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''آج کے بعد محمد صلی اﷲ تمہارے باپ اور عائشہ صدیقہؓ تمہاری ماں ہیں۔'' گویا آپؐ نے انھیں مکمل سرپرستی عطا کرکے ان کی معاشی و تعلیمی اور مادی و اخلاقی کفالت کا ذمہ اپنے سر لیا۔ مثالی ریاست مدینہ کے اندر آپؐ کا یہ اعلیٰ کردار واضح کرتا ہے کہ ایک عادلانہ ریاست کو اپنے پسے ہوئے مظلوم طبقات کی مکمل کفالت کا ذمہ لینا ہوگا۔ آپؐ کا فرمان ہے، مفہوم: ''جس کا کوئی سرپرست نہیں، ریاست اس کی سرپرست اور ذمے دار ہے۔'' (حدیث نبویؐ)

ایک اور حدیث نبویؐ کے مفہوم کے مطابق: ''میت کا ترکہ یعنی چھوڑا ہوا مال اس کے وارثوں کا ہے، جب کہ اس کی چھوڑی ہوئی ذمے داریاں ہمارے یعنی ریاست کے ذمے ہیں۔''

ایک بھکاری نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اس سے اس کا کمبل اور پیالا منگوا کر ان چیزوں کے عوض اسے کلہاڑی عطا فرمائی اور جنگل کا راستہ دکھا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ اس واقعے سے یہ اجتماعی اصول اخذ ہوتا ہے کہ کسی ریاست کی اصل ذمے داری اپنے افراد اور شہریوں کو روزگار دینا اور مستقل طور پر فکر معاش سے نجات دلاکر اخروی ترقی کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔

محض خیرات کے ذریعے بھیک منگے تو پیدا کیے جاسکتے ہیں، خوددار انسان نہیں۔

آئیے! ایک ایسے ہمہ گیر عادلانہ نظام کے قیام کے لیے اپنے حصے کا شعوری و عملی کردار ادا کرنے کا عزم مصمم کیجیے، جس کے نتیجے میں دولت اور وسائل دولت کا اکتناز و ارتکاز اپنے انجام کو پہنچے اور اشرف المخلوقات انسانیت ذلت سے بھرپور اور موت سے بدتر جیون بسر کرنے پر مجبور نہ ہو۔ نبی اکرمؐ اکثر بارگاہ خداوندی میں اس دعا کا التزام فرماتے: '' اے اﷲ ہمیں کفر اور غربت و افلاس سے اپنی پناہ عطا فرما۔'' (آمین)
Load Next Story