میں تو ہر روز ہی ’’8 مارچ‘‘ مناتا ہوں
تدریس سے وکالت تک، طب سے بینکاری تک، کھیل سے ہوا بازی اور صحافت سے سیاست تک، کس میدان میں عورت جھنڈے نہیں گاڑ رہی؟
پرسوں (دو روز قبل) 8 مارچ تھا، خواتین کا عالمی دن۔ منانے والوں نے بڑے جوش و خروش سے منایا۔ بھانت بھانت کی تقاریب، سیمینارز اور تھیٹرز ہوئے، لمبے چوڑے بھاشن دیئے گئے، اور یوں 8 مارچ اپنے گنتی کے 24 گھنٹے گزار کر گزر گیا۔ لیکن میں نے ویمنز ڈے نہیں منایا، کیونکہ میں آج بھی ویمنز ڈے منارہا ہوں کیونکہ میں ہر روز یومِ خواتین مناتا ہوں۔ میرے لیے ہر دن ہی عورت کا دن ہے۔ عورت کے بغیر زندگی ادھوری ہے، بلکہ تقریباً ناممکن۔ اس صنف کو نکال دیں تو انسانی وجود کا تصور ہی نہیں۔ عورت ہی سے تصویرِ کائنات میں رنگ ہے۔ تو رنگِ کائنات کو محض ایک دن تک مقید و محدود کوئی کیسے کرسکتا ہے بھلا؟
عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر آفس میں ساتھی خواتین سے ایک صاحب نے ازراہِ مزاح استفسار کیا کہ کیوں بھئی، آپ لوگ اپنے حقوق کےلیے آواز نہیں اٹھا رہیں؟ خواتین کا جواب بڑا دلچسپ تھا، اور کسی حد تک حیران کن بھی۔ فیمیل کولیگز نے جواب میں الٹا ان صاحب سے سوال کر ڈالا کہ سب کچھ تو میسر ہے ہمیں، پھر کس حق کےلیے آواز اٹھائیں؟
میں نے اسلام آباد کی ایک دوست سے جو اعلیٰ پائے کی فیمنسٹ، ورکنگ وومن اور بلاگر بھی ہیں، پوچھا کہ آپ کو ایسے کون کون سے حقوق میسر نہیں جن کےلیے آپ ویمنز ڈے کے موقعے پر آواز اٹھانا چاہیں گی؟ جواب ملا کہ میں نے کبھی ویمنز ڈے پر کوئی حق نہیں مانگا، اپنے حق سارے خود لے لیتی ہوں، لہٰذا مجھے آج کے دن باتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مطلب یہاں بھی کوئی حق تلفی ہوتی نظر نہیں آئی۔
اسی طرح کی ایک اور، ایسی باہمت و باصلاحیت سوشل ایکٹیوسٹ سے بھی شناسائی ہے جو اپنی ساری توانائی معاشرے میں علم کے چراغ روشن کرنے اور ماحول کو انسان دوست بنانے پر صرف کررہی ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی اس کی کاوشوں کے معترف ہیں۔ اس کے سامنے جب میں نے یہی سوال رکھا کہ وہ کون کون سے حقوق ہیں جن سے تمہیں محض ایک عورت ہونے کی وجہ سے محروم رہنا پڑتا ہے؟ تو اس نے اپنا جواب وائس نوٹ کی صورت میں واٹس ایپ کردیا جسے حرف بہ حرف لکھ رہا ہوں: ''میں اسی کلچر کا حصہ ہوں، میری ثقافت میری پہچان ہے۔ میں نے کراچی سے اپنی جدوجہد شروع کی، ایک ادارے کی بنیاد رکھی اور آج یہ ادارہ پورے ملک بالخصوص سندھ اور پنجاب میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اپنے اب تک کے کیریئر میں مجھے کہیں پر بھی ایسا نہیں لگا کہ کسی بھی فورم پر میری آواز کو صرف اس لیے دبانے کی کوشش کی گئی ہو کہ میں ایک لڑکی ہوں، یا مجھ سے کسی بھی طرح کے موقع کو اس وجہ سے چھینا گیا ہو کہ میں خاتون ہوں، مجھے کبھی ایسے کسی امتیازی سلوک یا چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔''
لیکن ہمارے اردگرد خواتین ہی کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کی سوچ مذکورہ خواتین سے مختلف ہے۔ وہ اپنے آپ کو حقوقِ نسواں کا چیمپئن گردانتی ہیں اور دوسروں سے بھی منوانا چاہتی ہیں۔ فیمنزم کی تحریک کو جلا بخشنے کےلیے ہائی سوسائٹی اور ایلیٹ کلاس پر مشتمل خواتین کا یہ طبقہ جو معاشرے کی کُل خواتین کا ایک فیصد بھی نہیں، ویمنز ڈے پر سڑکوں پر آیا اور حقوقِ نسواں اور آزادی کے نعرے مارنے لگا۔ مجھ سمیت بہت سے معصوم مگر سنجیدہ لوگ، جن میں خود ان کی 'ہم صنف' بھی شامل ہیں، کنفیوزڈ تھے کہ یہ خواتین مانگ کیا رہی ہیں؟ کیسے حقوق اور کس بات کی آزادی کا مطالبہ ہے؟ ان کا نظریہ کیا ہے؟ آیا یہ فیمنزم کی ابجد سے بھی واقف ہیں یا مکمل نابلد؟ کیونکہ جس مغرب سے انہوں نے یہ تحریک مستعار لی ہے، خود اسی مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحث نے ''فیمنزم'' نامی تحریک کے بطن سے انیسویں صدی میں جنم لیا مگر وہاں عورت ذات کو ووٹ کا حق بیسویں صدی میں دیا گیا۔
اس کے برعکس، کلامِ الٰہی میں سورۂ بقرہ سمیت کئی سورتیں تو ساتویں صدی عیسوی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہیں، ان کی حفاظت کی ضامن ہیں۔ وجودِ زن کو تخلیق کرنے والی ذاتِ باری نے تو اپنی کتاب کی ایک پوری سورت (سورۃ النساء) کا نام ہی عورت سے منسوب کردیا ہے۔ پھر یہ حقوقِ نسواں کی نام نہاد علمبردار چاہ کیا رہی ہیں؟ کیونکہ سارے حقوق تو آج سے ہزاروں سال پہلے ہی طے اور تفویض کیے جاچکے۔ تواب حق کے نام پر جس کےلیے واویلا مچایا جارہا ہے، آیا وہ حق ہی ہے یا خواہشات؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مردوں کے کسی مخصوص ٹولے یا طبقے نے عورتوں کے حقوق کے نام پر الٹا ان کا استحصال کرنے کی گندی خواہش پال رکھی ہو؛ اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے حقوقِ نسواں کا ڈھونگ رچا رکھا ہو تاکہ بھولی بھالی خواتین ان کے جھانسے میں آئیں اور یہ اپنی شیطانی خواہشات پوری کرسکیں... اور پھر کل کو اگر مرد حضرات اپنی ناجائز نفسانی خواہشات کو حق کا نام دے کر طلب کرنے لگ جائیں تو کیا انہیں پورا کیا جائے گا؟
یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ مفروضوں اور خیالی گھوڑوں کا کوئی سرپیر نہیں ہوا کرتا۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ اور مزیدار پہلو یہ بھی ہے کہ سول سوسائٹی کی جو آنٹیاں اور لڑکیاں حقوقِ نسواں کےلیے نعرے لگاتی اور گز گز بھر لمبی زبان سے بھاشن دیتے نہیں تھکتیں، اگر ان کا اپنی ماسیوں اور کام کرنے والی خواتین کے ساتھ سلوک اور رویہ دیکھ لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ آیا یہ واقعی عورت کو عزت اور مقام دلانا چاہتی ہیں یا اس کی آڑ میں کوئی اور ہی گورکھ دھندہ چل رہا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ارد گرد سب اچھا ہے، راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ یہ بجا ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، کاروکاری اور اس قبیل کے دیگر جاہلانہ اور دقیانوسی رواج آج بھی ہمارے گاؤں دیہاتوں میں مروج ہیں۔ مگر واقعات و قرائن کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے، جائزہ لیا جائے تو ادراک ہوگا کہ اس معاملے کا صنفی تقسیم سے تعلق اتنا گہرا نہیں کہ جتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اصل میں یہ معاملہ تعلیم و تربیت سے دوری اور شعور کی کمی کا ہے۔ کیونکہ اگر قبائل اور دیہاتوں میں خواتین کی قرآن سے شادی رچا دی جاتی ہے تو وہاں مردوں پر خونخوار کتے بھی چھوڑے جاتے ہیں، انسانیت سوز سلوک مردوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے ۔ یہ معاملہ مرد و عورت میں تفریق کا نہیں، بلکہ علم اور جہالت میں تفاوت کا ہے، ظالم اور مظلوم کا ہے۔
لیکن، اس کے برعکس، اگر آپ نگاہ دوڑائیں تو تدریس سے لے کر وکالت تک، طب سے لے کر بینکاری تک، کھیل اور فنونِ لطیفہ سے لے کر ہوا بازی تک، صحافت سے لے کر سیاست تک، غرض کونسا ایسا میدان ہے جہاں آپ کو خواتین اپنے علم و فن کے جوہر دکھاتی نظر نہیں آئیں گی۔ بلکہ اب تو کئی بڑے سرکاری و نجی اداروں اور کاروباری مراکز کی اہم ذمہ داریوں اور عہدوں پر خواتین تعینات نظر آتی ہیں۔
سائیکل اور اسکوٹی تو قصہ پارینہ ہوچکیں، اب ہماری عورتیں ہوائی جہاز اڑاتی ہیں۔ پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ خاتون مریم مختار کی شہادت کو، جو آپریشنل فلائنگ پر تھیں، ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا۔ اسی طرح جدید دنیا میں کسی بھی ملک کی اوّلین خاتون سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو، بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے والی مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروگرامر ارفع کریم، امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی، جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی نسیم حمید، قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، یہ سب ہمارے معاشرے کی ہی بچیاں اور خواتین ہیں یا کوئی آسمانی مخلوق؟ اگر ہمارے معاشرے میں حقوقِ نسواں کی صورتِ حال کا معاملہ اسی قدر خراب ہوتا تو کیا ایسا ممکن تھا کہ یہ اور ان جیسی دوسری ان گنت خواتین اپنے اپنے آسمانوں پر ستاروں کی مانند یوں جگمگا رہی ہوتیں؟
الیکٹرونک میڈیا میں شام سات بجے سے نو بجے کا دورانیہ ''پرائم ٹائم'' یعنی سب سے قابلِ قدر وقت ہوتا ہے۔ کسی دن غور فرمائیے تو نظر آئے گا کہ اس وقت زیادہ تر چینلوں پر کرنٹ افیئرز (حالاتِ حاضرہ) کے ٹاک شوز خواتین اینکرز ہی کررہی ہوتی ہیں۔
دینِ فطرت نے عورت کو جو مقام دیا وہ کسی لفاظی کا محتاج نہیں۔ ایک معمولی مگر ناقابلِ نظرانداز مثال یہی لے لیجیے کہ مردوں پر میدان جنگ میں بھی نماز معاف نہیں کی گئی جبکہ عورت کو ایامِ حیض میں، جو برسوں میں ایک آدھ بار نہیں بلکہ ہر ماہ آتے ہیں، صرف نماز جیسی فرض عبادت ہی سے رخصت نہیں دی بلکہ مرد کو بھی خبردار کردیا کہ ان دنوں میں اپنی عورتوں سے خواہشات نفسانی پوری کرنے کے بجائے ان کےلیے زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے علاوہ جائیداد سے لے کر وراثت تک، اور گواہی سے لے کر فیصلوں تک کے جو جو حقوق و اختیارات اور مناصب عورت کو تفویض کیے گئے، وہ دنیا کے بہترین آئین اور انسانی حقوق کے چارٹر قرآنِ حکیم میں واضح طور پر موجود ہیں۔
بات یہ ہے کہ انسانوں کو پیدا کرنے اور اشرف المخلوقات کا درجہ بخشنے والے خدا نے انسان کی (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) پُرسکون زندگی کا نسخہ بھی عطا کیا ہے، لیکن انسان چونکہ خود کو خدا سے بھی زیادہ عقل مند سمجھ بیٹھا ہے، اس لیے وہ خدا کے دیئے گئے اصولوں اور طریقوں کے مقابلے میں اپنی منطق لڑانے لگا ہے۔ بس یہیں پر وہ منہ کی کھاتا ہے، ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے اور وہ اپنا سا منہ لے کررہ جاتا ہے۔ اگر وہ رضاکارانہ طور پر خدا کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردے، اپنی فہم کو خدائی اصولوں کے تابع کر لے اور اس کے بتائے گئے طریقوں پر اپنی زندگانی بسر کرنا شروع کردے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی زندگی سکون و خوشحالی کی قابلِ دید نظیر بن جائے۔ جبکہ، اس کے برخلاف، آپ بغاوت و سرکشی کی روش کو اپناتے ہیں تو یقین جانیے کہ آپ نہ صرف اپنے بلکہ پوری کائنات کے معبودِ برحق کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس نے اپنے محبوبﷺ کے وسیلے سے، بہت پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر آفس میں ساتھی خواتین سے ایک صاحب نے ازراہِ مزاح استفسار کیا کہ کیوں بھئی، آپ لوگ اپنے حقوق کےلیے آواز نہیں اٹھا رہیں؟ خواتین کا جواب بڑا دلچسپ تھا، اور کسی حد تک حیران کن بھی۔ فیمیل کولیگز نے جواب میں الٹا ان صاحب سے سوال کر ڈالا کہ سب کچھ تو میسر ہے ہمیں، پھر کس حق کےلیے آواز اٹھائیں؟
میں نے اسلام آباد کی ایک دوست سے جو اعلیٰ پائے کی فیمنسٹ، ورکنگ وومن اور بلاگر بھی ہیں، پوچھا کہ آپ کو ایسے کون کون سے حقوق میسر نہیں جن کےلیے آپ ویمنز ڈے کے موقعے پر آواز اٹھانا چاہیں گی؟ جواب ملا کہ میں نے کبھی ویمنز ڈے پر کوئی حق نہیں مانگا، اپنے حق سارے خود لے لیتی ہوں، لہٰذا مجھے آج کے دن باتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مطلب یہاں بھی کوئی حق تلفی ہوتی نظر نہیں آئی۔
اسی طرح کی ایک اور، ایسی باہمت و باصلاحیت سوشل ایکٹیوسٹ سے بھی شناسائی ہے جو اپنی ساری توانائی معاشرے میں علم کے چراغ روشن کرنے اور ماحول کو انسان دوست بنانے پر صرف کررہی ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی اس کی کاوشوں کے معترف ہیں۔ اس کے سامنے جب میں نے یہی سوال رکھا کہ وہ کون کون سے حقوق ہیں جن سے تمہیں محض ایک عورت ہونے کی وجہ سے محروم رہنا پڑتا ہے؟ تو اس نے اپنا جواب وائس نوٹ کی صورت میں واٹس ایپ کردیا جسے حرف بہ حرف لکھ رہا ہوں: ''میں اسی کلچر کا حصہ ہوں، میری ثقافت میری پہچان ہے۔ میں نے کراچی سے اپنی جدوجہد شروع کی، ایک ادارے کی بنیاد رکھی اور آج یہ ادارہ پورے ملک بالخصوص سندھ اور پنجاب میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اپنے اب تک کے کیریئر میں مجھے کہیں پر بھی ایسا نہیں لگا کہ کسی بھی فورم پر میری آواز کو صرف اس لیے دبانے کی کوشش کی گئی ہو کہ میں ایک لڑکی ہوں، یا مجھ سے کسی بھی طرح کے موقع کو اس وجہ سے چھینا گیا ہو کہ میں خاتون ہوں، مجھے کبھی ایسے کسی امتیازی سلوک یا چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔''
لیکن ہمارے اردگرد خواتین ہی کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کی سوچ مذکورہ خواتین سے مختلف ہے۔ وہ اپنے آپ کو حقوقِ نسواں کا چیمپئن گردانتی ہیں اور دوسروں سے بھی منوانا چاہتی ہیں۔ فیمنزم کی تحریک کو جلا بخشنے کےلیے ہائی سوسائٹی اور ایلیٹ کلاس پر مشتمل خواتین کا یہ طبقہ جو معاشرے کی کُل خواتین کا ایک فیصد بھی نہیں، ویمنز ڈے پر سڑکوں پر آیا اور حقوقِ نسواں اور آزادی کے نعرے مارنے لگا۔ مجھ سمیت بہت سے معصوم مگر سنجیدہ لوگ، جن میں خود ان کی 'ہم صنف' بھی شامل ہیں، کنفیوزڈ تھے کہ یہ خواتین مانگ کیا رہی ہیں؟ کیسے حقوق اور کس بات کی آزادی کا مطالبہ ہے؟ ان کا نظریہ کیا ہے؟ آیا یہ فیمنزم کی ابجد سے بھی واقف ہیں یا مکمل نابلد؟ کیونکہ جس مغرب سے انہوں نے یہ تحریک مستعار لی ہے، خود اسی مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحث نے ''فیمنزم'' نامی تحریک کے بطن سے انیسویں صدی میں جنم لیا مگر وہاں عورت ذات کو ووٹ کا حق بیسویں صدی میں دیا گیا۔
اس کے برعکس، کلامِ الٰہی میں سورۂ بقرہ سمیت کئی سورتیں تو ساتویں صدی عیسوی سے عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی ہیں، ان کی حفاظت کی ضامن ہیں۔ وجودِ زن کو تخلیق کرنے والی ذاتِ باری نے تو اپنی کتاب کی ایک پوری سورت (سورۃ النساء) کا نام ہی عورت سے منسوب کردیا ہے۔ پھر یہ حقوقِ نسواں کی نام نہاد علمبردار چاہ کیا رہی ہیں؟ کیونکہ سارے حقوق تو آج سے ہزاروں سال پہلے ہی طے اور تفویض کیے جاچکے۔ تواب حق کے نام پر جس کےلیے واویلا مچایا جارہا ہے، آیا وہ حق ہی ہے یا خواہشات؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مردوں کے کسی مخصوص ٹولے یا طبقے نے عورتوں کے حقوق کے نام پر الٹا ان کا استحصال کرنے کی گندی خواہش پال رکھی ہو؛ اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے حقوقِ نسواں کا ڈھونگ رچا رکھا ہو تاکہ بھولی بھالی خواتین ان کے جھانسے میں آئیں اور یہ اپنی شیطانی خواہشات پوری کرسکیں... اور پھر کل کو اگر مرد حضرات اپنی ناجائز نفسانی خواہشات کو حق کا نام دے کر طلب کرنے لگ جائیں تو کیا انہیں پورا کیا جائے گا؟
یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ مفروضوں اور خیالی گھوڑوں کا کوئی سرپیر نہیں ہوا کرتا۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ اور مزیدار پہلو یہ بھی ہے کہ سول سوسائٹی کی جو آنٹیاں اور لڑکیاں حقوقِ نسواں کےلیے نعرے لگاتی اور گز گز بھر لمبی زبان سے بھاشن دیتے نہیں تھکتیں، اگر ان کا اپنی ماسیوں اور کام کرنے والی خواتین کے ساتھ سلوک اور رویہ دیکھ لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ آیا یہ واقعی عورت کو عزت اور مقام دلانا چاہتی ہیں یا اس کی آڑ میں کوئی اور ہی گورکھ دھندہ چل رہا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ارد گرد سب اچھا ہے، راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ یہ بجا ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، کاروکاری اور اس قبیل کے دیگر جاہلانہ اور دقیانوسی رواج آج بھی ہمارے گاؤں دیہاتوں میں مروج ہیں۔ مگر واقعات و قرائن کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے، جائزہ لیا جائے تو ادراک ہوگا کہ اس معاملے کا صنفی تقسیم سے تعلق اتنا گہرا نہیں کہ جتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اصل میں یہ معاملہ تعلیم و تربیت سے دوری اور شعور کی کمی کا ہے۔ کیونکہ اگر قبائل اور دیہاتوں میں خواتین کی قرآن سے شادی رچا دی جاتی ہے تو وہاں مردوں پر خونخوار کتے بھی چھوڑے جاتے ہیں، انسانیت سوز سلوک مردوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے ۔ یہ معاملہ مرد و عورت میں تفریق کا نہیں، بلکہ علم اور جہالت میں تفاوت کا ہے، ظالم اور مظلوم کا ہے۔
لیکن، اس کے برعکس، اگر آپ نگاہ دوڑائیں تو تدریس سے لے کر وکالت تک، طب سے لے کر بینکاری تک، کھیل اور فنونِ لطیفہ سے لے کر ہوا بازی تک، صحافت سے لے کر سیاست تک، غرض کونسا ایسا میدان ہے جہاں آپ کو خواتین اپنے علم و فن کے جوہر دکھاتی نظر نہیں آئیں گی۔ بلکہ اب تو کئی بڑے سرکاری و نجی اداروں اور کاروباری مراکز کی اہم ذمہ داریوں اور عہدوں پر خواتین تعینات نظر آتی ہیں۔
سائیکل اور اسکوٹی تو قصہ پارینہ ہوچکیں، اب ہماری عورتیں ہوائی جہاز اڑاتی ہیں۔ پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ خاتون مریم مختار کی شہادت کو، جو آپریشنل فلائنگ پر تھیں، ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا۔ اسی طرح جدید دنیا میں کسی بھی ملک کی اوّلین خاتون سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو، بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے والی مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروگرامر ارفع کریم، امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی، جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی نسیم حمید، قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، یہ سب ہمارے معاشرے کی ہی بچیاں اور خواتین ہیں یا کوئی آسمانی مخلوق؟ اگر ہمارے معاشرے میں حقوقِ نسواں کی صورتِ حال کا معاملہ اسی قدر خراب ہوتا تو کیا ایسا ممکن تھا کہ یہ اور ان جیسی دوسری ان گنت خواتین اپنے اپنے آسمانوں پر ستاروں کی مانند یوں جگمگا رہی ہوتیں؟
الیکٹرونک میڈیا میں شام سات بجے سے نو بجے کا دورانیہ ''پرائم ٹائم'' یعنی سب سے قابلِ قدر وقت ہوتا ہے۔ کسی دن غور فرمائیے تو نظر آئے گا کہ اس وقت زیادہ تر چینلوں پر کرنٹ افیئرز (حالاتِ حاضرہ) کے ٹاک شوز خواتین اینکرز ہی کررہی ہوتی ہیں۔
دینِ فطرت نے عورت کو جو مقام دیا وہ کسی لفاظی کا محتاج نہیں۔ ایک معمولی مگر ناقابلِ نظرانداز مثال یہی لے لیجیے کہ مردوں پر میدان جنگ میں بھی نماز معاف نہیں کی گئی جبکہ عورت کو ایامِ حیض میں، جو برسوں میں ایک آدھ بار نہیں بلکہ ہر ماہ آتے ہیں، صرف نماز جیسی فرض عبادت ہی سے رخصت نہیں دی بلکہ مرد کو بھی خبردار کردیا کہ ان دنوں میں اپنی عورتوں سے خواہشات نفسانی پوری کرنے کے بجائے ان کےلیے زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے علاوہ جائیداد سے لے کر وراثت تک، اور گواہی سے لے کر فیصلوں تک کے جو جو حقوق و اختیارات اور مناصب عورت کو تفویض کیے گئے، وہ دنیا کے بہترین آئین اور انسانی حقوق کے چارٹر قرآنِ حکیم میں واضح طور پر موجود ہیں۔
بات یہ ہے کہ انسانوں کو پیدا کرنے اور اشرف المخلوقات کا درجہ بخشنے والے خدا نے انسان کی (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) پُرسکون زندگی کا نسخہ بھی عطا کیا ہے، لیکن انسان چونکہ خود کو خدا سے بھی زیادہ عقل مند سمجھ بیٹھا ہے، اس لیے وہ خدا کے دیئے گئے اصولوں اور طریقوں کے مقابلے میں اپنی منطق لڑانے لگا ہے۔ بس یہیں پر وہ منہ کی کھاتا ہے، ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے اور وہ اپنا سا منہ لے کررہ جاتا ہے۔ اگر وہ رضاکارانہ طور پر خدا کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردے، اپنی فہم کو خدائی اصولوں کے تابع کر لے اور اس کے بتائے گئے طریقوں پر اپنی زندگانی بسر کرنا شروع کردے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی زندگی سکون و خوشحالی کی قابلِ دید نظیر بن جائے۔ جبکہ، اس کے برخلاف، آپ بغاوت و سرکشی کی روش کو اپناتے ہیں تو یقین جانیے کہ آپ نہ صرف اپنے بلکہ پوری کائنات کے معبودِ برحق کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس نے اپنے محبوبﷺ کے وسیلے سے، بہت پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ:
''اے ابن آدم!
ایک میری چاہت ہے، ایک تیری چاہت ہے،
تو ہوگا وہی جو میری چاہت ہے،
پس اگر تو نے سپرد کردیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے،
تو میں وہ بھی دوں گا جو تیری چاہت ہے،
اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے،
تو میں تھکا دوں گا اس میں جو تیری چاہت ہے،
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔