ذکر بھارتی فلمی صنعت کے کچھ نام ور گیت نگاروں کا
آصف صاحب نے انہیں اپنی نئی فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کے گیت لکھنے کے لیے بھارت آنے کی دعوت دی۔
سید خورشید علی المعروف تنویر ؔ نقوی ( 6 فروری 1919 سے 1972):
تنویر ؔنقوی برِصغیر پاک و ہند کے نام ور گیت نگار تھے۔ اُنہوں نے پہلی مرتبہ 19سال کی عمر میں 1938 میں فلم ''شاعر'' کے لیے گیت لکھے۔ اِن کے فلمی گیت پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی عوام میں بے حد مقبول ہوگئے تھے۔ آزادی کے بعد یہ پاکستان آگئے اور یہاں اُردو اور پنجابی فلموں کے بے شمار سُپرہٹ گیت تخلیق کیے۔
آزادی سے پہلے نومبر 1946میں بننے والی ہدایت کار محبوب صاحب کی فلم '' انمول گھڑی'' نے اُن کی شہرت میں اضافہ کیا: ''آواز دے کہاں ہے...''، ''آ جا میری برباد محبت کے سہارے...''، ''جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ...''!! اِس کے بعد 23 مئی 1947 کو نمائش کے لیے پیش ہونے والی ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی صاحب کی فلم ''جگنو'' کے گیت مثلاً: ''یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے...'' جن کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی، بہت مقبول ہوئے۔ پاکستان آنے پر یہاں بننے والی پہلی فلم '' تیری یاد'' کے گیت لکھے۔ 1956 میں بھارتی ہدایت کار کے۔
آصف صاحب نے انہیں اپنی نئی فلم ''مغلِ اعظم'' کے گیت لکھنے کے لیے بھارت آنے کی دعوت دی۔ اُس وقت پاک و ہند کے درمیان سفر مشکل نہیں تھا۔ تنویرؔ نقوی نے دعوت قبول کی اور بھارت چلے گئے۔ وہاں جا کر انہیں علم ہوا کہ اس فلم کا ایک گیت موسیقار نوشاد نے شکیلؔ بدایونی سے لکھوا لیا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں علی سفیان آفاقی صاحب نے خاکسار کو تفصیل سے بتایا کہ اس کا علم ہوتے ہی تنویرؔ نقوی جلال میں آ گئے اور انہوں نے کے۔ آصف اور موسیقار نوشاد کے لیے کبھی بھی کام کرنے سے انکار کردیا۔ نیز انہوں نے کہا کہ اب وہ بھارت میں ہی رہ کر انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کیا کر سکتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوا اور تنویرؔ نقوی بھارتی فلمی صنعت پر چھاگئے۔ خاکسار نے یہ واقعہ سکیدار کی کتاب ''دل کا دیا جلایا'' میں بھی پڑھا۔
تنویرؔ نقوی پا ک و ہند کے وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے بھارت جاکر ایک دفعہ پھر آزادی سے پہلی والی شہرت، توقیر اور پیسہ کمایا۔ یہی زمانہ تھا جب ان کا لکھا ہوا فلم ''شیریں فرہاد'' کا گیت: ؎
گزرا ہوا زمانہ
آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا
لتامنگیشکر کی آواز اور ایس مہندر کی موسیقی میں پاک و ہند میں چھا گیا۔ اس وقت میڈم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن تنویرنقوی صاحب کے نکاح میں تھیں۔ بمبئی میں اداکارہ نرگس نے اپنے ایک گھر کو اِن کے لیے مختص کردیا۔ تنویر نقوی کے دیرینہ دوست، مشہور پاکستانی فلمی شخصیت '' سِکیدار'' اپنی کتاب '' دل کا دیا جلایا '' میں لکھتے ہیں: ''اللہ نے اِن کو چھپر پھاڑ کر دینا شروع کر دیا...لیکن...گھریلو اور ذاتی وجوہ کی بنا پر وہ دوبارہ اپنے بنے بنائے مقام کو چھوڑ کر پاکستان واپس آ گئے حالاں کہ اُس وقت بھارت میں انہیں ایک گیت کے جتنے پیسے ملتے تھے، پاکستان آ کر اتنے پیسے انہیں 6 ماہ میں کہیں جا کر ملتے تھے۔''
پاکستان میں بھی اُن کی پذیرائی ہوئی ۔ 1958 میں بننے والی انور کمال پاشاصاحب کی فلم ''انار کلی'' سے انہیں بامِ عروج ملا۔ اِس فلم کے دو موسیقار تھے، رشید عطرے اور ماسٹر عنایت حسین صاحبان۔ تمام گیت تنویر نقوی صاحب نے لکھے: '' کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں...''، ''بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار...''، ''پہلے تو اپنے دل کی ادا جان جائیے...''، ''صدا ہوں اپنے پیار کی...''،''جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے۔'' اگلے ہی سال نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم '' کوئل'' کے گیتوں نے تو دھوم مچا دی۔ اس کے موسیقار خواجہ خو رشید انور اور ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ مذکورہ فلم کے تمام ہی گیت مقبول ہوئے جیسے: ''دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دل کا دیا جلایا...''، ''او بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا...''، ''رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار...''،''ساگر روئے لہریں شور مچائیں...''، ''تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات...''، ''مہکی فضائیں گاتی ہوائیں...۔''
تنویر ؔ نقوی صاحب نے حضرت شیخ سعدیؒ کی مشورِ عالم نعت:
بلغ العلی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
کی تضمین کر کے اور اس پر اپنے مصرعے لگا کر خواجہ خورشید انور کی طرز پر زبیدہ خانم اور ساتھیوں کی آواز میں1960 میں بننے والی ہدایت کار لقمان صاحب کی فلم '' ایاز'' میںلا زوال بنا دیا: ؎
جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ و آلہ
مشہور اہلِ قلم جناب ناصر زیدی کا کہنا ہے: '' تنویرؔ نقوی کی شاعری صرف فلمی شاعری نہ تھی بلکہ تخلیقی شاعری تھی۔ اگر اسے فلم سے الگ کر کے پڑھا اور چھاپا جائے تو ادبی رنگ میں بھر پور رنگی نظر آتی ہے۔ ''
ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے محاذِجنگ پر جا کر یہ مشہور گیت لکھا: '' رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو...'' جس کو نورجہاں کی آواز میں صدابند کیا گیا۔
٭شیاما لال بابو رائے المعروف اندیور ( یکم جنوری 1924سے 27فروری 1997):
اندیور بھارتی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ بطور گیت نگار ان کی اہمیت1951میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم ''ملہار'' کے گیت سے ہوئی جسے مکیش نے گایا: ''تارہ ٹوٹے دنیا دیکھے۔۔۔دیکھا نہ کسی نے دل ٹوٹ گیا۔ '' اسی فلم میں لتا اور مکیش کی آوازوں میں ایک دوگانا: ''بڑے ارمانوں سے رکھا ہے بلم تیری قسم۔۔۔پیار کی دنیا میں یہ پہلا قدم۔'' ان گانوں کی طرزیں موسیقار روشن نے ترتیب دیں، جو پاک و ہند میں چہار جانب گونجنے لگے۔ اندیور نے فلموں کے لیے ہزاروں گیت لکھے جن میں سے اکثر بے حد مقبول ہوئے۔ 1980کے نازیہ اور زوہیب حسن کے مقبول گیت: ''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے...''اور اُن کے دیگر مشہور گیت بھی اندیور نے لکھے۔
اندیور کے کچھ مقبول گیت یہ ہیں:
1۔ جس دل میں بسا تھا پیار تیرا۔۔۔اُس دل کو کبھی کا توڑ دیا۔
فلم: ''سہیلی''(1965' موسیقی: کلیان جی آنند جی، آواز : مکیش
2 ۔ قسمیں وعدے پیار وفا سب باتیں ہیں باتوں کا کیا۔۔۔۔کوئی کسی کا نہیں یہ جھوٹے ناتے ہیں ناتوں کا کیا۔
فلم '' اُپکار''(1967)، آواز منّا ڈے، موسیقی: کلیان جی آنند جی
3۔ چندن سا بدن چنچل چَتوَن دھیرے سے تیرا یہ مُسکانا۔۔۔۔۔مجھے دوش نہ دینا جگ والو ہو جاؤں اگر میں دیوانہ۔
فلم''سراسوتی چندرا'' (1968) ، آواز: مکیش
4۔ چھوڑ دے ساری دنیا کسی کے لیے۔۔۔۔یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے
فلم''پورب پچھم'' (1970) موسیقی کلیان جی آنند جی، آواز: لتا
5۔کوئی جب تمہارا ردے توڑ دے۔۔۔ تڑپتا ہوا جب کوئی چھوڑ دے
موسیقی : کلیان جی آنند جی
6۔ زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر۔۔۔ کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں موسیقی: کلیان جی آنند جی
7۔ ہم تمہیں چاہتے ہیں ایسے۔۔۔۔مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے
فلم'' قُربانی''( 1980) آوازیں: آنند کماراور ہمنوا، موسیقی: کلیان جی آنند جی
8۔ ہونٹوں سے چھو لو تم میرا گیت امر کر دو۔۔۔۔بَن جاؤ میت میرے میرا پریت امر کر دو فلم ''پریم گیت''(1981) آواز: جگجیت سنگھ، موسیقی: جگجیت سنگھ۔
اندیور کو 1976میں بہترین گیت نگار کا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔
٭اسرار الحسن خان المعروف مجروحؔ سلطان پوری (یکم اکتوبر 1919سے 24مئی 2000):
یہ یونانی طریقۂ طب کے مستند حکیم تھے۔ ایک موقع پر کسی مشاعرے میں غزل پڑھی اور یہیں سے شاعری، میدانِ عمل کی راہ نما بن گئی اور حکمت پس منظر میں چلی گئی۔ جگر مراد آبادی بھی مجروح کے مصاحبوں میں سے ایک تھے اور اُن کو اپنا استاد مانتے تھے۔ ان کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے۔ 1945میں بمبئی کے کسی مشاعرہ گاہ میں انہیں خوب ستائش ملی ۔ مدح شرکاء میں فلم ساز اے -آر-کاردار بھی تھے۔ انہوں نے مجروحؔ کو موسیقار نوشاد علی سے ملایا۔ نوشاد نے مجروحؔ کو ایک دُھن سُنائی اور اس پر گیت لکھنے کو کہا، جس پر انہوں نے منٹوں میں لکھ دیا۔ یوں فلم ''شاہ جہاں'' کے گیت لکھنے کا معاہدہ طے ہو گیا۔ مذکورہ فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے۔ جیسے: ''کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا۔۔۔ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ۔'' کے - ایل -سہگل کی آواز میں مجروح ؔکے گیتوں نے دھوم مچادی اور مجروح کی شہرت کو پر لگ گئے۔ دھڑا دھڑ فلمیں مِلنے لگیں۔ اِن کے لکھنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح ؔنے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔ وہ پہلے فلمی شاعر ہیں جنہیں 1994میں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ''دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔
مجروحؔ کا گیت: ؎ '' جب دل ہی ٹوٹ گیا...'' بے حد مقبول تھا۔ روایت ہے کہ اس گیت کو، اِس کے گلوکار کے-ایل- سہگل کے جنازے کے ساتھ بھی بجایا گیا۔ مجروحؔ سلطان پوری نے 55 سال میں 300 سے زیادہ فلموں کے تقریباً چار ہزار گیت لکھے۔ 1964میں فلم '' دوستی'' کے لیے لکھے گیت جس کی موسیقی پہلی مرتبہ لکشمی کانت اور پیارے لال نے دی ـ: ؎ ''چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے...'' کو اُس سال کے بہترین گیت نگار، گلوکار اور موسیقار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
یوں تو مجروحؔ کے مقبول گیت بے شمار ہیں۔ یہاں چند ایک کا ذکر کرتا ہوں:
1975میں بننے والی فلم ''دھرم کرم'' میں گلوکار مکیش چند ماتھر المعروف مکیش کی آواز میں موسیقار آر-ڈی-برمن کا سپر ہٹ گیت: اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
اس گیت کے پیچھے ایک دل چسپ کہانی ہے۔ مجروحؔ نے ترقی پسند تحریک کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی۔ وہ 1949سے جیلوں میں آتے جاتے رہے۔ یہ 1949 ہی کا زمانہ تھا وہ قید میں تھے، ایسے میں راج کپور نے کچھ مدد کرنا چاہی لیکن مجروحؔ کی خود داری آڑے آئی تب راج کپور نے اُن سے اپنی فلم کے لیے ایک گیت لکھنے کہ فرمائش کی۔ اُس زمانے میں، جب شیلیندرا کو راج کپور نے فلم '' برسات '' کے دو گیت لکھنے پر 500 روپے دیے تھے، مجروحؔ سلطان پوری کو ایک گیت کے 1000روپے دیے۔ پھر یہ گیت راج کپور نے 26 سال بعد 1975 میں فلم ''دھرم کرم '' میں استعمال کیا ۔ اسے کہتے ہیں ایثار۔ ٍ ٍ1972 میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم ''پاکیزہ'' میں مجروح کے گیت:''اِن ہی لوگوں نے...''،''چلتے چلتے یوں ہی کوئی مِل گیا تھا...'' بہت مشہور ہوئے۔
گو کہ مجروح ؔ نے بہت سے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، جیسے انیل بِسواس، نوشاد علی، مدن موہن، او پی نیر، روشن، لکشمی کانت پیارے لال وغیرہ، لیکن موسیقی کے پنڈتوں کے بقول اِن کے بہترین گیت ایس ڈی برمن اور ان کے صاحب زادے آر ڈی برمن کے ساتھ تخلیق ہوئے۔ مجروحؔ کے ناقدوں کا کہنا ہے ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں: ''تیسری منزل''، ''یادوں کی بارات'' اور ''ہم کسی سے کم نہیں'' نے اپنے زمانے کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ مجروحؔ نے ناصر حسین صاحب کے بیٹے ہدایت کار منصور خان کی فلموں کے لیے بھی سُپرہٹ گیت لکھے، جیسے سدا بہار فلم '' قیامت سے قیامت تک۔'' اس فلم کے لیے 1988میں مجروحؔ صاحب نے 70سال کی عمر میں یہ لازوال گیت لکھے: '' پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا...''،''اے میرے ہمسفر...۔'' اس فلم کے موسیقار آنند ملند تھے۔ ان کے لکھے گیت پر موسیقار اور گلوکار دونوں کو فلم فیئر ایوارڈ ملے یہاں تک کہ اس فلم کو ہر شعبے میں ایوارڈ ملا۔ نہیں ملا تو لازوال گیت لکھنے والے کو نہیں ملا۔ مجروحؔ بھارتی فلموں کے واحد گیت نگار ہیں جو اپنے آخر وقت تک گیت لکھتے رہے۔
یہ اُس دور کے لوگ ہیں جب فلمی صنعت میں تعصب نہیں آیا تھا۔ لوگ کام کو اہمیت دیتے تھے، انسانیت زندہ تھی اور وہ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ کام میں پُرخلوص تھے جب ہی انہوں نے لازوال اور سدا بہار گیت تخلیق کیے۔ پیسے کی ضرورت کے باوجود انہوں نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی اور فی زمانہ اب پیسہ ہی سب کچھ ہے۔
تنویر ؔنقوی برِصغیر پاک و ہند کے نام ور گیت نگار تھے۔ اُنہوں نے پہلی مرتبہ 19سال کی عمر میں 1938 میں فلم ''شاعر'' کے لیے گیت لکھے۔ اِن کے فلمی گیت پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی عوام میں بے حد مقبول ہوگئے تھے۔ آزادی کے بعد یہ پاکستان آگئے اور یہاں اُردو اور پنجابی فلموں کے بے شمار سُپرہٹ گیت تخلیق کیے۔
آزادی سے پہلے نومبر 1946میں بننے والی ہدایت کار محبوب صاحب کی فلم '' انمول گھڑی'' نے اُن کی شہرت میں اضافہ کیا: ''آواز دے کہاں ہے...''، ''آ جا میری برباد محبت کے سہارے...''، ''جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ...''!! اِس کے بعد 23 مئی 1947 کو نمائش کے لیے پیش ہونے والی ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی صاحب کی فلم ''جگنو'' کے گیت مثلاً: ''یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے...'' جن کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی، بہت مقبول ہوئے۔ پاکستان آنے پر یہاں بننے والی پہلی فلم '' تیری یاد'' کے گیت لکھے۔ 1956 میں بھارتی ہدایت کار کے۔
آصف صاحب نے انہیں اپنی نئی فلم ''مغلِ اعظم'' کے گیت لکھنے کے لیے بھارت آنے کی دعوت دی۔ اُس وقت پاک و ہند کے درمیان سفر مشکل نہیں تھا۔ تنویرؔ نقوی نے دعوت قبول کی اور بھارت چلے گئے۔ وہاں جا کر انہیں علم ہوا کہ اس فلم کا ایک گیت موسیقار نوشاد نے شکیلؔ بدایونی سے لکھوا لیا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں علی سفیان آفاقی صاحب نے خاکسار کو تفصیل سے بتایا کہ اس کا علم ہوتے ہی تنویرؔ نقوی جلال میں آ گئے اور انہوں نے کے۔ آصف اور موسیقار نوشاد کے لیے کبھی بھی کام کرنے سے انکار کردیا۔ نیز انہوں نے کہا کہ اب وہ بھارت میں ہی رہ کر انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کیا کر سکتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوا اور تنویرؔ نقوی بھارتی فلمی صنعت پر چھاگئے۔ خاکسار نے یہ واقعہ سکیدار کی کتاب ''دل کا دیا جلایا'' میں بھی پڑھا۔
تنویرؔ نقوی پا ک و ہند کے وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے بھارت جاکر ایک دفعہ پھر آزادی سے پہلی والی شہرت، توقیر اور پیسہ کمایا۔ یہی زمانہ تھا جب ان کا لکھا ہوا فلم ''شیریں فرہاد'' کا گیت: ؎
گزرا ہوا زمانہ
آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا
لتامنگیشکر کی آواز اور ایس مہندر کی موسیقی میں پاک و ہند میں چھا گیا۔ اس وقت میڈم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن تنویرنقوی صاحب کے نکاح میں تھیں۔ بمبئی میں اداکارہ نرگس نے اپنے ایک گھر کو اِن کے لیے مختص کردیا۔ تنویر نقوی کے دیرینہ دوست، مشہور پاکستانی فلمی شخصیت '' سِکیدار'' اپنی کتاب '' دل کا دیا جلایا '' میں لکھتے ہیں: ''اللہ نے اِن کو چھپر پھاڑ کر دینا شروع کر دیا...لیکن...گھریلو اور ذاتی وجوہ کی بنا پر وہ دوبارہ اپنے بنے بنائے مقام کو چھوڑ کر پاکستان واپس آ گئے حالاں کہ اُس وقت بھارت میں انہیں ایک گیت کے جتنے پیسے ملتے تھے، پاکستان آ کر اتنے پیسے انہیں 6 ماہ میں کہیں جا کر ملتے تھے۔''
پاکستان میں بھی اُن کی پذیرائی ہوئی ۔ 1958 میں بننے والی انور کمال پاشاصاحب کی فلم ''انار کلی'' سے انہیں بامِ عروج ملا۔ اِس فلم کے دو موسیقار تھے، رشید عطرے اور ماسٹر عنایت حسین صاحبان۔ تمام گیت تنویر نقوی صاحب نے لکھے: '' کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں...''، ''بانوری چکوری کرے دنیا سے چوری چوری چندا سے پیار...''، ''پہلے تو اپنے دل کی ادا جان جائیے...''، ''صدا ہوں اپنے پیار کی...''،''جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے۔'' اگلے ہی سال نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم '' کوئل'' کے گیتوں نے تو دھوم مچا دی۔ اس کے موسیقار خواجہ خو رشید انور اور ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ مذکورہ فلم کے تمام ہی گیت مقبول ہوئے جیسے: ''دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دل کا دیا جلایا...''، ''او بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا...''، ''رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار...''،''ساگر روئے لہریں شور مچائیں...''، ''تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات...''، ''مہکی فضائیں گاتی ہوائیں...۔''
تنویر ؔ نقوی صاحب نے حضرت شیخ سعدیؒ کی مشورِ عالم نعت:
بلغ العلی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
کی تضمین کر کے اور اس پر اپنے مصرعے لگا کر خواجہ خورشید انور کی طرز پر زبیدہ خانم اور ساتھیوں کی آواز میں1960 میں بننے والی ہدایت کار لقمان صاحب کی فلم '' ایاز'' میںلا زوال بنا دیا: ؎
جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ و آلہ
مشہور اہلِ قلم جناب ناصر زیدی کا کہنا ہے: '' تنویرؔ نقوی کی شاعری صرف فلمی شاعری نہ تھی بلکہ تخلیقی شاعری تھی۔ اگر اسے فلم سے الگ کر کے پڑھا اور چھاپا جائے تو ادبی رنگ میں بھر پور رنگی نظر آتی ہے۔ ''
ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے محاذِجنگ پر جا کر یہ مشہور گیت لکھا: '' رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو...'' جس کو نورجہاں کی آواز میں صدابند کیا گیا۔
٭شیاما لال بابو رائے المعروف اندیور ( یکم جنوری 1924سے 27فروری 1997):
اندیور بھارتی فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ بطور گیت نگار ان کی اہمیت1951میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم ''ملہار'' کے گیت سے ہوئی جسے مکیش نے گایا: ''تارہ ٹوٹے دنیا دیکھے۔۔۔دیکھا نہ کسی نے دل ٹوٹ گیا۔ '' اسی فلم میں لتا اور مکیش کی آوازوں میں ایک دوگانا: ''بڑے ارمانوں سے رکھا ہے بلم تیری قسم۔۔۔پیار کی دنیا میں یہ پہلا قدم۔'' ان گانوں کی طرزیں موسیقار روشن نے ترتیب دیں، جو پاک و ہند میں چہار جانب گونجنے لگے۔ اندیور نے فلموں کے لیے ہزاروں گیت لکھے جن میں سے اکثر بے حد مقبول ہوئے۔ 1980کے نازیہ اور زوہیب حسن کے مقبول گیت: ''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے...''اور اُن کے دیگر مشہور گیت بھی اندیور نے لکھے۔
اندیور کے کچھ مقبول گیت یہ ہیں:
1۔ جس دل میں بسا تھا پیار تیرا۔۔۔اُس دل کو کبھی کا توڑ دیا۔
فلم: ''سہیلی''(1965' موسیقی: کلیان جی آنند جی، آواز : مکیش
2 ۔ قسمیں وعدے پیار وفا سب باتیں ہیں باتوں کا کیا۔۔۔۔کوئی کسی کا نہیں یہ جھوٹے ناتے ہیں ناتوں کا کیا۔
فلم '' اُپکار''(1967)، آواز منّا ڈے، موسیقی: کلیان جی آنند جی
3۔ چندن سا بدن چنچل چَتوَن دھیرے سے تیرا یہ مُسکانا۔۔۔۔۔مجھے دوش نہ دینا جگ والو ہو جاؤں اگر میں دیوانہ۔
فلم''سراسوتی چندرا'' (1968) ، آواز: مکیش
4۔ چھوڑ دے ساری دنیا کسی کے لیے۔۔۔۔یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے
فلم''پورب پچھم'' (1970) موسیقی کلیان جی آنند جی، آواز: لتا
5۔کوئی جب تمہارا ردے توڑ دے۔۔۔ تڑپتا ہوا جب کوئی چھوڑ دے
موسیقی : کلیان جی آنند جی
6۔ زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر۔۔۔ کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں موسیقی: کلیان جی آنند جی
7۔ ہم تمہیں چاہتے ہیں ایسے۔۔۔۔مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے
فلم'' قُربانی''( 1980) آوازیں: آنند کماراور ہمنوا، موسیقی: کلیان جی آنند جی
8۔ ہونٹوں سے چھو لو تم میرا گیت امر کر دو۔۔۔۔بَن جاؤ میت میرے میرا پریت امر کر دو فلم ''پریم گیت''(1981) آواز: جگجیت سنگھ، موسیقی: جگجیت سنگھ۔
اندیور کو 1976میں بہترین گیت نگار کا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔
٭اسرار الحسن خان المعروف مجروحؔ سلطان پوری (یکم اکتوبر 1919سے 24مئی 2000):
یہ یونانی طریقۂ طب کے مستند حکیم تھے۔ ایک موقع پر کسی مشاعرے میں غزل پڑھی اور یہیں سے شاعری، میدانِ عمل کی راہ نما بن گئی اور حکمت پس منظر میں چلی گئی۔ جگر مراد آبادی بھی مجروح کے مصاحبوں میں سے ایک تھے اور اُن کو اپنا استاد مانتے تھے۔ ان کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے۔ 1945میں بمبئی کے کسی مشاعرہ گاہ میں انہیں خوب ستائش ملی ۔ مدح شرکاء میں فلم ساز اے -آر-کاردار بھی تھے۔ انہوں نے مجروحؔ کو موسیقار نوشاد علی سے ملایا۔ نوشاد نے مجروحؔ کو ایک دُھن سُنائی اور اس پر گیت لکھنے کو کہا، جس پر انہوں نے منٹوں میں لکھ دیا۔ یوں فلم ''شاہ جہاں'' کے گیت لکھنے کا معاہدہ طے ہو گیا۔ مذکورہ فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے۔ جیسے: ''کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا۔۔۔ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ۔'' کے - ایل -سہگل کی آواز میں مجروح ؔکے گیتوں نے دھوم مچادی اور مجروح کی شہرت کو پر لگ گئے۔ دھڑا دھڑ فلمیں مِلنے لگیں۔ اِن کے لکھنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح ؔنے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔ وہ پہلے فلمی شاعر ہیں جنہیں 1994میں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ''دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔
مجروحؔ کا گیت: ؎ '' جب دل ہی ٹوٹ گیا...'' بے حد مقبول تھا۔ روایت ہے کہ اس گیت کو، اِس کے گلوکار کے-ایل- سہگل کے جنازے کے ساتھ بھی بجایا گیا۔ مجروحؔ سلطان پوری نے 55 سال میں 300 سے زیادہ فلموں کے تقریباً چار ہزار گیت لکھے۔ 1964میں فلم '' دوستی'' کے لیے لکھے گیت جس کی موسیقی پہلی مرتبہ لکشمی کانت اور پیارے لال نے دی ـ: ؎ ''چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے...'' کو اُس سال کے بہترین گیت نگار، گلوکار اور موسیقار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
یوں تو مجروحؔ کے مقبول گیت بے شمار ہیں۔ یہاں چند ایک کا ذکر کرتا ہوں:
1975میں بننے والی فلم ''دھرم کرم'' میں گلوکار مکیش چند ماتھر المعروف مکیش کی آواز میں موسیقار آر-ڈی-برمن کا سپر ہٹ گیت: اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
اس گیت کے پیچھے ایک دل چسپ کہانی ہے۔ مجروحؔ نے ترقی پسند تحریک کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی۔ وہ 1949سے جیلوں میں آتے جاتے رہے۔ یہ 1949 ہی کا زمانہ تھا وہ قید میں تھے، ایسے میں راج کپور نے کچھ مدد کرنا چاہی لیکن مجروحؔ کی خود داری آڑے آئی تب راج کپور نے اُن سے اپنی فلم کے لیے ایک گیت لکھنے کہ فرمائش کی۔ اُس زمانے میں، جب شیلیندرا کو راج کپور نے فلم '' برسات '' کے دو گیت لکھنے پر 500 روپے دیے تھے، مجروحؔ سلطان پوری کو ایک گیت کے 1000روپے دیے۔ پھر یہ گیت راج کپور نے 26 سال بعد 1975 میں فلم ''دھرم کرم '' میں استعمال کیا ۔ اسے کہتے ہیں ایثار۔ ٍ ٍ1972 میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم ''پاکیزہ'' میں مجروح کے گیت:''اِن ہی لوگوں نے...''،''چلتے چلتے یوں ہی کوئی مِل گیا تھا...'' بہت مشہور ہوئے۔
گو کہ مجروح ؔ نے بہت سے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، جیسے انیل بِسواس، نوشاد علی، مدن موہن، او پی نیر، روشن، لکشمی کانت پیارے لال وغیرہ، لیکن موسیقی کے پنڈتوں کے بقول اِن کے بہترین گیت ایس ڈی برمن اور ان کے صاحب زادے آر ڈی برمن کے ساتھ تخلیق ہوئے۔ مجروحؔ کے ناقدوں کا کہنا ہے ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں: ''تیسری منزل''، ''یادوں کی بارات'' اور ''ہم کسی سے کم نہیں'' نے اپنے زمانے کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ مجروحؔ نے ناصر حسین صاحب کے بیٹے ہدایت کار منصور خان کی فلموں کے لیے بھی سُپرہٹ گیت لکھے، جیسے سدا بہار فلم '' قیامت سے قیامت تک۔'' اس فلم کے لیے 1988میں مجروحؔ صاحب نے 70سال کی عمر میں یہ لازوال گیت لکھے: '' پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا...''،''اے میرے ہمسفر...۔'' اس فلم کے موسیقار آنند ملند تھے۔ ان کے لکھے گیت پر موسیقار اور گلوکار دونوں کو فلم فیئر ایوارڈ ملے یہاں تک کہ اس فلم کو ہر شعبے میں ایوارڈ ملا۔ نہیں ملا تو لازوال گیت لکھنے والے کو نہیں ملا۔ مجروحؔ بھارتی فلموں کے واحد گیت نگار ہیں جو اپنے آخر وقت تک گیت لکھتے رہے۔
یہ اُس دور کے لوگ ہیں جب فلمی صنعت میں تعصب نہیں آیا تھا۔ لوگ کام کو اہمیت دیتے تھے، انسانیت زندہ تھی اور وہ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ کام میں پُرخلوص تھے جب ہی انہوں نے لازوال اور سدا بہار گیت تخلیق کیے۔ پیسے کی ضرورت کے باوجود انہوں نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی اور فی زمانہ اب پیسہ ہی سب کچھ ہے۔