خوش نصیب انسان
انسانوں نے اسی روشنی کے لیے دن رات عبادتیں کی ہیں اور جس کسی کی عبادت خدا نے قبول کی ہے وہ ایک خوش قسمت انسان ہے۔
گذشتہ چند دن شہر بہ شہر سفر میں گزر گئے اگرچہ سفر کا یہ 'سفر' ابھی جاری ہے صبح شام کی منزلیں بدلتی جا رہی ہیں ۔ ایک بے گھر مسافر کی طرح جس کے ٹھکانوں کے در و دیوار تک بدلتے رہتے ہیں لیکن یہ مسافر دن رات کی اس تبدیلی کے باوجود اپنی مسافرت سے باز نہیں آتا ۔ اپنے نئے دوستوں کو پرانے قصے کہانیاں سناتا رہتا ہے جو اس کے حافظے میں ہجوم کیے رہتے ہیں اور باہر نکلنے کے راستوں کی تلاش میں صبح و شام بسر کرتے ہیں ۔
یہ قصے کہانیاں کسی مسافر کا سامان سفر سمجھئے جو اسے اس کے سفر کے انعام میں ملتا ہے اور جس کو دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہوتا رہتا ہے کہ وہ اب ایک دولت مند مسافر ہے جس کے پاس قصوں کہانیوں، تجربوں اور مشاہدوں کا ایک ذخیرہ جمع ہے جسے وہ سفر ناموں کی صورت میں ان کو بیچ بھی سکتا ہے اور کسی قدر اپنی زاد راہ بھی اس سے جمع کر لیتا ہے جو اس کے سفر کی جمع پونجی ہوتی ہے اور اگر کوئی اس زاد راہ کو خوبصورتی کے ساتھ تحریر میں لے آئے تو یہ ایک اثاثہ بن کر اس کے مسافر دل و دماغ کو مالا مال کر دیتی ہے جس کی قیمت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔کتنے ہی کتابی ذخیرے ان یادداشتوں کی وجہ سے علمی ذخیرے بن گئے ہیں اور اب لائبریریوں کی مستقل زینت بنے ہوئے ہیں۔
لکھنے والے اور ان کی تحریروں کو جمع کرنے والے اس خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور لائبریریوں کی دنیا کو زندہ اور تابندہ رکھتے ہیں ۔ یہی وہ لائبریریاں ہوتی ہیں جو انسانی سوچ اور فکر کو ایک طویل نہ ختم ہونے والی زندگی عطا کرتی ہیں جو کتابوں کے صفحوں پر پھیل جاتی ہیں اور جہاں وہ ایک نئی زندگی پاتی ہیں۔ایک ایسی زندگی جو تاریخ کے صفحات پر جگمگاتی ہے اور انسانی نسلوں کو اپنا مقروض کر جاتی ہے ۔ یہ تحریریں ہی ہیں جو انسانی فکر کو تازگی اور نئی زندگی عطا کرتی ہیںاور بڑھاپے کواس کے قریب نہیں پھٹکنے دیتیں۔
تحریر خواہ وہ کسی کتاب کی ہو یا کسی انسان کے ذہن رسا کی، دنیا کی ہرزندگی تحریر کی محتاج رہتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی بات کسی تحریر کے ذریعے ہی اپنے قارئین تک پہنچائی ہے اور اپنی تحریر کو تقدس کا رتبہ دیا ہے۔ یہ الہامی تحریریں مقدس سمجھتی جاتی ہیں اور ان کے تقدس کو اللہ تعالیٰ کی ذات نے تقدس کا یہ درجہ اور مقام دیا ہے جو انسانی ایمان کا ایک حصہ بن گیا ہے۔
اب تک کتنی ہی الہامی تحریریں ہیں جو اس تقدس کے درجے تک پہنچی ہیں اور ان کا رشتہ اپنی الہامی تحریروں تک پہنچتا ہے جن کے بغیر کسی تحریر کو تقدس نہیں مل سکتا۔خود اللہ تبارک تعالیٰ نے کئی تحریروںکو تقدس کا یہ مقام دیا ہے جو ان تحریروں کی زندگی تک باقی رہے گا اور یہ تحریریں اپنا خاص مقام زندہ رکھیں گی۔
یہ وہ تحریریں ہیں جو انسانی تاریخ کو زندہ رکھتی ہیں اور انسانی ذہن کو آباد کیے رہتی ہیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں نے بھی ان تحریروں کو خاص درجہ عطا کیا ہے اور انھیں انسانوں کے لیے مقدس بنا دیا ہے ۔ ان تحریروں کا ایک ٹکڑا بھی تقدس کے مقام سے نیچے نہیں گرتا اور اگر کسی انسان کو یہ زمین پر پڑا مل جائے تو وہ ایک بابرکت اور متبرک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر اسے اُٹھا لیتا ہے اور اسے بابرکت سمجھ کر کسی ایسی جگہ پر محفوظ کر لیتا ہے جہاں انسانوں کے گستاخانہ ہاتھ نہ پہنچ سکیں اور کاغذ کا یہ ٹکڑا کسی انسان کے لیے زندگی بھر ایک بابرکت نعمت سمجھا جاتا ہے اور اس کا تحفظ ایک مذہبی فرض سمجھا جاتا ہے جو کسی بھی گھر کی ایک متبرک نعمت قرار پاتی ہے اور اسے بھی کلام پاک کی طرح کسی اونچی اور پاک صاف جگہ پر رکھا جاتا ہے اور اس کے تبرک کو کسی گھر کے لیے ایک قدرتی نعمت سمجھا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جس گھر میں کوئی تبرک موجود ہے خواہ وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو وہ گھر متبرک سمجھا جاتا ہے اور اسی تبرک کی برکت سے وہ گھر روشن رہتا ہے ۔ انسانوں نے اسی روشنی کے لیے دن رات عبادتیں کی ہیں اور جس کسی کی عبادت خدا نے قبول کی ہے وہ ایک خوش قسمت انسان ہے۔ اسی خوش قسمتی پر اس کا گھر با برکت رہتا ہے اور یہی برکت اسے ایک کامیاب زندگی عطا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے نیک انسان کو اس کی نیکیوں کا اجر دیتا ہے اور اس کی دوسری زندگی بھی بابرکت بن جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و کرم ہر ایک کے حصے میں نہیں آتا اور ایسے خوش نصیب کم ہی ہوتے ہیں جن پر اللہ اپنا فضل کرتا ہے۔