کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
سیاست وہ بالا خانہ ہے جہاں آئیڈیل ازم کے مجرے میں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کی تہذیب حاوی ہے۔
اب تو یہ کلیشے مقولے بھی گھس پٹ کے دھجی ہو چکے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، سیاست ناممکنات کو ممکن بنانے کا فن ہے ، سیاسی وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ، سیاست میں نہ مستقل دوستی ہوتی ہے نہ مستقل دشمنی، سیاست میں وقت پڑے تو گدھا بھی باپ اور وقت پڑے تو باپ بھی گدھے سمان۔
مگر کیا کریں ؟ سیاست آج بھی ان گھسے پٹے مقولوں سے باہر نہیں نکل پائی۔جو جج ، جرنیل ، سویلین سیاست میں آیا اسے انھی میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد مقولے سے صیغہ پڑھوانا پڑتا ہے اور پھر ساری سیاست طلاق و صیغے کے درمیانی خلا میں ہوتی ہے۔
آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ سیاست پر بائبل کا درجہ رکھنے والی کون سی تین کتابیں ہیں؟افلاطون کی ریپبلک ، کوٹلیہ کی ارتھ شاستر اور میکیاولی کی پرنس۔ ریپبلک کامیاب حکمرانی کے نظریے کی فلسفیانہ شکل ہے تو ارتھ شاستر اور پرنس سیاست و حکمرانی کے پریکٹیکل مینوئل ہیں۔ ان مینوئلز کا لبِ لباب یہ ہے کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ، سیر کا توڑ سوا سیر ہی ہو سکتا ہے ، ہوشیاری کا تدارک ڈیڑھ ہوشیاری سے ہی ممکن ہے۔
سیاست وہ بالا خانہ ہے جہاں آئیڈیل ازم کے مجرے میں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کی تہذیب حاوی ہے۔جس جس نے بھی سفاک طاقت کی تماشا گاہ میں طے شدہ تہذیبی سچائیوں ( یونیورسل ویلیوز ) کی روشنی میں سیاست کا تجربہ کیا وہ آدرش سمیت مارا گیا۔طوطا چشمی کے میدان میں احسان کے بلے سے بے مروتی کے باؤنسر کو کھیلنے کے چکر میں اپنی وکٹ اڑوانے والے ایسے نادان دانا تاریخ کی کتابوں میں زندہ بھی رہیں تو رہتے رہیں ، میری بلا سے۔
چلیے اب اس طولانی تمہید کے عدسے سے پاکستانی سیاست میں آئیڈیل ازم سے چمٹے رہنے والے خودکشوں اور عملی عرف سفاک سیاست کے کھلاڑیوں کے ملاکھڑوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے دیسی ملکوں کی سیاست میں خاکی یا سفید پوش کی بحث سے قطع نظر جو شخص بھی حکمران یا سیاسی جماعت کا لیڈر ہوتا ہے صرف وہ جمہوری ہوتا ہے باقی سب جمہورے ہیں۔ لیڈر باس ہے ، خان ہے ، سردار ہے ، وڈیرہ ہے ، اکبرِ اعظم ہے۔اس کی کابینہ یا مجلسِ عاملہ کے پاس کاغذ پر بھلے کتنے ہی اختیارات ہوں مگر لیڈر کی نظر میں ان اداروں کی اہمیت رضاکار یا تنخواہ دار درباریوں یا ٹائلٹ پیپر سے رتی برابر زیادہ نہیں ہوتی۔
دیسی لیڈر بھلے وردی پوش ہو کہ شیروانی بردار ، بڑی جماعت کا قائد ہو کہ چھوٹی تنظیم کا سربراہ ، سیاسی جماعت کا چیئرمین ہو کہ مذہبی سیاسی جماعت کا امیر ، سیکولر ہو کہ نان سیکولر۔اس کا دماغ لوئی چہاردہم والا ہی ہے '' میں فرانس ہوں اور فرانس مجھ سے ہے ''۔
لیڈر سیاسی ماتحتوں ، مزارعوں ، منشیوں ، قوالی میں تالی بجانے والوں ، چیئر لیڈرز اور بیربلوں سے سو فیصد وفاداری کے علاوہ یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ جملہ مصاحبین اسی وقت اپنی رائے کا مودبانہ اظہار کریں گے جب عندالطلب مشورہ مانگا جائے۔ازخود ارسطو بننے سے پرہیز کریں گے۔
ویسے بھی جب لیڈر کے پاس دماغ ہے تو اپنا دماغ لڑانے کی کیا ضرورت ہے۔اسی لیے جب بھی اہم اور قومی نوعیت کے فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے تو کابینہ وزیرِ اعظم کو اور مجلسِ عاملہ لیڈر کو اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنے کا اندھا اختیار دے دیتی ہے۔اردو میں اس کیفیت کو ذہنی بانجھ پن کہا جاتا ہے۔مگر یہ ایسا مرض ہے جسے لیڈر اکسیر سمجھتا ہے۔
ایسے ماحول میں لیڈر کی یہ توقع ناجائز نہیں کہ اس کا جانشین ، معتمد یا مشیرِ خاص بس وہی ہو سکتا ہے جو حسبِ ضرورت بھونپو بن جائے ، اگلے لمحے قدمچہ ہو جائے ، اس سے اگلے لمحے میں ناک صاف کرنے والے رومال میں تبدیل ہو جائے ، لیڈر کھنکارے تو ہتھیلی بطور اگالدان آگے کر دے۔
ان کاغذی کرداروں سے لیڈر یا حکمران توقع رکھتا ہے کہ یہ سب جمہوریت ، آمریت ، جمہوری آمریت یا سیاست کے تھیٹر میں صرف وہ کردار نبھائیں گے جو اسکرپٹ کی ضرورت کے اعتبار سے انھیں دیے جاویں گے۔جو بچے اچھی پرفارمنس دکھائیں گے انھیں آگے چل کر انعام میں انتخابی ٹکٹ اور پھر وزیر ، مشیر ، سفیر کے کردار بھی دیے جا سکتے ہیں۔
اپنی دانست استعمال کرتے ہوئے اسکرپٹ کی لائنوں میں تبدیلی کا خیال تو رہا ایک طرف ان جمہوروں کو تو امپروائزیشن کی بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔ورنہ ڈسپلن توڑنے ، خود کو لیڈر کا ہم پلہ طرم خان سمجھنے یا ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے شبہے میں پہلے الگ تھلگ کیا جاتا ہے۔گر تائب نہ ہو تو پھر باہر کا رستہ دکھایا جاتا ہے ، تب بھی اڑا رہے تو اپنے کسی چھوٹے کے ذریعے تشریف پے بیانیہ ، گالیانہ یا الزامیہ چھتر لگوا کے ایسے گستاخوں کو اوقات یاد دلائی جاتی ہے۔
سنا ہے پاکستان بننے سے پہلے یا پھر بعد کے چند برسوںمیں پولیٹیکل سائنس کی تعریف پر اترنے والی شخصیات اور پارٹیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ان کے کچھ ذاتی و اجتماعی اصول بھی تھے۔تھوڑا بہت نظریہ اور منشور بھی پوٹلی میں بطور زادِ راہ بندھا رہتا تھا۔مگر یہ میری نسل کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔
ہم نے تو اپنے دور میں ''صاحب بی بی غلام'' ہی دیکھی۔گر ترقی ہوئی تو بس یہ کہ سیاسی جماعت کارپوریٹ دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لمیٹڈ کمپنیوں میں بدل دی گئی۔اس پولیٹیکل کمپنی میں اکیاون فیصد شئیرز بورڈ آف فیملی ڈائریکٹرز کے پاس اور انچاس فیصد حالی موالی اور مخلص سیاسی مداحوں کے لیے۔
سیاسی ورکرز کو نئے مینجمنٹ سسٹم کے تحت سیلز ریپریزینٹیٹوز میں تبدیل کر دیا گیا۔جس کی جو پرفارمنس اور کمپنی سے وفاداری کا ریکارڈ اسی اعتبار سے اس کا گریڈ ، بونس اور ایمپلائی آف دی منتھ کا اعزاز۔
جب سیاسی جماعتیں کارپوریٹ پولیٹیکل فیملی لمیٹڈ کمپنیوں میں ڈھل گئیں تو پھر سیاسی کلچر بھی گلا کاٹ مسابقت کے تجارتی کلچر سے بدلتا چلا گیا۔جتنے آرڈرز لاؤ گے اتنا ہی سیاسی و عہدوی کمیشن پاؤ گے۔جہاں سے ملے لاؤ ، ابلیس بھی آرڈر دے تو سپیسیفکیشن سمیت پکڑ لو اس سے پہلے کہ حریف کمپنی یہ آرڈر اچک لے۔جتنا بڑا آرڈر ، اتنی ہی ساکھ میں اضافہ اور پھر اتنا ہی بڑا کمپنی پورٹ فولیو ، اتنی ہی واہ واہ اور پھر مزید آرڈرز۔
پہلے سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہوا کرتا تھا۔اب پولیٹیکل کمپنیوں کا کارٹیل بنایا جاتا ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑی کمپنیاں چھوٹی پولیٹیکل کمپنیاں خرید لیتی ہیں یا پھر دو بڑی کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم ہو کے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں۔
چیمبر آف پولیٹیکل کامرس اینڈ اسٹرٹیجک انڈسٹریز کے انتخابات سے پہلے پہلے ان کمپنیوں میں اکثر قیمتوں اور ٹیرٹیری کی جنگ بھی چھڑ جاتی ہے۔ اکثر یہ جنگ رکوانے کے لیے سیکیورٹی اینڈ پولیٹیکل ایکسچینج کمیشن کو بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے۔
مگر مختصر دورِ مصالحت کے دوران بھی یہ کمپنیاں ایک دوسرے کے اہل منیجرز اور چست و چالاک سیلز ریپس پر نگاہ رکھتی ہیں اور موقع پاتے ہی ایک دوسرے کے بندے توڑنے کی مشق جاری رکھتی ہیں۔مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔کارپوریٹ کلچر میں یہ ایک نارمل پریکٹس ہے۔
یہ پولیٹیکل کمپنیاں کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی کی مد میں مختص بجٹ تب ہی خرچ کرتی ہیں جب انھیں سیاسی صارفین کو رجھانے کا مرحلہ درپیش ہو۔بڑی پولیٹیکل کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا سافٹ امیج برقرار رکھنے کے لیے کلاسیکی سیاسی اصولی چہروں کا اسی طرح سہارا لیتی ہیں جیسے عام تجارتی کمپنیاں مشہور اداکاروں، سرکردہ سماجی کارکنوں یا کھلاڑیوں کو اپنے اشتہارات میں لاتی ہیں یا ایک طے شدہ مدت کے لیے برانڈ ایمبیسڈر کا درجہ دے دیتی ہیں۔
ایسی دنیا میں از قسم ِ جاوید ہاشمی، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی جیسی معزز شخصیات سوائے برانڈ ایمبیسڈر یا گڈ ول ایمبیسڈر اور کیا کیا کردار نبھا سکتی ہیں؟
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
مگر کیا کریں ؟ سیاست آج بھی ان گھسے پٹے مقولوں سے باہر نہیں نکل پائی۔جو جج ، جرنیل ، سویلین سیاست میں آیا اسے انھی میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد مقولے سے صیغہ پڑھوانا پڑتا ہے اور پھر ساری سیاست طلاق و صیغے کے درمیانی خلا میں ہوتی ہے۔
آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ سیاست پر بائبل کا درجہ رکھنے والی کون سی تین کتابیں ہیں؟افلاطون کی ریپبلک ، کوٹلیہ کی ارتھ شاستر اور میکیاولی کی پرنس۔ ریپبلک کامیاب حکمرانی کے نظریے کی فلسفیانہ شکل ہے تو ارتھ شاستر اور پرنس سیاست و حکمرانی کے پریکٹیکل مینوئل ہیں۔ ان مینوئلز کا لبِ لباب یہ ہے کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ، سیر کا توڑ سوا سیر ہی ہو سکتا ہے ، ہوشیاری کا تدارک ڈیڑھ ہوشیاری سے ہی ممکن ہے۔
سیاست وہ بالا خانہ ہے جہاں آئیڈیل ازم کے مجرے میں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کی تہذیب حاوی ہے۔جس جس نے بھی سفاک طاقت کی تماشا گاہ میں طے شدہ تہذیبی سچائیوں ( یونیورسل ویلیوز ) کی روشنی میں سیاست کا تجربہ کیا وہ آدرش سمیت مارا گیا۔طوطا چشمی کے میدان میں احسان کے بلے سے بے مروتی کے باؤنسر کو کھیلنے کے چکر میں اپنی وکٹ اڑوانے والے ایسے نادان دانا تاریخ کی کتابوں میں زندہ بھی رہیں تو رہتے رہیں ، میری بلا سے۔
چلیے اب اس طولانی تمہید کے عدسے سے پاکستانی سیاست میں آئیڈیل ازم سے چمٹے رہنے والے خودکشوں اور عملی عرف سفاک سیاست کے کھلاڑیوں کے ملاکھڑوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے دیسی ملکوں کی سیاست میں خاکی یا سفید پوش کی بحث سے قطع نظر جو شخص بھی حکمران یا سیاسی جماعت کا لیڈر ہوتا ہے صرف وہ جمہوری ہوتا ہے باقی سب جمہورے ہیں۔ لیڈر باس ہے ، خان ہے ، سردار ہے ، وڈیرہ ہے ، اکبرِ اعظم ہے۔اس کی کابینہ یا مجلسِ عاملہ کے پاس کاغذ پر بھلے کتنے ہی اختیارات ہوں مگر لیڈر کی نظر میں ان اداروں کی اہمیت رضاکار یا تنخواہ دار درباریوں یا ٹائلٹ پیپر سے رتی برابر زیادہ نہیں ہوتی۔
دیسی لیڈر بھلے وردی پوش ہو کہ شیروانی بردار ، بڑی جماعت کا قائد ہو کہ چھوٹی تنظیم کا سربراہ ، سیاسی جماعت کا چیئرمین ہو کہ مذہبی سیاسی جماعت کا امیر ، سیکولر ہو کہ نان سیکولر۔اس کا دماغ لوئی چہاردہم والا ہی ہے '' میں فرانس ہوں اور فرانس مجھ سے ہے ''۔
لیڈر سیاسی ماتحتوں ، مزارعوں ، منشیوں ، قوالی میں تالی بجانے والوں ، چیئر لیڈرز اور بیربلوں سے سو فیصد وفاداری کے علاوہ یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ جملہ مصاحبین اسی وقت اپنی رائے کا مودبانہ اظہار کریں گے جب عندالطلب مشورہ مانگا جائے۔ازخود ارسطو بننے سے پرہیز کریں گے۔
ویسے بھی جب لیڈر کے پاس دماغ ہے تو اپنا دماغ لڑانے کی کیا ضرورت ہے۔اسی لیے جب بھی اہم اور قومی نوعیت کے فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے تو کابینہ وزیرِ اعظم کو اور مجلسِ عاملہ لیڈر کو اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرنے کا اندھا اختیار دے دیتی ہے۔اردو میں اس کیفیت کو ذہنی بانجھ پن کہا جاتا ہے۔مگر یہ ایسا مرض ہے جسے لیڈر اکسیر سمجھتا ہے۔
ایسے ماحول میں لیڈر کی یہ توقع ناجائز نہیں کہ اس کا جانشین ، معتمد یا مشیرِ خاص بس وہی ہو سکتا ہے جو حسبِ ضرورت بھونپو بن جائے ، اگلے لمحے قدمچہ ہو جائے ، اس سے اگلے لمحے میں ناک صاف کرنے والے رومال میں تبدیل ہو جائے ، لیڈر کھنکارے تو ہتھیلی بطور اگالدان آگے کر دے۔
ان کاغذی کرداروں سے لیڈر یا حکمران توقع رکھتا ہے کہ یہ سب جمہوریت ، آمریت ، جمہوری آمریت یا سیاست کے تھیٹر میں صرف وہ کردار نبھائیں گے جو اسکرپٹ کی ضرورت کے اعتبار سے انھیں دیے جاویں گے۔جو بچے اچھی پرفارمنس دکھائیں گے انھیں آگے چل کر انعام میں انتخابی ٹکٹ اور پھر وزیر ، مشیر ، سفیر کے کردار بھی دیے جا سکتے ہیں۔
اپنی دانست استعمال کرتے ہوئے اسکرپٹ کی لائنوں میں تبدیلی کا خیال تو رہا ایک طرف ان جمہوروں کو تو امپروائزیشن کی بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔ورنہ ڈسپلن توڑنے ، خود کو لیڈر کا ہم پلہ طرم خان سمجھنے یا ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے شبہے میں پہلے الگ تھلگ کیا جاتا ہے۔گر تائب نہ ہو تو پھر باہر کا رستہ دکھایا جاتا ہے ، تب بھی اڑا رہے تو اپنے کسی چھوٹے کے ذریعے تشریف پے بیانیہ ، گالیانہ یا الزامیہ چھتر لگوا کے ایسے گستاخوں کو اوقات یاد دلائی جاتی ہے۔
سنا ہے پاکستان بننے سے پہلے یا پھر بعد کے چند برسوںمیں پولیٹیکل سائنس کی تعریف پر اترنے والی شخصیات اور پارٹیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ان کے کچھ ذاتی و اجتماعی اصول بھی تھے۔تھوڑا بہت نظریہ اور منشور بھی پوٹلی میں بطور زادِ راہ بندھا رہتا تھا۔مگر یہ میری نسل کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔
ہم نے تو اپنے دور میں ''صاحب بی بی غلام'' ہی دیکھی۔گر ترقی ہوئی تو بس یہ کہ سیاسی جماعت کارپوریٹ دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لمیٹڈ کمپنیوں میں بدل دی گئی۔اس پولیٹیکل کمپنی میں اکیاون فیصد شئیرز بورڈ آف فیملی ڈائریکٹرز کے پاس اور انچاس فیصد حالی موالی اور مخلص سیاسی مداحوں کے لیے۔
سیاسی ورکرز کو نئے مینجمنٹ سسٹم کے تحت سیلز ریپریزینٹیٹوز میں تبدیل کر دیا گیا۔جس کی جو پرفارمنس اور کمپنی سے وفاداری کا ریکارڈ اسی اعتبار سے اس کا گریڈ ، بونس اور ایمپلائی آف دی منتھ کا اعزاز۔
جب سیاسی جماعتیں کارپوریٹ پولیٹیکل فیملی لمیٹڈ کمپنیوں میں ڈھل گئیں تو پھر سیاسی کلچر بھی گلا کاٹ مسابقت کے تجارتی کلچر سے بدلتا چلا گیا۔جتنے آرڈرز لاؤ گے اتنا ہی سیاسی و عہدوی کمیشن پاؤ گے۔جہاں سے ملے لاؤ ، ابلیس بھی آرڈر دے تو سپیسیفکیشن سمیت پکڑ لو اس سے پہلے کہ حریف کمپنی یہ آرڈر اچک لے۔جتنا بڑا آرڈر ، اتنی ہی ساکھ میں اضافہ اور پھر اتنا ہی بڑا کمپنی پورٹ فولیو ، اتنی ہی واہ واہ اور پھر مزید آرڈرز۔
پہلے سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہوا کرتا تھا۔اب پولیٹیکل کمپنیوں کا کارٹیل بنایا جاتا ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑی کمپنیاں چھوٹی پولیٹیکل کمپنیاں خرید لیتی ہیں یا پھر دو بڑی کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم ہو کے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہیں۔
چیمبر آف پولیٹیکل کامرس اینڈ اسٹرٹیجک انڈسٹریز کے انتخابات سے پہلے پہلے ان کمپنیوں میں اکثر قیمتوں اور ٹیرٹیری کی جنگ بھی چھڑ جاتی ہے۔ اکثر یہ جنگ رکوانے کے لیے سیکیورٹی اینڈ پولیٹیکل ایکسچینج کمیشن کو بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے۔
مگر مختصر دورِ مصالحت کے دوران بھی یہ کمپنیاں ایک دوسرے کے اہل منیجرز اور چست و چالاک سیلز ریپس پر نگاہ رکھتی ہیں اور موقع پاتے ہی ایک دوسرے کے بندے توڑنے کی مشق جاری رکھتی ہیں۔مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔کارپوریٹ کلچر میں یہ ایک نارمل پریکٹس ہے۔
یہ پولیٹیکل کمپنیاں کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی کی مد میں مختص بجٹ تب ہی خرچ کرتی ہیں جب انھیں سیاسی صارفین کو رجھانے کا مرحلہ درپیش ہو۔بڑی پولیٹیکل کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا سافٹ امیج برقرار رکھنے کے لیے کلاسیکی سیاسی اصولی چہروں کا اسی طرح سہارا لیتی ہیں جیسے عام تجارتی کمپنیاں مشہور اداکاروں، سرکردہ سماجی کارکنوں یا کھلاڑیوں کو اپنے اشتہارات میں لاتی ہیں یا ایک طے شدہ مدت کے لیے برانڈ ایمبیسڈر کا درجہ دے دیتی ہیں۔
ایسی دنیا میں از قسم ِ جاوید ہاشمی، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی جیسی معزز شخصیات سوائے برانڈ ایمبیسڈر یا گڈ ول ایمبیسڈر اور کیا کیا کردار نبھا سکتی ہیں؟
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)