سنہرے لوگ

شخصیت مضبوط نہیں ادارے اور ملک کی مضبوطی ضروری ہے۔

ffarah.ffarah@gmail.com

جیسے جیسے حکومت کے پانچ سال کی مدت پوری ہونے جا رہی ہے، ویسے ویسے سابق وزیراعظم کے ارکان اسمبلی اور وزرا اپنی اپنی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش میں لگے ہیں۔ یہ بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ ایک شخص پاکستان کا تین دفعہ وزیراعظم بنے اور تینوں دفعہ برطرف کیا جائے۔ شاباش ہے آصف زرداری پہ کہ اس نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی صدارتی مدت بہرطور پوری کی۔

سابق وزیراعظم نے اپنی سیاست، اپنے تجربوں سے کیا سیکھا؟ اور پوری پاکستانی قوم نے بھی نواز شریف کے دور حکومت سے کیا سیکھا؟ یہ ایسا سوالیہ نشان ہے جس پر دونوں کو نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور تجزیہ کرنا ہوگا۔ سزا ملنے کے بعد اداروں سے تصادم کی پالیسی انتہائی تباہ کن ثابت ہو گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اگر وہ ناپسندیدہ بھی ہیں، پھر بھی قانون کے ہی مطابق لے کر چلنا ہوگا۔

ہمارے ملک میں تعلیم نہایت کم ہے، گاؤں اور دیہات میں شخصی طاقت کی بنیاد پر ووٹ ہوتا ہے۔ ایسے ملک کے عوام جوکہ اپنی بنیادی ضرورتوں اور حقوق سے ہی لا علم ہیں، یہاں تک کہ حاملہ خواتین بے چاری اسپتال کی سہولت نہ ہونے کی بنا پر سڑکوں پر بچے پیدا کریں وہ عوام عدالتی جج کا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟

ہاں اگر اپنے تین ادوار حکومت میں نواز شریف نے اسکولوں، کالجز، یونی ورسٹیز کا جال پچھایا ہوتا، شہروں اور دیہات میں تعلیم کو پھیلا دیا ہوتا، عوام کو باشعور کیا ہوتا تو یقینا پھر یہ فرمائش ہو سکتی تھی مگر بھلا ہو ان حکومت کرنے والوں کا جنھوں نے صرف اپنے اور چند افراد کا بھلا چاہا اور پورے پاکستان کے عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ سمجھا ۔ بے تحاشا ٹیکسز کا عوام کو سامنا ہے، بجلی سے لے کر پینے کا پانی تک ایک عام شہری کی پہنچ سے دور ہے کیا یہی فلاحی ریاست پاکستان ہے؟ آج ملک میں اتنی دولت کہاں سے آئی؟

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس کے عوام سخت محنت کرنے والا اور ملک کے وفادار ہیں تعلیم کا معیار اعلیٰ نہ ہونے کے باوجود یہ قوم پوری دنیا میں موجود ہے، سخت محنت و مشقت سے پیسہ کما کر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور ان کی محنت کی کمائی کو ہضم کرنے والے ڈکار تک نہ لیں، یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟

52 فی صد خواتین والا یہ ملک مزید خواتین کا معاشی اور معاشرتی استحصال برداشت نہیں کر سکتا، خواتین ایک مضبوط ملکی ستون ہیں ان سے بنیادی ضروریات چھین کر ان کو سڑکوں پر بچے پیدا کرنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

خارجہ پالیسی کی موجودہ کمزوری دیکھیے کہ اس ملک کو جہاں سالہا سال سے دہشتگردی کی جنگ جاری ہے جہاں سیکڑوں آرمی کے جوانوں نے شہادتیں دیں، معذوری لی، جہاں سیکڑوں معصوم شہری بم دھماکوں کی نذر ہو گئے آج ملک کو خطرناک ملک کہا جا رہا ہے کیا یہ خارجہ پالیسی کی کمزوری نہیں؟ ہو سکتا ہے ہمارا موجودہ وزیر خارجہ بھی موجودہ وزیراعظم کی طرح سوچتے ہوں کتنا شاندار ہو اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اس ملک و قوم کے خادم سمجھیں نہ کہ اپنی سیاسی پارٹیز کے۔


مسلم لیگ ن اپنے آپ کو کروڑوں عوام کا نمایندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اب الیکشن 2018ء میں کون سی پارٹی عوام کے ووٹوں کی حقدار ٹھہرتی ہے اس کے لیے ہم سب کو الیکشن کا انتظار کرنا ہو گا۔ پنجاب میں سیاست زوروں پر نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کو متنازعہ بنانے کے لیے بے شمار بیانات نظر آتے ہیں۔ ضرورت اور احساس اس چیزکا ہونا بہت ضروری ہے کہ سپریم کورٹ ایک بڑا معتبر ادارہ ہے۔ اس کی عزت و حرمت کا خیال رکھنا تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے۔

کروڑوں کی آبادی والے اس ملک میں کوئی بھی شک نہیں کہ بہترین دماغ رکھنے والے بہترین ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہوںگے صرف چند لوگوں تک حکومت کی باریاں مناسب نہیں، ان لوگوں کو بھی آگے آنے دینا چاہیے جو اس ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کوئی سنہری تاریخ نہیں۔ کیا ہم اس ملک کو عظیم تر نہیں بنا سکتے؟

جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو جہاں خواتین 50 فی صد سے زائد ہوں، کیا اس ملک کی تقدیر سنہرے دور سے پھر نہیں سکتے؟ اپنی ذاتی خواہشات اور انا کو کہیں پیچھے پھینک دیجیے ایک عام شہری کی سطح پر آ کر دیکھئے اور اس کی ضرورتوں کو اس کے مسائل کو محسوس کیجیے کہ یہیں سے فلاح و کامیابی شروع ہو جاتی ہے۔

دولت کی مناسب تقسیم جب ناپید ہو جائے اور ہوس اور لالچ خون کی جگہ جسم میں دوڑنے لگیں تو پھر اچھا خاصا انسان بھی حیوان بن جاتا ہے۔ اصولوں کی سیاست کی بھی بنیاد مضبوط کیجیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے بہترین اصولوں کی بنیاد پر صادق اور امین ہونے پر پہچانے جائیں۔ چاہے امریکا اور لندن میں جائیدادیں نہ ہوں مگر دل کی دھڑکنیں اسی ملک اور اسی عوام کے لیے سچائی کے ساتھ ہوں، قربانیاں ہی ہمیں زندہ رکھتی ہیں، سنہری تاریخیں تب ہی بنتی ہے جب ہم اپنے خول سے باہر نکل کر اپنے آپ کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ہم سب اس ملک کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

ہمارے ملک کی سیاست میں پیسے کا بے دریغ استعمال تباہ کن ثابت ہو رہا ہے، عوام اور ملک سے لوٹا گیا پیسہ اپنی ذات کو مضبوط کرنے کے لیے انسانوں کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہو تو پھر اللہ کی ہی مالک ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہو گا صرف چند افراد نے پورے ملک کی سیاسی فضا کو آلودہ کر دیا ہے، اندھیر نگری ایسی ہے کہ جگہ جگہ لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب تو سر عام گولیاں چلائی جا رہی ہیں حکومت کو چیلنج کیا جا رہا ہے جوان بچے encounter میں قتل کیے جا رہے ہیں اور قاتل چین کی نیند سو رہے ہیں۔

افرا تفری کا عالم یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، لکھنے والے لکھے جائیں، بولنے والے بولے جائیں مگر فرعونیت پروان چڑھ رہی ہے اور یہ اس وقت تک پروان چڑھتی رہے گی جب تک پورے ملک میں عدل و انصاف نہیں ہو گا۔ ہر خاص و عام کے لیے قانون ایک جیسا گو کہ مشکل کام ہے مگر ایک نہ ایک دن کرنا پڑے گا، راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانا پڑے گا کہ یہی حکم اللہ ہے جس کے آگے کچھ نہیں۔

روس جیسے طاقتور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے وہاں کی معیشت کمزورکر دی گئی اور اتنی کہ ایک سپر پاور اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکا۔ ہم پہ بھی قرضے بے حساب، نہ یہ حساب کہ اتنا روپیہ گیا کہاں؟ خارجہ پالیسی کمزور نظر آتی ہے ناتجربہ کاری کس طرح مضبوط خارجی تعلقات بناسکتی ہے ۔ شخصیت مضبوط نہیں ادارے اور ملک کی مضبوطی ضروری ہے۔
Load Next Story