حسنِ اتفاق
افتخار چوہدری بھی قسمیں کھاتے تھے کہ ان کے فیصلے سیاسی نہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ سیاسی فیصلے تھے
15 جنوری 2013 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس میں کرپشن کا کیس چل رہا تھا۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دے چکے تھے۔ یہ ملکی تاریخ میں کسی غیر سیاسی مذہبی تنظیم کا پہلا منظم دھرنا تھا جس نے وفاقی حکومت کا دن کا چین اور راتوں کی نیند اڑا دی تھی۔ آپ دھرنے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ طاہر القادری صاحب نے اپنے پیروکاروں سے اللہ اور رسولﷺ کے نام ہر حلف لیے کہ جب تک انقلاب نہیں آجاتا، آپ لوگ گھر نہیں جائیں گے۔
دوسری طرف طاہرالقادری صاحب نے وفاقی حکومت کو یہ فرمان جاری کردیا کہ وزیراعظم پاکستان، تمام وزراء، صدر پاکستان اور چاروں صوبائی وزرائے اعلی فوراً مستعفی ہوجائیں اور قومی و صوبائی اسمبلیاں فوراً تحلیل کردی جائیں۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکی بلکہ انہوں نے اپنی تمام تقاریر میں وزیراعظم اور صدر کو سابق وزیراعظم اور سابق صدر بھی کہنا شروع کردیا۔ اسی دوران عمران خان بھی میدان میں آگئے اور کرپشن کو بنیاد بنا کر اسمبلیاں توڑنے، وزیراعظم کے مستعفی ہونے اور وقت سے پہلے الیکشن کروانے کا مطالبہ بھی کردیا۔
حکومت سمیت تمام عالمی طاقتیں اس صورتحال سے نمٹنے کےلیے تیار نہیں تھیں اور ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کیا حکومت کو گھر جانا پڑے گا؟ کیا وزیراعظم استعفی دیں گے؟ ابھی یہ سوالات جنم ہی لے رہے تھے کہ اسی دوران چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور پلانٹس کیس میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس صاحب سے جب کہا گیا کہ مائی لارڈ سپریم کورٹ کے باہر دھرنے والے بیٹھے ہیں، الیکشن سر پر ہیں، اس وقت اتنا بھیانک فیصلہ دینا الیکشن پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے تو چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں علم کے باہر کوئی دھرنے پر بیٹھا ہے یا نہیں اور نہ ہی ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن پر اثرانداز ہو گا یا نہیں۔ ہمیں فیصلے قانون کے مطابق کرنے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب تو یہ فیصلہ سنا کر چلے گئے لیکن ملک کی اسٹاک ایکسچینج کریش کرگئی؛ اور دھرنے پر بیٹھے طاہرالقادری صاحب نے اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ دھرنے کے شرکا کو مبارکباد دی کہ ہم کامیاب ہوگئے۔ ہمارا دھرنا کامیاب ہوگیا۔ مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو۔ سپریم کورٹ زندہ باد! چیف جسٹس پاکستان زندہ باد!
آپ خود فیصلہ کیجیے کہ جس وقت سپریم کورٹ کے سامنے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کےلیے دھرنا چل رہا ہو، عمران خان وقت سے پہلے الیکشن کروانے کی باتیں کررہے ہوں، عین اسی وقت چیف جسٹس صاحب وزیراعظم کو نااہل کردیں تو کیا اس سے یہ تاثر نہیں ابھرے گا کہ سپریم کورٹ کا وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ حکومت مخالف منصوبے کا حصہ ہے؛ اور اگر اس موقعے پر چیف صاحب فرمائیں کہ ہم فیصلے قانون کے مطابق کرتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ باہر کیا ہورہا ہے تو کون چیف جسٹس صاحب کی بات پر یقین کرے گا؟ جبکہ چیف جسٹس صاحب یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اس طرح کا فیصلہ دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی دیا جاسکتا تھا تاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازعہ نہ ہو اور اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے فریق بننے کا تاثر نہ ابھرے۔ لیکن انہوں نے غلط وقت پر فیصلہ دے کر جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔
آپ ان حقائق کو سامنے رکھیے اور ان کا موازنہ آج کے واقعات سے کیجیے تو آپ یقیناً ایک دلچسپ صورت حال کا مشاہدہ کرسکیں گے۔
اکتوبر 2017 میں میاں محمد نواز شریف نااہلی کے بعد دوبارہ مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے۔ جنوری 2018 میں آصف علی زرداری نے اعلان کیا کہ سینیٹ الیکشن ن لیگ نہیں جیتے گی۔ نواز شریف کو سینیٹ الیکشن سے پہلے پارٹی صدارت سے فارغ ہونا پڑے گا۔ شیخ رشید بھی پروگراموں میں دعوے کرتے رہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی ن لیگ کو بڑا جھٹکا لگ جائے گا اور ن لیگ سینیٹ الیکشن میں نہیں ہوگی۔
عمران خان اور شیخ رشید سمیت تیرہ لوگوں نے سپریم کورٹ میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستیں جمع کرادیں۔ اسی دوران سینیٹ الیکشن کا شور مچ گیا اور تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن میں جمع کروادیئے۔ قومی اسمبلی میں دو تہا ئی اکثریت ہونے کی وجہ سے ن لیگ کا سینیٹ الیکشن جیتنا یقینی تھا۔ الیکشن کمیشن میں فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ 8فروری تھی۔ 9 فروری کو امیدواروں کی لسٹ لگی، 12 فروری تک کاغذات کی چھان بین کی گئی۔
امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے خلاف اپیل کی آخری تاریخ 15 فروری تھی۔ 21 فروری 2018 کو جب واپسی کے تمام راستے بند ہوگئے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت کےلیے نااہل قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف کے نامزد سینیٹ نمائندوں سمیت تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور سینیٹ الیکشن کےلیے ن لیگ کے تمام نامزد امیدواروں کو آزاد امیدواروں کی حیثیت دے دی گئی۔
نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے فرمایا کہ ہم فیصلے قانون اور آئین کی روشنی میں کرتے ہیں اور ہمارے فیصلے سیاسی نہیں ہوتے۔
مائی لارڈ آپ یقیناً سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن اگر ہم آصف علی زرداری اور شیخ رشید کے دعووں کو سامنے رکھیں اور ان کے ساتھ آپ کے فیصلے کے وقت کو بھی مدنظر رکھیں تو کسی بھی ذی شعور انسان کے دماغ میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 8 فروری سے پہلے بھی آسکتا تھا تاکہ سینیٹ الیکشن متاثر نہ ہوتے اور ن لیگ سینیٹ الیکشن سے آؤٹ نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ اگر نااہلی کے بعد یوسف رضا گیلانی کے فیصلوں کو کلعدم نہیں کیا گیا تو نواز شریف کے کیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار کیوں دیا گیا؟
آپ کے اس فیصلے نے الیکشن سے تین ماہ پہلے اپوزیشن جماعتوں کو اُسی طرح فائدہ پہنچایا ہے جس طرح جنوری 2013 میں افتخار چوہدری کے فیصلوں نے اپوزیشن کو فائدہ پہنچایا تھا۔ افتخار چوہدری بھی قسمیں کھاتے تھے کہ ان کے فیصلے سیاسی نہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ سیاسی فیصلے تھے۔
مائی لارڈ! عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ 2013 میں الیکشن سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور آج 2018 میں بھی الیکشن سے تین ماہ قبل سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ن لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ دونوں واقعات حسن اتفاق ہوسکتے ہیں لیکن مؤرخ انہیں حسن اتفاق نہیں لکھے گا۔ مؤرخ لکھے گا کہ ملک پاکستان میں فیصلے قانون کے مطابق نہیں بلکہ وقت کے مطابق ہوتے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دوسری طرف طاہرالقادری صاحب نے وفاقی حکومت کو یہ فرمان جاری کردیا کہ وزیراعظم پاکستان، تمام وزراء، صدر پاکستان اور چاروں صوبائی وزرائے اعلی فوراً مستعفی ہوجائیں اور قومی و صوبائی اسمبلیاں فوراً تحلیل کردی جائیں۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکی بلکہ انہوں نے اپنی تمام تقاریر میں وزیراعظم اور صدر کو سابق وزیراعظم اور سابق صدر بھی کہنا شروع کردیا۔ اسی دوران عمران خان بھی میدان میں آگئے اور کرپشن کو بنیاد بنا کر اسمبلیاں توڑنے، وزیراعظم کے مستعفی ہونے اور وقت سے پہلے الیکشن کروانے کا مطالبہ بھی کردیا۔
حکومت سمیت تمام عالمی طاقتیں اس صورتحال سے نمٹنے کےلیے تیار نہیں تھیں اور ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کیا حکومت کو گھر جانا پڑے گا؟ کیا وزیراعظم استعفی دیں گے؟ ابھی یہ سوالات جنم ہی لے رہے تھے کہ اسی دوران چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور پلانٹس کیس میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس صاحب سے جب کہا گیا کہ مائی لارڈ سپریم کورٹ کے باہر دھرنے والے بیٹھے ہیں، الیکشن سر پر ہیں، اس وقت اتنا بھیانک فیصلہ دینا الیکشن پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے تو چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں علم کے باہر کوئی دھرنے پر بیٹھا ہے یا نہیں اور نہ ہی ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن پر اثرانداز ہو گا یا نہیں۔ ہمیں فیصلے قانون کے مطابق کرنے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب تو یہ فیصلہ سنا کر چلے گئے لیکن ملک کی اسٹاک ایکسچینج کریش کرگئی؛ اور دھرنے پر بیٹھے طاہرالقادری صاحب نے اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ دھرنے کے شرکا کو مبارکباد دی کہ ہم کامیاب ہوگئے۔ ہمارا دھرنا کامیاب ہوگیا۔ مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو۔ سپریم کورٹ زندہ باد! چیف جسٹس پاکستان زندہ باد!
آپ خود فیصلہ کیجیے کہ جس وقت سپریم کورٹ کے سامنے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کےلیے دھرنا چل رہا ہو، عمران خان وقت سے پہلے الیکشن کروانے کی باتیں کررہے ہوں، عین اسی وقت چیف جسٹس صاحب وزیراعظم کو نااہل کردیں تو کیا اس سے یہ تاثر نہیں ابھرے گا کہ سپریم کورٹ کا وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ حکومت مخالف منصوبے کا حصہ ہے؛ اور اگر اس موقعے پر چیف صاحب فرمائیں کہ ہم فیصلے قانون کے مطابق کرتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ باہر کیا ہورہا ہے تو کون چیف جسٹس صاحب کی بات پر یقین کرے گا؟ جبکہ چیف جسٹس صاحب یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اس طرح کا فیصلہ دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی دیا جاسکتا تھا تاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازعہ نہ ہو اور اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے فریق بننے کا تاثر نہ ابھرے۔ لیکن انہوں نے غلط وقت پر فیصلہ دے کر جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔
آپ ان حقائق کو سامنے رکھیے اور ان کا موازنہ آج کے واقعات سے کیجیے تو آپ یقیناً ایک دلچسپ صورت حال کا مشاہدہ کرسکیں گے۔
اکتوبر 2017 میں میاں محمد نواز شریف نااہلی کے بعد دوبارہ مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے۔ جنوری 2018 میں آصف علی زرداری نے اعلان کیا کہ سینیٹ الیکشن ن لیگ نہیں جیتے گی۔ نواز شریف کو سینیٹ الیکشن سے پہلے پارٹی صدارت سے فارغ ہونا پڑے گا۔ شیخ رشید بھی پروگراموں میں دعوے کرتے رہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی ن لیگ کو بڑا جھٹکا لگ جائے گا اور ن لیگ سینیٹ الیکشن میں نہیں ہوگی۔
عمران خان اور شیخ رشید سمیت تیرہ لوگوں نے سپریم کورٹ میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستیں جمع کرادیں۔ اسی دوران سینیٹ الیکشن کا شور مچ گیا اور تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن میں جمع کروادیئے۔ قومی اسمبلی میں دو تہا ئی اکثریت ہونے کی وجہ سے ن لیگ کا سینیٹ الیکشن جیتنا یقینی تھا۔ الیکشن کمیشن میں فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ 8فروری تھی۔ 9 فروری کو امیدواروں کی لسٹ لگی، 12 فروری تک کاغذات کی چھان بین کی گئی۔
امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے خلاف اپیل کی آخری تاریخ 15 فروری تھی۔ 21 فروری 2018 کو جب واپسی کے تمام راستے بند ہوگئے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت کےلیے نااہل قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف کے نامزد سینیٹ نمائندوں سمیت تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور سینیٹ الیکشن کےلیے ن لیگ کے تمام نامزد امیدواروں کو آزاد امیدواروں کی حیثیت دے دی گئی۔
نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے فرمایا کہ ہم فیصلے قانون اور آئین کی روشنی میں کرتے ہیں اور ہمارے فیصلے سیاسی نہیں ہوتے۔
مائی لارڈ آپ یقیناً سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن اگر ہم آصف علی زرداری اور شیخ رشید کے دعووں کو سامنے رکھیں اور ان کے ساتھ آپ کے فیصلے کے وقت کو بھی مدنظر رکھیں تو کسی بھی ذی شعور انسان کے دماغ میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 8 فروری سے پہلے بھی آسکتا تھا تاکہ سینیٹ الیکشن متاثر نہ ہوتے اور ن لیگ سینیٹ الیکشن سے آؤٹ نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ اگر نااہلی کے بعد یوسف رضا گیلانی کے فیصلوں کو کلعدم نہیں کیا گیا تو نواز شریف کے کیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار کیوں دیا گیا؟
آپ کے اس فیصلے نے الیکشن سے تین ماہ پہلے اپوزیشن جماعتوں کو اُسی طرح فائدہ پہنچایا ہے جس طرح جنوری 2013 میں افتخار چوہدری کے فیصلوں نے اپوزیشن کو فائدہ پہنچایا تھا۔ افتخار چوہدری بھی قسمیں کھاتے تھے کہ ان کے فیصلے سیاسی نہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ سیاسی فیصلے تھے۔
مائی لارڈ! عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ 2013 میں الیکشن سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور آج 2018 میں بھی الیکشن سے تین ماہ قبل سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ن لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ دونوں واقعات حسن اتفاق ہوسکتے ہیں لیکن مؤرخ انہیں حسن اتفاق نہیں لکھے گا۔ مؤرخ لکھے گا کہ ملک پاکستان میں فیصلے قانون کے مطابق نہیں بلکہ وقت کے مطابق ہوتے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔