پیسے کا کھیل
اب تک اعلیٰ عدالت نے بھی اس قبیح روش کے خلاف سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔
سینیٹ کے الیکشن خیروخوبی سے نمٹ توگئے مگر اپنے پیچھے کئی سوالات اور بعض پارٹیوں اور شخصیات پر ووٹوں کی خرید وفروخت کے بدنما داغ لگا گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ فاٹا میں ریٹ نو کروڑ تک پہنچ گیا تھا جب کہ کراچی میں یہ ریٹ سات کروڑ چل رہا تھا پھر سب سے زیادہ پیسہ خیبر پختونخوا میں استعمال ہوا جہاں فی ووٹ ریٹ چارکروڑ بتایا جاتا ہے۔ وہاں تحریک انصاف کے بارہ ارکان اسمبلی کے بکنے کا خود عمران خان نے اعتراف کیا ہے۔
یہ سب کچھ اس صوبے میں ہوا جہاں کی حکمراں پی ٹی آئی ہے اور وہ کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم چلا رہی ہے۔ ووٹوں کی خرید وفروخت کے سلسلے میں سب سے زیادہ انگلی پیپلز پارٹی پر اٹھائی جارہی ہے، اس نے ووٹ خریدنے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا جب کہ اسی پارٹی کی رہنما شہید بے نظیر بھٹو ہارس ٹریڈنگ کے سخت خلاف تھیں اور وہ اسے اس قدر ناپسند کرتی تھیں کہ انھوں نے اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی تک کروائی تھی۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ہارس ٹریڈنگ کی تردید کی تھی تاہم انھوں نے اتنا ضرور کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں کچھ لین دین چل رہا تھا جس سے پاکستان کی کوئی بھی اسمبلی محفوظ نہیں تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے ہارس ٹریڈنگ نے ملک کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لعنت سے ملک کو کون نجات دلائے گا کون اس کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لائے گا، دھرنا دے گا اور مقدمہ درج کرائے گا۔
افسوس تو اس امر پر ہے کہ اب تک اعلیٰ عدالت نے بھی اس قبیح روش کے خلاف سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔ وہ الیکشن میں ووٹوں میں دھاندلی کے معاملات میں ضرور سائلوں کی فریاد پر کارروائی کرتی رہی ہے۔ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے مقدمات درج کرانے والوں کے پاس سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں تھے بس وہ اتنا کہتے تھے کہ دھاندلی کے ثبوت بوریوں کے اندر بند ہیں ان کے کھلنے کے بعد وہ سامنے آجائیں گے ان کی اس بات پر یقین کرلیا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کو آیندہ کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل کیا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدے ہیں وہ عوام کی خدمت کریں گے یا اپنے پیسے پورے کریں گے پنجاب جیسے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور نے ایک سیٹ اپنے نام کرلی ہے اس سے پتا چلا کہ (ن) لیگ کے ارکان بھی بکنے سے محفوظ نہیں رہ سکے تاہم چوہدری سرور اپنے تیس ارکان اسمبلی کے بل پر ہرگز نہیں جیت سکتے تھے البتہ یہ بات مخفی ہے کہ اصل معاملہ کیا ہوا۔ اس طرح مسلم لیگ(ن) بھی اپنے لوگوں کی بے وفائی پر نوحہ کناں ہے۔
ادھر بلوچستان اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی لاٹری نکل آئی وہاں کے سات آزاد امیدواروں کو اپنانے کے لیے پیپلز پارٹی نے پہل کردی ہے۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی انھیں اپنانے میں ضرور کامیاب ہوجائے گی اس لیے کہ جب اسے وہاں کی پوری مسلم لیگی حکومت کو گرانے کا ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے تو کیا وہ صرف سات ممبروں پر اپنا جادو نہیں چلا سکتی۔
بلاول بھٹو نے تو میاں صاحب کو کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ اگر ان کی پارٹی اکثریت میں ہے تو اپنا چیئرمین بناکر دکھائیں ۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی ہر قیمت پر اپنا چیئرمین منتخب کرانا چاہتی ہے تاہم پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا جو الزام لگایا جا رہا ہے ان کا یہ بیان اسے تقویت بخش لگتا ہے۔
سندھ میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو برداشت کرنا پڑا ہے،اس کے پی آئی بی دھڑے کے سربراہ فاروق ستار نے گلہ کیا ہے کہ ان کے چودہ ارکان اسمبلی سے پیپلز پارٹی نے چمک دکھا کر ووٹ ہتھیا لیے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما امین الحق نے سینیٹ الیکشن میں ایم کیو ایم کی تباہی پر افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کا نظریہ ہار گیا، غرور تکبر اورکامران ٹیسوری جیت گئے۔
ایم کیو ایم کی دو منحرف خواتین ارکان نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے پارٹی میں اختلاف کی وجہ سے جان بوجھ کر پارٹی کے امیدواروں کے بجائے اپنے ضمیرکی آواز پر ووٹ دیا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کا فیورکرکے پارٹی کو تباہ کر دیا اور یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ لیڈر بننے کے لائق نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی سے اصل نقصان سینیٹ میں کراچی کی نمایندگی کو پہنچا ہے۔
اب اگر ایم کیو ایم کے ایسے ہی حالات الجھے رہے تو اول تو اس کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا بدظن ہوکر دوسری پارٹیوں کو جوائن کرنا بعداز قیاس نہیں دوسرا یہ کہ اب آنے والے عام انتخابات میں اچھے نتائج کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے۔ لوگ تو اس کی کارکردگی سے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ چنانچہ تابناک مستقل کی اب بھی تمنا کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایسے گمبھیر حالات میں مصطفیٰ کمال کی ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کو پی ایس پی سے جڑنے کی دعوت دی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس سے کراچی کا مینڈیٹ بھی بکھرنے سے بچ سکتا ہے اور شہری مسائل کے حل کی راہ بھی نکل سکتی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان اپنی کمزور کارکردگی اور لڑائی جھگڑوں سے عوام میں بددلی پیدا کرچکی ہے جب کہ پاک سرزمین پارٹی نے اپنی مختصر سی مدت میں خود کو ایک متحد اور منظم پارٹی کے طور پر منوالیا ہے اور ساتھ ہی عوام کے دلوں میں جگہ بھی بنالی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے شروع سے ہی تمام جلسے کامیاب جا رہے ہیں۔ ان میں عوام کے جم غفیر سے پتا چلتا ہے کہ کراچی کے عوام نے اسے متبادل کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ پی ایس پی کے دوسرے جشن تاسیس کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کراچی کے عوام کے پاس پی ایس پی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
کچھ اس طرح کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ ایم کیو ایم کو تقسیم کرانے میں آصف زرداری نے اپنا کرتب دکھا دیا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان کی ہدایت پر ڈاکٹر عاصم حسین نے لندن میں ایک اہم لیڈر سے ملاقات کرکے معاملات طے کرا دیے ہیں جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز خبریں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اب حالات کا بدلنا اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے تقسیم کے بعد بھی اپنے معاملات خود ہی چلانا چاہتے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین کے سلسلے میں میاں صاحب نے رضا ربانی کی حمایت کرکے پیپلز پارٹی کی مشکل حل کردی ہے مگر آصف علی زرداری اس سے انکاری نظر آتے ہیں اس لیے کہ وہ پنجاب کے اپنے ایک اہم لیڈر جو میاں صاحب سے شیخ رشید کی طرح خفا ہیں کی ناراضگی کو مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک سینیٹ کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کا تعلق ہے اس نے الیکشن کمیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے چنانچہ اب اس نے شکایت کنندگان سے اس کے ثبوت طلب کرلیے ہیں مگر شاید ثبوت تو کوئی بھی پیش نہ کرسکے چنانچہ ان نتائج کو جوں کا توں قبول کرنا ہوگا البتہ اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں ہونے والی ممکنہ ہارس ٹریڈنگ کو روکنا الیکشن کمیشن کے لیے ایک کھلا چیلنج ہوگا۔ تاہم اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سینیٹ کا الیکشن پیسے کا کھیل بن کر رہ گیا جس میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے لیے کشش موجود ہے چنانچہ اس کا سدباب آسان نہیں ہے۔