پانی تنازعہ سندھ کی بدحالی کا باعث 1
ہر سطح پر سندھ کے شرعی و قانونی حق دریائے سندھ کی پنجاب کی جانب سے لوٹ مار جاری و ساری ہے۔
سندھ جو ہزاروں سال سے ایک خوشحال و سرسبز زرعی خطے کی شہرت کا حامل رہا ہے ۔ اس خطے کی خوشحالی میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب انگریز نے یہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری (Irrigation) نظام بنانے کے لیے سکھر بیراج تعمیر کیا جس سے سندھ بھر میں جیسے زرعی انقلاب آگیا ۔ یہاں کی کپاس دنیا بھر میں اعلیٰ معیاری مانی جاتی رہی ہے۔
لاڑکانہ کے امرود کی تو کیا بات ہے لیکن لاڑکانہ کے باسمتی (سگداسی ) چاول جب کسی گھر میں پکتے تھے تو وہ پورا محلہ خوشبو سے مہک اُٹھتا تھا ۔ میرپور خاص -سانگھڑ کے سندھڑی آم جو دنیا بھر میں خوشحال سندھ کی پہچان کے ساتھ ساتھ رانی ایلزبتھ کے محل (برطانیہ ) سے لے کر فرانس و امریکا تک شاہی تحفے کے طور پر ارسال ہوتے رہے۔
خیرپور کی (اصیل) کھجور دنیا بھر کے درآمد کنندہ تاجروں کو ٹھیڑی (خیرپور) اور چھوہارا مارکیٹ روہڑی تک کھینچ لاتی ۔ اس خطے میں ریل کے ذریعے سفر کرنیوالے بیرون ِ سندھ کے لوگ ٹنڈو آدم اسٹیشن آنے کے منتظر رہتے تاکہ وہاں کے چتری والے کیلوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ لاڑ (زیریں سندھ )کا گنا اور اُس سے بننے والی چینی کا تو ایشیا بھر (بلکہ شاید دنیا بھر) میں کوئی مماثل نہیں۔
سندھ کی متذکرہ بالا خوشحالی کا محور دریائے سندھ رہا ہے ۔ دریائے سندھ ہمالیہ کے چشموں اورگلیشئرز کی قدرتی معدنیات (Minerals) کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی پتھریلی مٹی کا سنہری پن، کشمیرکی ہریالی ، گلگت کی چمکدار ریت ، کابلی کلر (Colour) (کابل ندی کا پانی ) اور پنجاب کے دیگر دریاؤں کا پانی خود میں سموئے گڈو کے مقام سے سندھ میں وارد ہوتا اور ٹھٹہ کے شاہ بندر و کیٹی بندر کے مقامات پر بحر سندھ (بالمعروف بحر ہند) سے بغل گیر ہوکر اُسے وہیں رہنے پر آمادہ کیے رکھتا تھا۔
یہ وہی دریائے سندھ ہے جو ماضی کے عبرانی و عربی زبانوں کے مذہبی و تاریخی کُتب میں صیحون ، ہندو و سنسکرت کی دھرمی پُستکوں میں سندھو اورسیاحتی وجغرافیائی تاریخ کے اوراق میں ہاکڑو ، سرسوتی ، مہران اور انڈس کے ناموں سے درج و موضوع ِ ذکر رہا ہے چونکہ یہ دریا ماضی میں اپنے بہاؤ کے رخ تبدیل کرتا رہا ہے کبھی نارا- اچھڑو تھر (سفید تھر جو خیرپور سے سانگھڑ تک پھیلا ہوا ہے) سے ہوتا ہوا تھر کے کارونجھر کے مقام پر سمندر میں گرتا تھا۔
مختلف دریاؤں کے پانی کو خودمیں سمولینے اور اپنی مرضی سے بہاؤ تبدیل کرنے کے اس عمل کی وجہ سے مقامی لوگ اسے ''دریا باشاہ'' ( بادشاہ دریا ) اور شاہ دریا (بڑا دریا) بھی کہتے ہیں ۔ سکھر بیراج بنانے کے ساتھ ساتھ انگریز سرکار نے دریائے سندھ کے دونوں طرف بند باندھ کراُسے ایک مقرر کردہ موجودہ راستے تک محدود کیا لیکن اب بھی موقع ملنے پر وہ سیلاب کی شکل میں سارے بند توڑ کر اپنی روایت کے مطابق جہاں جی چاہے بہتا چلا جاتا ہے ۔
اس دریا کو سندھ کی شہ رگ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زرعی خطہ ہونے کی وجہ سے اس خطے کی انسانی تو انسانی یہاں کے چرند و پرند اور نباتاتی و حیوانیاتی زندگی کے طلاطم کا انحصار بھی اس دریا کے بہاؤ پر ہے ۔ جب یہ موجزن رہتا ہے تو اس خطے میںخوشحالی اور خوشیوں بھری زندگی بھی موجزن رہتی ہے اور یہاں کے مزاج میں بھی ترنم ہوتا ہے لیکن جب یہ خالی ہوتا ہے تو یہاں بھوک ، افلاس اور موت کا دیو اپنے تیز ناخن کیے، پنجے کھولے آدم بو ، آدم بو کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہاں کے مزاج میں کرختگی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے یہاں یہی صورتحال ہے اور اس خالی دریا کی وجہ سے وادی ِ سندھ اُجڑی ہوئی مانگ والی کوئی جوان اپسرا سی معلوم ہوتی ہے ۔
تاریخ کی ورق گردانی سے ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ برصغیر میں علاقائی سطح پر پانی پر اختیار کے تضادات بہت پرانے ہیں خصوصاً سندھ -پنجاب پانی تنازعہ سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
عالمی قوانین کے مطابق دریاؤں پر آخری سرے والے علاقوں ( جہاں دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے ) کا حق تسلیم کیا گیا ہے ، اس حق کے مطابق دریائے سندھ پر مکمل طور پرسندھ کا حق تسلیم کیا گیا ہے جب کہ باقی پانچ دریاؤں پر پنجاب کا حق تسلیم کیا گیا ہے مگر چونکہ پنجاب کے پانچ دریا اور کابل ندی کا پانی بھی دریائے سندھ میں گرتا ہے اور اسی کے راستے سمندر تک جاتا ہے اسلیے اُن پر بھی سندھ کے جزوی حق کو تسلیم کیا گیا ۔ نہ صرف عالمی قوانین کے مطابق بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق بھی سندھ کو دریائے سندھ پر مکمل حق اور اختیار حاصل ہے ۔
اس طرح کی ایک مثال ہمیں دریائے نیل کی بھی نظر آتی ہے جو افریقہ کے ملک روانڈا سے شروع ہوتا ہے اورتنزانیہ ، یوگنڈا ، سوڈان سے ہوتا ہوا مصر میں بحیرہ روم میں گرتا ہے اسے دو ندیاں ابیض اور ازرق بھرتی ہیں ۔ جب دریائے نیل پر سوڈان اور مصر کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا تو اس پرعالمی قوانین کے لحاظ سے حتمی اور فیصلہ کن حیثیت مصر کی تسلیم کی گئی جب کہ سوڈان اور دیگر ملکوں میں دریائے نیل یا اُسے بھرنے والی دونوں ندیوں پر کسی بھی قسم کے منصوبے کو مصر کی اجازت و رضامندی سے مشروط کیا گیا ۔ اور دنیا میں یہ معاہدہ ایک مثالی میثاق و فیصلہ تسلیم کیا گیا ہے۔
چونکہ 1947سے پہلے پورا برصغیر انگریز کے زیر ِ انتظام تھا تو جب تک وہ تھا تو وہ انتظامی اُمور میں بڑی سختی برتتے ہوئے اور غیر جانبداررہتے ہوئے تمام فریقوں کے حقوق اور فرائض کی سرانجامی کے لیے مساوی بنیادوں پر اقدامات کرتا تھا جسکی وجہ سے یہاں کے اداراتی ، معاشی اور انتظامی اُمور میں مساوات واضح طور پر نظر آتی تھی اور اُس سے دیرپا و خوش آیند نتائج برآمد ہوتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ انگریز کے ہوتے ہوئے خطے میں سندھ -پنجاب پانی تنازعہ جب کبھی سر اُٹھاتا تووہ اس کا غیرجانبدارانہ فیصلہ کرکے معاملے کو رفع دفع کردیتا تھا جیسے 1914اور 1919میں ہونیوالے سندھ -پنجاب پانی تنازعوںکے فیصلے وغیرہ لیکن سندھ پنجاب پانی تنازعہ نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب 1921ء میں پنجاب حکومت نے ایک مرتبہ پھر دریائے ستلج ویلی کینال پروجیکٹ منصوبہ بنایا اور ستلج پر ڈیم بنانے کی تجویز پر غور کیا۔
حکومت ِ پنجاب نے پانچ دریاؤں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے پانی کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہا اوروقتاً فوقتاً وہ دریائے سندھ کے پانی پر اختیار حاصل کرنے کی کوششیں کرتا اور دریائے سندھ پر کینال و نہریں بنانا چاہتا تھاجس پر حکومت ِ سندھ ان منصوبوں کی شدید مخالفت کرتی اوراعتراضات اٹھاکر ان منصوبوں کو رکواتی ۔ صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے انگریز کے وائسرائے ہند کی ماتحت حکومت ِ ہند نے 1934ء میں اینڈرسن کمیٹی تشکیل دی ۔ پھر 1939میں پنجاب نے دریائے ستلج پر بھاکڑ بند کا منصوبہ پیش کیا۔ پھر تھل کینال کی ناجائز و غیر قانونی تعمیر پنجاب کی جانب سے نظر آئی۔
ان تمام منصوبوں پر سندھ کے شدید احتجاج پر حکومت ِہند کی جانب سے 1941میںکلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج اور دوچیف انجینئروں پر مشتمل راؤ کمیشن قائم کیا گیا جس نے پنجاب کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے پنجاب کو سندھ کو کروڑوں روپے ہرجانہ ادا کرنے اور دریائے سندھ پر گڈو اور کوٹڑی کے مقام پر دو بیراج بنانے کے لیے پنجاب کوسندھ کی مدد کا پابند کیا۔
یوں انگریز کے زمانے میں پنجاب کی جانب سے سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم پر کی جانیوالی ہرزہ سرائیوں کا سدباب کیا جاتا رہالیکن قیام پاکستان کے بعد وفاق کے نام پر جب انتظامی و سیاسی اور فوجی طور پر پنجاب ملک کا کرتا دھرتا بن بیٹھا تو پھر دیگر اُمور میں کی گئی اس کی من مانیوں کی طرح پانی کی تقسیم کے معاملات پر بھی وہ دیگر صوبوں کو خاطر میں ہی نہ لاتا تھا اور قیام پاکستان کے بعد پانی کی تقسیم کا مسئلہ اس وقت اور سنگین ہوگیا جب سندھ طاس معاہدے کے تحت 1960ء میں تین دریا ستلج ، راوی اور بیاس بھارت کے ہاتھ فروخت کردیے گئے۔
ایوب خان کے دور حکومت میں پنجاب کے ایک وفد نے جس میں وزیر خزانہ ملک غلام محمد ، پنجاب حکومت کے دو وزراء سردار شوکت حیات اور میاں ممتاز دولتانہ سمیت ان محکموں کے سیکریٹریز نے سندھ سرحد ( موجودہ کے پی کے) اور بلوچستان کی اجازت اور مرضی معلوم کیے بغیر بھارت سے مذاکرات کیے اور تین دریاؤں کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامند ہوگئے اور بالآخر وہ تین دریا بھارت کے حوالے کردیے گئے۔
ملک میں آمریت کی وجہ سے ون یونٹ کا قانون لاگو تھا جس کے تحت سندھ کا وجود اور شناخت ہی ختم کردی گئی تھی تو وہ اس وقت کسی بھی پلیٹ فارم پر اعتراض کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا لیکن قومیں اپنا برا بھلا خوب سمجھتی ہیں اور اسی لیے سندھ کا موقف رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کوہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ سندھ اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اپنا موقف رکھتا رہاہے کہ چونکہ اس معاہدے کے تحت پنجاب نے اپنے تین دریا سندھ کی رضامندی کے بغیر بیچے اور ان دریاؤں کے عوض ملنے والی رقم پنجاب میں کینالوں اور ڈیموں کے انفرا اسٹرکچر پر خرچ کی گئی۔ ویسے بھی پنجاب نے اس معاہدے سے دو طرفہ فوائد حاصل کیے ہیں۔
ایک طرف اس نے پیسے لیے تو دوسری طرف اس نے دریا بیچنے کا رونا روکر زبردستی سندھ کے حصے کے پانی پر قبضہ جمالیا ہے جب کہ اصولی طور پر پنجاب کے نمایندوں کو دریائے سندھ کے حوالے سے کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے کاکوئی حق نہیں تھا اس لیے ہمیں نہ تو یہ معاہدہ قبول ہے اور نہ ہی ہم اس معاہدے کو درست سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کے پابند ہیں۔
یہ موقف سندھ نے 1968میں وفاق کی جانب سے صوبوں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے قائم کردہ اختر حسین کمیٹی اور 1970ء میں فضل اکبر کمیٹی اور 1977 میں انوار الحق کمیشن کے سامنے رکھا تھا پھر 1983میں صوبوں کے مابین پانی تنازعات کے حل کے لیے حلیم کمیشن بنایا گیا لیکن 1968 سے 1990 تک کے پی کے -سندھ- پنجاب پانی کی تقسیم کے کسی فارمولے پر متفق نہ ہوسکے۔
سندھ کے ان اعتراضات کو وفاق اور پنجاب کی جانب سے کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا، اُلٹا ان اعتراضات کی بناء پر سندھ پر تعصب کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور ہر سطح پر سندھ کے شرعی و قانونی حق دریائے سندھ کی پنجاب کی جانب سے لوٹ مار جاری و ساری ہے۔ روز کسی نہ کسی نئے منصوبے اور اسکیم کے تحت وہ سندھ کے پانی پر قبضہ بڑھاتا جارہا ہے جن میں ڈیمز بنانا ، گریٹر تھل کینال بنانا اور چشمہ جہلم لنک کینال بنانا اور پھراس کے آخری سرے پر بجلی گھر کی تعمیر کرکے اس سیلابی کینال کو دریائے سندھ سے زبردستی مسلسل پانی کی فراہمی یہ سندھ کے پانی کو پنجاب کو دینے کے ثبوت ہیں جنھیں قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔
واپڈا کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم کہا کہ ''یہ مست ہاتھی ہے '' جسے ہم نہیں روک سکتے ۔ وہ واپڈا جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں رکھا گیا ہے تاکہ اس پر وفاق سے زیادہ پنجاب کا اثر رہے ۔ اس واپڈا کی جانب سے سندھ کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے۔ کبھی اس کی جانب سے سیلاب کے پانی کو ڈیم میں جمع کرنے کی بے تکی اور غیر فنی باتیں کی جاتی ہیں ، حالانکہ نام والے افراد بھی یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ سیلاب کے ریلے کو اگر ڈیموں یا بیراجوں پر روکا گیا تو وہ اُن کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گااور وہ تباہی و بربادی مچادے گا۔
واپڈا ملک کی تین اکائیوں (صوبوں) کی اسمبلیوں کی جانب سے مسترد کیے گئے کالاباغ ڈیم کو بنانے پر بضد رہتا آرہا ہے کیونکہ واپڈا وفاق کی آڑ میں پنجاب کے مفادات کو پورا کرنے کے مشن پرعمل پیرا ہے ۔ واپڈا کے اس رویے کی وجہ سے باقی تین صوبوں میں بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ دنیا کو دکھانے کے لیے ملک میں پانی کی تقسیم کے لیے ایک اور ادارے ارسا کا قیام عمل میں لایاگیا ۔ پہلے پہل تو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ادارہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے منصفانہ تقسیم اور مانیٹرنگ کرے گا اور اس کے لیے اسے جدید الیکٹرانک و کمپیوٹرائیزنظام سے لیس کیا گیا مگر جہاں نیتیں صاف نہ ہوں وہاں آلات کب اور کیسے بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔
کہا گیا کہ چونکہ سندھ کو دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم پر زیادہ خدشات ہیں اس لیے ہر صوبہ کا ایک نمایندہ ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی نمایندہ کو بھی سندھ سے منتخب کیا جائے گا تاکہ سندھ کو فیصلوں میں برتری رہے لیکن پنجاب نے اس پر بھی اعتراض کیا۔ اب وفاقی نمایندہ سندھ سے مقرر کرنے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔
ملک میں پنجاب کے اعتراض کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے یہ اس کی چھوٹی مثال ہے لیکن ملک کے کسی بھی پلیٹ فارم پر سندھ بلکہ تینوں صوبوں کے کسی بھی اعتراض کو اتنی بھی قبولیت نہیں ملی کہ پنجاب کی طرح اس کے اعتراض پر کوئی فیصلہ تبدیل کیا گیا ہو جیسے تین صوبوں کو کالاباغ ڈیم پر اعتراض ہیں اور وہ تینوں صوبے کالاباغ ڈیم کو مسترد کرچکے ہیں لیکن ایک پنجاب کی وجہ سے ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا جارہا ہے اور کالاباغ ڈیم کے معاملے کو حتمی طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔
1991میں نواز شریف کے دور ِ حکومت میں جب سندھ میں ایک وزیر اعلیٰ جام صادق (جسے سندھ کے عوام کی امنگوں کے خلاف لندن سے لاکرہارس ٹریڈنگ کے زور پر وزیر اعلیٰ بنایاگیا تھاتاکہ وفاق اس سے اپنے مفادات حاصل کرسکے)کی حکومت تھی تو 12جنوری 1991کو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ جام صادق (سندھ) ، غلام حیدر وائیں (پنجاب) ، میر افضل خان (کے پی کے) اور میر تاج محمد جمالی (بلوچستان) کو اسلام آباد بلاکر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہونیوالے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں ہدایت کی گئی کہ اپنے صوبوں کے وزراء اور ٹیکنوکریٹس کی خصوصی کمیٹی بناکر رپورٹ تیار کریں جس پر چاروں صوبوں کے وزراء اور ٹیکنوکریٹس نے مشترکہ طور پر پانی کی تقسیم کے نئے منصوبے پر باہم رضامندی کا اظہار کیا اور پھر 21مارچ کو چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کی جس میں پانی کی تقسیم کے مسودے کی منظوری دی گئی اور اس معاہدے میں طے پایا کہ پنجاب کو 55.94ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، سندھ کو 48.76ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، سرحد کو 08.76 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، بلوچستان کو 3.87 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا۔
اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق کو صوبہ کے عوام ناپسند کرتے تھے اور اس کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری پر بھی انھیں اعتراضات تھے ۔ اس وقت کے اخبارات ملاحظہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ سندھ حکومت کو وفاق کی جانب سے کٹھ پتلی کی طرح Treatکیا جارہا تھا ، سندھ کے عوام کی جانب سے یہ موقف آیا کہ وفاق کی آڑ میں پنجاب سندھ کواپنی کالونی سمجھ کر یہاں کے فیصلوں میں من مانی اور دخل اندازی کررہا ہے ۔ پھر اس پر سونے پر سہاگہ کہ پانی کے اس معاہدے کو بھی اپنی امنگوں کے مطابق نہ پاکر برہم ہوگئے ۔اورانھوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اورصوبہ بھر میں اس معاہدے کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔
پھر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور نواز شریف و جام صادق کی حکومتوں کو ہٹاکر نئے انتخابات کروانے کا اعلان کردیا گیا اور پھر آنے والی پی پی پی کی حکومت کو بھی اسی طرح الجھا کر پھر اس کو بھی گھر بھیج دیا گیا ۔ یوں سیاسی مسائل اس قدر پیچیدہ کیے رکھے گئے کہ ملک کے حقیقی مسائل کی جانب کوئی توجہ ہی نہ دی گئی۔
(جاری ہے)
لاڑکانہ کے امرود کی تو کیا بات ہے لیکن لاڑکانہ کے باسمتی (سگداسی ) چاول جب کسی گھر میں پکتے تھے تو وہ پورا محلہ خوشبو سے مہک اُٹھتا تھا ۔ میرپور خاص -سانگھڑ کے سندھڑی آم جو دنیا بھر میں خوشحال سندھ کی پہچان کے ساتھ ساتھ رانی ایلزبتھ کے محل (برطانیہ ) سے لے کر فرانس و امریکا تک شاہی تحفے کے طور پر ارسال ہوتے رہے۔
خیرپور کی (اصیل) کھجور دنیا بھر کے درآمد کنندہ تاجروں کو ٹھیڑی (خیرپور) اور چھوہارا مارکیٹ روہڑی تک کھینچ لاتی ۔ اس خطے میں ریل کے ذریعے سفر کرنیوالے بیرون ِ سندھ کے لوگ ٹنڈو آدم اسٹیشن آنے کے منتظر رہتے تاکہ وہاں کے چتری والے کیلوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ لاڑ (زیریں سندھ )کا گنا اور اُس سے بننے والی چینی کا تو ایشیا بھر (بلکہ شاید دنیا بھر) میں کوئی مماثل نہیں۔
سندھ کی متذکرہ بالا خوشحالی کا محور دریائے سندھ رہا ہے ۔ دریائے سندھ ہمالیہ کے چشموں اورگلیشئرز کی قدرتی معدنیات (Minerals) کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی پتھریلی مٹی کا سنہری پن، کشمیرکی ہریالی ، گلگت کی چمکدار ریت ، کابلی کلر (Colour) (کابل ندی کا پانی ) اور پنجاب کے دیگر دریاؤں کا پانی خود میں سموئے گڈو کے مقام سے سندھ میں وارد ہوتا اور ٹھٹہ کے شاہ بندر و کیٹی بندر کے مقامات پر بحر سندھ (بالمعروف بحر ہند) سے بغل گیر ہوکر اُسے وہیں رہنے پر آمادہ کیے رکھتا تھا۔
یہ وہی دریائے سندھ ہے جو ماضی کے عبرانی و عربی زبانوں کے مذہبی و تاریخی کُتب میں صیحون ، ہندو و سنسکرت کی دھرمی پُستکوں میں سندھو اورسیاحتی وجغرافیائی تاریخ کے اوراق میں ہاکڑو ، سرسوتی ، مہران اور انڈس کے ناموں سے درج و موضوع ِ ذکر رہا ہے چونکہ یہ دریا ماضی میں اپنے بہاؤ کے رخ تبدیل کرتا رہا ہے کبھی نارا- اچھڑو تھر (سفید تھر جو خیرپور سے سانگھڑ تک پھیلا ہوا ہے) سے ہوتا ہوا تھر کے کارونجھر کے مقام پر سمندر میں گرتا تھا۔
مختلف دریاؤں کے پانی کو خودمیں سمولینے اور اپنی مرضی سے بہاؤ تبدیل کرنے کے اس عمل کی وجہ سے مقامی لوگ اسے ''دریا باشاہ'' ( بادشاہ دریا ) اور شاہ دریا (بڑا دریا) بھی کہتے ہیں ۔ سکھر بیراج بنانے کے ساتھ ساتھ انگریز سرکار نے دریائے سندھ کے دونوں طرف بند باندھ کراُسے ایک مقرر کردہ موجودہ راستے تک محدود کیا لیکن اب بھی موقع ملنے پر وہ سیلاب کی شکل میں سارے بند توڑ کر اپنی روایت کے مطابق جہاں جی چاہے بہتا چلا جاتا ہے ۔
اس دریا کو سندھ کی شہ رگ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زرعی خطہ ہونے کی وجہ سے اس خطے کی انسانی تو انسانی یہاں کے چرند و پرند اور نباتاتی و حیوانیاتی زندگی کے طلاطم کا انحصار بھی اس دریا کے بہاؤ پر ہے ۔ جب یہ موجزن رہتا ہے تو اس خطے میںخوشحالی اور خوشیوں بھری زندگی بھی موجزن رہتی ہے اور یہاں کے مزاج میں بھی ترنم ہوتا ہے لیکن جب یہ خالی ہوتا ہے تو یہاں بھوک ، افلاس اور موت کا دیو اپنے تیز ناخن کیے، پنجے کھولے آدم بو ، آدم بو کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہاں کے مزاج میں کرختگی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے یہاں یہی صورتحال ہے اور اس خالی دریا کی وجہ سے وادی ِ سندھ اُجڑی ہوئی مانگ والی کوئی جوان اپسرا سی معلوم ہوتی ہے ۔
تاریخ کی ورق گردانی سے ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ برصغیر میں علاقائی سطح پر پانی پر اختیار کے تضادات بہت پرانے ہیں خصوصاً سندھ -پنجاب پانی تنازعہ سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
عالمی قوانین کے مطابق دریاؤں پر آخری سرے والے علاقوں ( جہاں دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے ) کا حق تسلیم کیا گیا ہے ، اس حق کے مطابق دریائے سندھ پر مکمل طور پرسندھ کا حق تسلیم کیا گیا ہے جب کہ باقی پانچ دریاؤں پر پنجاب کا حق تسلیم کیا گیا ہے مگر چونکہ پنجاب کے پانچ دریا اور کابل ندی کا پانی بھی دریائے سندھ میں گرتا ہے اور اسی کے راستے سمندر تک جاتا ہے اسلیے اُن پر بھی سندھ کے جزوی حق کو تسلیم کیا گیا ۔ نہ صرف عالمی قوانین کے مطابق بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق بھی سندھ کو دریائے سندھ پر مکمل حق اور اختیار حاصل ہے ۔
اس طرح کی ایک مثال ہمیں دریائے نیل کی بھی نظر آتی ہے جو افریقہ کے ملک روانڈا سے شروع ہوتا ہے اورتنزانیہ ، یوگنڈا ، سوڈان سے ہوتا ہوا مصر میں بحیرہ روم میں گرتا ہے اسے دو ندیاں ابیض اور ازرق بھرتی ہیں ۔ جب دریائے نیل پر سوڈان اور مصر کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا تو اس پرعالمی قوانین کے لحاظ سے حتمی اور فیصلہ کن حیثیت مصر کی تسلیم کی گئی جب کہ سوڈان اور دیگر ملکوں میں دریائے نیل یا اُسے بھرنے والی دونوں ندیوں پر کسی بھی قسم کے منصوبے کو مصر کی اجازت و رضامندی سے مشروط کیا گیا ۔ اور دنیا میں یہ معاہدہ ایک مثالی میثاق و فیصلہ تسلیم کیا گیا ہے۔
چونکہ 1947سے پہلے پورا برصغیر انگریز کے زیر ِ انتظام تھا تو جب تک وہ تھا تو وہ انتظامی اُمور میں بڑی سختی برتتے ہوئے اور غیر جانبداررہتے ہوئے تمام فریقوں کے حقوق اور فرائض کی سرانجامی کے لیے مساوی بنیادوں پر اقدامات کرتا تھا جسکی وجہ سے یہاں کے اداراتی ، معاشی اور انتظامی اُمور میں مساوات واضح طور پر نظر آتی تھی اور اُس سے دیرپا و خوش آیند نتائج برآمد ہوتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ انگریز کے ہوتے ہوئے خطے میں سندھ -پنجاب پانی تنازعہ جب کبھی سر اُٹھاتا تووہ اس کا غیرجانبدارانہ فیصلہ کرکے معاملے کو رفع دفع کردیتا تھا جیسے 1914اور 1919میں ہونیوالے سندھ -پنجاب پانی تنازعوںکے فیصلے وغیرہ لیکن سندھ پنجاب پانی تنازعہ نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب 1921ء میں پنجاب حکومت نے ایک مرتبہ پھر دریائے ستلج ویلی کینال پروجیکٹ منصوبہ بنایا اور ستلج پر ڈیم بنانے کی تجویز پر غور کیا۔
حکومت ِ پنجاب نے پانچ دریاؤں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے پانی کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہا اوروقتاً فوقتاً وہ دریائے سندھ کے پانی پر اختیار حاصل کرنے کی کوششیں کرتا اور دریائے سندھ پر کینال و نہریں بنانا چاہتا تھاجس پر حکومت ِ سندھ ان منصوبوں کی شدید مخالفت کرتی اوراعتراضات اٹھاکر ان منصوبوں کو رکواتی ۔ صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے انگریز کے وائسرائے ہند کی ماتحت حکومت ِ ہند نے 1934ء میں اینڈرسن کمیٹی تشکیل دی ۔ پھر 1939میں پنجاب نے دریائے ستلج پر بھاکڑ بند کا منصوبہ پیش کیا۔ پھر تھل کینال کی ناجائز و غیر قانونی تعمیر پنجاب کی جانب سے نظر آئی۔
ان تمام منصوبوں پر سندھ کے شدید احتجاج پر حکومت ِہند کی جانب سے 1941میںکلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج اور دوچیف انجینئروں پر مشتمل راؤ کمیشن قائم کیا گیا جس نے پنجاب کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے پنجاب کو سندھ کو کروڑوں روپے ہرجانہ ادا کرنے اور دریائے سندھ پر گڈو اور کوٹڑی کے مقام پر دو بیراج بنانے کے لیے پنجاب کوسندھ کی مدد کا پابند کیا۔
یوں انگریز کے زمانے میں پنجاب کی جانب سے سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم پر کی جانیوالی ہرزہ سرائیوں کا سدباب کیا جاتا رہالیکن قیام پاکستان کے بعد وفاق کے نام پر جب انتظامی و سیاسی اور فوجی طور پر پنجاب ملک کا کرتا دھرتا بن بیٹھا تو پھر دیگر اُمور میں کی گئی اس کی من مانیوں کی طرح پانی کی تقسیم کے معاملات پر بھی وہ دیگر صوبوں کو خاطر میں ہی نہ لاتا تھا اور قیام پاکستان کے بعد پانی کی تقسیم کا مسئلہ اس وقت اور سنگین ہوگیا جب سندھ طاس معاہدے کے تحت 1960ء میں تین دریا ستلج ، راوی اور بیاس بھارت کے ہاتھ فروخت کردیے گئے۔
ایوب خان کے دور حکومت میں پنجاب کے ایک وفد نے جس میں وزیر خزانہ ملک غلام محمد ، پنجاب حکومت کے دو وزراء سردار شوکت حیات اور میاں ممتاز دولتانہ سمیت ان محکموں کے سیکریٹریز نے سندھ سرحد ( موجودہ کے پی کے) اور بلوچستان کی اجازت اور مرضی معلوم کیے بغیر بھارت سے مذاکرات کیے اور تین دریاؤں کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامند ہوگئے اور بالآخر وہ تین دریا بھارت کے حوالے کردیے گئے۔
ملک میں آمریت کی وجہ سے ون یونٹ کا قانون لاگو تھا جس کے تحت سندھ کا وجود اور شناخت ہی ختم کردی گئی تھی تو وہ اس وقت کسی بھی پلیٹ فارم پر اعتراض کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا لیکن قومیں اپنا برا بھلا خوب سمجھتی ہیں اور اسی لیے سندھ کا موقف رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کوہم تسلیم نہیں کرتے بلکہ سندھ اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اپنا موقف رکھتا رہاہے کہ چونکہ اس معاہدے کے تحت پنجاب نے اپنے تین دریا سندھ کی رضامندی کے بغیر بیچے اور ان دریاؤں کے عوض ملنے والی رقم پنجاب میں کینالوں اور ڈیموں کے انفرا اسٹرکچر پر خرچ کی گئی۔ ویسے بھی پنجاب نے اس معاہدے سے دو طرفہ فوائد حاصل کیے ہیں۔
ایک طرف اس نے پیسے لیے تو دوسری طرف اس نے دریا بیچنے کا رونا روکر زبردستی سندھ کے حصے کے پانی پر قبضہ جمالیا ہے جب کہ اصولی طور پر پنجاب کے نمایندوں کو دریائے سندھ کے حوالے سے کسی بھی قسم کا معاہدہ کرنے کاکوئی حق نہیں تھا اس لیے ہمیں نہ تو یہ معاہدہ قبول ہے اور نہ ہی ہم اس معاہدے کو درست سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کے پابند ہیں۔
یہ موقف سندھ نے 1968میں وفاق کی جانب سے صوبوں بالخصوص سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے قائم کردہ اختر حسین کمیٹی اور 1970ء میں فضل اکبر کمیٹی اور 1977 میں انوار الحق کمیشن کے سامنے رکھا تھا پھر 1983میں صوبوں کے مابین پانی تنازعات کے حل کے لیے حلیم کمیشن بنایا گیا لیکن 1968 سے 1990 تک کے پی کے -سندھ- پنجاب پانی کی تقسیم کے کسی فارمولے پر متفق نہ ہوسکے۔
سندھ کے ان اعتراضات کو وفاق اور پنجاب کی جانب سے کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا، اُلٹا ان اعتراضات کی بناء پر سندھ پر تعصب کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور ہر سطح پر سندھ کے شرعی و قانونی حق دریائے سندھ کی پنجاب کی جانب سے لوٹ مار جاری و ساری ہے۔ روز کسی نہ کسی نئے منصوبے اور اسکیم کے تحت وہ سندھ کے پانی پر قبضہ بڑھاتا جارہا ہے جن میں ڈیمز بنانا ، گریٹر تھل کینال بنانا اور چشمہ جہلم لنک کینال بنانا اور پھراس کے آخری سرے پر بجلی گھر کی تعمیر کرکے اس سیلابی کینال کو دریائے سندھ سے زبردستی مسلسل پانی کی فراہمی یہ سندھ کے پانی کو پنجاب کو دینے کے ثبوت ہیں جنھیں قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔
واپڈا کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم کہا کہ ''یہ مست ہاتھی ہے '' جسے ہم نہیں روک سکتے ۔ وہ واپڈا جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں رکھا گیا ہے تاکہ اس پر وفاق سے زیادہ پنجاب کا اثر رہے ۔ اس واپڈا کی جانب سے سندھ کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے۔ کبھی اس کی جانب سے سیلاب کے پانی کو ڈیم میں جمع کرنے کی بے تکی اور غیر فنی باتیں کی جاتی ہیں ، حالانکہ نام والے افراد بھی یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ سیلاب کے ریلے کو اگر ڈیموں یا بیراجوں پر روکا گیا تو وہ اُن کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گااور وہ تباہی و بربادی مچادے گا۔
واپڈا ملک کی تین اکائیوں (صوبوں) کی اسمبلیوں کی جانب سے مسترد کیے گئے کالاباغ ڈیم کو بنانے پر بضد رہتا آرہا ہے کیونکہ واپڈا وفاق کی آڑ میں پنجاب کے مفادات کو پورا کرنے کے مشن پرعمل پیرا ہے ۔ واپڈا کے اس رویے کی وجہ سے باقی تین صوبوں میں بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ دنیا کو دکھانے کے لیے ملک میں پانی کی تقسیم کے لیے ایک اور ادارے ارسا کا قیام عمل میں لایاگیا ۔ پہلے پہل تو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ادارہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے منصفانہ تقسیم اور مانیٹرنگ کرے گا اور اس کے لیے اسے جدید الیکٹرانک و کمپیوٹرائیزنظام سے لیس کیا گیا مگر جہاں نیتیں صاف نہ ہوں وہاں آلات کب اور کیسے بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔
کہا گیا کہ چونکہ سندھ کو دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم پر زیادہ خدشات ہیں اس لیے ہر صوبہ کا ایک نمایندہ ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی نمایندہ کو بھی سندھ سے منتخب کیا جائے گا تاکہ سندھ کو فیصلوں میں برتری رہے لیکن پنجاب نے اس پر بھی اعتراض کیا۔ اب وفاقی نمایندہ سندھ سے مقرر کرنے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔
ملک میں پنجاب کے اعتراض کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے یہ اس کی چھوٹی مثال ہے لیکن ملک کے کسی بھی پلیٹ فارم پر سندھ بلکہ تینوں صوبوں کے کسی بھی اعتراض کو اتنی بھی قبولیت نہیں ملی کہ پنجاب کی طرح اس کے اعتراض پر کوئی فیصلہ تبدیل کیا گیا ہو جیسے تین صوبوں کو کالاباغ ڈیم پر اعتراض ہیں اور وہ تینوں صوبے کالاباغ ڈیم کو مسترد کرچکے ہیں لیکن ایک پنجاب کی وجہ سے ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا جارہا ہے اور کالاباغ ڈیم کے معاملے کو حتمی طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔
1991میں نواز شریف کے دور ِ حکومت میں جب سندھ میں ایک وزیر اعلیٰ جام صادق (جسے سندھ کے عوام کی امنگوں کے خلاف لندن سے لاکرہارس ٹریڈنگ کے زور پر وزیر اعلیٰ بنایاگیا تھاتاکہ وفاق اس سے اپنے مفادات حاصل کرسکے)کی حکومت تھی تو 12جنوری 1991کو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ جام صادق (سندھ) ، غلام حیدر وائیں (پنجاب) ، میر افضل خان (کے پی کے) اور میر تاج محمد جمالی (بلوچستان) کو اسلام آباد بلاکر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہونیوالے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں ہدایت کی گئی کہ اپنے صوبوں کے وزراء اور ٹیکنوکریٹس کی خصوصی کمیٹی بناکر رپورٹ تیار کریں جس پر چاروں صوبوں کے وزراء اور ٹیکنوکریٹس نے مشترکہ طور پر پانی کی تقسیم کے نئے منصوبے پر باہم رضامندی کا اظہار کیا اور پھر 21مارچ کو چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کی جس میں پانی کی تقسیم کے مسودے کی منظوری دی گئی اور اس معاہدے میں طے پایا کہ پنجاب کو 55.94ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، سندھ کو 48.76ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، سرحد کو 08.76 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا، بلوچستان کو 3.87 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا۔
اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق کو صوبہ کے عوام ناپسند کرتے تھے اور اس کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری پر بھی انھیں اعتراضات تھے ۔ اس وقت کے اخبارات ملاحظہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ سندھ حکومت کو وفاق کی جانب سے کٹھ پتلی کی طرح Treatکیا جارہا تھا ، سندھ کے عوام کی جانب سے یہ موقف آیا کہ وفاق کی آڑ میں پنجاب سندھ کواپنی کالونی سمجھ کر یہاں کے فیصلوں میں من مانی اور دخل اندازی کررہا ہے ۔ پھر اس پر سونے پر سہاگہ کہ پانی کے اس معاہدے کو بھی اپنی امنگوں کے مطابق نہ پاکر برہم ہوگئے ۔اورانھوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اورصوبہ بھر میں اس معاہدے کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔
پھر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور نواز شریف و جام صادق کی حکومتوں کو ہٹاکر نئے انتخابات کروانے کا اعلان کردیا گیا اور پھر آنے والی پی پی پی کی حکومت کو بھی اسی طرح الجھا کر پھر اس کو بھی گھر بھیج دیا گیا ۔ یوں سیاسی مسائل اس قدر پیچیدہ کیے رکھے گئے کہ ملک کے حقیقی مسائل کی جانب کوئی توجہ ہی نہ دی گئی۔
(جاری ہے)