باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی
کہنے کو جمہوریت کی بندریا بیچ چوراہے پہ ناچ رہی ہے لیکن انداز آمرانہ ہے۔
پاکستانی عوام آخر کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے، کب تک لٹیروں کا ٹولہ ہم پر مسلط رہے گا ۔ یہ بدبخت تو امر بیل ہوگئے ہیں کہ جس درخت سے لپٹ جائے اس کی سرسبزی و شادابی چھین لیتی ہے اور خود پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ ہمارے یہ حکمران جن کے ساتھ خوشامدیوں اور مفاد پرستوں کا ٹولہ رہتا ہے وہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔
سازشی ٹولے صرف اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ یہ موسمی پرندے جب فضا کا اور ہوا کا رخ بدلتا دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے پروازکر جاتے ہیں۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے لیکن عوام کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ البتہ ان کی اولادیں ارب پتی ہوگئیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ مت پوچھوکہ اثاثے کہاں سے آئے۔ اف اللہ۔۔۔ ایسی ڈھٹائی شاید ہی پہلے کسی نے دکھائی ہو۔
تمام راگ راگنیاں اپنے مطلب کی، بانسری کے سُر اپنے مطلب کے، حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق ملہار برسات کا راگ ہے، لیکن جہاں پناہ چاہیں تو اسے دسمبرکی سردیوں میں بھی گایا جاسکتا ہے۔ گانے والے کو قیمت جو ٹھیک ٹھاک مل رہی ہے۔
افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے بعض کالم نگار اور ٹاک شوز کے اینکر بھی راگ ملہار بڑی مہارت سے گا رہے ہیں۔ نیب جن لوگوں کو پکڑ رہا ہے اس پر کالم لکھوائے جا رہے ہیں۔ عبارت صاف ظاہرکرتی ہے کہ کون کس کے مفاد میں کالم لکھ کر اسے بے گناہ اور ایماندار ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔
قلم کی حرمت ختم ہوچکی ہے، سب مال بکاؤ ہے۔ بس آواز لگانے کی دیر ہے کہ کون کتنے میں بک رہا ہے۔ کبھی کسی لینڈ مافیا کے سرغنہ کو حاتم طائی ثانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ حکومتی ارکان میں سے اگر کسی ادارے کے سربراہ یا بڑے افسر کے گلے میں پھندہ لگ رہا ہے تو ہمارے بڑے بڑے قلم کار میدان میں کود کر اسے بے گناہ اور ایماندار ثابت کرکے اپنے قلم کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ کالم کس کے کہنے پر لکھا گیا گویا:
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
میاں صاحب نے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر فرمایا تھا کہ میں اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کروں گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اقتدار ملتے ہی تکبر اور بڑھ گیا۔ بڑے مزے سے خاندان سمیت اقتدارکا مزہ لوٹتے رہے اور پھر فرمایا ''مجھے کیوں نکالا؟'' صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اگر انھیں نہ نکالا جاتا تو تمام لوگوں کو روزگار مل جاتا۔ لوگوں کے مسائل حل ہوجاتے۔ بہت خوب۔۔۔۔موصوف نے پارلیمنٹ کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
شاہانہ طرز زندگی مغل بادشاہوں جیسی اور وہ صرف ایک صوبے کے وزیر اعظم بن کر رہ گئے۔ مریم نواز کو بینظیر بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ادھر آصف زرداری نے راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' کہہ کر ان لوگوں کی توہین کی ہے جو بے موت مارے گئے۔
''بہادر بچہ'' کہہ کر مستقبل میں راؤ انوار کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ''ڈٹے رہنا''کیونکہ آیندہ الیکشن میں زرداری صاحب کو راؤ انوار جیسے لوگوں کی سخت ضرورت ہوگی ۔ ہوسکتا ہے وہ ''بہادر بچہ'' جو دراصل زرداری صاحب کا بغل بچہ ہے وہ انھی کی پروٹیکشن میں ہو اور مزے کر رہا ہو۔ کیونکہ وہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں لٹیروں اور بدمعاشوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ''بندے مارو اور اعزاز پاؤ'' کسی کی بھی زمین پر قبضہ کرو اور اصل مالک کو دھکے کھلواؤ۔
زرداری صاحب کو راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' کہنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے تھا کہ اس بیان سے انگلیاں انھی کی طرف اٹھیں گی لوگ برملا یہ کہتے ہیں کہ راؤ انوار پیپلز پارٹی کی حفاظت میں ہے۔ جبھی تو یوں لگتا ہے جیسے اسے زمین نگل گئی ہو یا آسمان کھا گیا ہو۔ وہ بھی ہنستا ہوگا کہ آیندہ بھی جب موقعہ ملے گا جعلی پولیس مقابلوں میں مخالفین کو مارتا رہے گا اور اعزاز پاتا رہے گا۔
چند دن قبل خیبر پختونخوا اسمبلی نے ایک بل منظورکیا جس میں شادی میں بے جا اخراجات پر پابندی لگا دی گئی ہے بارات اور نکاح پر مہمانوں کی تواضح صرف مشروبات سے کی جائے گی، ولیمہ پر صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی، شادی کی تقریبات رات گیارہ بجے ختم کرنا ہوں گی، خلاف ورزی پر 2 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہوگا اور تین ماہ کی قید بھی۔
کاش ایسا کوئی فیصلہ سندھ میں بھی ہوتا لیکن سندھ بشمول کراچی بہت بدقسمت ہے کہ یہاں راج کرنے والی جماعتیں صرف اپنا پیٹ بھرتی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے آتے ہی بڑا زبردست اعلان کیا تھا کہ فروری 2017ء سے شادی میں صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی اور شادی ہال رات گیارہ بجے بند کردیے جائیں گے۔ لوگ خوش ہوگئے اور شادی کی تاریخ دینے کے لیے انتظار کرنے لگے کہ فروری گزر جائے تو تاریخ دیں لیکن سندھ والے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کی طرح خوش نصیب نہیں۔
لہٰذا کمزور وزیر اعلیٰ کے پاس پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگ پکوان ہاؤس اور شادی ہال والوں کی درخواستیں ''بریف کیس'' میں بھر کر گئے اور من مانے فیصلے کروا لیے کہ ون ڈش کی پابندی سے پکوان ہاؤس اور شادی ہال والوں کا نقصان ہوگا۔ یہ ہیں ہمارے نام نہاد حکومتی ارکان۔ انھیں پکوان ہاؤس والوں کا خیال تھا لیکن ایک عام آدمی کا نہیں جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر وہ بیٹی کو دو لاکھ کا جہیز دے رہا ہے تو شادی ہال کا کرایہ اور کھانوں پر آٹھ دس لاکھ تک بات پہنچ جاتی ہے۔
کہنے کو جمہوریت کی بندریا بیچ چوراہے پہ ناچ رہی ہے لیکن انداز آمرانہ ہے۔ موروثی بادشاہت کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں پہلے باپ پھر بیٹا یا بیٹی، بھائی بھتیجے، چاچے، مامے۔ جمہوریت کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہوگی کہ بدترین بادشاہت کو جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ لوگوں کو سپریم کورٹ سے اور نیب سے بڑی توقعات ہیں۔ دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آتی ہے یا پہلے کی طرح مزید بلیاں تھیلوں میں ڈال کر تخت شاہی پہ براجمان کردی جاتی ہیں؟
سازشی ٹولے صرف اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ یہ موسمی پرندے جب فضا کا اور ہوا کا رخ بدلتا دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے پروازکر جاتے ہیں۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے لیکن عوام کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ البتہ ان کی اولادیں ارب پتی ہوگئیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ مت پوچھوکہ اثاثے کہاں سے آئے۔ اف اللہ۔۔۔ ایسی ڈھٹائی شاید ہی پہلے کسی نے دکھائی ہو۔
تمام راگ راگنیاں اپنے مطلب کی، بانسری کے سُر اپنے مطلب کے، حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق ملہار برسات کا راگ ہے، لیکن جہاں پناہ چاہیں تو اسے دسمبرکی سردیوں میں بھی گایا جاسکتا ہے۔ گانے والے کو قیمت جو ٹھیک ٹھاک مل رہی ہے۔
افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے بعض کالم نگار اور ٹاک شوز کے اینکر بھی راگ ملہار بڑی مہارت سے گا رہے ہیں۔ نیب جن لوگوں کو پکڑ رہا ہے اس پر کالم لکھوائے جا رہے ہیں۔ عبارت صاف ظاہرکرتی ہے کہ کون کس کے مفاد میں کالم لکھ کر اسے بے گناہ اور ایماندار ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔
قلم کی حرمت ختم ہوچکی ہے، سب مال بکاؤ ہے۔ بس آواز لگانے کی دیر ہے کہ کون کتنے میں بک رہا ہے۔ کبھی کسی لینڈ مافیا کے سرغنہ کو حاتم طائی ثانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ حکومتی ارکان میں سے اگر کسی ادارے کے سربراہ یا بڑے افسر کے گلے میں پھندہ لگ رہا ہے تو ہمارے بڑے بڑے قلم کار میدان میں کود کر اسے بے گناہ اور ایماندار ثابت کرکے اپنے قلم کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ کالم کس کے کہنے پر لکھا گیا گویا:
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
میاں صاحب نے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر فرمایا تھا کہ میں اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کروں گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اقتدار ملتے ہی تکبر اور بڑھ گیا۔ بڑے مزے سے خاندان سمیت اقتدارکا مزہ لوٹتے رہے اور پھر فرمایا ''مجھے کیوں نکالا؟'' صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اگر انھیں نہ نکالا جاتا تو تمام لوگوں کو روزگار مل جاتا۔ لوگوں کے مسائل حل ہوجاتے۔ بہت خوب۔۔۔۔موصوف نے پارلیمنٹ کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
شاہانہ طرز زندگی مغل بادشاہوں جیسی اور وہ صرف ایک صوبے کے وزیر اعظم بن کر رہ گئے۔ مریم نواز کو بینظیر بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ادھر آصف زرداری نے راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' کہہ کر ان لوگوں کی توہین کی ہے جو بے موت مارے گئے۔
''بہادر بچہ'' کہہ کر مستقبل میں راؤ انوار کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ''ڈٹے رہنا''کیونکہ آیندہ الیکشن میں زرداری صاحب کو راؤ انوار جیسے لوگوں کی سخت ضرورت ہوگی ۔ ہوسکتا ہے وہ ''بہادر بچہ'' جو دراصل زرداری صاحب کا بغل بچہ ہے وہ انھی کی پروٹیکشن میں ہو اور مزے کر رہا ہو۔ کیونکہ وہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں لٹیروں اور بدمعاشوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ''بندے مارو اور اعزاز پاؤ'' کسی کی بھی زمین پر قبضہ کرو اور اصل مالک کو دھکے کھلواؤ۔
زرداری صاحب کو راؤ انوار کو ''بہادر بچہ'' کہنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے تھا کہ اس بیان سے انگلیاں انھی کی طرف اٹھیں گی لوگ برملا یہ کہتے ہیں کہ راؤ انوار پیپلز پارٹی کی حفاظت میں ہے۔ جبھی تو یوں لگتا ہے جیسے اسے زمین نگل گئی ہو یا آسمان کھا گیا ہو۔ وہ بھی ہنستا ہوگا کہ آیندہ بھی جب موقعہ ملے گا جعلی پولیس مقابلوں میں مخالفین کو مارتا رہے گا اور اعزاز پاتا رہے گا۔
چند دن قبل خیبر پختونخوا اسمبلی نے ایک بل منظورکیا جس میں شادی میں بے جا اخراجات پر پابندی لگا دی گئی ہے بارات اور نکاح پر مہمانوں کی تواضح صرف مشروبات سے کی جائے گی، ولیمہ پر صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی، شادی کی تقریبات رات گیارہ بجے ختم کرنا ہوں گی، خلاف ورزی پر 2 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہوگا اور تین ماہ کی قید بھی۔
کاش ایسا کوئی فیصلہ سندھ میں بھی ہوتا لیکن سندھ بشمول کراچی بہت بدقسمت ہے کہ یہاں راج کرنے والی جماعتیں صرف اپنا پیٹ بھرتی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے آتے ہی بڑا زبردست اعلان کیا تھا کہ فروری 2017ء سے شادی میں صرف ون ڈش کی اجازت ہوگی اور شادی ہال رات گیارہ بجے بند کردیے جائیں گے۔ لوگ خوش ہوگئے اور شادی کی تاریخ دینے کے لیے انتظار کرنے لگے کہ فروری گزر جائے تو تاریخ دیں لیکن سندھ والے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کی طرح خوش نصیب نہیں۔
لہٰذا کمزور وزیر اعلیٰ کے پاس پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگ پکوان ہاؤس اور شادی ہال والوں کی درخواستیں ''بریف کیس'' میں بھر کر گئے اور من مانے فیصلے کروا لیے کہ ون ڈش کی پابندی سے پکوان ہاؤس اور شادی ہال والوں کا نقصان ہوگا۔ یہ ہیں ہمارے نام نہاد حکومتی ارکان۔ انھیں پکوان ہاؤس والوں کا خیال تھا لیکن ایک عام آدمی کا نہیں جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر وہ بیٹی کو دو لاکھ کا جہیز دے رہا ہے تو شادی ہال کا کرایہ اور کھانوں پر آٹھ دس لاکھ تک بات پہنچ جاتی ہے۔
کہنے کو جمہوریت کی بندریا بیچ چوراہے پہ ناچ رہی ہے لیکن انداز آمرانہ ہے۔ موروثی بادشاہت کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں پہلے باپ پھر بیٹا یا بیٹی، بھائی بھتیجے، چاچے، مامے۔ جمہوریت کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہوگی کہ بدترین بادشاہت کو جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ لوگوں کو سپریم کورٹ سے اور نیب سے بڑی توقعات ہیں۔ دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آتی ہے یا پہلے کی طرح مزید بلیاں تھیلوں میں ڈال کر تخت شاہی پہ براجمان کردی جاتی ہیں؟