دوسرا پہیہ
قدیم پدر سری معاشی نظاموں اور معاشرت میں چونکہ تمام تر انسانی حقوق طاقت اور تقدیر سے طے اور متعلق ہوتے تھے۔
کہا تو بہت جاتا ہے کہ زندگی ایک گاڑی کی مثال ہے جس کے مرد اور عورت دو برابر کے پہیے ہیں اور یہ کہ وقت کی سڑک پر تیزی اور حفاظت سے سفر کرنے کے لیے ان دونوں پہیوں کا باہمی اور مساوی ارتباط بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر یہ سفر انگریزی والا Suffer بن جاتا ہے مگر عملی حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا عمومی معاشرتی رجحان اور رویہ یہاں بھی انگریزی والے سفر ہی کی طرف ہے کہ ہماری خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ان بنیادی حقوق سے عملی طور پر تقریباً محروم ہے جو اسے مذہب' قانون اور فطرت نے عطا تو کر رکھے ہیں مگر انھی کی تشریح اور وضاحت کی آڑ لے کر اسے ان تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔
قدیم پدر سری معاشی نظاموں اور معاشرت میں چونکہ تمام تر انسانی حقوق طاقت اور تقدیر سے طے اور متعلق ہوتے تھے' اس لیے یہ سوال اپنی موجودہ شکل میں شاید مرتب اور لاگو ہی نہیں ہوتا تھا مگر مذاہب میں اسلام اور علوم میں انقلابات کی آمد اور رونمائی سے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے انسانی معاشرت میں خواتین کے حقوق' ان کے تحفظ اور تعین کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی وسعت' شدت اور اہمیت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص تیسری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں تعلیم کے پھیلاؤ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے باعث صورت حال نسبتاً زیادہ پیچیدہ بھی ہوتی چلی جا رہی ہے کہ صدیوں سے چلے آ رہے قدیم اور اسٹیٹس کو کے حامل معاشرے اپنے وسائل کی تقسیم نو کے کسی بھی نئے تصور کے خلاف روایت' مذہب اور صنفی امتیاز کی آڑ لے کر میدان میں نکل آتے ہیں اور یوں بات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی چلی جاتی ہے۔
البتہ اس کا اچھا اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ عملی نہ سہی ذہنی اور نفسیاتی سطح پر اب خواتین کے حقوق اور برابری کے تصورات سے منسلک مسائل پر کھل کر بات ہو رہی ہے اور انتہا پسندی کی جگہ باہمی افہام و تفہیم اور ایک انصاف پر مبنی فضا کا راستہ صاف اور ہموار ہو رہا ہے جس کا مظاہرہ اس بار عالمی یوم خواتین کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا۔ اتفاق سے اسی روز یعنی 8 مارچ کو ہماری ٹی وی اور فلم کی آرٹسٹ ریشم کے گھر کھانے اور راحت فتح علی خاں کی موسیقی پر مبنی ایک محفل میں دیگر بہت سے پرانے دوستوں کے ساتھ ساتھ طاہرہ سید سے بھی ملاقات ہوئی جس کا غالب موضوع عزیزہ روشانے ظفر کی تنظیم ''کشف'' کے تیار کردہ اور آمنہ مہتی کے لکھے ہوئے ڈرامے ''آخری اسٹیشن'' کا وہ گیت تھا جو میں نے لکھا' طاہرہ اور روشانے نے گایا اور ارشد محمود نے کمپوز کیا اور جس کا موضوع خواتین کے حقوق ہی تھے جن کا ذکر کچھ یوں ہوا کہ
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
وہ زمیں' جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور سر پر کشادہ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
تو مرا پیرہن' میں ترا پیرہن
راہ بر تو مرا' چارہ گر میں تری
نہ میں باندی کسی کی نہ جاگیر ہوں
ہم نفس ہوں تری ہم سفر ہوں تری
جس پہ مل کر چلیں وہ سڑک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
روشنی کا خزانہ مری گود ہے
مجھ کو تعلیم دو' مجھ کو تعظیم دو
ہر رکاوٹ سے نکلے گا خود راستہ
مجھ کو اپنے برابر کی تکریم دو
کتنی صدیوں سے میں ڈھونڈتی ہوں اسے
اک وہ بستی جہاں مجھ سے انصاف ہو
بے بسی اور تشدد سے یکسر الگ
ایک ایسی فضا جو کہ شفاف ہو
آئینے کو مرے اب چمک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
وہ زمیں' جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور سر پر کشادہ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
فیس بک اور سوشل میڈیا پر کمنٹس' ویڈیوز' تصاویر اور اشعار کی شکل میں اس دن کے حوالے سے سنجیدہ' غیر سنجیدہ' بامعنی اور بے مقصد بہت کچھ دیکھنے میں آیا کہ فی زمانہ اس Hyde Park میں کچھ بھی چھپا نہیں رہتا مگر میں فی الوقت صرف سیما نقوی کے ایک شعر اور اسنیٰ بدر کی ایک نظم کو بھی شیئر کرنے پر اکتفا کروں گا کہ ان دونوں خواتین نے اپنے اپنے انداز میں بہت گہری' دلچسپ' دردمندانہ اور خیال افروز باتیں کی ہیں سیما نقوی کہتی ہیں
میں اک عورت ہوں گھر بھر کی' ذمے داری ہے میری
مردوں کو تو کام بڑے ہیں' چاند پہ جانا ہوتا ہے
جب کہ اسنیٰ بدر کی نظم بعنوان ''یہ چاہا تھا'' کسی تشریح کی محتاج نہیں کہ اس کی ہر لائن ایک مجسم تصویر ہے
یہ چاہا تھا کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
جو اپنے شہر کے اچھے گھرانوں میں' کہیں روٹی پکاتی ہیں
کہیں جھاڑو لگاتی ہیں
جو باسی روٹیوں کو رات کی سبزی سے کھاتی ہیں
جو تھک کر گھر کے دروازوں سے ٹک کر بیٹھ جاتی ہیں
جو ساری عمر اترن پہن کر تن کو چھپاتی ہیں
وہ جن کے بدزباں بچے یونہی گلیوں میں پھرتے ہیں
وہ جن کے مرد سستے خمر میں ڈوبے
مہینے بھر کی محنت لڑ جھگڑ کر چھین لیتے ہیں
انھیں ہر سال اک انعام دیتے ہیں۔
یہ چاہا تھا مگر میں نے کبھی ان عورتوں پر کچھ نہیں لکھا
قلم جب جب اٹھایا بس مجھے اسکول کے بچے نظر آئے
کہیں سرسبز موسم' پھول اور پتے نظر آئے
کہیں کچھ خوبصورت پرکشش چہرے نظر آئے
کوئی ہے جو مجھے' مجھ سے رہائی ہی نہیں دیتا
اک ایسا شور جس میں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا
بصیرت مل گئی جب سے' دکھائی ہی نہیں دیتا۔
قدیم پدر سری معاشی نظاموں اور معاشرت میں چونکہ تمام تر انسانی حقوق طاقت اور تقدیر سے طے اور متعلق ہوتے تھے' اس لیے یہ سوال اپنی موجودہ شکل میں شاید مرتب اور لاگو ہی نہیں ہوتا تھا مگر مذاہب میں اسلام اور علوم میں انقلابات کی آمد اور رونمائی سے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے انسانی معاشرت میں خواتین کے حقوق' ان کے تحفظ اور تعین کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی وسعت' شدت اور اہمیت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص تیسری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں تعلیم کے پھیلاؤ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے باعث صورت حال نسبتاً زیادہ پیچیدہ بھی ہوتی چلی جا رہی ہے کہ صدیوں سے چلے آ رہے قدیم اور اسٹیٹس کو کے حامل معاشرے اپنے وسائل کی تقسیم نو کے کسی بھی نئے تصور کے خلاف روایت' مذہب اور صنفی امتیاز کی آڑ لے کر میدان میں نکل آتے ہیں اور یوں بات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی چلی جاتی ہے۔
البتہ اس کا اچھا اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ عملی نہ سہی ذہنی اور نفسیاتی سطح پر اب خواتین کے حقوق اور برابری کے تصورات سے منسلک مسائل پر کھل کر بات ہو رہی ہے اور انتہا پسندی کی جگہ باہمی افہام و تفہیم اور ایک انصاف پر مبنی فضا کا راستہ صاف اور ہموار ہو رہا ہے جس کا مظاہرہ اس بار عالمی یوم خواتین کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا۔ اتفاق سے اسی روز یعنی 8 مارچ کو ہماری ٹی وی اور فلم کی آرٹسٹ ریشم کے گھر کھانے اور راحت فتح علی خاں کی موسیقی پر مبنی ایک محفل میں دیگر بہت سے پرانے دوستوں کے ساتھ ساتھ طاہرہ سید سے بھی ملاقات ہوئی جس کا غالب موضوع عزیزہ روشانے ظفر کی تنظیم ''کشف'' کے تیار کردہ اور آمنہ مہتی کے لکھے ہوئے ڈرامے ''آخری اسٹیشن'' کا وہ گیت تھا جو میں نے لکھا' طاہرہ اور روشانے نے گایا اور ارشد محمود نے کمپوز کیا اور جس کا موضوع خواتین کے حقوق ہی تھے جن کا ذکر کچھ یوں ہوا کہ
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
وہ زمیں' جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور سر پر کشادہ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
تو مرا پیرہن' میں ترا پیرہن
راہ بر تو مرا' چارہ گر میں تری
نہ میں باندی کسی کی نہ جاگیر ہوں
ہم نفس ہوں تری ہم سفر ہوں تری
جس پہ مل کر چلیں وہ سڑک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
روشنی کا خزانہ مری گود ہے
مجھ کو تعلیم دو' مجھ کو تعظیم دو
ہر رکاوٹ سے نکلے گا خود راستہ
مجھ کو اپنے برابر کی تکریم دو
کتنی صدیوں سے میں ڈھونڈتی ہوں اسے
اک وہ بستی جہاں مجھ سے انصاف ہو
بے بسی اور تشدد سے یکسر الگ
ایک ایسی فضا جو کہ شفاف ہو
آئینے کو مرے اب چمک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
وہ زمیں' جس پہ میرے قدم ٹک سکیں
اور سر پر کشادہ فلک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
فیس بک اور سوشل میڈیا پر کمنٹس' ویڈیوز' تصاویر اور اشعار کی شکل میں اس دن کے حوالے سے سنجیدہ' غیر سنجیدہ' بامعنی اور بے مقصد بہت کچھ دیکھنے میں آیا کہ فی زمانہ اس Hyde Park میں کچھ بھی چھپا نہیں رہتا مگر میں فی الوقت صرف سیما نقوی کے ایک شعر اور اسنیٰ بدر کی ایک نظم کو بھی شیئر کرنے پر اکتفا کروں گا کہ ان دونوں خواتین نے اپنے اپنے انداز میں بہت گہری' دلچسپ' دردمندانہ اور خیال افروز باتیں کی ہیں سیما نقوی کہتی ہیں
میں اک عورت ہوں گھر بھر کی' ذمے داری ہے میری
مردوں کو تو کام بڑے ہیں' چاند پہ جانا ہوتا ہے
جب کہ اسنیٰ بدر کی نظم بعنوان ''یہ چاہا تھا'' کسی تشریح کی محتاج نہیں کہ اس کی ہر لائن ایک مجسم تصویر ہے
یہ چاہا تھا کہ میں ان عورتوں پر کچھ نہ کچھ لکھوں
جو اپنے شہر کے اچھے گھرانوں میں' کہیں روٹی پکاتی ہیں
کہیں جھاڑو لگاتی ہیں
جو باسی روٹیوں کو رات کی سبزی سے کھاتی ہیں
جو تھک کر گھر کے دروازوں سے ٹک کر بیٹھ جاتی ہیں
جو ساری عمر اترن پہن کر تن کو چھپاتی ہیں
وہ جن کے بدزباں بچے یونہی گلیوں میں پھرتے ہیں
وہ جن کے مرد سستے خمر میں ڈوبے
مہینے بھر کی محنت لڑ جھگڑ کر چھین لیتے ہیں
انھیں ہر سال اک انعام دیتے ہیں۔
یہ چاہا تھا مگر میں نے کبھی ان عورتوں پر کچھ نہیں لکھا
قلم جب جب اٹھایا بس مجھے اسکول کے بچے نظر آئے
کہیں سرسبز موسم' پھول اور پتے نظر آئے
کہیں کچھ خوبصورت پرکشش چہرے نظر آئے
کوئی ہے جو مجھے' مجھ سے رہائی ہی نہیں دیتا
اک ایسا شور جس میں کچھ سنائی ہی نہیں دیتا
بصیرت مل گئی جب سے' دکھائی ہی نہیں دیتا۔