پہلی خواب دیکھنے والی
آزادی کے چراغ ان سینوں میں زیادہ آب وتاب سے جلتے ہیں جو سب سے زیادہ محکوم رکھے گئے ہوں۔
علامہ سید محمد باقر مجلسی یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین پر سب سے پہلا خواب حوا نے دیکھا۔
دنیا میں عورت دیکھنے والوںکو اپنے سحر میں اسیرکرتی ہے اور اس کے وجود سے دنیا میں بہار آتی ہے۔ اس کی ذات سے کائنات میں رنگوںکی برکھا ہوتی ہے۔اس تناظر میںدیکھئے توخیال آتا ہے کہ حضرت حوا اگر آج موجود ہوتیں تو وہ 8 مارچ کا دن کس طور مناتیں۔۔۔؟
وہ اگر روئے زمین پر پہلی خواب دیکھنے والی تھیں تو وہ اپنے بیٹوں کو سرزنش کرتیں کہ تم نے میری بیٹیوں، نواسیوں اور پوتیوں کا کیا حال کیا ہے۔ اسی طرح وہ بیٹیوں سے ناراض ہوتیں کہ تم تو بہت تھڑدلی نکلیں۔ تم پر جب میرے بٹیوں نے ظلم شروع کیا تو تم نے ان کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی۔۔؟ تم جانتی ہوکہ آدم اور میں باغ عدن سے اس لیے نکالے گئے کہ ہم نے خدا کی نافرمانی کی تھی۔ یہ تو دنیا کے معاملات تھے جن میں تمہارے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی۔
ایسے میں صدائے احتجاج بلند کرنا اور انصاف طلب کرنا، تمہارا حق تھا۔ علامہ مجلسی حوا کو پہلی خواب دیکھنے والی کہتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی نے اپنی بیٹیوں کے لیے کیا خواب نہیں دیکھے ہوں گے لیکن زرعی سماج سے اب تک اس کی بیٹیوں کی اکثریت کی زندگی ایک بھیانک خواب رہی ہے۔
8 مارچ چند دنوں پہلے گزری ہے۔ اس موقعے پر ساری دنیا میں عورتوں کے حقوق اور ان کی جدوجہد کے بارے میں بہت سے جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے اور تقریریں ہوئیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عورت کس طرح وہ مقام حاصل کرے جس کے بعد وہ مرد کے شانہ بہ شانہ چل کر طبقاتی نظام کے خلاف ایک لمبی جدوجہد کر سکے۔ بچیوں اور عورتوںکوظلم اور ناانصافی کامقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم سے آشنا ہوں اور معاشی جدوجہد کے لیے کوئی ہُنران کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہو جس کے ذریعے وہ معاشی، طور پر خودمختار ہو سکیں۔
یوں تو ساری دنیا میںیہ دن منایا گیا لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ شعور عام ہو رہا ہے کہ جب تک لڑکیاں پڑھیںگی نہیں، وہ آگے نہیں بڑھیںگی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہے کہ اپنے سماجی اور سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے بھی یہ لازمی ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں سیاست میں آگے آئیں۔
یہ اسی شعور کا نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ پسماندہ طبقات سے پڑھی لکھی لڑکیاں سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ لڑکیاں جس طرح عورتوںاور اپنے پسماندہ لوگوں کے مسائل سمجھتی ہیں اور انھیں حل کرنے میںدلچسپی لیتی ہیں' اس سے سماجی بہتری کا ایک تسلسل شروع ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں اس کی تازہ ترین مثال پاکستان کے ایوان بالا میں کرشنا کماری کوہلی کا پہنچنا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس بات کی داد ملنی چاہیے کہ وہ اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک عورتوں کو سماجی اور سیاسی زندگی میں سامنے لانے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔ تھرپارکر کے نہایت غریب دلت خاندان میں پیدا ہونے والی کرشناکماری کوہلی اس کی بالکل سامنے کی مثال ہے۔ کرشنا کماری کے ماں باپ بندھوا کسان تھے۔
انسان کی توہین اور تذلیل سے بدتر کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی وڈیرے، کسی جاگیردار کی ذاتی ملکیت ہو۔ اس کے کھیتوں پر کام کرے اور اس کے حصے میں دومٹھی چاول آئے اور اس کے بدن پر لیرلیرکپڑے ہوں۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کرشنا کماری نے بھی کئی برس تک بندھوا کسان ہونے کی ذلت بھگتی۔ کرشنا سے شاید کسی اڑتے پرندے نے کان میںیہ کہہ دیا تھا کہ کتاب اور کاغذ اس کی نجات کا پروانہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کرشنا نے بدترین حالات کی چکی میں پستے ہوئے بھی اپنا رشتہ تعلیم سے جوڑے رکھا، وہ ساتویں میں پڑھتی تھیں جب ان کی شادی کردی گئی۔ یہ ان کی خوش بختی تھی کہ ان کے شوہرلال چند کو معلوم تھا کہ اس کی بہادر بیوی کو پڑھنے کا جنون ہے اور یہ جنون کرشنا اور خود لال چند کے پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیاں کاٹ سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کرشناکماری کے پردادا روپلوکوہلی نے 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اور آخر کار پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔
آزادی کے چراغ ان سینوں میں زیادہ آب وتاب سے جلتے ہیں جو سب سے زیادہ محکوم رکھے گئے ہوں۔ کرشنا کماری نے ہر مصیبت برداشت کی لیکن کتاب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، یہی وہ جنون تھا جس کی بناپر کرشنانے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور وہ آگے بڑھتی گئی۔ یہ بھٹوخاندان کی جوہرشناسی ہے کہ انھوں نے کرشناکماری کو سیاست کے میدان میں لانے کا فیصلہ کیا اور یہ ان کی حمایت اور تعاون تھا جس نے کرشنا کو پاکستانی سینیٹ کارکن بنا دیا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کرشنا وہاںپہنچ کر مصیبت کے ان دنوں کوبھول جائیں جن سے وہ ان کا خاندان اور ان کا قبیلہ گزرا اور گزر رہا ہے۔ تھرپارکر کی یہ دلت لڑکی پاکستان کے کتنے ہی خاندانوںکا مقدر بدل دینے کی جدوجہد کرے گی اس کاہم بہ خوبی تصور کرسکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ 2018ء کے مارچ کی آٹھویںتاریخ سندھ اورپاکستان کے نادار اور بے آسرا خاندانوں بہ طورخاص لڑکیوں اور عورتوں کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سفیدفام اور سیاہ فام عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے 100برس سے زیادہ جدوجہد کی ہے تب کہیں انھیں بہت سے سیاسی اور سماجی حقوق حاصل ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی عورتوں کی تعلیم اور اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ عورتوں میں تعلیم عام ہوئی۔ لڑکیاںآگے آئیں اور آج وہ ہمارے سماج کا ایک متحرک حصہ ہیں۔
یوں تو پاکستان کے کئی بڑے شہروں میںعورتوں کے جلوس نکالے گئے'جلسے ہوئے، ان میں تقریریں ہوئیں اور تعلیم کے علاوہ مساوی مواقع کے حوالے سے عہدکیے گئے لیکن ان میں اہم وہ لڑکیاں اور عورتیںہیں جواپنے اپنے علاقوں میں ابتدائی تعلیم کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کراچی کی مضافاتی بستی مچھرکالونی کی طاہرہ حسن ہیں جنہوںنے کھیل، کے نام سے ایک جگہ بنائی جس میں ڈیڑھ سو بچے رہتے ہیں۔ لکھنا پڑھنا سیکھتے ہیں۔ طاہرہ ان کو ادب آداب اور زندگی گزارنے کا بہتر طریقہ بتاتی ہیں۔
مچھرکالونی جہاں گلیوں کے نام نہیں'گھروں کے نمبر نہیں'جو اتنی تنگ ہیں کہ ان میں سے کوئی گاڑی نہیںگزر سکتی، جہاں صرف کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں' وہاں تمیز و تہذیب سے آشنا ہوتے ہوئے بچے وہ معجزہ ہیں جو طاہرہ حسن نے کر دکھایا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے بلال لاکھانی نے طاہرہ حسن کے کام کو سراہا ہے وہ کہتے ہیںکہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عام بچوں' لڑکیوںاور عورتوںکی زندگی بہتربنائی جا سکتی ہے۔ انھیںزندگی کی کٹھنائیوں سے لڑنا سکھایا جا سکتا ہے۔
اب سے پہلے کس نے یہ سوچا تھا کہ لڑکیاں شطرنج جیسے ذہنی کھیل کو نہ صرف سیکھ سکتی ہیں بلکہ اپنے مد مقابل لڑکوں کو شکست بھی دے سکتی ہیں۔ ایس ایم بی فاطمہ جناح گورنمنٹ گرلز اسکول کی لڑکیاںشطرنج کے ایک ماہر سے یہ کھیل سیکھتی ہیں۔ وہ شہر کے ایک مشہور اور بڑے اسکول بی وی ایس پارسی اسکول کے لڑکوںکو شکست دے چکی ہیں اور اب ان میںسے ایک 15سالہ بچی بشریٰ مقصود شطرنج کے ایک مقابلے میں امریکا میںحصہ لینے کے لیے منتخب ہوئی ہے۔ جُون میں یہ مقابلہ امریکا میں ہو گا۔
یہ خواب ایسی باتیں ہیں۔ کرشناکماری سے بشریٰ مقصود تک سب ہی اپنے اپنے دائرے میں خواب دیکھتی ہیں اور اس کی تعبیر بھی پاتی ہیں۔ کیوں نہ ہو کہ روایت کے مطابق ان کی جدہ حوا نے دنیا میں پہلا خواب دیکھا تھا۔
(جاری ہے)
دنیا میں عورت دیکھنے والوںکو اپنے سحر میں اسیرکرتی ہے اور اس کے وجود سے دنیا میں بہار آتی ہے۔ اس کی ذات سے کائنات میں رنگوںکی برکھا ہوتی ہے۔اس تناظر میںدیکھئے توخیال آتا ہے کہ حضرت حوا اگر آج موجود ہوتیں تو وہ 8 مارچ کا دن کس طور مناتیں۔۔۔؟
وہ اگر روئے زمین پر پہلی خواب دیکھنے والی تھیں تو وہ اپنے بیٹوں کو سرزنش کرتیں کہ تم نے میری بیٹیوں، نواسیوں اور پوتیوں کا کیا حال کیا ہے۔ اسی طرح وہ بیٹیوں سے ناراض ہوتیں کہ تم تو بہت تھڑدلی نکلیں۔ تم پر جب میرے بٹیوں نے ظلم شروع کیا تو تم نے ان کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی۔۔؟ تم جانتی ہوکہ آدم اور میں باغ عدن سے اس لیے نکالے گئے کہ ہم نے خدا کی نافرمانی کی تھی۔ یہ تو دنیا کے معاملات تھے جن میں تمہارے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی۔
ایسے میں صدائے احتجاج بلند کرنا اور انصاف طلب کرنا، تمہارا حق تھا۔ علامہ مجلسی حوا کو پہلی خواب دیکھنے والی کہتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی نے اپنی بیٹیوں کے لیے کیا خواب نہیں دیکھے ہوں گے لیکن زرعی سماج سے اب تک اس کی بیٹیوں کی اکثریت کی زندگی ایک بھیانک خواب رہی ہے۔
8 مارچ چند دنوں پہلے گزری ہے۔ اس موقعے پر ساری دنیا میں عورتوں کے حقوق اور ان کی جدوجہد کے بارے میں بہت سے جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے اور تقریریں ہوئیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عورت کس طرح وہ مقام حاصل کرے جس کے بعد وہ مرد کے شانہ بہ شانہ چل کر طبقاتی نظام کے خلاف ایک لمبی جدوجہد کر سکے۔ بچیوں اور عورتوںکوظلم اور ناانصافی کامقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم سے آشنا ہوں اور معاشی جدوجہد کے لیے کوئی ہُنران کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہو جس کے ذریعے وہ معاشی، طور پر خودمختار ہو سکیں۔
یوں تو ساری دنیا میںیہ دن منایا گیا لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ شعور عام ہو رہا ہے کہ جب تک لڑکیاں پڑھیںگی نہیں، وہ آگے نہیں بڑھیںگی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی لوگوں کی سمجھ میں آگئی ہے کہ اپنے سماجی اور سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے بھی یہ لازمی ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں سیاست میں آگے آئیں۔
یہ اسی شعور کا نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ پسماندہ طبقات سے پڑھی لکھی لڑکیاں سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ لڑکیاں جس طرح عورتوںاور اپنے پسماندہ لوگوں کے مسائل سمجھتی ہیں اور انھیں حل کرنے میںدلچسپی لیتی ہیں' اس سے سماجی بہتری کا ایک تسلسل شروع ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں اس کی تازہ ترین مثال پاکستان کے ایوان بالا میں کرشنا کماری کوہلی کا پہنچنا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس بات کی داد ملنی چاہیے کہ وہ اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک عورتوں کو سماجی اور سیاسی زندگی میں سامنے لانے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔ تھرپارکر کے نہایت غریب دلت خاندان میں پیدا ہونے والی کرشناکماری کوہلی اس کی بالکل سامنے کی مثال ہے۔ کرشنا کماری کے ماں باپ بندھوا کسان تھے۔
انسان کی توہین اور تذلیل سے بدتر کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی وڈیرے، کسی جاگیردار کی ذاتی ملکیت ہو۔ اس کے کھیتوں پر کام کرے اور اس کے حصے میں دومٹھی چاول آئے اور اس کے بدن پر لیرلیرکپڑے ہوں۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کرشنا کماری نے بھی کئی برس تک بندھوا کسان ہونے کی ذلت بھگتی۔ کرشنا سے شاید کسی اڑتے پرندے نے کان میںیہ کہہ دیا تھا کہ کتاب اور کاغذ اس کی نجات کا پروانہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کرشنا نے بدترین حالات کی چکی میں پستے ہوئے بھی اپنا رشتہ تعلیم سے جوڑے رکھا، وہ ساتویں میں پڑھتی تھیں جب ان کی شادی کردی گئی۔ یہ ان کی خوش بختی تھی کہ ان کے شوہرلال چند کو معلوم تھا کہ اس کی بہادر بیوی کو پڑھنے کا جنون ہے اور یہ جنون کرشنا اور خود لال چند کے پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیاں کاٹ سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کرشناکماری کے پردادا روپلوکوہلی نے 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اور آخر کار پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔
آزادی کے چراغ ان سینوں میں زیادہ آب وتاب سے جلتے ہیں جو سب سے زیادہ محکوم رکھے گئے ہوں۔ کرشنا کماری نے ہر مصیبت برداشت کی لیکن کتاب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا، یہی وہ جنون تھا جس کی بناپر کرشنانے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور وہ آگے بڑھتی گئی۔ یہ بھٹوخاندان کی جوہرشناسی ہے کہ انھوں نے کرشناکماری کو سیاست کے میدان میں لانے کا فیصلہ کیا اور یہ ان کی حمایت اور تعاون تھا جس نے کرشنا کو پاکستانی سینیٹ کارکن بنا دیا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کرشنا وہاںپہنچ کر مصیبت کے ان دنوں کوبھول جائیں جن سے وہ ان کا خاندان اور ان کا قبیلہ گزرا اور گزر رہا ہے۔ تھرپارکر کی یہ دلت لڑکی پاکستان کے کتنے ہی خاندانوںکا مقدر بدل دینے کی جدوجہد کرے گی اس کاہم بہ خوبی تصور کرسکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ 2018ء کے مارچ کی آٹھویںتاریخ سندھ اورپاکستان کے نادار اور بے آسرا خاندانوں بہ طورخاص لڑکیوں اور عورتوں کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سفیدفام اور سیاہ فام عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے 100برس سے زیادہ جدوجہد کی ہے تب کہیں انھیں بہت سے سیاسی اور سماجی حقوق حاصل ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی عورتوں کی تعلیم اور اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ عورتوں میں تعلیم عام ہوئی۔ لڑکیاںآگے آئیں اور آج وہ ہمارے سماج کا ایک متحرک حصہ ہیں۔
یوں تو پاکستان کے کئی بڑے شہروں میںعورتوں کے جلوس نکالے گئے'جلسے ہوئے، ان میں تقریریں ہوئیں اور تعلیم کے علاوہ مساوی مواقع کے حوالے سے عہدکیے گئے لیکن ان میں اہم وہ لڑکیاں اور عورتیںہیں جواپنے اپنے علاقوں میں ابتدائی تعلیم کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کراچی کی مضافاتی بستی مچھرکالونی کی طاہرہ حسن ہیں جنہوںنے کھیل، کے نام سے ایک جگہ بنائی جس میں ڈیڑھ سو بچے رہتے ہیں۔ لکھنا پڑھنا سیکھتے ہیں۔ طاہرہ ان کو ادب آداب اور زندگی گزارنے کا بہتر طریقہ بتاتی ہیں۔
مچھرکالونی جہاں گلیوں کے نام نہیں'گھروں کے نمبر نہیں'جو اتنی تنگ ہیں کہ ان میں سے کوئی گاڑی نہیںگزر سکتی، جہاں صرف کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں' وہاں تمیز و تہذیب سے آشنا ہوتے ہوئے بچے وہ معجزہ ہیں جو طاہرہ حسن نے کر دکھایا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے بلال لاکھانی نے طاہرہ حسن کے کام کو سراہا ہے وہ کہتے ہیںکہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عام بچوں' لڑکیوںاور عورتوںکی زندگی بہتربنائی جا سکتی ہے۔ انھیںزندگی کی کٹھنائیوں سے لڑنا سکھایا جا سکتا ہے۔
اب سے پہلے کس نے یہ سوچا تھا کہ لڑکیاں شطرنج جیسے ذہنی کھیل کو نہ صرف سیکھ سکتی ہیں بلکہ اپنے مد مقابل لڑکوں کو شکست بھی دے سکتی ہیں۔ ایس ایم بی فاطمہ جناح گورنمنٹ گرلز اسکول کی لڑکیاںشطرنج کے ایک ماہر سے یہ کھیل سیکھتی ہیں۔ وہ شہر کے ایک مشہور اور بڑے اسکول بی وی ایس پارسی اسکول کے لڑکوںکو شکست دے چکی ہیں اور اب ان میںسے ایک 15سالہ بچی بشریٰ مقصود شطرنج کے ایک مقابلے میں امریکا میںحصہ لینے کے لیے منتخب ہوئی ہے۔ جُون میں یہ مقابلہ امریکا میں ہو گا۔
یہ خواب ایسی باتیں ہیں۔ کرشناکماری سے بشریٰ مقصود تک سب ہی اپنے اپنے دائرے میں خواب دیکھتی ہیں اور اس کی تعبیر بھی پاتی ہیں۔ کیوں نہ ہو کہ روایت کے مطابق ان کی جدہ حوا نے دنیا میں پہلا خواب دیکھا تھا۔
(جاری ہے)