ابو تُراب علی فطرتاً سپاہی تھے اور یہ صفت ہر جنگ میں نمایاں رہی

40 افراد کے مجمع میں سے علیؓ کے سوا کسی نے رسول کریم ﷺ کی حمایت نہ...


Fateh Abu Mohsin August 09, 2012
ابو تُراب علی فطرتاً سپاہی تھے اور یہ صفت ہر جنگ میں نمایاں رہی۔ فوٹو: ایکپریس

پیدائش کے وقت آپ کے والد حضرت ابوطالب مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے، اس لیے ماں نے ان کا نام اپنے باپ کے نام پر اسد رکھا لیکن جب حضرت ابو طالب واپس گھر پہنچے تو انہوں نے آپ کا نام علی رکھا۔

ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ والدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا تھا جو آپ نے جنگ خیبر میں رجز پڑھتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ بہرحال تینوں میں سے جو نام بھی لیا جائے گا، ہر ایک ذہن میں فرزند ابو طالب ہی آئیں گے۔

حضرت علیؓ کی پیدائش قبل از نبوت یعنی ہجرت سے 23 سال قبل اور عام الفیل کے 30 سال بعد 13 رجب المرجب بروز جمعہ خانہ کعبہ میں ہوئی۔

آپؓ کا شجرہ نسب یوں ہے: علی بن ابو طالب بن عبدالملطب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہد۔ اس طرح 31 ویں پشت پر آپؓ کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیمؑ سے جاملتا ہے۔ عبدالمطلب کے بیٹوں عبداﷲ اور حضرت ابو طالب نے تاریخ اور مذہب کے حوالے سے کافی شہرت پائی۔ حضرت عبداﷲ کے گھر میں نبی محمد ﷺ کا ظہور ہوا اور ابوطالب کے گھر حضرت علیؓ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت علیؓ حضور ﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عبداﷲ کا انتقال ہوا تو حضورﷺ کی کفالت آپؐ کے دادا عبدالمطلب نے کی اور جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپؐ کی کفالت چچا ابوطالب نے کی۔ آپؓ کی کنیت ابوالحسنین اور ابوتراب تھی۔

آپؓ کا حلیہ اس طرح لکھا ہوا ہے:''آپؓ کا رنگ گندمی تھا، بڑی بڑی آنکھوں والے تھے، لمبائی کے اعتبار سے کوتاہ قامتی کی جانب زیادہ مائل تھے۔ زیادہ بال والے اور چوڑی داڑھی والے تھے، سر کے بال وسط میں سے اترے ہوئے تھے، سر اور ڈاڑھی دونوں ہی سفید تھے ۔''

اکثر اقوال کے اعتبار سے حضرت علیؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی، بعض نے 16سال، بعض نے 10 سال اور کچھ نے 8 سال بھی بیان کی ہے۔ آپ کا عہد طفولیت حضورﷺ کی آغوش تربیت میں گزرا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب علیؓ پید ا ہوئے تو ابو طالب سخت معاشی مسائل سے دوچار تھے اس لیے آنحضور ﷺ ان کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے انہیں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ یہ ان کی خوش بختی کا حسن آغاز اور تربیت صالح کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے لڑکپن میں بھی کسی بت کے آگے اپنا سر نہ جھکایا اور نہ کبھی شرک اور رسم بد میں مبتلا ہوئے۔ آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ اس طرح ہے۔ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ آپﷺ کو اور حضرت بی بی خدیجہؓ کو گھر میں نماز پڑھتے دیکھا تو حیرت سے پوچھا، آپ ﷺکیا کر رہے ہیں؟ حضور ﷺ نے اپنے منصب یعنی نبوت کی خبر دیتے ہوئے کفر و شرک کی مذمت فرمائی اور توحید کا پیغام سنایا جسے سنتے ہی کم عمر علیؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر آپؓ بھی حضورﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے۔

ایک دن ابوطالب نے آپؓ کو نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا، یہ کیا کر رہے ہو؟ جواب پر منع نہ کیا بلکہ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ اچھی ہی بات کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے یہ عمل جاری رکھو۔

آپؓ کے قبول اسلام کا ایک واقعہ یہ بھی ہے۔ آنحضور ﷺ کو حکم ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دو۔ ارشاد ہوا:
''اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈرا اور جھکائو اپنے بازو ان کے لیے جو آپﷺ کی پیروی کریں، ایمان داروں میں سے۔'' (سورۃ الشعرا آیت 11)

چنانچہ حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ دعوت کا سامان کرو۔ یہ تبلیغ کا پہلا موقع تھا۔ تمام خاندان عبدالمطلب کو مدعو کیا گیا۔ آنحضرتﷺ نے کھانے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا:

''میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین و دنیا دونوں کی کفیل ہے، اس بار گراں کو اٹھانے میں کون میرا ساتھ دے گا؟''

تمام مجلس میں سناٹا تھا، حضرت علی نے اٹھ کر کہا:''میں سب سے نوعمر ہوں تاہم میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔''

ایک اور جگہ لکھا ہے کہ 40 افراد کے مجمع میں سے علیؓ کے سوا کسی نے رسول کریم ﷺ کی حمایت نہ کی ۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ کی رفاقت میں آزمائش اور ابتلا کے 13 کٹھن سال گزارے۔ اس دوران شعب ابو طالب میں محصوری کے تین سال بڑے صبر آزما تھے، مگر حضرت علیؓ ان کٹھن گھڑیوں میں حضورﷺ کے ساتھ ہی رہے۔ آپ سابقون الاولون میں سے تھے، اب آنحضورﷺ کو ہجرت کا حکم آچکا تھا۔ آپؐ کے پاس مشرکین مکہ کی امانتیں تھیں۔ جب رسول کریمؐ ہجرت کرکے مدینہ جانے لگے تو امانتیں واپس کرنے کا کام علیؓ کے سپرد کیا۔ حضور جب کاشانۂ اقدس سے نکلنے لگے تو اپنے بستر مبارک پر علیؓ کو اپنی سبز حضرموتی چادر اڑھا کر لٹا دیا، اگرچہ یہ کام حضرت علیؓ کے لیے جان سے کھیلنے کے مترادف تھا، لیکن وہ کسی تامل کے بغیر نبیﷺ کے حکم پر لیٹ گئے اور حضورؐ اطمینان سے مشرکوں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔

صبح ہوئی تو کاشانہ اقدس کے گرد گھیرا ڈالنے والے کفار نے دیکھا کہ بستر سے حضورﷺ کے بجائے علیؓ اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے آپؓ کو گھیر لیا اور پوچھا، محمد کہاں ہیں؟ آپؓ نے جواب دیا، میں کیا بتا سکتا ہوں؟ تم نے انہیں نکلنے پر مجبور کیا اور وہ نکل گئے۔ روایات کے مطابق کفار نے بہت ڈرایا دھمکایا حتیٰ کہ ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کیا، مسجد الحرام میں کچھ دیر محبوس کیا لیکن جب محسوس کیا کہ ان سے معلوم کرنا ممکن نہیں تو چھوڑ دیا۔ حضورﷺ نے مدینہ پہنچ کر جو کام سب سے پہلے انجام دیا، وہ مسجد کی تعمیر تھی۔ تعمیر مسجد کے وقت علیؓ گارا اور اینٹیں ڈھوڈھو کر لارہے تھے۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد حضورﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات (بھائی چارہ) قائم کرایا اور علی سے فرمایا:''دنیا اور آخرت دونوں میں تم میرے بھائی ہو۔'' اور پھر جب غزوات کا وقت آیا تو آپؓ تمام غزوات میں علاوہ تبوک کے حضورﷺ کے ہمراہ رہے اور بہادری کے بے مثال جوہر دکھا کر اسلام کو تقویت پہنچائی۔

02ہجری میں سرور دو عالم ﷺ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کا نکاح، حضرت علیؓ سے کردیا اور دونوں میاں بیوی کے حق میں دعائے خیر و برکت فرمائی۔ چند ماہ بعد حضرت فاطمہؓ رخصت ہوکر حضرت علی ؓ کے گھر جانے لگیں تو رسول کریم ﷺ نے بیٹی سے فرمایا:''جان پدر! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سب سے بہتر شخص سے کی ہے۔''
06ہجری میں آپؓ بیعت رضوان میں شامل تھے اور اصحاب الشجرہ میں سے کہلائے جنہیں اﷲ نے کھلے لفظوں میں اپنی خوش نودی اور
جنت کی بشارت دی ہے۔ اس موقع پر صلح نامہ حدیبیہ ہوا جس کی کتابت حضرت علیؓ نے کی تھی۔

آپؓ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ جب ابوبکرؓ امیر حج بنا کر بھیجے گئے تو اسی اثنا میں سورۂ برأت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے علیؓ کو یہ ذمے داری دی کہ لوگوں کے اجتماع میں جا کر یہ سورت سنائیں۔ حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ قبل حضور ﷺ نے آپ کو یمن میں داعی اسلام بنا کر بھیجا، آپؓ کی دعوت پر لوگ بلا تامل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپؓ کو یمن میں قاضی بناکر بھیجا گیا تھا۔ 10 ہجری میں یمن سے آکر حجۃ الوداع میں شریک ہوئے۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ انتیس برس تک زندہ رہے۔

شہادت عثمانؓ کی وجہ سے ملت اسلامیہ بحران کا شکار تھی، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ انصار کی جماعت لے کر حضرت علیؓ کے پاس بیعت کے لیے گئے، پہلے تو آپؓ نے یہ بار اٹھانے سے گریز کیا، مگر سب کے اصرار پر مسجد میں تشریف لائے، سب سے پہلے طلحہؓ اور زبیرؓ نے آپؓ سے بیعت کرکے خلافت کا بار آپؓ کے کاندھوں پر ڈال دیا، پھر آپؓ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے 35 ہجری سے 40 ہجری تک خلافت کی۔ اس پانچ سالہ دور میں ایک دن بھی باغیوں اور خارجیوں نے آپؓ کو چین سے نہیں رہنے دیا اور کسی نہ کسی فتنے اور جنگ میں الجھائے رکھا۔

آپؓ کی ذات اخلاق نبوی ﷺ کا عکس اور اسلامی تعلیمات کی زندہ تصویر تھی، آپؓ کی ذات کا پہلو سادگی اور خلوص تھا، بنی ہاشم میں آپؓ سے بڑھ کر کوئی عابد و زاہد نہ تھا اسی لیے آپؓ کی ذات کو اسلامی تصوف کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ آپؓ فطرتاًسپاہی تھے اور یہ فطرت ہر غزوہ میں نمایاں نظر آئی۔ علم و ادب سے گہرا لگائو تھا اسی بنا پر حضورﷺ نے انہیں ''علم کا دروازہ'' کہا تھا۔ صحابہ کبار میں آپؓ واحد ہستی ہیں جن کی ایک مکمل تصنیف نہج البلاغہ دست یاب ہے جس میں آپؓ نے آیات قرآنی، ان کی تراکیب اور جملے بخوبی استعمال کیے ہیں، آپؓ حافظ قرآن تھے اور قرآنی آیات کے معانی اور شان نزول سے واقف تھے۔ مفسر قرآن تھے۔ احادیث نبویﷺ کے بھی عالم تھے۔

17 رمضان المبارک 40 ہجری ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے عین اس وقت امیر المومنین پر زہر آلود تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جب وہ نماز پڑھا رہے تھے، قاتل گرفتار ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ 20رمضان المبارک جمعہ کی شب اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اس وقت عمر مبارک 63 برس تھی، کچھ کتابوں میں 65 برس بھی لکھی ہے۔ آپؓ کے دونوں صاحب زادوں حسنؓ، حسینؓ اور عبداﷲ بن جعفر نے غسل دیا، حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور صبح کے وقت دفن کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں