سلام کی اہمیت و افادیت
سلام کرنا سنت کفایہ ہے۔ اگر جماعت میں سے کسی ایک نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ''اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو۔ بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔'' (النساء،86)
اس آیت کریمہ میں سلام کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جواب اسی لفظ میں دے دیا جائے یا اس سے بہتر الفاظ استعمال کیے جائیں۔ مثال کے طور پر کوئی کہے ''السلام علیکم'' تو آپ اسے جواب میں ''وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ'' کہیں لیکن اگر کوئی ''السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکۃ'' کہے تو آپ جواب میں وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکۃ کہیں۔ سلام کرنا سنت ہے مگر اس کا جواب دینا فرض ہے۔ سلام کے جواب میں بہتر جواب دینا مستحب ہے اور برابر کا جواب دینا واجب ہے۔ (تفسیر جلالین)
اسلامی سلام
دنیا کے ہر مذہب و ملت میں ہر قوم نے بوقت ملاقات کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کر لیے ہیں چناں چہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب آپس میں ملتے تھے تو ''حیاک اللہ'' یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے کے الفاظ ایک دوسرے کو کہتے تھے۔ ہندو آپس میں ملاقات کے وقت ''نمستے'' کہتے ہیں۔ عیسائی یا انگریزوں کے ہاں وقت کے حساب سے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ مثلًا صبح میں گڈ مارننگ، شام میں گڈایوننگ اور رات میں گڈ نائٹ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سکھ لوگ ''جے گرو'' کے الفاظ بولتے ہیں۔
مجوسی مذہب کے پیروکار ملاقات کے وقت صرف منہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں، پارسی مذہب والے شہادت کی انگلی اٹھا دیتے ہیں مگر ان سب طریقوں میں سے بہترین طریقہ اسلام کا ہے یعنی ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا کرنا۔ ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا کرنا زندگی کی دعا کرنے سے بہت زیادہ موزوں اور بامعنی ہے کیوںکہ ''حیاک اللہ'' میں صرف زندگی کی دعا ہے مگر السلام علیکم میں دین و دنیا کی سلامتی کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا زندگی کی دعا سے زیادہ جامع ہے یعنی دنیا میں یا مرتے وقت، قبر میں یا حشر میں ہر جگہ ہر آفت سے بچے رہو، سلامت رہو، نیز بغیر سلامتی کے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اسی لیے بہت سارے لوگ مصیبت بھری زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں، کچھ لوگ خودکشی کا ارتکاب بھی کر لیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بارہ مواقع پر مومنوں کے لیے سلام آنے کا ذکر فرمایا ہے۔
سلام کا طریقہ
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سلام اگرچہ ایک ہی آدمی کو کرے مگر ''علیکم'' جمع کی ضمیر استعمال کرے کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جیسے کراماً کاتبین اور محافظ فرشتے۔ جمع کا صیغہ استعمال کرنے سے ان فرشتوں کو بھی سلام ہو جاتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر اس طرح سلام کیا۔ السلام علیکم، حضور نبی اکرمؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 10 نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ''السلام علیکم و رحمۃاللہ'' آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 20 نیکیاں ہیں۔ پھر تیسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ''السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکۃ'' حضور نبی اکرمؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 30 نیکیاں ہیں۔ (ترمذی و ابو داؤد)
سلام کرنے والے کو چاہیے کہ بلند آواز میں سلام کرے تاکہ سامنے والا سن لے، جواب دینے والے کو بھی چاہیے کہ باآواز بلند جواب دے تاکہ سلام کرنے والا سُن لے اور سلام سن کر اس کا فوراً جواب دے۔ بغیر شرعی عذر کے دیر سے سلام کا جواب دینے سے جواب نہ ہوگا اور گناہ گار بھی ہوگا۔ (تفسیر خازن)
سلام کا حکم
سلام کرنا سنت کفایہ ہے۔ اگر جماعت میں سے کسی ایک نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔ اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی نہ کیا تو سب سنت کے تارک ہوں گے۔ اسی طرح کسی نے اگر سلام کیا پوری جماعت میں سے کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا لیکن اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔ خیال رہے کہ زیادہ ثواب سلام کرنے کا ہے۔ سلام کرنے والے کو 90 نیکیاں اور جواب دینے والے کو 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ (تفسیر خازن و صاوی)
سلام کرنے کے آداب
سنت یہ ہے کہ سواری والا پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔ کھڑا اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑی جماعت والے زیادہ جماعت والوں کو، چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو سلام کرے۔ جب کہیں سے دو آدمی گزر رہے ہوں یا دو ملاقات کرنے والے ہوں تو ان میں جو بھی سلام میں پہل کرے گا وہ زیادہ ثواب پائے گا۔ جب بچوں کی جماعت کے پاس سے گزریں تو انہیں سلام کریں کہ حضور نبی اکرمؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر عورتوں کی جماعت پر گزر ہو تو انہیں سلام کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ فتنے کا خوف نہ ہو تو۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ ہماری عورتوں کی جماعت پر گزرے تو آپؐ نے سلام کیا۔ (ابوداؤد)
اکیلی بوڑھی عورت کو سلام کرنا سنت ہے۔ اجنبی جوان عورت کو سلام کرنا منع ہے، اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ عورتیں آپس میں جب ملیں تو ان کے درمیان سلام کے وہی احکام ہیں جوکہ مردوں کے آپس میں ملنے کے ہیں۔ (تفسیر خازن)
جب اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں بیوی، بچوں کو سلام کریں، اس سے اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا اور رزق میں خیر و برکت ہوگی۔ جب خالی گھر جائیں تو السلام علیک ایھا النبی کہیں، جب قبرستان جائیں تو ''السلام علیکم یا اہل القبور کہیں۔ جب دو مومن آپس میں ملاقات کریں تو سلام کرنے کے بعد ہاتھ ملانا بھی سنت ہے، مگر مرد مرد سے ملائے اور عورت عورت سے ملائے۔ مرد و عورت کا ہاتھ ملانا یا مصافحہ کرنا گناہ ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا ''میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔''
سلام کرنا کب منع ہے؟
جو بھی شخص رفع حاجت کر رہا ہو، اسے سلام کرنا منع ہے۔ ایسے ہی جو شخص نماز پڑھ رہا ہو یا غسل کررہا ہو، برہنہ ہو اس کو سلام کرنا منع ہے۔ اسی طرح کوئی کھانا کھا رہا ہو، دینی سبق پڑھ رہا ہو یا سو رہا ہو ان سب حالتوں میں سلام کرنا ممنوع ہے۔ یوں ہی خطبے کے وقت، اذان یا تکبیر کے وقت سلام کرنا منع ہے۔ سلام اسے کیا جائے جو جواب دیتا بھی ہو اور سلام سنتا بھی ہو، جیسے سوتے ہوئے، غائب یا بہرا ہو اسے سلام کرنا منع ہے اور جو سلام تو سنتا ہو مگر جواب نہ دے سکتا ہو، جیسے نماز یا استنجے میں مصروف شخص اس کو بھی سلام کرنا منع ہے۔ یوں ہی جو سلام سنتا بھی ہے جواب بھی دے سکتا ہے مگر پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتا اسے بھی سلام کرنا منع ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری)
سلام کے احکام و فضائل پڑھنے کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے روزوشب میں سلام کو زیادہ سے زیادہ عام کرے اور بے شمار دینی و دنیاوی برکتیں حاصل کرے۔ سلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں جو ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو بوقت ملاقات بطور دعا عنایت کرتا ہے۔ عملی زندگی میں بھی ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو امن و سلامتی عطا کریں اور اپنے بھائی کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔
حدیث شریف میں ہے کہ ''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔'' تو سچا مومن بننے کے لیے اپنے مسلمان بھائی کو زبانی سلامتی کی دعا دینے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی اپنے مسلمان بھائی کے لیے امن و سلامتی کے ضامن بن جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر مومن مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائی کی عزت وناموس کا محافظ بن جائے تو جیتے جی یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔
اس آیت کریمہ میں سلام کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جواب اسی لفظ میں دے دیا جائے یا اس سے بہتر الفاظ استعمال کیے جائیں۔ مثال کے طور پر کوئی کہے ''السلام علیکم'' تو آپ اسے جواب میں ''وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ'' کہیں لیکن اگر کوئی ''السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکۃ'' کہے تو آپ جواب میں وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکۃ کہیں۔ سلام کرنا سنت ہے مگر اس کا جواب دینا فرض ہے۔ سلام کے جواب میں بہتر جواب دینا مستحب ہے اور برابر کا جواب دینا واجب ہے۔ (تفسیر جلالین)
اسلامی سلام
دنیا کے ہر مذہب و ملت میں ہر قوم نے بوقت ملاقات کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کر لیے ہیں چناں چہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب آپس میں ملتے تھے تو ''حیاک اللہ'' یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے کے الفاظ ایک دوسرے کو کہتے تھے۔ ہندو آپس میں ملاقات کے وقت ''نمستے'' کہتے ہیں۔ عیسائی یا انگریزوں کے ہاں وقت کے حساب سے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ مثلًا صبح میں گڈ مارننگ، شام میں گڈایوننگ اور رات میں گڈ نائٹ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سکھ لوگ ''جے گرو'' کے الفاظ بولتے ہیں۔
مجوسی مذہب کے پیروکار ملاقات کے وقت صرف منہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں، پارسی مذہب والے شہادت کی انگلی اٹھا دیتے ہیں مگر ان سب طریقوں میں سے بہترین طریقہ اسلام کا ہے یعنی ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا کرنا۔ ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا کرنا زندگی کی دعا کرنے سے بہت زیادہ موزوں اور بامعنی ہے کیوںکہ ''حیاک اللہ'' میں صرف زندگی کی دعا ہے مگر السلام علیکم میں دین و دنیا کی سلامتی کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ سلامتی کی دعا زندگی کی دعا سے زیادہ جامع ہے یعنی دنیا میں یا مرتے وقت، قبر میں یا حشر میں ہر جگہ ہر آفت سے بچے رہو، سلامت رہو، نیز بغیر سلامتی کے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اسی لیے بہت سارے لوگ مصیبت بھری زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں، کچھ لوگ خودکشی کا ارتکاب بھی کر لیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بارہ مواقع پر مومنوں کے لیے سلام آنے کا ذکر فرمایا ہے۔
سلام کا طریقہ
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ سلام اگرچہ ایک ہی آدمی کو کرے مگر ''علیکم'' جمع کی ضمیر استعمال کرے کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جیسے کراماً کاتبین اور محافظ فرشتے۔ جمع کا صیغہ استعمال کرنے سے ان فرشتوں کو بھی سلام ہو جاتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر اس طرح سلام کیا۔ السلام علیکم، حضور نبی اکرمؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 10 نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ''السلام علیکم و رحمۃاللہ'' آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 20 نیکیاں ہیں۔ پھر تیسرا شخص حاضر ہوا اور اس طرح سلام کیا ''السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکۃ'' حضور نبی اکرمؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا اس کے لیے 30 نیکیاں ہیں۔ (ترمذی و ابو داؤد)
سلام کرنے والے کو چاہیے کہ بلند آواز میں سلام کرے تاکہ سامنے والا سن لے، جواب دینے والے کو بھی چاہیے کہ باآواز بلند جواب دے تاکہ سلام کرنے والا سُن لے اور سلام سن کر اس کا فوراً جواب دے۔ بغیر شرعی عذر کے دیر سے سلام کا جواب دینے سے جواب نہ ہوگا اور گناہ گار بھی ہوگا۔ (تفسیر خازن)
سلام کا حکم
سلام کرنا سنت کفایہ ہے۔ اگر جماعت میں سے کسی ایک نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔ اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی نہ کیا تو سب سنت کے تارک ہوں گے۔ اسی طرح کسی نے اگر سلام کیا پوری جماعت میں سے کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا لیکن اگر پوری جماعت میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔ خیال رہے کہ زیادہ ثواب سلام کرنے کا ہے۔ سلام کرنے والے کو 90 نیکیاں اور جواب دینے والے کو 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ (تفسیر خازن و صاوی)
سلام کرنے کے آداب
سنت یہ ہے کہ سواری والا پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔ کھڑا اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑی جماعت والے زیادہ جماعت والوں کو، چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو سلام کرے۔ جب کہیں سے دو آدمی گزر رہے ہوں یا دو ملاقات کرنے والے ہوں تو ان میں جو بھی سلام میں پہل کرے گا وہ زیادہ ثواب پائے گا۔ جب بچوں کی جماعت کے پاس سے گزریں تو انہیں سلام کریں کہ حضور نبی اکرمؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر عورتوں کی جماعت پر گزر ہو تو انہیں سلام کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ فتنے کا خوف نہ ہو تو۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرمؐ ہماری عورتوں کی جماعت پر گزرے تو آپؐ نے سلام کیا۔ (ابوداؤد)
اکیلی بوڑھی عورت کو سلام کرنا سنت ہے۔ اجنبی جوان عورت کو سلام کرنا منع ہے، اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ عورتیں آپس میں جب ملیں تو ان کے درمیان سلام کے وہی احکام ہیں جوکہ مردوں کے آپس میں ملنے کے ہیں۔ (تفسیر خازن)
جب اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں بیوی، بچوں کو سلام کریں، اس سے اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا اور رزق میں خیر و برکت ہوگی۔ جب خالی گھر جائیں تو السلام علیک ایھا النبی کہیں، جب قبرستان جائیں تو ''السلام علیکم یا اہل القبور کہیں۔ جب دو مومن آپس میں ملاقات کریں تو سلام کرنے کے بعد ہاتھ ملانا بھی سنت ہے، مگر مرد مرد سے ملائے اور عورت عورت سے ملائے۔ مرد و عورت کا ہاتھ ملانا یا مصافحہ کرنا گناہ ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا ''میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔''
سلام کرنا کب منع ہے؟
جو بھی شخص رفع حاجت کر رہا ہو، اسے سلام کرنا منع ہے۔ ایسے ہی جو شخص نماز پڑھ رہا ہو یا غسل کررہا ہو، برہنہ ہو اس کو سلام کرنا منع ہے۔ اسی طرح کوئی کھانا کھا رہا ہو، دینی سبق پڑھ رہا ہو یا سو رہا ہو ان سب حالتوں میں سلام کرنا ممنوع ہے۔ یوں ہی خطبے کے وقت، اذان یا تکبیر کے وقت سلام کرنا منع ہے۔ سلام اسے کیا جائے جو جواب دیتا بھی ہو اور سلام سنتا بھی ہو، جیسے سوتے ہوئے، غائب یا بہرا ہو اسے سلام کرنا منع ہے اور جو سلام تو سنتا ہو مگر جواب نہ دے سکتا ہو، جیسے نماز یا استنجے میں مصروف شخص اس کو بھی سلام کرنا منع ہے۔ یوں ہی جو سلام سنتا بھی ہے جواب بھی دے سکتا ہے مگر پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتا اسے بھی سلام کرنا منع ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری)
سلام کے احکام و فضائل پڑھنے کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے روزوشب میں سلام کو زیادہ سے زیادہ عام کرے اور بے شمار دینی و دنیاوی برکتیں حاصل کرے۔ سلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں جو ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو بوقت ملاقات بطور دعا عنایت کرتا ہے۔ عملی زندگی میں بھی ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو امن و سلامتی عطا کریں اور اپنے بھائی کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔
حدیث شریف میں ہے کہ ''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔'' تو سچا مومن بننے کے لیے اپنے مسلمان بھائی کو زبانی سلامتی کی دعا دینے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی اپنے مسلمان بھائی کے لیے امن و سلامتی کے ضامن بن جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر مومن مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائی کی عزت وناموس کا محافظ بن جائے تو جیتے جی یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔