چارسدہ NA7 باچا خان خاندان کا آبائی حلقہ

بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار این اے 7 میں میدان میں اتر آئے ہیں تاہم اس وقت تک کی جو صورتحال ہے اس میں کسی ایک۔۔۔

بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار این اے 7 میں میدان میں اتر آئے ہیں تاہم اس وقت تک کی جو صورتحال ہے اس میں کسی ایک امیدوار کو بھی اس دوڑ میں آگے قرارنہیں دیا جاسکتا۔ فوٹو : فائل

خیبرپختونخوا کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 7 باچاخان فیملی کا آبائی حلقہ ہے جہاں سے ہر الیکشن میں اس خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد میدان میں اترتا رہا ہے۔

1977 ء کے انتخابات میں جبکہ اے این پی کے رہبر تحریک خان عبدالولی خان حیدرآباد کیس میں جیل کاٹ رہے تھے، ان کی اہلیہ اور پاکستان قومی اتحاد کی سرگرم رہنما بیگم نسیم ولی خان نے اس نشست پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 1988ء کے انتخابات میں خان عبدالولی خان نے اس نشست پر خود کامیابی حاصل کی۔ این اے 7 جو 2002ء میں نئی حلقہ بندیاں ہونے سے قبل این اے 5 تھا، پر اے این پی کا ٹاکرا مذہبی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے اور اسی ٹاکرے کے نتیجہ میں خان عبدالولی خان اس حلقہ سے الیکشن ہار کر سیاست سے کنارہ کش ہوئے۔

تاہم ان کے صاحبزادے اور اے این پی کے موجودہ مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے اس نشست پر کئی مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ تاہم 2002ء کے انتخابات میں اس نشست پر ایم ایم اے کے امیدوار سے شکست کھانی پڑی، اب جبکہ 2013ء کے انتخابات قریب ہیں تو این اے 7 پر پھر قوم پرست اور مذہبی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں تاہم قومی وطن پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سمیت دیگر پارٹیوں کے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 7 چارسدہ ون صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پی کے 17،18 اور 19 پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ میں ضلع چارسدہ کی 49 میں سے 25 یونین کونسلیں اور چارسدہ کے شہری علاقے نستہ، پڑانگ، رجڑ، اتمانزئی، ترنگزئی اور آس پاس کے علاقے شامل ہیں۔ این اے 7 جب نئی حلقہ بندیوں سے قبل این اے 5 تھا اس وقت 1988 ء کے انتخابات میں اس نشست پر خان عبدالولی خان 63195 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے، ان کے قریب ترین حریف آئی جے آئی کے احسان اللہ خان نے 34431 ووٹ حاصل کیے تھے۔

1990ء کے انتخابات جس میں اے این پی اور مسلم لیگ (ن) نے کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی وہیں حیران کن طور پر چارسدہ کی این اے 5 پر اے این پی کے مرکزی صدر خان عبدالولی خان کو مولانا حسن جان سے شکست ہوگئی۔ مولانا حسن جان نے 66452 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مقابلے میں اے این پی کے خان عبدالولی خان کو 52929 ووٹ ملے، اس کے بعد خان عبدالولی خان کو سرگرم سیاست کو ہی خیرباد کہنا پڑا اور انہوں نے نہ صرف اے این پی کی مرکزی صدارت چھوڑ دی بلکہ اس کے بعد انہوں نے عام انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیا۔

1993ء کے انتخابات میں اے این پی نے حلقہ این اے 5 پر اے این پی کے موجودہ صدر اسفندیار ولی خان کو ٹکٹ دیا جن کا مقابلہ احسان اللہ خان کے علاوہ پیپلزپارٹی کے میجر(ر) مختار احمد خان سے تھا جو ان کے لیے انتہائی سخت حریف ثابت ہوئے تاہم اسفندیارولی خان 56164 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ٹھہرے جبکہ میجر(ر)مختار احمد خان کو 55055 ووٹ ملے۔ احسان اللہ خان 10136 ووٹ لے پائے۔

1997ء کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر اے این پی نے این اے 5 سے اسفندیارولی خان ہی کو ٹکٹ جاری کیا اور اس مرتبہ ان کا اصل مقابلہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا گوہرشاہ سے ہوا تاہم کامیابی اسفندیارولی خان کے حصہ میں آئی جنھیں 53059 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں مولانا گوہرشاہ نے 34733 ووٹ لیے جبکہ دیگر امیدواروں میں سے صرف پیپلزپارٹی شہید بھٹو کے اعجاز خسروخان ہی پانچ ہزار کا ہندسہ عبور کرسکے ۔

2002ء کے انتخابات میں نہ صرف حلقہ بندیوں میں ردوبدل کے ذریعے این اے 5، این اے 7 ہوگیا بلکہ اے این پی کے لیے صورتحال الٹ ہوگئی اور اے این پی ان انتخابات میں اپنی پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کی نشست سمیت قومی اسمبلی کی تمام نشستیں ہار گئی اور پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں اے این پی بطور پارلیمانی پارٹی موجود نہیں تھی،2002ء کے انتخابات میں این اے 7 چارسدہ کی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے مولانا گوہر شاہ نے 55917 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، ان کے مقابلے میں اے این پی کے اسفندیارولی خان کو 31364 ووٹ ملے۔

2008ء کے عام انتخابات میں اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان ایک مرتبہ پھر مقابلے کے لیے میدان میں اترے تاہم ان کے مقابلے میں جے یو آئی کی جانب سے مولانا گوہر شاہ میدان میں نہیں تھے بلکہ ان کا مقابلہ قومی وطن پارٹی کے عالم زیب عمرزئی اورپیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے نصیر محمد خان سے ہوا۔ اس نشست پر کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 273747 تھی جن میں سے 88491 ووٹروں نے اپنا حق رائے دیہی استعمال کیا جن میں سے 2212 ووٹ مسترد کیے گئے اور 87587 ووٹوں کو درست قرار دیا گیا۔

ان انتخابات میں اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کو 57234 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے نصیر محمد خان کو 17883 ووٹ ملے، قومی وطن پارٹی کے عالم زیب عمرزئی نے 8882 جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کلیم اکبر نے 3588 ووٹ حاصل کیے اور یوں اس معرکہ کے فاتح اسفندیارولی خان رہے جنہوں نے قومی اسمبلی میں پانچ سال بطور پارلیمانی لیڈر اپنی پارٹی کو خود لیڈ کیا۔

2013ء کے انتخابات کے لیے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے،گو کہ امن وامان کی صورتحال اور بعض سیاسی پارٹیوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کی وجہ سے انتخابی مہم میں جوش و خروش بتدریج ہی بڑھے گا تاہم عوام کے ساتھ امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے رابطے استوار ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اس سلسلے میں سیاسی پارٹیوں کے ورکر پوری طرح متحرک ہوچکے ہیں۔

اس سلسلے میں یقینی طور پر اے این پی کے لیے زیادہ مشکلات ہوں گی کیونکہ اے این پی پانچ سال اقتدار میں رہی ہے اور برسراقتدار پارٹی کے ساتھ ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ بہت سے لوگوں کی امیدیں اور توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں انتخابی مہم کے سلسلے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اس لیے یقینی طور پر اے این پی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو دیگر امیدواروں کی نسبت زیادہ دوڑ لگانی پڑے گی۔ 2013ء کے انتخابات میں اسفندیارولی کے مقابلے میں جے یوآئی نے مفتی عبداللہ شاہ، پیپلزپارٹی نے خانم اللہ اورن لیگ نے کلیم اکبردرانی، جماعت اسلامی نے محمدارشدخان قومی وطن پارٹی نے سکندر شیرپاؤ کواتارا ہے۔

انتخابات برائے 2013ء کے حوالے سے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان خود میدان میں ہیں، جمعیت علماء اسلام(ف)نے اگرچہ مفتی عبداللہ شاہ کو میدان میں اتارا ہے تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مفتی عبداللہ شاہ ممکنہ طور پر میدان سے باہر ہو جائیں اور ان کی جگہ مولانا گوہرشاہ ہی میدان میں آکر مقابلہ کریں، پیپلزپارٹی نے خانم اللہ کو میدان میں اتارا ہے، مسلم لیگ(ن)کی جانب سے کلیم اکبر درانی امیدوار ہیں جبکہ جماعت اسلامی نے محمد ارشد خان کو میدان میں اتارا ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کی جانب سے عالم زیب عمرزئی کی بیوہ نجمہ زیب کو میدان میں اتارنے کا امکان ہے ۔

بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار این اے 7 میں میدان میں اتر آئے ہیں تاہم اس وقت تک کی جو صورتحال ہے اس میں کسی ایک امیدوار کو بھی اس دوڑ میں آگے قرارنہیں دیا جاسکتا، صورتحال تب واضح ہوگی جب مقامی سطح پر مختلف پارٹیاں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔ تاہم گزشتہ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ مزید واضح ہو جاتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور قومی وطن پارٹی ایک دوسرے کے قریب ترین حریف ثابت ہوں گی۔


2008ء کے عام انتخابات کے اے این پی کی جانب سے صوبہ میں اپنی حکومت بنانے اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی اتحادی ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کا حصہ بننے کی وجہ سے عام خیال یہی تھا کہ خیبرپختونخوا میں ترقی کے تمام راستے چارسدہ ہی سے ہوکر گزریں گے لیکن یہ تاریخی شہر آج بھی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے ،کہیں نکاسی آب کا مسئلہ ہے تو کہیں سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اگر سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کمی ہے تو معیاری تعلیمی اداروں کا بھی فقدان ہے اس لیے جو بھی امیدوار اس حلقہ سے جیت کر قومی اسمبلی پہنچے گا اس کے لیے یہ امتحان ہوگا کہ وہ چارسدہ کے مسائل کو حل کرانے میں کس حدتک کوششیں کرتا ہے اور وہ ان کوششوں میں کس حد تک کامیاب رہتا ہے ۔

چارسدہ1،PK-17:

چارسدہ کا یہ حلقہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے کیونکہ اس حلقہ سے 1988 ء میں خان عبدالولی خان نے خسرو خان سے اگر شکست کھائی تھی تو ان کی اہلیہ اور پارٹی کی صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان نے 1988 ء اور 1990 ء کے عام انتخابات میں اسی حلقہ سے کامیابی بھی حاصل کی جن کے قریب ترین حریف جے یو آئی کے مولانا گوہر شاہ ثابت ہوئے ۔

2002 ء کے عام انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلزپارٹی شیر پاؤ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان ہوا جس میں پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے محمد ارشد خان کامیاب ٹھہرے جنہوں نے 15648 ووٹ حاصل کیے جبکہ اے این پی کے محمد ہاشم خان کو 12005 ووٹ ملے اور وہ اس مقابلے میں رنر اپ ٹھہرے ۔ان انتخابات میں پی کے 17 پر رجسٹرڈ 87908 ووٹروں میں سے 29485 ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں 792 ووٹ مسترد ہوئے اور 28693 ووٹ درست قرار دیئے گئے جبکہ پولنگ کی شرح 33.54 فیصد رہی ۔

2008 ء کے انتخابات میں اس حلقہ پر صورت حال تبدیل ہوگئی ،گزشتہ الیکشن میں پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے ٹکٹ پر اس حلقہ پر کامیابی حاصل کرنے والے محمد ارشد خان اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے جے یو آئی میں شامل ہوگئے اور انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تاہم اس مرتبہ ہو کامیابی حاصل نہ کرسکے اور ان کے مقابلے میں اے این پی کے امیدوار فضل شکور خان کامیاب ٹھہرے ،2008 ء کے عام انتخابات میں پی کے 17 پر اے این پی کے کامیاب امیدوار فضل شکور خان نے 18587 ووٹ لیے جبکہ ان کے مقابلے میں ایم ایم اے کے محمد ارشد خان کو 10019 ووٹ ملے۔

جبکہ مسلم لیگ(ن) کے خانم اللہ خان کو صرف 467 ووٹ پڑے، ان انتخابات میں پی کے 17 پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 97752 تھی جن میں سے 29462 ووٹ پڑے اور ان میں سے 413 مسترد قراردیئے گئے جبکہ پولنگ کی شرح 30.13 فیصد رہی ۔اب جبکہ 2013 ء کے انتخابات کے لیے امیدوار میدان میں جارہے ہیں تو اس حلقہ پر صورتحال ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ 2008 ء کے انتخابات میں اے این پی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے فضل شکور خان اے این پی سے ناطہ توڑ کر جے یو آئی (ف)میں شامل ہوچکے ہیں جنھیں جے یو آئی نے اس حلقہ پر ٹکٹ بھی جاری کردیا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے میجر(ر)مختار احمد خان کے صاحبزادے محمد احمد خان کو ٹکٹ دیا ہے ،پیپلزپارٹی نے اس نشست پر قیصر جمال ہشتنگری ،مسلم لیگ(ن)نے میاں ہمایون شاہ اور جماعت اسلامی نے مصباح اللہ کو ٹکٹ جاری کیا ہے ۔

چارسدہ2،PK-18:

اتمانزئی اور رجڑ کے علاقوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی کا یہ حلقہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے جہاں سے 2002 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق)کے امیدوار سعید محمد خان جو نثار محمد خان لالہ کے صاحبزادے ہیں نے جمیعت علماء اسلام((ف)اور قومی وطن پارٹی کے تعاون سے کامیابی حاصل کی تھی تاہم 2008 ء میں اے این پی کے بیرسٹر ارشد عبداللہ نے اس نشست پر کامیابی حاصل کی اور اب عام انتخابات کے لیے جو میدان سج رہا ہے اس میں بھی بیرسٹر ارشد عبداللہ سمیت کئی بڑے امیدوار میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے اتررہے ہیں۔

پی کے 18 چارسدہ ٹو پر 2002 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کے سعید محمد خان نے 10931 ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی اور ان انتخابات میں انہوں نے اے این پی کے رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے صاحبزادے سنگین ولی خان مرحوم کو شکست دی تھی تاہم وہ سعید محمد خان کے مقابلے میں 8776 ووٹ حاصل کرپائے ،نیشنل الائنس کے احسان اللہ خان نے 5453 ووٹ لے پائے جبکہ بیرسٹر ارشد عبداللہ جنہوںنے 2002 ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا انھیں 3964 ووٹ ملے جبکہ تحریک انصاف کے نواب خان کو 230 اور آزاد امیدوار لال بادشاہ کے حصہ میں 155 ووٹ آئے۔

ان انتخابات میں کل رجسٹرڈ 77321 ووٹروں میں سے 30611 ووٹروں نے اپنا حق رائے دیہی استعمال کیا اور پولنگ کی شرح 39.59 فیصد رہی ۔2008 ء کے انتخابات میں اے این پی نے اس حلقہ پر ٹکٹ بیرسٹر ارشد عبداللہ کو جاری کیا جنہوں نے 12162 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے قریب ترین حریف پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے احسان اللہ خان ثابت ہوئے جن کے حصہ میں 6783 ووٹ آئے جبکہ مسلم لیگ(ق) کے فضل محمد خان کو 5034 ووٹ ملے اور مسلم لیگ(ن) کے فرمان اللہ 596 ووٹ لے پائے۔

پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے محمد جمیل خٹک کو 1923 اور آزاد امیدوار سلطان محمد خان 2891 ووٹ ملے جبکہ آزاد امیدوار لال بادشاہ مہمند کو 65 ووٹ مل سکے۔الیکشن 2013 ء کے لیے اے این پی کا ٹکٹ ایک مرتبہ پھر سابق وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ کو ملا ہے ،جمیعت علماء اسلام (ف)نے مولانا الہٰی جان ،پیپلزپارٹی نے تیمور خان ،مسلم لیگ (ن)نے احسان اللہ خان ،قومی وطن پارٹی سلطان محمد خان اورجماعت اسلامی نے میجر(ر)اکبر خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے اور انتہائی سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔

چارسدہPK-19:

چارسدہ کے اس تیسرے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پر ماضی میں کانٹے دار مقابلے ہوتے رہے ہیں اور آنے والے انتخابات میں بھی اس حلقہ پر سخت مقابلہ متوقع ہے ،2002 ء کے انتخابات میں اس حلقہ پر پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے عالمزیب عمرزئی نے 18000 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اے این پی کے شکیل بشیر عمرزئی کے حصہ میں 11431 ووٹ آئے تھے ،پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے ڈاکٹر نجیب اللہ کو 131 اور قومی قیادت پارٹی کے مسعود الرحمٰن کو 48 ووٹ ملے تھے۔

2008 ء کے عا م انتخابات میں حلقہ پی کے 19 چارسدہ تین پر اے این پی کے شکیل بشیر عمرزئی نے انتہائی کانٹے دار مقابلے کے بعد پانچ سو سے بھی کم ووٹوں کے فرق سے اس نشست پر کامیابی حاصل کی ،شکیل بشیر عمرزئی کو 12874 جبکہ ان کے قریب ترین حریف پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے عالمزیب عمرزئی کو 12378 ووٹ ملے ،دیگر امیدواروں میں متحدہ مجلس عمل کے محمد سجاد خان کو 1050، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے محمد نعیم خان کو 2252 اورمسلم لیگ(ن)کے اورنگزیب خان کو 1097 ووٹ ملے تھے ۔2013 ء کے عام انتخابات کے حوالے سے اب جوصورت حال بننے جارہی ہے۔

وہ یہ کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک مرتبہ پھر شکیل بشیر عمرزئی کو ٹکٹ دیا ہے، جمعیت علماء اسلام(ف)نے مولانا محمد ادریس ،پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز نے نعیم خان عمرزئی ،قومی وطن پارٹی نے عالم زیب عمرزئی کے بھائی ارشد علی عمرزئی ،مسلم لیگ(ن)نے اورنگزیب خان اورجماعت اسلامی نے پیر مسعود جان کو ٹکٹ جاری کیا ہے ۔گوکہ اس حلقہ پر اب عالم زیب عمرزئی انتقال کرجانے کی وجہ سے موجود نہیں ہیں تاہم اس مرتبہ ان کے بھائی ارشد علی عمرزئی کا ٹاکرا اے این پی کے بشیر عمرزئی کے ساتھ ہوگا جن کے والد بشیر عمرزئی کئی مرتبہ چارسدہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے آئے ہیں،دونوں میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا
Load Next Story