جنرل باجوہ ڈاکٹرائن اور پیغامِ پاکستان
باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی صرف افواجِ پاکستان کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی کامیابی ہے۔
لاہور:
دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے ایک طویل اور خُونریز جنگ لڑی ہے۔ ہر لحاظ اور ہر پہلو سے یہ جنگ بڑی ہی پُرآزمائش تھی۔ ہمارے دشمن تو بہت تھے(اب بھی ہیں) مگر ایسے دوست کم تھے جنہوں نے دہشت گردی کے عفریت کے کامل خاتمے میں پاکستان سے تعاون کیا۔ زیادہ تر وہ تھے جو تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسے بھی تھے جو بظاہر دہشت گردی کے خلاف تو تھے لیکن بباطن پاکستان کے خلاف کمر بستہ دہشت گردوں کو تمام مطلوبہ وسائل فراہم کررہے تھے۔
جو کل تک پاکستان کے دوست کہلاتے تھے ، وہی دل میں سیاہ کدورتیں رکھے پاکستان کے خلاف صَف آرا ہو گئے تھے۔بھارت ایسے پاکستان کے ازلی دشمن نے بھی موقع غنیمت جانتے ہُوئے پاکستان کے خلاف اپنی نئی وارداتوں کا نئے سرے سے آغاز کر دیا۔ سوویت رُوس کے لخت لخت ہونے کے بعد بھارت کا نیا دوست،امریکا، بھی اُس کے ہاتھ مضبوط کرنے لگا تھا۔ پاکستان کے خلاف دغا بازی کی یہ ایک نئی شکل تھی۔
فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں دہشت گردی کے تیندوے نے اپنی جڑیں پھیلا دی تھیں۔ سوات کے آس پاس دہشت گردی کی ایک نئی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ آج آئی ایس پی آر کے ڈی جی آصف غفور درست کہتے ہیں ،ایسے میں جنرل کیانی نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بیخ وبُن سے اُکھاڑ ڈالنے کے لیے ایک منظّم اور مربوط منصوبے کی بنیاد رکھی۔ پھر دہشت گردوں کے خلاف آرمی ایکشنوں کی دیو ہیکل مشین چل پڑی۔
وطن کے امن، تحفظ اور عظمت کے لیے پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے اپنا خون پانی کی طرح بہا دیا۔ ہماری جری افواج نے دہشت گردی کے خلاف بروئے کار آکر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ ساتھ ساتھ کئی اپنوں کے طعنے اور مہنے بھی سہے لیکن دشمنوں کے خلاف حرکت میں آئی آرمی آپریشن کی مشین رکی نہ تھمی۔ جدید ہتھیاروں سے مسلّح دشمنانِ دین و ملّت کی کمر توڑ کررکھ دی گئی۔ جو خودد کو ناقابلِ شکست خیال کیے بیٹھے تھے، اُن کے خیالوں کو باطل ثابت کر دیا گیا۔یہ معمولی کامیابی نہیں تھی۔
اطمینان کی زیادہ بات یہ تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار آنے والے اِن تمام آرمی آپریشنوں کو پوری قوم کی حمائیت اور دعائیں حاصل تھیں۔ بس چند ایک تھے، محض مُٹھی بھر، جو دشمن کے بیانئے کا گھناؤنا گیت گارہے تھے۔ یہ گیت مگر زیادہ دن گایا نہ جا سکا۔ قوم نے ان کالی بھیڑوں کا ناطقہ بھی بند کر دیا۔
خوشی اور مسرت کی خاص بات یہ رہی کہ ملک کی منتخب سیاسی حکومت نے بھی دل وجان سے دہشت گردوں کے خاتمے میں پاک فوج کا ہر گام پر ساتھ دیا۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عسکری اداروں کو جتنے بھی وسائل کی ضرورت تھی، وہ سب حکومتِ وقت نے بروقت فراہم کیے۔
جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک وقوم کے تحفظ کی شمع جنرل راحیل شریف نے سنبھالی۔ نئی ہمتوں اور جرأتوں کے ساتھ۔ وہ بچے کھچے دہشت گرد جنہوں نے شمالی وزیرستان میں دشمنانِ پاکستان کے تعاون اور مدد سے پناہ لے کر یہ سمجھ رکھا تھا کہ اب یہ خطہ اُن کی ذاتی ملکیت ہے،پوری طاقت سے جنرل راحیل نے انھیں چیلنج کیا۔
معافی مانگنے اور ہتھیار ڈالنے کے مواقع بھی فراہم کیے لیکن انکار کی صورت میں جنرل راحیل کی قیادت میں تقریباً سب دشمنوں کا صفایا کر دیا گیا۔ جو بچ گئے ، وہ دُم دبا کر رات کے اندھیروں میں سرحد پار اپنے آقاؤں اور سرپرستوں کے پاس جا چھُپے۔اِن میں سے کوئی کوئی اب بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا مرتکب ہو کر اپنے آقاؤں کی نظروں میں سُرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان کا بھی ٹیٹوا پوری طرح دبایا جا رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اب اُن کے تعاقب میں ہیں۔
یوں ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف سبھی آرمی چیفس نے ایک شاندار اور قابلِ فخر جنگ لڑی ہے ۔ یہ اِسی کامیاب جنگ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا پیارا ملک ، اسلامی جمہوریہ پاکستان، دہشت گردوں سے محفوظ اور مامون ہے۔جنہوں نے کبھی اسلام کے نام پر اسلام آباد کو للکارنا اور دہشت گردی کا ہدف بنانا اپنا معمول بنا لیا تھا، شکستِ فاش کے زخم چاٹ رہے ہیں۔
اب بچھے کھچے دہشت گردوں کو دوبارہ پاؤں نہ جمانے دینا، ان کے مالی وسائل کا مکمل خاتمہ، دشمن کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ پر گہری نظر رکھنا، اُن کی واپسی کے تمام ممکنہ راستوں کا انسداد ، پورے ملک میں قیامِ امن اور امن کے اِس دائرے کو افغانستان تک وسعت دینا جنرل قمر جاوید باجوہ کا مصمم عہد ، نیّت اور غیر متزلزل ارادہ ہے۔ وہ اِس پر عمل بھی کررہے ہیں اور اِس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف کے یہی اقدامات اب نئے معروف معنوں اور اسلوب میں ، بقول جناب آصف غفور، جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کہلاتا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن یہ بھی ہے کہ پاکستان اخلاص اور اخوت کے تمام جذبوں کے ساتھ برادر ہمسایہ افغانستان میں کامل امن کا خواہشمند ہے ۔ اس کے حصول کے لیے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے تمام تر اعانت فراہم کی جارہی ہے۔ اور امن کے اس حصول کے لیے پاک ، افغان بارڈر مینجمنٹ شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے ۔
پاکستان تو اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے لیکن شومئی قسمت سے افغانستان کے ہمارے بھائی''کسی'' کے اشارے پر سرحد کی اپنی طرف یہ فرائض نبھانے میں دانستہ پہلو تہی کررہے ہیں۔ یوں اگر افغانستان میں امن کا پھریرا لہرانے میں ناکامیاں دیکھنے میں آرہی ہیں تو اس میں قصور صرف افغانستان کا ہے۔ اگر افغان حکام نے باجوہ ڈاکٹرائن کے پس منظر میں پاکستان سے تعاون کیا ہوتا تو صدرِ افغانستان اشرف غنی بھی سُکھ میں رہتے اور افغان عوام بھی ۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن نے پاکستان کے خلاف امریکی بلیک میلنگ کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت اور امریکا نے مضبوط پاک چین روابط کی بنیادیں منہدم کرنے کے لیے جو نیا گٹھ جوڑ کیا ہے، باجوہ ڈاکٹرائن کے مُوجب اس سازش کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی صرف افواجِ پاکستان کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی کامیابی ہے۔
اِس کامیابی کو ممتاز ترین برطانوی سیکیورٹی تھنک ٹینک RUSI(رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ)نے بھی نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ افواجِ پاکستان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو سیلوٹ بھی مارا ہے۔
مذکورہ برٹش تھنک ٹینک اپنے تجزئیے میں لکھتا ہے:''باجوہ ڈاکٹرائن نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف جاری کردہ دھمکیوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔وہ دن لَد گئے جب امریکی دھمکیاں اور گھرکیاں دے کر پاکستان سے اپنے کام نکلوایا کرتے تھے ۔ پاکستان امریکا کے کہنے پر ڈُو مور نہیں کرے گا بلکہ امریکا کو ڈُو مور کرنا پڑے گا۔ یہی باجوہ ڈاکٹرائن ہے۔ پاکستان نے اس میں مطلوبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے خلاف اگر امریکی پابندیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر سرحد پار(افغانستان) سے پاکستان مخالف امریکی جارحیت ہوتی ہے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمان میں پاکستان نے مقابلے کی پوری تیاریاں کررکھی ہیں۔ ''
یہ باجوہ ڈاکٹرائن کی شاندار کامیابی ہے کہ سابق سی آئی اے اسٹیشن چیفMilt Bearden(جس نے سی آئی اے سربراہ چارلی وِلسن کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں سوویت یونین کے خلاف خفیہ جنگ لڑی) اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ افغانستان جو قدم قدم پر ناکام ہو رہا ہے، اِس میں پاکستان کا نہیں بلکہ خود افغانستان کا بنیادی قصور ہے۔
پاکستان کے سیکڑوں محترم علمائے کرام نے ابھی حال ہی میں دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ پرستی کے خلاف ''پیغامِ پاکستان'' کے عنوان سے جو متفقہ اور متحدہ فتویٰ لکھا ہے، یہ بھی دراصل باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی ہے۔ بشکلِ اندازِ دِگر۔ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے ''پیغامِ پاکستان'' پر دستخط ثبت کیے ہیں۔ یقیناً کتابی شکل میں سامنے آنے والے ''پیغامِ پاکستان'' سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی اور شدت پسندی میں مزید خاطر خواہ کمی آئے گی کہ لوگ ہمارے علمائے کرام کا کہا بخوبی مانتے اور پہچانتے ہیں۔
صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے بھی ایک شاندار تقریب میں ''پیغامِ پاکستان'' کی تحسین کی ہے۔ اِس تقریب میں وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ، راجہ ظفر الحق اور مولانا فضل الرحمن بھی شریک تھے۔ احسن اقبال کا خطاب تو بہت ہی دلکشا تھا۔ اب توانڈونیشیا کی حکومت بھی ''پیغامِ پاکستان'' کے تتبع میں ایک فتویٰ تیار کرنے کے مراحل میں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ قیامِ امن کے لیے باجوہ ڈاکٹرائن کو عالمِ اسلام میں بھی مقبولیت مل رہی ہے۔
دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے ایک طویل اور خُونریز جنگ لڑی ہے۔ ہر لحاظ اور ہر پہلو سے یہ جنگ بڑی ہی پُرآزمائش تھی۔ ہمارے دشمن تو بہت تھے(اب بھی ہیں) مگر ایسے دوست کم تھے جنہوں نے دہشت گردی کے عفریت کے کامل خاتمے میں پاکستان سے تعاون کیا۔ زیادہ تر وہ تھے جو تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسے بھی تھے جو بظاہر دہشت گردی کے خلاف تو تھے لیکن بباطن پاکستان کے خلاف کمر بستہ دہشت گردوں کو تمام مطلوبہ وسائل فراہم کررہے تھے۔
جو کل تک پاکستان کے دوست کہلاتے تھے ، وہی دل میں سیاہ کدورتیں رکھے پاکستان کے خلاف صَف آرا ہو گئے تھے۔بھارت ایسے پاکستان کے ازلی دشمن نے بھی موقع غنیمت جانتے ہُوئے پاکستان کے خلاف اپنی نئی وارداتوں کا نئے سرے سے آغاز کر دیا۔ سوویت رُوس کے لخت لخت ہونے کے بعد بھارت کا نیا دوست،امریکا، بھی اُس کے ہاتھ مضبوط کرنے لگا تھا۔ پاکستان کے خلاف دغا بازی کی یہ ایک نئی شکل تھی۔
فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں دہشت گردی کے تیندوے نے اپنی جڑیں پھیلا دی تھیں۔ سوات کے آس پاس دہشت گردی کی ایک نئی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ آج آئی ایس پی آر کے ڈی جی آصف غفور درست کہتے ہیں ،ایسے میں جنرل کیانی نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بیخ وبُن سے اُکھاڑ ڈالنے کے لیے ایک منظّم اور مربوط منصوبے کی بنیاد رکھی۔ پھر دہشت گردوں کے خلاف آرمی ایکشنوں کی دیو ہیکل مشین چل پڑی۔
وطن کے امن، تحفظ اور عظمت کے لیے پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے اپنا خون پانی کی طرح بہا دیا۔ ہماری جری افواج نے دہشت گردی کے خلاف بروئے کار آکر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ ساتھ ساتھ کئی اپنوں کے طعنے اور مہنے بھی سہے لیکن دشمنوں کے خلاف حرکت میں آئی آرمی آپریشن کی مشین رکی نہ تھمی۔ جدید ہتھیاروں سے مسلّح دشمنانِ دین و ملّت کی کمر توڑ کررکھ دی گئی۔ جو خودد کو ناقابلِ شکست خیال کیے بیٹھے تھے، اُن کے خیالوں کو باطل ثابت کر دیا گیا۔یہ معمولی کامیابی نہیں تھی۔
اطمینان کی زیادہ بات یہ تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار آنے والے اِن تمام آرمی آپریشنوں کو پوری قوم کی حمائیت اور دعائیں حاصل تھیں۔ بس چند ایک تھے، محض مُٹھی بھر، جو دشمن کے بیانئے کا گھناؤنا گیت گارہے تھے۔ یہ گیت مگر زیادہ دن گایا نہ جا سکا۔ قوم نے ان کالی بھیڑوں کا ناطقہ بھی بند کر دیا۔
خوشی اور مسرت کی خاص بات یہ رہی کہ ملک کی منتخب سیاسی حکومت نے بھی دل وجان سے دہشت گردوں کے خاتمے میں پاک فوج کا ہر گام پر ساتھ دیا۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عسکری اداروں کو جتنے بھی وسائل کی ضرورت تھی، وہ سب حکومتِ وقت نے بروقت فراہم کیے۔
جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک وقوم کے تحفظ کی شمع جنرل راحیل شریف نے سنبھالی۔ نئی ہمتوں اور جرأتوں کے ساتھ۔ وہ بچے کھچے دہشت گرد جنہوں نے شمالی وزیرستان میں دشمنانِ پاکستان کے تعاون اور مدد سے پناہ لے کر یہ سمجھ رکھا تھا کہ اب یہ خطہ اُن کی ذاتی ملکیت ہے،پوری طاقت سے جنرل راحیل نے انھیں چیلنج کیا۔
معافی مانگنے اور ہتھیار ڈالنے کے مواقع بھی فراہم کیے لیکن انکار کی صورت میں جنرل راحیل کی قیادت میں تقریباً سب دشمنوں کا صفایا کر دیا گیا۔ جو بچ گئے ، وہ دُم دبا کر رات کے اندھیروں میں سرحد پار اپنے آقاؤں اور سرپرستوں کے پاس جا چھُپے۔اِن میں سے کوئی کوئی اب بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا مرتکب ہو کر اپنے آقاؤں کی نظروں میں سُرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان کا بھی ٹیٹوا پوری طرح دبایا جا رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اب اُن کے تعاقب میں ہیں۔
یوں ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف سبھی آرمی چیفس نے ایک شاندار اور قابلِ فخر جنگ لڑی ہے ۔ یہ اِسی کامیاب جنگ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا پیارا ملک ، اسلامی جمہوریہ پاکستان، دہشت گردوں سے محفوظ اور مامون ہے۔جنہوں نے کبھی اسلام کے نام پر اسلام آباد کو للکارنا اور دہشت گردی کا ہدف بنانا اپنا معمول بنا لیا تھا، شکستِ فاش کے زخم چاٹ رہے ہیں۔
اب بچھے کھچے دہشت گردوں کو دوبارہ پاؤں نہ جمانے دینا، ان کے مالی وسائل کا مکمل خاتمہ، دشمن کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ پر گہری نظر رکھنا، اُن کی واپسی کے تمام ممکنہ راستوں کا انسداد ، پورے ملک میں قیامِ امن اور امن کے اِس دائرے کو افغانستان تک وسعت دینا جنرل قمر جاوید باجوہ کا مصمم عہد ، نیّت اور غیر متزلزل ارادہ ہے۔ وہ اِس پر عمل بھی کررہے ہیں اور اِس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف کے یہی اقدامات اب نئے معروف معنوں اور اسلوب میں ، بقول جناب آصف غفور، جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کہلاتا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن یہ بھی ہے کہ پاکستان اخلاص اور اخوت کے تمام جذبوں کے ساتھ برادر ہمسایہ افغانستان میں کامل امن کا خواہشمند ہے ۔ اس کے حصول کے لیے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے تمام تر اعانت فراہم کی جارہی ہے۔ اور امن کے اس حصول کے لیے پاک ، افغان بارڈر مینجمنٹ شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے ۔
پاکستان تو اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے لیکن شومئی قسمت سے افغانستان کے ہمارے بھائی''کسی'' کے اشارے پر سرحد کی اپنی طرف یہ فرائض نبھانے میں دانستہ پہلو تہی کررہے ہیں۔ یوں اگر افغانستان میں امن کا پھریرا لہرانے میں ناکامیاں دیکھنے میں آرہی ہیں تو اس میں قصور صرف افغانستان کا ہے۔ اگر افغان حکام نے باجوہ ڈاکٹرائن کے پس منظر میں پاکستان سے تعاون کیا ہوتا تو صدرِ افغانستان اشرف غنی بھی سُکھ میں رہتے اور افغان عوام بھی ۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن نے پاکستان کے خلاف امریکی بلیک میلنگ کو ناکام بنایا ہے۔ بھارت اور امریکا نے مضبوط پاک چین روابط کی بنیادیں منہدم کرنے کے لیے جو نیا گٹھ جوڑ کیا ہے، باجوہ ڈاکٹرائن کے مُوجب اس سازش کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی صرف افواجِ پاکستان کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی کامیابی ہے۔
اِس کامیابی کو ممتاز ترین برطانوی سیکیورٹی تھنک ٹینک RUSI(رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ)نے بھی نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ افواجِ پاکستان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو سیلوٹ بھی مارا ہے۔
مذکورہ برٹش تھنک ٹینک اپنے تجزئیے میں لکھتا ہے:''باجوہ ڈاکٹرائن نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف جاری کردہ دھمکیوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔وہ دن لَد گئے جب امریکی دھمکیاں اور گھرکیاں دے کر پاکستان سے اپنے کام نکلوایا کرتے تھے ۔ پاکستان امریکا کے کہنے پر ڈُو مور نہیں کرے گا بلکہ امریکا کو ڈُو مور کرنا پڑے گا۔ یہی باجوہ ڈاکٹرائن ہے۔ پاکستان نے اس میں مطلوبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے خلاف اگر امریکی پابندیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر سرحد پار(افغانستان) سے پاکستان مخالف امریکی جارحیت ہوتی ہے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمان میں پاکستان نے مقابلے کی پوری تیاریاں کررکھی ہیں۔ ''
یہ باجوہ ڈاکٹرائن کی شاندار کامیابی ہے کہ سابق سی آئی اے اسٹیشن چیفMilt Bearden(جس نے سی آئی اے سربراہ چارلی وِلسن کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں سوویت یونین کے خلاف خفیہ جنگ لڑی) اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ افغانستان جو قدم قدم پر ناکام ہو رہا ہے، اِس میں پاکستان کا نہیں بلکہ خود افغانستان کا بنیادی قصور ہے۔
پاکستان کے سیکڑوں محترم علمائے کرام نے ابھی حال ہی میں دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ پرستی کے خلاف ''پیغامِ پاکستان'' کے عنوان سے جو متفقہ اور متحدہ فتویٰ لکھا ہے، یہ بھی دراصل باجوہ ڈاکٹرائن کی کامیابی ہے۔ بشکلِ اندازِ دِگر۔ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے ''پیغامِ پاکستان'' پر دستخط ثبت کیے ہیں۔ یقیناً کتابی شکل میں سامنے آنے والے ''پیغامِ پاکستان'' سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی اور شدت پسندی میں مزید خاطر خواہ کمی آئے گی کہ لوگ ہمارے علمائے کرام کا کہا بخوبی مانتے اور پہچانتے ہیں۔
صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے بھی ایک شاندار تقریب میں ''پیغامِ پاکستان'' کی تحسین کی ہے۔ اِس تقریب میں وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ، راجہ ظفر الحق اور مولانا فضل الرحمن بھی شریک تھے۔ احسن اقبال کا خطاب تو بہت ہی دلکشا تھا۔ اب توانڈونیشیا کی حکومت بھی ''پیغامِ پاکستان'' کے تتبع میں ایک فتویٰ تیار کرنے کے مراحل میں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ قیامِ امن کے لیے باجوہ ڈاکٹرائن کو عالمِ اسلام میں بھی مقبولیت مل رہی ہے۔