الیکشن 2013ء کارکن اور قیادت…

ہمارے ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہے۔ جمہوریت کی بساط کو لپیٹ دینے کے خطرات ابھی پوری طرح ختم نہیں۔۔۔


Nasir Alauddin Mehmood April 05, 2013

پارلیمانی نظام میں حکومت سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اندر عددی برتری کا حصول شرط اول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے موقعے پر کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے ۔ ہرسیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے امیدوار ان کی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرکے میدان میں اتریں جوانتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں تاکہ اس کے لیے حکومت سازی کے امکانات روشن ہوسکیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اس حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیںکہ جہاں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کو اہمیت اور ترجیح دی جائے وہیں ووٹرو ں کو متحرک کرنے کے حوالے سے کمیٹڈ، جانثار اور پرخلوص سیاسی کارکنوں کی کلیدی اہمیت کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔

انتخابات میں کامیابی کے حصول کے ضمن میں سیاسی جماعتیں ایسی حکمت عملی اختیار کرتی ہیں جن سے ان کے مخلص کارکن خود کو غیر اہم ، کم وقعت تصور نہ کریں اور انتخابی عمل کے دوران ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے کماحقہ استفادہ بھی کیا جاسکے۔ ہمارے ملک میں جہاں جمہوری کلچر بتدریج فروغ پا رہا ہے اس امر کی شاید ضرورت بھی زیادہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کارکنوں کی مکمل حوصلہ افزائی کریں۔ ہماری سیاسی تاریخ، جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے افسوسناک سانحات سے بھری پڑی ہے۔

ملک میں جب کبھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو اس عمل کی مزاحمت کرنے میں ہمیشہ باشعور سیاسی کارکنوں نے مکمل عزم اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت کی بحالی کی مشکل اور کٹھن جدوجہد میںاپنی قیادت کا ساتھ دیا۔ اس جدوجہد کی پاداش میں انھیں سیاسی پھانسیاں دی گئیں ،ٹکٹکی پر لٹکا کر سرعام کوڑے برسائے گئے اور پابند سلاسل رکھا گیا۔ لیکن قابل رشک ہیں وہ سیاسی کارکن ، جنہوںنے تمام تر سختیوں کو جھیلا مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔ اس پس منظر میں سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے پارٹی کارکنوں کی کسی طرح دل شکنی نہ ہو اور پورے انتخابی عمل میں ان کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔

ہمارے ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہے۔ جمہوریت کی بساط کو لپیٹ دینے کے خطرات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے غیر جمہوری قوتوں کی مزاحمت کرنے والے پرجوش اور نظریاتی سیاسی کارکنوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے لہٰذا سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایسے افراد کو ضرور اپنی جماعتوں میں شامل کررہی ہیں کہ جو انھیں اقتدار کی منزل تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ کارکنوں کو بھی پوری طرح مطمئن کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔

بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی کارکن کسی سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان سیاسی کارکنان کی بے لوث اور عظیم الشان جدوجہد کی بدولت پاکستان میں چار مرتبہ فوجی آمریتوں کو رخصت ہونے پر مجبور کیا جاسکا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام نے گزشتہ آمریت کے دور میں زیادہ عزم کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس لیے موجودہ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔یہ ایک فطری عمل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام انتخابی حلقوں سے ہر بڑی جماعت کے ٹکٹ کے خواہش مند کئی امیدوار موجود ہیں جب کہ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر جماعت ایک حلقہ انتخاب سے محض ایک فرد کو اپنا امیدوار نامزد کرسکتی ہے۔ ان حالات میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ حاصل نہ کرسکنے والے امیدواروں کی مایوسی اور ان کے حامیوں کا ناراض ہونا یقینی امر ہے۔ ایک پرجوش انتخابی عمل میں اس نوعیت کے مظاہر اور صورتحال سے خوف زدہ یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

حالیہ دنوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف پارٹیوں کے پرجوش کارکن کھل کر اپنی آواز قیادت تک پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اپنی پسند کے امیدوار کو ٹکٹ دلوانے میں ناکام ہونے کی صورت میں اپنی قیادت یا ان کے قریبی مشیروں کے خلاف سراپا احتجاج بھی نظر آئے ۔ کہیں کہیں ان کے دبائو کے باعث فیصلوں کو تبدیل بھی کیا گیا ہے۔ اس صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت موجود ہے اور اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بدترین آمریتیں مسلط ہیں۔

بعض حلقے غلط طو ر پر یہ تاثر پیدا کرنے میں مصروف ہیں کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں موقع پر ست ہیں اور ان کی نظروں میں کارکنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بڑی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب میں نسبتاً تاخیر کی وجوہ ایک سے زیادہ تھیں۔ نامزدگی فارم میں درکار تفصیلات اور 63, 62 کی شقیںبھی غیر معمولی احتیاط کی متقاضی تھیں۔ خواہش مند امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے کارکنوں کو مطمئن کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔

بڑی سیاسی جماعتوں کو امیدواروں کے انتخاب کے ضمن میں اپنے کارکنوں کے جس ردعمل کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے اس حوالے سے ایک کام جو بہر صورت کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی کارکنوں کے جو پسندیدہ امیدوار پارٹی ٹکٹ سے محروم رہ گئے ہیں ان کا پارٹی امور میں عمل دخل بڑھایا جائے۔ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں پارٹی کارکنوں کی مہارت اور صلاحیت کو کام میں لایا جائے اور پارٹی منشور پر عملدرآمد کے لیے بیورو کریسی پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے ہی پارٹی کارکنان کی اہلیت پر اعتماد کیا جائے، بلدیاتی انتخابات میں انھیں فعال کیا جائے اور انھیں اپنے حلقوں میں عوام کی خدمت کرنے کا عملی موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو بے مصرف اور پارٹی سے الگ تھلگ نہیں بلکہ اس کا اہم حصہ تصور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں