یہ جمہوریت نہیں موروثیت ہے
موروثی سیاست کی وجہ سے ملک میں صحیح معنوں میں قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی۔
ایک طویل عرصے سے تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے ہاں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب کرنے میں موروثی سیاست کس حد تک ذمے دار ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موروثیت نے ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
موروثی سیاست کی وجہ سے ملک میں صحیح معنوں میں قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ پارلیمان میں موجود لوگوں کی اکثریت موروثیت کی محافظ ہے اور یہ اکثریت ایسی پالیسیاں بناتی ہے جو عوام کے مفاد ات میں نہیں، بلکہ ان سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کے مفاد میں ہوتی ہیں، جن کی وہ نمایندگی کررہی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقی جمہوریت میں کسی فرد کی نہیں، بلکہ قانون اور عوام کی حکمرانی ہوتی ہے۔
کسی ایک شخص یا ایک خاندان کی آمریت اور زبردستی نہیں چلتی، بلکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے اصول کے تحت اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ جمہوریت جمہور کی منشا کو کہا جاتا ہے، مگر پاکستان میں تاحیات پارٹی سربراہ کی جی حضوری کا نام جمہوریت بن کر رہ گیا ہے۔
برسوں ایک ہی خاندان پارٹی کے سیاہ سفید کا مالک ہوتا ہے اور پارٹی کے کارکنوں پر حکمرانی کرتا ہے، حالانکہ سیاسی پارٹیاں اگر جمہوریت پر یقین رکھتیں تو ہر دو سال بعد پارٹی الیکشن کے نتیجے میں ان کا سربراہ بدل چکا ہوتا۔ ہمارے ہاں سیاست میں علم، ڈگری، دیانت، صلاحیت کوئی اہلیت نہیں، بس دولت اور سیاسی خاندان سے تعلق ہی کافی ہے۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو چند امیر ترین خاندان ہی جمہوریت پر قابض نظر آتے ہیں۔ ان خاندانوں کی خامیوں پر تنقید جمہوریت پر تنقید شمار کی جاتی ہے۔ ان کی کرپشن پر انگلی اٹھائی جائے تو شور مچتا ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ ہر طرف سے پدرم سلطان بود کی آوازیں آرہی ہیں۔ جمہوریت آتی ہے، دستک دیتی ہے، مگر موروثی سیاست سے ٹکرا کر توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں امیر طبقہ ہی سیاستدان ہے۔ کوئی غریب یا غریب تر لائق فائق ایک بھی سیاستدان حد نگاہ تک نظر نہیں آتا۔ جمہوریت کو بہ انداز آمریت چلایا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کے لیے سب سے اہم کردار مڈل کلاس کا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں یہ اشرافیہ کی جمہوریت ہے، مڈل کلاس کی جمہوریت نہیں۔ دیگر ممالک میں بس ڈرائیور کا بیٹا، لکڑہارے کا بیٹا، کلرک، کان کن، یتیم، مزدور اور بیروزگار بھی رکن پارلیمان بن سکتا ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں چائے فروش نریندر مودی بھی ملک کا وزیراعظم بنا ہے، مگر پاکستان میں کوئی غریب یا مڈل کلاس شخص سیاست میں آگے نہیں جا سکتا، کیونکہ جمہوریت پر قابض افراد اسے آگے جانے ہی نہیں دیتے۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں اور مڈل کلاس کے لیے راستے بند ہیں، کیونکہ تمام اہم سیٹوں پر پرانے سرمایہ دار سیاست دان پہلے ہی قابض ہیں، جو موروثیت کے نظام کو ٹوٹنے اور کسی مڈل کلاس کو آگے آنے ہی نہیں دیتے۔ شاید ہی کسی جماعت میں مڈل کلاس طبقے کے لیے کوئی گنجائش ہو۔ سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے نام پر کام کرتی ہیں، مگر ان کے اندر خاندان واحد کی آمریت چلتی ہے۔ قیادت کی مرضی سے انتخابات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔
تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے انتخابات منصوبہ بندی کے تحت الیکشن کمیشن کی شرط پورا کرنے کے لیے محض دکھلاوے کے طور پر کیے جاتے ہیں، حالانکہ سیاسی میدان میں قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ہی جمہوریت کی جان ہوتے ہیں۔ جب خاندانی موروثیت جمہوریت پر قابض ہوجائے تو سیاست میں شفافیت اور میرٹ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔
جن ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں، وہاں امیدواروں کی قابلیت، دیانت و امانت اور عوامی خدمت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک کے منتخب ایوان اور منتخب حکومتیں اپنی کارکردگی کے لحاظ سے عوام کو بہت بہتر نتائج دے سکتے ہیں، مگر پاکستان میں سیاست گدی نشینی اور موروثیت کا روپ دھار چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا حال یہ ہے کہ جماعت کے ایک سربراہ کے فوت ہوجانے کے بعد اگلا سربراہ اسی کے خاندان سے ہوگا۔
جماعت میں کوئی لاکھ قابل اور باصلاحیت شخص موجود ہو، فیملی ممبر کے ہوتے ہوئے اسے آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ آج ملک میں الیکشن نہیں، بلکہ سلیکشن ہوتی ہے اور سلیکشن کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سلیکٹ ہونے والاشخص ہماری فیملی سے ہو۔ اگر فیملی میں کوئی ایسا فرد نہ ہو تو پھر تلاش کا دائرہ کار کچھ وسیع کرتے ہوئے رشتہ داروں میں اہل افراد کو ڈھونڈا جاتا ہے۔
اگر رشتے داروں میں بھی نہ ملے تو پھر مجبورا ان افراد کو آگے لایا جاتا ہے جو ان کی نوازشات کا ہر وقت دم بھرتے رہیں ۔ جمہوریت میں اس بات کی نفی نہیں کی جاتی کہ ایک خاندان کی اگلی نسل سے کوئی سیاست میں نہیں آسکتا۔ تاہم اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جو آئے، وہ کسی سیاسی عمل سے گزر کر آئے۔ وہ سیاسی عمل میں شامل ہو۔ دیگر افراد کی طرح اپنی اہلیت اور میرٹ پر آگے آئے۔
مقامی، ضلعی اور صوبائی سطح پر خدمات سر انجام دے اوراس کے بعد اگر اس کی اہلیت ثابت ہوتی ہے تو پارٹی کے اعلیٰ منصب تک بھی پہنچ جائے، لیکن جب اس سارے عمل سے گزرے بغیر پوری پارٹی اس کے سپرد کردی جاتی ہے تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔
پچھلی تین دہائیوں سے ملک پر چند خاندان حکومت کرتے چلے آرہے ہیں، یہی لوگ مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں، جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ برسوں سے عام انتخابات میں ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) موروثی سیاست کی مثالیں ہیں، جو ہیں تو جمہوری، مگر ان میں پارٹی کی باگ ڈور برسوں سے ایک ہی فیملی کے ہاتھ میں ہے اور آیندہ بھی اس فیملی سے باہر کسی کے سپرد کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، بلکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دو بار نااہل ہونے کے بعد پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نون) کی اعلیٰ قیادت نے تو سابق وزیراعظم نواز شریف کو جماعت کا تاحیات قائد اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو قائم مقام صدر منتخب کرکے موروثی سیاست کی ایک اور مثال قائم کی ہے۔
موروثی سیاست کے ہوتے ہوئے متوسط اور غریب مگر دیانتدار اور اہل سیاستدان سامنے نہیں آسکتے۔ جب تک سیاست سے موروثیت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، ملکی سیاست میں تبدیلی کا امکان تقریباً ناممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہوتے رہنے چاہئیں اور موروثیت کے خاتمے کی کوشش کی جانی چاہیے، جس سے سیاست کا میدان شفاف ہوتا جائے گا، معاشرے میں ترقی کی راہیں کھلیں گی اور بہتر کارکردگی سامنے آئے گی۔
پاکستان میں جس طرح تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی کا قانون موجود ہے، اس طرح موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے بھی آئین میں کوئی شق شامل کی جانی چاہیے، جس کے باعث ایک مثبت سیاسی تبدیلی سامنے آئے گی۔ جب تک میرٹ کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا، تب تک ملکی سیاست سے موروثیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور جب تک ملکی سیاست سے موروثیت ختم نہیں ہوجاتی، تب تک ملک کو اچھے کردار کی باصلاحیت قیادت نہیں ملے گی۔