تشہیری نہیں تعمیری عمل کریں
اس نمائشی عمل میں حکومتی اداروں سمیت سماجی بھلائی کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیمیں بھی حصہ لیتی ہیں۔
ISLAMABAD:
ہم سب اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پچھلے کئی برسوں سے موسم گرما میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ سردی کے دورانیے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2015 میں کراچی گرمی کی شدید لہرکے سانحے سے گزر چکا ہے جس میں میڈیا اور حکومتی اندازوں کے مطابق 2 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے، لیکن آزاد ذرایع جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں ۔گزشتہ سالوں میں ملک کے کئی علاقوں میں گرمی کے برسوں پرانے ریکاڈ ٹوٹے ہیں۔
صورتحال کی سنگینی میں اضافہ اس لیے اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے کہ ہم نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بچاؤکے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ، ہاں یہ ضرورہے کہ ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے شہرکی سڑکوں پر بینر آویزاں کرکے ٹھنڈے پانی کے کولر رکھ دیے جاتے ہیں۔
اس نمائشی عمل میں حکومتی اداروں سمیت سماجی بھلائی کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیمیں بھی حصہ لیتی ہیں ۔ یہ صورتحال کم و بیش ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہرمیں نظرآتی ہے۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر شدیدگرمی کے حوالے سے فیصلہ کرنے والوں کے نزدیک شایدگرمی سے بچاؤکی یہ بہترین تدبیر ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے 2050 تک کرہ ارض پر رہائش پذیر انسانوں کی غالب اکثریت شہروں اور اس کے نزدیکی علاقوں میں رہائش اختیارکرے گی جس کے نتیجے میں شہری مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس میں شہری سہولتوں کی فراہمی، نوکریوں اور جرائم میں اضافہ جسے بے شمار مسائل شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر شہری ماحولیات شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی ۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ 2050 تک شہری علاقوں میں گرمی کی شدید لہر سے جاں بحق ہونے والی اموات کی تعداد2 لاکھ 60 ہزارسے تجاوزکر جائے گی۔
برسوں کی تحقیق کے دوران کیے گئے بے شمار مطالعوں سے تحقیق کاروں نے یہ نتیجہ نکالاہے کہ شہروں میں درختوں کی موجودگی وہاں رہائش پذیر لوگوںکی صحت پرکم ازکم دو اہم اثرات مرتب کرتی ہے ۔ درخت ، ٹرانسپورٹ ، فیکٹریوں، پاور پلانٹس سے خارج ہونے والے انتہائی مضر ذرات کی آلودگی کوجذب کرلیتے ہیں یہ ذرات انسانی پھیپھڑوں پر انتہائی سنگین اثرات مرتب کرتے ہیںجس کے نتیجے میں ہر سال دنیا بھر میں3.2 ملین افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ ان مضرصحت ذرات کے نتیجے میں80 ہزارسے زائدافراد پاکستانی اسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں جب کہ5 لاکھ افراد سانس کی بیماریوں اور اس سے جڑے دیگرعارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ''کلینگ پاکستانی ایر، پالیسی اُپشنز ٹوایڈریس دی کاسٹ آف آڈٹ ڈورپلیوش '' میں کہاگیا ہے کہ ان عوامل کی وجہ سے سالانہ 20 ہزارافراد قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں ۔ شہروں میں لگے درختوں کی وجہ سے موسم گرما کے درجہ حرارت میں0.5 ڈگری سیلیس سے2 ڈگری سیلس تک کمی لائی جاسکتی ہے اور یہ عمل گرمی کی شدید لہرمیں انتہائی اہم ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق گرمی کی شدید لہر میں اضافی ایک ڈگری سیلس کی وجہ سے اموات کی شرح میں3 فیصد یا اس سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی ادارے''دی نیچرکنزردنیسی''کی رپورٹ ''پلاننگ ہیلتھی ائیر''کی اس رپورٹ کے مطابق جس میں دنیاکے 245 بڑے شہروں کاجائزہ لیاگیا اورکہاگیاکہ شہروں میں نئے درخت لگانے کی مہم میں3.2 بلین ڈالرکی لاگت آئے گی ۔ ان نئے درختوںکی وجہ سے بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نہ صرف گرمی کی شدید لہرمیں کمی آسکے گی بلکہ ان درختوں کی وجہ سے شہروں کے اطراف کے علاقے بھی ٹھنڈے رہیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گھروںمیں استعمال ہونے والے ائیرکنڈیشنزکے استعمال میں کمی کے باعث توانائی کی بچت ہوگی جب کہ کچھ شہروںمیں0.9سے4.8 فیصد تک بجلی کا استعمال بھی کم ہوجائے گا جوگلوبل وارمنگ کے اثرات کوکم کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔
رپورٹ کے مرکزی منصف سائنس دان اور ادارے کے گلوبل سٹیزن پروگرام کے سربراہ روب مکڈونلڈ کہتے ہیں کہ بہت سے شہروں میں اب تک یہ سوچ موجودہے کہ درخت صرف شہروں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ثبوت وشواہداس بات کوثابت کرتے ہیں کہ اب ہمیں عوامی صحت کے بنیادی ڈھانچے کے ایک اہم ترین حصے کے طور پر درختوںکے بارے میں سوچنا شروع کردیناچاہیے۔
پاکستان میں نئے پودوںکی شجرکاری کی مہمیں برسہا برس سے جاری ہیں ۔ ہر مہم میں لاکھوں درخت لگائے جاتے ہیں، تصویری سیشن میں ہرخاص وعام کو پودا لگاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ۔گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے اعداد وشمار کوجمع کرلیاجائے تواس کے مطابق پاکستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا جہاں درخت موجود نہ ہوں ۔ موسم بہارکی شجرکاری شروع ہوچکی ہے اور ہزاروں نہیں لاکھوںدرخت لگانے کی آوازیں ہر سمت سے آرہی ہیں ، لہٰذا درختوں اور شہری جنگلات کی اہمیت اورافادیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
حقیقت حال مگر یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی حیلے بہانے بنانے خاص طور پر ترقیاتی کاموںکی آڑ لے کرگھنے اورسایہ دار درختوںکودلجمعی سے کاٹنے میں مصروف ہیں تودوسری جانب ہزاروں لاکھوں پودے لگانے کااعلان کرنے کے ساتھ ساتھ فوٹوسیشن میں پودے لگانے کے جنون میںبھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔
ہمارے پڑوسی ملکوں ہندوستان ، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا میں سرکاری ، غیرسرکاری اداروں ، سماجی و ماحولیاتی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر پائیدار شجرکاری کا عمل شروع کر رکھا ہے، ہم لیکن ابھی تک درجہ حرارت میںہونے والے اضافے اور پائیدار شجرکاری کے مابین تعلق سے لاعلم نظرآتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ شجرکاری کے سیزن میں بڑی تعداد میں پودے لگاکرانھیں حالات کے رحم وکرم پرچھوڑ کرواپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں واضح طورپر بتایاہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاکا واحد ملک ہے جہاںشہروںکے پھیلاؤ میں تیزی آرہی ہے جب کہ ان شہروں میں مضرصحت ذرات (پی ایم) بھارت، سری لنکا اور بھوٹان سمیت خطے کے دیگرملکوں سے زیادہ ہیںجب کہ''دی نیچرکنزرونیسی''کی رپورٹ میں مضرصحت ذرات کے حوالے سے کراچی کو پہلے اور فیصل آبادکو چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
2015میں آنے والی گرمی کی شدید لہرکے بعد کراچی میں لگائے جانے والے کئی لاکھ پودوں میں چند ہزار پودے بھی درخت بننے کے عمل سے گزر رہے ہوتے تو وہ آنے والے چند برسوں میں قدآور اور سایہ داردرختوں کے طور پر شدید گرمی اور گرمی کی شدید لہر میں شہریوںکی مشکلات کوکم کر رہے ہوتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نمبرگیم کے بجائے ایک پودا لگائیں اور اس کوحالات کے رحم وکرم پرچھوڑنے کے بجائے اسے پروان چڑھائیں، پودوںکو درخت بنائیں ، وگرنہ درجہ حرارت میںہونے والااضافہ ہمارے لیے سزائے موت ثابت ہوگا۔