مولچند محل
مولچند محل آسیب زدہ مکان ہے بلکہ محل ہے اور 1925 میں یہ 25 لاکھ روپے میں سیٹھ مولچند نے بنوایا تھا۔
KARACHI:
تلور پاکستان کا ایک قیمتی پرندہ ہے۔ مرغ زریں ہم نے وادی سیف الملوک جسے '' ناران'' کہتے ہیں میں دیکھا تھا۔ میں پرندے پالنے اور پسند کرنے والا ایک انسان ہوں ۔ بچپن میں ایک الماری میں میرے کپڑے اور دوسری میں کبوتر رہتے تھے دونوں الماریاں صحن میں چھپرے کے نیچے تھیں۔ چھوٹا سا صحن تھا۔
ایک کونے میں چولہا جسے OPENKITCHEN کہہ سکتے ہیں ایک کمرہ یہ مولچند محل کھمبا ٹی گھٹی میں پاکستان آنے کے بعد میرے والد کا ٹھکانہ تھا جو ان کے چچازاد بھائی نے انھیں رہنے کو دیا تھا اور بعد میں ان سے لے لیا تھا کیونکہ وہ اپنا اوپرکا پورشن جو ان کے پاس تھا بیچ کرکراچی منتقل ہوگئے۔ تو میں نے صحن میں سے نظر آتی ایک چھتری بانس کی بناکر چھت پر پانی کی ٹنکی کے پائپ سے باندھ دی تھی۔کبوتروں کے پر نہیں کاٹے تھے وہ دن بھر چھتری پر جاتے اور واپس دانہ کھانے آتے رہتے تھے۔
مولچند محل آسیب زدہ مکان ہے بلکہ محل ہے اور 1925 میں یہ 25 لاکھ روپے میں سیٹھ مولچند نے بنوایا تھا مگر اسے رہنا نصیب نہیں ہوا اور ڈاکوؤں نے اسے ایک ہرے شیشے کی گیلری میں قتل کردیا اور اس کی روح وہاں بھٹکتی رہتی تھی۔
میں جوان اس محل میں ہوا اور سیکڑوں واقعات خود میرے ساتھ اور والد کے چچا زاد بھائی کے خاندان کے ساتھ پیش آئے میری بڑی بہن اور ایک چھوٹی بہن کی وہاں پر اسرار ہلاکت ہوئی، ان کے علاوہ بھی میری والدہ کو بہت تکالیف اٹھانا پڑیں کیونکہ ہم لوگ اس حصے میں رہتے تھے جہاں اس کا گزر تھا اور شاید وہاں کبھی ایک گھریلو مندر بھی تھا، زینہ بے حد تاریک تھا آج بھی تاریک ہے وہاں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔
ڈیوڑھی میں میرے والد جو اجمیر ٹیکنیکل کالج کے ووڈ انسٹرکٹر تھے اپنے ہاتھ سے بڑھئی کا کام کرکے ہمارے لیے رزق کماتے تھے بچپن سے میں ان کا اسسٹنٹ تھا اور اسکول سے آنے کے بعد ان کے ساتھ کام کرتا تھا وہ مستری علی ساجد کے نام سے مشہور تھے۔ زیادہ تر لوگ انھیں مستری صاحب ہی کہتے تھے۔
حیدرآباد کے شاہی بازار سے متصل ریشم گلی کے سامنے یہ گلی ہے دونوں کے درمیان شاہی بازار ہے،گلی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، بائیں طرف بتاشا گلی کہلاتی ہے دائیں طرف کھمباٹی گھٹی جو شاہوانی محلے سے ہوکر فقیرکے پڑ پر نکلتی ہے بتاشا گلی فقیرکے پڑکے اوپر کے حصے پر نکلتی ہے۔ پڑ سندھی میں محلے یا جگہ کوکہتے ہیں وہاں ایک علم لگا ہوتا ہے اور اس کے لگانے والے کے نام سے وہ جگہ اس کا پڑکہلاتی ہے ۔ محرم کے زمانے میں اس علاقے سے نکلنے والے مختصر جلوس کو بھی اس کا پڑ کہتے ہیں۔
والد صاحب کی تاکید تھی کہ مغرب کے بعد گھرکے اندر آجاؤ، رات نو بجے بازار بند سنسان ہوجاتے تھے، راستے کیونکہ بازار صبح سویرے کھلتے تھے ہمارے محلے میں شملہ بیکری بھی تھی جس سے ایک دو آنے کا چورا لے کر ہم بیکری کے تمام پراڈکٹس کا مزہ بیک وقت اٹھاتے تھے کیونکہ اس میں بسکٹ، کیک، ڈبل روٹی سب کے ٹکڑے ہوتے تھے اور یہ کام ناشتے پر زیادہ ہوتا تھا ورنہ رات کی باسی روٹی والدہ چورا کرکے چائے میں ڈال دیتیں اور ہم ناشتہ کرکے اسکول چلے جاتے۔
میں شروع سے اسکول کے علاوہ ادب پڑھنے کا عادی تھا اس میں میرا اسکول فیلو علی الحسنین موہانی میرا شریک تھا۔ ہم دونوں تقریباً زیادہ وقت اسکول کے علاوہ ساتھ رہتے تھے شام کو ہم لوگ باہر نکل جاتے، سلطان ہوٹل میں ایک چائے میں دونوں شریک ہوتے،کبھی کبھی دو چائے علیحدہ بھی مل جاتیں اورگھنٹوں گفتگو ہوتی،کبھی کبھارکوئی جان پہچان والا شریک ہوجاتا یا کوئی اسکول فیلو بھی وہاں آجاتا یوں بات کرتے جاتے ہوٹل کی گھڑی میں ٹائم دیکھتے جاتے اور آخرکار دس بجے کے قریب اٹھتے۔
موہانی کا گھر پہلے بھائی خان کی چاڑھی پر تھا ان کے والد بینک میں ملازم تھے لہٰذا ہوٹل سے نکل کر ہم چوک میں آتے علی الحسنین کی بھائی خان چاڑھی سامنے اور میرے لیے بائیں ہاتھ پر کہکشاں چاڑھی جو ریشم گلی کا آغاز اور جس کے بعد کھمباٹی گھٹی سندھ میں گلی کو کہتے ہیں۔ تو ہم ہاتھ ملاکر اپنے اپنے راستے۔ موہانی کا راستہ مختصر اور میرا طویل ہوتا تھا۔
لوگ گھروں میں راستہ سنسان، چاڑھی پر ہوا تیزی سے چڑھتی سائن بورڈوں سے ٹکراتی اور ہولناک ٹین کا شور اور میں ایک اکیلا اس راستے کا مسافر، زمین سے گرد وغبار دکانوں کے سامنے کا کچرا اڑتا وہ پاس سے گزرتا تو لگتا کوئی پاس سے گزرا ہے۔ کھمبوں پر پیلے بلب کی روشنی اور وہ بھی دور دور جس سے ماحول میں ڈر اور خوف کا تاثر گہرا ہوتا جاتا ہے۔ نالیوں میں پانی کے بہنے کی آواز بھی سناٹے میں وحشت پیدا کررہی ہے کہیں کوئی کھانستا ہے تو ایک دم چونک جاتا ہوں، چوکیدار زمین پر کہیں دور ڈنڈا مار رہاہے۔
یہ گلی ایک پر اسرار خاموشی میں ڈوبی ہوتی ہے اور اس میں چلتے چلتے میں مولچند محل کے پہلے دروازے پر پہنچ جاتا ہوں جو میرے گھر کا دروازہ ہے۔ آگے اس کے دو اور بھی دروازے تھے جو ہمارے نیچے رہنے والے استعمال کرتے تھے، دروازے پر زور دیتا ہوں تو بند۔ اس دروازے کے بعد ذرا سی جگہ جو والد کے کام کرنے کی جگہ ہے اور یہاں سے زینے شروع ہوتے ہیں لکڑی کے خوبصورت زینے ہمارے گھر تک تین اور چھت تک چار میں بارہ مہینے چھت پر ہوتا تھا۔
یہاں یہ بتادوں کہ جن ٹین کے چھجوں کی آوازیں خوفناک تاثر پیدا کرتی تھیں وہ میرے والد صاحب کے اور میرے ہی نصب کردہ تھے کیونکہ جب ہم یہاں آئے تو دکانوں کے آگے چھجوں کا رواج نہیں تھا اور برسات کا پانی دکان میں آتا تھا۔ یہ والد صاحب کا مشورہ تھا جس پر دکانداروں نے ان سے ہی عمل کروایا، صرافہ بازار کے خوبصورت کاؤنٹر اور شوکیس بھی والد صاحب نے ہی بنائے تھے۔
ہم پھر وہاں آتے ہیں، دروازہ بند، ہلکی سی دستک دی، کنڈی سرکنے کی آواز آئی، دروازہ کھل گیا، میں اندر داخل ہوا، کنڈی لگائی سگریٹ سلگ رہی ہے میرے ہاتھ میں زینے چڑھنے شروع ہوئے۔ لگا میرے پیچھے کوئی اور بھی چڑھ رہا ہے، راستے میں کالی بلی، پیلی آنکھیں چار زینے چڑھے چھت پر قدم رکھا، میرے پیچھے آنے والے نے بھی قدم رکھا، میں بستر لینے بائیں جانب مڑا اور میرے پیچھے ایک ٹھنڈی سانس کی آواز سنائی دیتی۔
بستر بچھ گیا، میں نے ٹارچ نکالی اور بستر پر لیٹ کر کتاب پڑھنی شروع کی۔ میرے سرہانے وہ زینہ ہے جس سے میں آیا ہوں چھت کے پتھر چمک رہے ہیں فرش کے میں درمیان میں بنے دائرے میں سوتا تھا نواب اس زینے میں میرے ساتھ آنے والا واپس جارہاہے، رات کا سناٹا ہے، بارہ کا وقت ہے اور ایک ایک سیڑھی پر محسوس ہورہاہے کہ وہ جارہاہے اور اس کے بعد وہ دوبارہ اوپر آرہاہے چھت پر آیا ٹھنڈی سانس لی، کچھ لمحہ رکا اور پھر واپسی، پوری رات یہ سلسلہ جاری رہتا، میں کہتا یار سامنے آجاؤ مگر ایسا بھی نہیں ہوا صبح والدہ سے پوچھا آپ نے کنڈی ڈھیلی چھوڑ دی تھی تو وہ کہتی کہ نہیں تمہارے ابو بند کرتے ہیں۔ میں تو سوگئی تھی تم کیسے اوپر آئے، میں مسکرادیتا۔
وہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ میں بند دروازہ کیسے کھول لیتا ہوں۔ میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ شاید کسی کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا کہ میں وہاں دروازے پر پڑا رہوں اسے بھی مجھے چھت پر دیکھنا پسند تھا اور دروازہ کھل جاتا تھا، کبھی کبھی سوتے سوتے میری آنکھ کھل جاتی۔ میرے سینے پر منوں وزن محسوس ہوتا لگتا کہ اب سینے کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی، میں پسینے میں نہایا ہوتا حالانکہ دسمبر کا مہینہ ہوتا بہت مشکل سے میرے منہ سے آواز نکلتی یا علی مدد اور وزن ہٹ جاتا یہ اکثر چاند کی چودھویں رات کو ہوتا تھا۔
اس گھر کو چھوڑتے وقت تک نہ میں نے اپنے معمولات بدلے اور نہ اس نے، ایک خاموش سمجھوتا سا رہا اور بہت واقعات ہیں مولچند محل کے اب اس کے چار زینے چڑھنا مجھے مشکل ہیں اتنا وقت گزرچکا ہے اس کے رہنے والے کس حال میں ہیں۔ خدا جانے کالم تلور پر لکھنا تھا مگر قلم بچپن میں لے گیا اور آپ جانتے ہیں کہ اس کے آگے ساری چیزیں ہیچ ہیں۔