پاکستان فیشن ویک کا اختتام
کیا ’ پی ایف ڈی سی ‘ مغربی کلچر کو’’فروغ ‘‘ دینے کے لیے کوشاں ہے؟
کسی بھی ملک وقوم کی پہچان اس کے فن وثقافت سے ہوتی ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں، جن سے قوموں کی شخصیت کوجاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ لوگ اپنے کلچر 'جس میں زبان اورلباس بھی شامل ہوتا ہے' پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا موسمی تہوار، یہ سب صدیوں سے چلی آرہی رسموں اور روایات کے ساتھ ہی جچتے ہیں اوراس موقع پرلباس سب سے اہم کردارادا کرتا ہے۔ اسی لئے توجب ہم اپنے قومی اورعلاقائی لباس کے ساتھ کسی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تووہ ہماری سب سے بڑی پہچان اورشناخت بنتا ہے۔
دنیا بھرمیں فیشن کے نت نئے انداز آئے دن متعارف کروائے جاتے ہیں۔ فرانس اوراٹلی اس حوالے سے سرفہرست ہیں، جہاں پرفیشن کے جدید اندازمتعارف کروانے کیلئے سال میں دو، دو فیشن ویک کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کے بہترین ڈریس ڈیزائنرز اپنے کلچرکی عکاسی کرتے ہوئے ایسے لباس متعارف کرواتے ہیں ، جن سے ان کے ملک اورقوم کی الگ شناخت سب کے سامنے آتی ہے۔
لوگ ان ملبوسات کوپسند کرتے ہیں اورانہی کواپنی مختلف تقریبات میں استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہاں پیش کئے جانے والے ملبوسات کو کسی خاص طبقہ کیلئے نہیں بلکہ تمام لوگوں کیلئے تیار کیا جاتاہے، تاکہ کسی قسم کا فرق دکھائی نہ دے۔ البتہ ہالی وڈ سے وابستہ فنکاروں کی توبات ہی اورہے اوران کیلئے کچھ خاص لباس بھی تیار کئے جاتے ہیں، جوبلاشبہ بے حدقیمتی ہوتے ہیں۔
دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان فیشن انڈسٹری کی تویہاں تونہ کوئی روایت کواپناتا ہے اورنہ ہی کلچرکو۔ بس جس کوجودل چاہے وہ بنا کرفیشن ویک کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے بہت سی مثالیں موجود ہیں بلکہ سوشل میڈیا پرتواس حوالے سے پاکستانی فیشن انڈسٹری کوخاصی تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ کیونکہ کوئی مغربی ملبوسات کوپاکستان میں لانے کی بات کرتا ہے توکوئی ہندوکلچرکواسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ بنانے پرزوردیتا ہے۔
ویسے توفیشن ویک کے ذریعے ہمارے ڈیزائنرز اپنی نئی کولیکشنز متعارف کروانے کیلئے سال بھرکام کرتے رہتے ہیں لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے، جب ان کے تیارکردہ ڈیزائنز میں پاکستان کے مختلف خطوںکی عکاسی کی جگہ مغربی ممالک کے بولڈ لباس دکھائی دیتے ہیں۔
حال ہی میں ''پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل'' نامی ادارے کے زیراہتمام لاہورمیں سجنے والے فیشن ویک میں جس طرح سے فیشن کے نام پرمغرب کی عکاسی کرتے ملبوسات کو متعارف کروایا گیا، اس پرشرکاء پریشان لیکن منتظمین انتہائی ''اطمینان بخش '' دکھائی دے رہے تھے۔
تین روز تک جاری رہنے والے فیشن ویک میں سُپرماڈلز اپنے دلکشن انداز کے ساتھ ریمپ پرکیٹ واک کرتی دکھائی دیں لیکن ڈیزائنرز کے تیارکردہ ملبوسات کی بڑی تعداد ایسی تھی، جس کوپاکستانی خواتین کی اکثریت کسی تقریب میں توکیا گھرمیں بھی استعمال میں نہیں لاسکتی۔ مگر'پی ایف ڈی سی' کے منتظمین اس کاوش پرانتہائی خوش دکھائی دے رہے تھے۔
واضح رہے کہ فیشن ویک میں اس بار معروف فیشن ڈیزائنر ثانیہ مسکاٹیا، ایچ ایس وائی، ارجمند بانو، سائرہ شاکرہ، حرا علی، ریما ملک، سائرہ رضوان، شیریں حسن، ندااظفر، حسین ریہار، شازیہ حسن، فہد حسین، زونیا انور اورعمرفاروق شامل تھے اور کچھ برانڈز نے بھی فیشن ویک میں اپنی کولیکشن متعارف کروائیں۔ یہی نہیں جہاں سپرماڈلز ریمپ پرکیٹ واک کررہی تھیں، وہیں کچھ ڈیزائنرز نے بطورشوسٹاپرآمنہ شیخ اورصنم سعید سمیت دیگرسلیبرٹیز کی خدمات بھی حاصل کیں۔
اس صورتحال پرشوبزکے سنجیدہ حلقوں نے'' پاکستان فیشن ویک '' اور'' پی ایف ڈی سی '' کوشدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا تھا اوربڑی جہدوجہد کے بعد حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے لاکھوں لوگوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ دینے کے بعد اسے انگریزوں اور ہندوبنیوں سے آزاد کروایا تھا لیکن فیشن کے فروغ کیلئے کام کرنے والے اداروں نے جس طرح سے مغربی ثقافت کواُن کے لباس کے ذریعے یہاں دوبارہ سے فروغ دینے کی ''مہم ''شروع کی ہے، اس پرتومذہبی حلقوںاورخاص طورپر حکومت کو فوری ایکشن لینا چاہئے۔
ہم سب اس بات کوسمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک وقوم کی شناخت اس کے فن اورثقافت سے ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو''گنگا ہی الٹی بہنے لگی ہے '' ۔ بلاشبہ پاکستانی فیشن انڈسٹری کی ترقی ، پاکستان کی ترقی ہے لیکن یہ سب اس وقت ہوگا کہ جب ہمارے ملک کے لباس اورثقافت کودنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جائے گا۔ دنیا بھرمیں ہونے والے فیشن ایونٹس میں ہمارے ملک کے باصلاحیت ڈیزائنرز شلوارقمیص، کرتا پاجاما اوراسی طرح کے دیگرعلاقائی ملبوسات کووہاں متعارف کروائیں گے۔
مگرایسا نہیں ہورہا اورہمارے معروف فیشن ڈیزائنرز تومغربی ملبوسات کواپنے ملک میں متعارف کروانے میں لگے ہیں۔ یہی نہیں جس طرح '' پی ایف ڈی سی '' کے منتظمین پاکستانی قوم کی اکثریت کونظراندازکرکے صرف ایک خاص طبقے کیلئے ملبوسات بنا رہے ہیں اوراس فرق کوواضح کررہے ہیں کہ فیشن ڈیزائنرز کے تیارکردہ ملبوسات صرف اسی خاص طبقے کیلئے ہوتے ہیں، عوام کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ اچھے لباس پہن سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ 'پی ایف ڈی سی' اوراس سے ملحقہ ادارے اپنی اس ''مہم'' کو بڑی مہارت کے ساتھ چلا رہے ہیں اورپاکستانی قوم کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں۔ لباس اورزبان کے فرق کی اس مہم کی ابھی توشروعات ہی ہے اگراس مہم کویہاں ہی روکا نہ گیا توآنے والے دنوں میں اس کا بہت بڑانقصان ہوسکتا ہے۔
اس سلسلہ میں حکومت کواپنا کردارنمایاں انداز سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ فیشن کے ذریعے جہاں مغربی لباس ہماری اہم مذہبی اورقومی تقریبات کا حصہ بن جائیں گے، وہیں لوگوں کی اکثریت احساس کمتری اورمحرومی کا شکاربھی ہونے لگے گی۔ اس سلسلہ میں پاکستانی میڈیا پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مثبت اندازسے اس اینٹی مہم کوروکنے اورپاکستانی ثقافت کوبچانے میں اپنا کرداادا کرے۔
دوسری جانب ایسے ڈیزائنرزکوبین کیا جائے جواپنے ڈیزائنزکے ذریعے بھارتی ثقافت کوفروغ دینا '' فرض ''سمجھنے لگیں ہیں۔ اس وقت ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے کہ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے اوربھارت سمیت بہت سے دوسرے ممالک جہاں ہمیں دہشت گرد قراردینے پرتلے ہیں، وہیں اپنی ثقافت کے ذریعے بھی ہماری نوجوان نسل کوگمراہ کررہے ہیں۔
شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا موسمی تہوار، یہ سب صدیوں سے چلی آرہی رسموں اور روایات کے ساتھ ہی جچتے ہیں اوراس موقع پرلباس سب سے اہم کردارادا کرتا ہے۔ اسی لئے توجب ہم اپنے قومی اورعلاقائی لباس کے ساتھ کسی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تووہ ہماری سب سے بڑی پہچان اورشناخت بنتا ہے۔
دنیا بھرمیں فیشن کے نت نئے انداز آئے دن متعارف کروائے جاتے ہیں۔ فرانس اوراٹلی اس حوالے سے سرفہرست ہیں، جہاں پرفیشن کے جدید اندازمتعارف کروانے کیلئے سال میں دو، دو فیشن ویک کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کے بہترین ڈریس ڈیزائنرز اپنے کلچرکی عکاسی کرتے ہوئے ایسے لباس متعارف کرواتے ہیں ، جن سے ان کے ملک اورقوم کی الگ شناخت سب کے سامنے آتی ہے۔
لوگ ان ملبوسات کوپسند کرتے ہیں اورانہی کواپنی مختلف تقریبات میں استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہاں پیش کئے جانے والے ملبوسات کو کسی خاص طبقہ کیلئے نہیں بلکہ تمام لوگوں کیلئے تیار کیا جاتاہے، تاکہ کسی قسم کا فرق دکھائی نہ دے۔ البتہ ہالی وڈ سے وابستہ فنکاروں کی توبات ہی اورہے اوران کیلئے کچھ خاص لباس بھی تیار کئے جاتے ہیں، جوبلاشبہ بے حدقیمتی ہوتے ہیں۔
دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان فیشن انڈسٹری کی تویہاں تونہ کوئی روایت کواپناتا ہے اورنہ ہی کلچرکو۔ بس جس کوجودل چاہے وہ بنا کرفیشن ویک کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے بہت سی مثالیں موجود ہیں بلکہ سوشل میڈیا پرتواس حوالے سے پاکستانی فیشن انڈسٹری کوخاصی تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ کیونکہ کوئی مغربی ملبوسات کوپاکستان میں لانے کی بات کرتا ہے توکوئی ہندوکلچرکواسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ بنانے پرزوردیتا ہے۔
ویسے توفیشن ویک کے ذریعے ہمارے ڈیزائنرز اپنی نئی کولیکشنز متعارف کروانے کیلئے سال بھرکام کرتے رہتے ہیں لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے، جب ان کے تیارکردہ ڈیزائنز میں پاکستان کے مختلف خطوںکی عکاسی کی جگہ مغربی ممالک کے بولڈ لباس دکھائی دیتے ہیں۔
حال ہی میں ''پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل'' نامی ادارے کے زیراہتمام لاہورمیں سجنے والے فیشن ویک میں جس طرح سے فیشن کے نام پرمغرب کی عکاسی کرتے ملبوسات کو متعارف کروایا گیا، اس پرشرکاء پریشان لیکن منتظمین انتہائی ''اطمینان بخش '' دکھائی دے رہے تھے۔
تین روز تک جاری رہنے والے فیشن ویک میں سُپرماڈلز اپنے دلکشن انداز کے ساتھ ریمپ پرکیٹ واک کرتی دکھائی دیں لیکن ڈیزائنرز کے تیارکردہ ملبوسات کی بڑی تعداد ایسی تھی، جس کوپاکستانی خواتین کی اکثریت کسی تقریب میں توکیا گھرمیں بھی استعمال میں نہیں لاسکتی۔ مگر'پی ایف ڈی سی' کے منتظمین اس کاوش پرانتہائی خوش دکھائی دے رہے تھے۔
واضح رہے کہ فیشن ویک میں اس بار معروف فیشن ڈیزائنر ثانیہ مسکاٹیا، ایچ ایس وائی، ارجمند بانو، سائرہ شاکرہ، حرا علی، ریما ملک، سائرہ رضوان، شیریں حسن، ندااظفر، حسین ریہار، شازیہ حسن، فہد حسین، زونیا انور اورعمرفاروق شامل تھے اور کچھ برانڈز نے بھی فیشن ویک میں اپنی کولیکشن متعارف کروائیں۔ یہی نہیں جہاں سپرماڈلز ریمپ پرکیٹ واک کررہی تھیں، وہیں کچھ ڈیزائنرز نے بطورشوسٹاپرآمنہ شیخ اورصنم سعید سمیت دیگرسلیبرٹیز کی خدمات بھی حاصل کیں۔
اس صورتحال پرشوبزکے سنجیدہ حلقوں نے'' پاکستان فیشن ویک '' اور'' پی ایف ڈی سی '' کوشدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ملک اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا تھا اوربڑی جہدوجہد کے بعد حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے لاکھوں لوگوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ دینے کے بعد اسے انگریزوں اور ہندوبنیوں سے آزاد کروایا تھا لیکن فیشن کے فروغ کیلئے کام کرنے والے اداروں نے جس طرح سے مغربی ثقافت کواُن کے لباس کے ذریعے یہاں دوبارہ سے فروغ دینے کی ''مہم ''شروع کی ہے، اس پرتومذہبی حلقوںاورخاص طورپر حکومت کو فوری ایکشن لینا چاہئے۔
ہم سب اس بات کوسمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک وقوم کی شناخت اس کے فن اورثقافت سے ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو''گنگا ہی الٹی بہنے لگی ہے '' ۔ بلاشبہ پاکستانی فیشن انڈسٹری کی ترقی ، پاکستان کی ترقی ہے لیکن یہ سب اس وقت ہوگا کہ جب ہمارے ملک کے لباس اورثقافت کودنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جائے گا۔ دنیا بھرمیں ہونے والے فیشن ایونٹس میں ہمارے ملک کے باصلاحیت ڈیزائنرز شلوارقمیص، کرتا پاجاما اوراسی طرح کے دیگرعلاقائی ملبوسات کووہاں متعارف کروائیں گے۔
مگرایسا نہیں ہورہا اورہمارے معروف فیشن ڈیزائنرز تومغربی ملبوسات کواپنے ملک میں متعارف کروانے میں لگے ہیں۔ یہی نہیں جس طرح '' پی ایف ڈی سی '' کے منتظمین پاکستانی قوم کی اکثریت کونظراندازکرکے صرف ایک خاص طبقے کیلئے ملبوسات بنا رہے ہیں اوراس فرق کوواضح کررہے ہیں کہ فیشن ڈیزائنرز کے تیارکردہ ملبوسات صرف اسی خاص طبقے کیلئے ہوتے ہیں، عوام کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ اچھے لباس پہن سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ 'پی ایف ڈی سی' اوراس سے ملحقہ ادارے اپنی اس ''مہم'' کو بڑی مہارت کے ساتھ چلا رہے ہیں اورپاکستانی قوم کو تقسیم کرنے میں لگے ہیں۔ لباس اورزبان کے فرق کی اس مہم کی ابھی توشروعات ہی ہے اگراس مہم کویہاں ہی روکا نہ گیا توآنے والے دنوں میں اس کا بہت بڑانقصان ہوسکتا ہے۔
اس سلسلہ میں حکومت کواپنا کردارنمایاں انداز سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ فیشن کے ذریعے جہاں مغربی لباس ہماری اہم مذہبی اورقومی تقریبات کا حصہ بن جائیں گے، وہیں لوگوں کی اکثریت احساس کمتری اورمحرومی کا شکاربھی ہونے لگے گی۔ اس سلسلہ میں پاکستانی میڈیا پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مثبت اندازسے اس اینٹی مہم کوروکنے اورپاکستانی ثقافت کوبچانے میں اپنا کرداادا کرے۔
دوسری جانب ایسے ڈیزائنرزکوبین کیا جائے جواپنے ڈیزائنزکے ذریعے بھارتی ثقافت کوفروغ دینا '' فرض ''سمجھنے لگیں ہیں۔ اس وقت ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے کہ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے اوربھارت سمیت بہت سے دوسرے ممالک جہاں ہمیں دہشت گرد قراردینے پرتلے ہیں، وہیں اپنی ثقافت کے ذریعے بھی ہماری نوجوان نسل کوگمراہ کررہے ہیں۔