لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کا میچ امپائرز کے فیصلوں نے تنازع کھڑا کردیا
نو بال پر بننے والا رن نہ دیے جانے پر قوانین کی بحث چھڑ گئی
پی ایس ایل تھری میں لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کے میچ میں امپائرز کے فیصلوں نے نیا تنازع کھڑا کردیا، نوبال پر بننے والا رن نہ دیے جانے پر قوانین کی بحث چھڑ گئی، فرنچائز نے معاملہ ٹیکنیکل کمیٹی میں لے جانے کا اشارہ دے دیا، برینڈن میک کولم اور سنگاکارا نے بھی کئی سوال اٹھا دیے۔
اتوار کی شب منعقدہ میچ میں کراچی کنگز کی جانب سے دیے جانے والے 163 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آخری اوور میں لاہور قلندرز کو فتح کے لیے 16 رنز درکار تھے۔ سہیل اختر نے ابتدائی 3 گیندوں پر 12 رنز بٹور کر میچ کو سنسنی خیز بنا دیا، چوتھی گیند پر مچل میک رن آؤٹ ہو گئے، پانچویں پر ایک رن ہی بن سکا،لاہور قلندرز کو آخری گیند پر 3رنز درکار تھے لیکن سہیل اختر باؤنڈری پر کیچ ہو گئے۔
ٹیم کیمپ میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی جب امپائرز نے اعلان کیا کہ عثمان شنواری نے نوبال کی ہے، میچ کی آخری گیند فری ہٹ تھی قلندرز کو فتح کے لیے 2 رنز درکار تھے لیکن گلریز صدف صرف ایک ہی رن بنا سکے اور دوسرا مکمل کرتے ہوئے رن آئوٹ ہوگئے۔ یوں میچ ٹائی ہوگیا جس کے بعد فاتح ٹیم کا فیصلہ سپر اوور میں ہوا۔
اس دوران فیلڈ امپائرز کی وجہ سے کھلاڑی، شائقین اور مبصرین سب تذبذب کا شکار نظر آئے اگرچہ سپر اوور میں لاہور قلندرز نے کامیابی حاصل کرلی لیکن ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ کپتان برینڈن میک کولم کا اصرار تھا کہ نوبال پر کیچ سے قبل ایک رن مکمل ہوگیا تھا اس لیے فتح کیلیے مزید ایک رن کی ضرورت تھی۔
امپائرز کا کہنا تھا کہ کیونکہ نوبال فیلڈ امپائر نے نہیں دی اس لیے قانون کے مطابق ایک رن ہی دیا جاسکتا ہے دوڑکر بنایا گیا رن نہیں۔ دوسری طرف رن کو مکمل تصور نہ کیے جانے کے باوجود اسٹرائیک اسٹروک کھیلنے والے بیٹسمین سہیل اختر کے بجائے گلریز صدف کو دی گئی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی نوبال امپائر ٹم رابنسن کو کیوں نظر نہ آئی اور ٹی وی امپائر کو نشاندہی کرنا پڑی۔
لاہور قلندرز کے آفیشل نے اس حوالے سے کہا کہ ہم کچھ سوالات کے جواب کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی سے رجوع کریں گے کراچی کنگز کے سنگاکارا نے کہا کہ نوبال تھی تو بیٹسمین رن لے سکتا تھا، ڈیڈ بال ہوتی تو بات اور تھی، اس قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
اتوار کی شب منعقدہ میچ میں کراچی کنگز کی جانب سے دیے جانے والے 163 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آخری اوور میں لاہور قلندرز کو فتح کے لیے 16 رنز درکار تھے۔ سہیل اختر نے ابتدائی 3 گیندوں پر 12 رنز بٹور کر میچ کو سنسنی خیز بنا دیا، چوتھی گیند پر مچل میک رن آؤٹ ہو گئے، پانچویں پر ایک رن ہی بن سکا،لاہور قلندرز کو آخری گیند پر 3رنز درکار تھے لیکن سہیل اختر باؤنڈری پر کیچ ہو گئے۔
ٹیم کیمپ میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی جب امپائرز نے اعلان کیا کہ عثمان شنواری نے نوبال کی ہے، میچ کی آخری گیند فری ہٹ تھی قلندرز کو فتح کے لیے 2 رنز درکار تھے لیکن گلریز صدف صرف ایک ہی رن بنا سکے اور دوسرا مکمل کرتے ہوئے رن آئوٹ ہوگئے۔ یوں میچ ٹائی ہوگیا جس کے بعد فاتح ٹیم کا فیصلہ سپر اوور میں ہوا۔
اس دوران فیلڈ امپائرز کی وجہ سے کھلاڑی، شائقین اور مبصرین سب تذبذب کا شکار نظر آئے اگرچہ سپر اوور میں لاہور قلندرز نے کامیابی حاصل کرلی لیکن ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ کپتان برینڈن میک کولم کا اصرار تھا کہ نوبال پر کیچ سے قبل ایک رن مکمل ہوگیا تھا اس لیے فتح کیلیے مزید ایک رن کی ضرورت تھی۔
امپائرز کا کہنا تھا کہ کیونکہ نوبال فیلڈ امپائر نے نہیں دی اس لیے قانون کے مطابق ایک رن ہی دیا جاسکتا ہے دوڑکر بنایا گیا رن نہیں۔ دوسری طرف رن کو مکمل تصور نہ کیے جانے کے باوجود اسٹرائیک اسٹروک کھیلنے والے بیٹسمین سہیل اختر کے بجائے گلریز صدف کو دی گئی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی نوبال امپائر ٹم رابنسن کو کیوں نظر نہ آئی اور ٹی وی امپائر کو نشاندہی کرنا پڑی۔
لاہور قلندرز کے آفیشل نے اس حوالے سے کہا کہ ہم کچھ سوالات کے جواب کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی سے رجوع کریں گے کراچی کنگز کے سنگاکارا نے کہا کہ نوبال تھی تو بیٹسمین رن لے سکتا تھا، ڈیڈ بال ہوتی تو بات اور تھی، اس قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔