دھاندلی۔۔۔۔۔ جمہوریت سے کھلواڑ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ر ائج انتخابی دھاندلیوں اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے ہتھکنڈے۔

فوٹو : فائل

الیکشن کے دوران دھونس' دھاندلی ، فراڈ اور رگنگ کے لیے مختلف ملکوں میں مختلف مقامی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔

لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں اس کے لیے ''دھاندلی'' ، ''دھاندلا'' ، ''جْھرلو''، ''فرشتوں کی مہربانی'' اور اس قسم کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ بالخصوص الیکشن مہم کے دوران اور الیکشن کے بعد طویل عرصہ تک ان کا راگ الاپا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ مقامی اصطلاحیں الیکشن فراڈ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں جس کامطلب ہے کہ الیکشن کے عمل میں غیرقانونی مداخلت کے ذریعے نتائج میں تبدیلی یا ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش وغیرہ۔

جب الیکشن میں ووٹوں کی گنتی میں فراڈ کیا جاتا ہے جس کے تحت یا تو ایک امیدوار کے ووٹوں کو بڑھادیا جاتا ہے یا دوسرے امیدوار کے ووٹوں کو گھٹا دیا جاتا ہے، یا ووٹروں کو ڈرا دھمکا کرحمایت میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے یعنی ان سے زبردستی ووٹ لیے جاتے ہیں، یا لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے ووٹ خریدے جاتے ہیں ، یا بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ کاسٹ کیے جاتے ہیں'یا طاقتور حلقے کسی خاص امیدوار کوجتوانے کے لیے اپنا گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں تو ان تمام صورتوں میں کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی ، اس کو مزید بڑھانا چڑھانا ہو تو ''دھاندلا '' اور ''جھرلو'' کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔



اگر بول چال میں نفاست کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں امیدوار کی کامیابی''فرشتوں کی مہربانی'' سے ہوئی یا اس میں ''فرشتوں کا ہاتھ'' ہے۔ دنیا بھر میں الیکشن کے دوران جس جس طریقے سے دھاندلی کی جاتی ہے ، اس کا انحصار متعلقہ ملکوں اور ان کے نظام پر ہے۔اگر امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ملک ہوں تو الیکشن میں دھاندلی کے لیے ''باریک ترین'' طریقے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن اگر پاکستان اورتیسری دنیا کے دیگر ممالک ہوں تو یہ عمل دھڑلے سے اور کھلے عام کیا جاتا ہے۔

بہرحال کچھ بھی کہا جائے لیکن یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ جمہوریت عوام کے اعتماد کا نام ہے اورشفاف اور آزادانہ انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ لہٰذا الیکشن میں دھاندلی اور کسی بھی قسم کی بدعنوانی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کی صورت میں جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہوسکتا ہے اور جمہوریت کا سارا عمل ہی خطرات سے دوچار ہوجاتا ہے۔

الیکشن میں کی جانے والی بہت سی دھاندلیاں تو انتخابی قوانین کی رو سے غیر قانونی قرار پاتی ہیں جبکہ بہت سی دھاندلیاں عام قوانین کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہیں جیسے تشدد ، شہریوں کو ہراساں کرنا اور اہانت وغیرہ۔اگرچہ دھاندلی کی اصطلاح الیکشن میں ان افعال کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو غیرقانونی ہوتے ہیں تاہم بعض دھاندلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اگرچہ قانونی لحاظ سے تو ممنوع نہیں ہوتیں لیکن اخلاقی طورپر غلط سمجھی جاتی ہیں۔یہ دھاندلیاں انتخابی قواعد کی روح کے منافی اور جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں۔

مثال کے طورپراگر کسی الیکشن میں صرف ایک ہی امیدوار ہو یا دیگر امیدواروں کو کسی بھی طریقے سے غیرموثر کردیا گیا ہو ،تو اگرچہ یہ انتخابی دھاندلی ہی ہوگی لیکن اس پر قانون کی خلاف ورزی کا اطلاق نہیں ہوگا۔

انتخابی دھاندلی جمہوریت کے لیے خطرناک کیوں؟
قومی انتخابات کے دوران دھاندلی کو اس لیے بھی جمہوریت کے لیے خطرناک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں فوجی بغاوت عمل میں آسکتی ہے یا جمہوریت ہی سرے سے ناکام ہوسکتی ہے۔جن انتخابات میں برابر کا مقابلہ ہوتا ہے، ان میں معمولی نوعیت کی دھاندلی بھی نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

اگر اس سے نتائج پر اثر نہ بھی پڑے تو یہ دھاندلی جمہوریت کے لیے مضر ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں رائے دہندگان کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔یہاں تک کہ محض دھاندلی کا شبہ (یعنی دھاندلی نہ ہو لیکن اس کا شبہ ہو) بھی الیکشن اور جمہوریت پر لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کرسکتا ہے۔اس طرح جمہوریت ناکامی سے دوچار ہوسکتی ہے اور فوجی آمریت قائم ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔



اسی لیے دھاندلی کو جمہوریت سے کھلواڑ اور زہر قاتل کہا گیا ہے۔یہاں آپ کو مختصراً بتاتے چلیں کہ دھاندلی صرف قومی انتخابات میں نہیں ہوتی بلکہ دیگر کئی اقسام کے انتخابات میںبھی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے ، جیسے بلدیاتی انتخابات ، لیبریونینز کے انتخابات ، طلباء ، کھیلوں کے نتائج اور ایوارڈ وغیرہ کی تقسیم وغیرہ۔لیکن مذکورہ مضمون میں ہمارا موضوع صرف قومی انتحابات ہیں جن کے ذریعے کسی بھی ملک میں قومی پارلیمنٹس اور صوبائی اسمبلیاں منتخب کی جاتی ہیں۔

ویسے تو انتخابی دھاندلی جمہوری عمل کے دوران کسی بھی موقع پر ہوسکتی ہے لیکن زیادہ تر ایسا انتخابی مہم ، ووٹروں کی رجسٹریشن ، ووٹ ڈالنے یا ووٹوں کی گنتی کے موقع پر ہوتا ہے۔انتخابی دھاندلی کی دو بڑی اقسام بیان کی جاتی ہیں جن میں اول ، حقدار ووٹروں کو آزادانہ طورپر ووٹ ڈالنے سے روکنا یا سرے سے ووٹنگ کو رکوانا اور دوئم نتائج کو تبدیل کرنا شامل ہیں۔دھاندلی کے دیگر طریقے ان کی ذیل میں آتے ہیں۔آئیے ذیل میں آپ کو دھاندلی کے طریقوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو بہت سے ملکوں میں عام استعمال کیے جاتے ہیں:

حلقہ جات میں گھپلا
زیادہ تر الیکشن دھاندلی انتخابی مہم کے دوران یا فوری بعد ہوتی ہے جس میں ووٹنگ کے عمل یا ووٹوں کی گنتی کے عمل میں مداخلت کی جاتی ہے۔ تاہم یہ عمل بہت پہلے بھی شروع ہوسکتا ہے جس میں انتخابی حلقوں کی ساخت میں ردوبدل کردیا جاتا ہے۔بہت سے معاملات میں یہ عمل غیرقانونی نہیں ہوتا اور تکنیکی طورپر الیکشن دھاندلی کے زمرے میں نہیں آتا تاہم عملی طورپر یہ انتخابات اور جمہوریت کی روح کے خلاف ہوتا ہے۔

آبادیات میں گھپلا
اکثرواقعات میں یہ امکان ہوسکتا ہے کہ حکام کسی حلقے کی آبادیاتی ساخت (demography)میں اس طرح کا ردوبدل کریں جس سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہوں۔مثال کے طورپر الیکشن سے پہلے بڑی تعداد میں ووٹروں کو اس حلقے میں منتقل کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان ووٹروں کو زمینوں کا لالچ دیا جاسکتا ہے یا عارضی طورپر گھروں میں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔بعض ملکوں میں ووٹروں کے کسی مخصوص علاقے میں مخصوص مدت تک رہائش کا قانون نہ ہونے کے باعث ایسا کیاجاتا ہے۔اس طرح امیگریشن کے قوانین کو بھی اتنخابی حلقوں کی آبادیات کوتبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کی ایک مثال ملائشیا میں ملتی ہے جہاں سباح ریاست میں ووٹ بڑھانے کے لیے ہمسایہ فلپائن اور انڈونیشیا کے غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دیدی گئی تھی۔



اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی
اسٹیبلشمنٹ یعنی کسی ملک کے بااثر ترین عہدوں پر بیٹھے ہوئے افراد کے گروہ کی جانب سے دھاندلی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ بالخصوص ایسے ممالک جہاں جمہوریت کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار غالب اور مضبوط ہے ، وہاں پر اسٹیبلشمنٹ اپنی پسند کے امیدواروں کو جتوا کر انتخابی نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرتی آئی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا یہ کردار جمہوریت کے لیے سب سے بڑا زہر قاتل ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدواروں کو جتواتی ہے تو ایک جانب تو انتخابی نظام کے کرپٹ ہونے کی داغ بیل پڑ جاتی ہے تو دوسری جانب جیتنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جتوائے جانے والے یہی کرپٹ اور بددیانت لوگ مزید طاقتور ہوجاتے ہیں اور یوں سیاسی خاندانوں اور خانوادوں میں بدل جاتے ہیں۔یہی سیاسی خانوادے اور ان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان بعد ازاں جمہوریت اور سیاست کی بدنامی اور ناکامی کا باعث بنتے ہیں اور یوں جمہوریت کی ناکامی کا ایک منحوس چکر چل پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات کو کامیاب جمہوریت کے لیے لازم وملزوم سمجھا جاتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے منفی کردار کے باعث بہت سے ملکوں میں جمہوریت ناکامی سے دوچار ہوجکی ہے۔اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے مثبت کردار کی وجہ سے ہی بہت سے ملکوں میںجمہوریت کامیاب ہے۔مثبت کردار سے مراد یہ ہے کہ شفاف اور صاف انتخابات کے انعقاد کے لیے براہ راست کردار ادا کرنے کے بجائے عدلیہ ، الیکشن اتھارٹیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت اور حوصلہ افزائی کی جائے۔

کرپٹ اور جرائم پیشہ افرادکی دھاندلی
اس قسم کی دھاندلی الیکشن سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ جب ایسے افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی جاتی ہے جنہوں نے کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے دولت جمع کی ہوتی ہے یا جو مختلف جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یا جن کا کردار کسی بھی لحاظ سے خراب ہوتا ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی کا آغاز ہوگیا۔وہ لوگ جن کو جیلوں میں ہونا چاہیے اور جن کو عبرت ناک سزائیں دی جانی چاہئیں ،ان کو اس کے بجائے الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی جائے اور وہ پارلیمنٹس اور اسمبلیوں جیسے ا علیٰ ایوانوں میں میں پہنچ جائیں ، تو یہ قبل از انتخابات دھاندلی نہیں تو اور کیا ہے؟

ووٹ کے حق سے محروم کرنا
انتخابی دھاندلی کی ایک شکل کسی مخصوص گروپ کے لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔یہ عمل عام طورپر قانون سازی کے لیے ذریعے ہوتا ہے ، اس لیے دھاندلی نہیں کہلاتا لیکن اگر اس کے پیچھے کوئی بدنیتی ہو تو یہ یقیناً دھاندلی ہوگی۔

ووٹروں پر دباؤ
ووٹروں پر کسی طرح سے دباؤ ڈالنا بھی دھاندلی کی ایک صورت ہے۔ووٹروں پر دباؤ کے تحت انہیںکسی مخصوص گروپ یا فرد کو ووٹ ڈالنے پرمجبورکیاجاسکتا ہے یا سرے سے ووٹ ڈالنے سے ہی روکا جاسکتا ہے۔غیرحاضر ووٹروں یا دوردراز سے ووٹ ڈالنے والوں کو اس میں آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں پولنگ سٹیشنوں پر موجود مخصوص تحفظ یا پرائیویسی میسر نہیں ہوتی۔اس طرح اور بھی کئی طریقوں سے ووٹروں پردباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں کے ووٹروں پر دباؤ ڈالنا بھی بہت آسان ہے۔

تشدد کا استعمال
دھاندلی کی ایک اور عام ترین شکل تشدد کا استعمال ہے۔تشدد کے علاوہ دھمکیوں کا استعمال بھی اس میں شامل ہے۔اس قسم کی دھاندلی کے لیے کسی ایک جماعت کے حامی ووٹروں کو دوسری جماعت کے حق میں ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے یا ان پر تشدد کااستعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کے بجائے دوسری جماعت کو ووٹ دیں یا سرے سے ووٹ کا استعمال ہی نہ کریں۔یا اگر کسی گروپ یا افراد کو خوف ہو کہ اگر انہوں نے اپنی پسند یا ضمیر کے مطابق کسی پارٹی کو ووٹ دیا تو انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا اوراس وجہ سے وہ ووٹ کاسٹ نہ کریں یا اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ نہ دیںتو یہ بھی دھاندلی کہلائے گی۔تشدد کا ایک اور استعمال خوف پھیلانا ہے ۔ مثال کے طور پر بم دھماکہ کرکے کسی خاص علاقے میں ووٹنگ کو رکوانا وغیرہ۔



پولنگ سٹیشن پر حملہ
پولنگ سٹیشن پر حملہ کرنا بھی دھاندلی کی ایک عام تر ین شکل ہے۔عام طور پر ناکام ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ایسا ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے مخالفین ایسے پولنگ سٹیشنوںپر حملے کراتے ہیں جہاں انہیں شبہ ہوتا ہے کہ نتائج ان کے خلاف ہوں گے۔ اس طرح لوگوں کو رائے دہی کے لیے اس علاقے میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔


جعلی شناختی دستاویزات کا استعمال

یہ بھی دھاندلی کی عام ترین شکل ہے۔اس مقصد کے لیے زیادہ تعداد میں جعلی شناختی دستاویزات تیار کرکے ان کے ذریعے جعلی ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔پاکستان اور بھارت میں جعلی شناختی کارڈوں کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کے واقعات ماضی کے انتخابات میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ایسے حلقے جہاں دو امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہو وہاں پر جعلی شناختی دستاویزات کے ذریعے نتائج کو تبدیل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

قانونی خوف پیدا کرنا
لوگوں کو قانونی خوف کا دھوکہ دے کر ووٹ دینے سے روکنا بھی دھاندلی ہے اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اس کے واقعات پیش آچکے ہیں۔اس میں کسی خاص علاقے کے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے اور اگر انہوں نے ووٹ دیا تو انہیں قید کی سزا ہوسکتی ہے یا انہیں ملک سے ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔2004ء میں امریکی انتخابات کے موقع پر وسکونسن اور دیگر مقامات کے ووٹروں کو خطوط ارسال کیے گئے کہ اگر انہوں نے اس سال کسی بھی الیکشن میں ووٹ دیا ہے تو وہ صدارتی الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے اور اگر انہوں نے ایسا کیاتو انہیں دس سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔اس طرح کک کاؤنٹی میں بھی ووٹروں کو اس قسم کا دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی اور بہت سے لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔

معاشی خوف پیدا کرنا
لوگوں میں معاشی خوف پیدا کرکے بھی انہیں اپنے حق اور کسی کے خلاف استعمال کیاجاسکتا ہے۔مثال کے طورپر کسی کمپنی کی ہاؤسنگ کالونی میں ورکروں کو کہاجائے کہ وہ فلاں پارٹی کو ووٹ دیں اور فلاں کو ووٹ نہ دیں ورنہ انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا یا ان کے خلاف دیگر کارروائی کی جائے گی۔اس طرح کا ایک طریقہ ''شو پالش طریقہ'' کے نام سے مشہور ہوچکا ہے۔ اس میں ووٹنگ مشین کے مخالف امیدوار والے بٹن یا لیور پر شو پالش لگادی جاتی ہے۔ اس طرح جب کوئی ووٹر کمپنی کی جانب سے منع کیے گئے مخالف امیدوارکو ووٹ دیتا ہے تو اس کے ہاتھ پر پالش لگ جاتی ہے جس کو ووٹنگ کیمپ کے باہر موجود ایجنٹ نوٹ کرتا ہے اور یوں پتہ چل جاتاہے کہ اس نے کمپنی کے کہنے کے باوجود مخالف امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ اس کی پاداش میں اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔اس طریقے سے لوگوں میں معاشی خوف پیدا کرکے ووٹ حاصل کرنا بھی دھاندلی ہے۔

ووٹ خریدنا

ووٹوں کی خریداری کے ذریعے انتخاب جیتنے کے واقعات گذشتہ کئی صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔انگلینڈ میں اٹھارویں صدی میں کئی امیر امیدواروں نے الیکشن جیتنے کے لیے بے تحاشا رقم لٹائی اور ووٹ خریدے۔اس مقصد کے لیے ووٹروں کو رقم دی جاتی ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں امیدوار کو ووٹ دیں یا فلاں کو ووٹ نہ دیں۔اس کے علاوہ ووٹوں کی خریداری بالواسطہ بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طورپر کسی پادری یا عالم دین کو رقم دی جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو فلا ں پارٹی یا امیدوارکو ووٹ دینے کے لیے کہے۔

افواہ سازی
لوگوں میں افواہیں پھیلا کربھی دھاندلی کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر 1970 ء میں چلی کے صدارتی انتخابات کے موقع پر امریکی سی آئی اے نے پروپیگنڈا کیا اور ظاہر یہ کیا کہ یہ پروپیگنڈا مختلف پارٹیوں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد سوشلسٹ اور کمیونسٹ اتحاد کے درمیان اختلافات پیدا کرنا تھا۔اس کے علاوہ ووٹروں کو ووٹنگ کے وقت اور مقام کے بارے میں غلط اطلاع دے کر بھی انہیں کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ دینے سے محروم کیا جاسکتا ہے۔

بیلیٹ پیپر ڈیزائن میں گڑبڑ
بعض اوقات بیلیٹ پیپر کے ڈیزائن میں ایسا فرق کردیا جاتا ہے جس سے ووٹر کنفیوز ہوجاتا ہے اوراپنے پسندیدہ امیدوار کے بجائے کسی اور امیدوار کو ووٹ دے دیتا ہے۔مثال کے طورپر ایک امیدوار کا انتخابی نشان بلی اور دوسرے کا چیتا ہے تو دونوں کی ملتی جلتی تصویر بنادی جاتی ہے۔اب اگر کوئی ایسا حلقہ ہے جہاںچیتے کے ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں پر ان پڑھ اور بزرگ لوگ یا کمزور نظر والے افراد چیتے کے بجائے بلی کو ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

اگرچہ قانونی طورپر تو ایسا کرنا غیرقانونی نہیں کہلاسکے گا لیکن انتخابات کی روح کے اعتبار سے یہ دھاندلی ہوگی۔امریکہ اور سویڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس قسم کی دھاندلی کی جاچکی ہے۔سویڈن میں سویڈن ڈیموکریٹس اورایک بڑی پارٹی سویڈش ڈیموکریٹس کے ناموں کو ملتے جلتے طریقے سے لکھ کر چھوٹی پارٹی یعنی سویڈن ڈیموکریٹس کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔اس طرح بعض اوقات ملتے جلتے ناموں والے افراد اور پارٹیوں کا سہارا لے کر بھی ووٹروں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔مثال کے طورپر ایک امیدوار کانام شبیر احمد اور دوسرے کا بشیر احمد ہے تو ان ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے بھی ایسے حلقوں میں ووٹروں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے جہاں پر کم پڑھے لکھے لوگوں یا بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

بیلیٹ باکس کو بھرنا

بیلیٹ باکس بھرنے کا مطلب ہے کہ ایک شخص نے ایک کے بجائے بہت سے ووٹ ڈال دیے ہوں یا خفیہ طاقتوں کی جانب سے اپنی پسند کے امیدواروں کے باکس میں ووٹ بھر دیے گئے ہوں۔فلاں امیدوار کی کامیابی میں ''فرشتوں کا ہاتھ'' ہے، اسی کو کہتے ہیں۔

غلط ووٹ ڈلوانا
ایسے ووٹر جنہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کسی کی مدد درکار ہوتی ہے ، غلط ووٹ ڈالنے کے لیے آسانی سے استعمال ہوسکتے ہیں۔مثال کے طورپر نابینا افراد یا جو لوگ بیلیٹ پیپر کو نہیں پڑھ سکتے ، ان سے دھوکے سے ایسے امیدوار کوووٹ ڈلوایا جاسکتا ہے جس کواصل میں وہ ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے۔

پراکسی ووٹ کا غلط استعمال
پراکسی ووٹوں کا باآسانی غلط استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ کئی ملکوں میں ریٹائرمنٹ ہومز میں رہنے والے بوڑھے افراد کو گھروں سے ہی ووٹ ڈالنے کی سہولت ہے۔اس میں ان کے ووٹ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور ان کے پسندیدہ امیدوار کے بجائے کسی اور امیدوار کے حق میں ووٹ دیا جاسکتا ہے۔



بیلیٹ پیپر کو خراب کرنا
دھاندلی کا ایک اور سادہ ترین طریقہ ہدف بنائے گئے امیدوار کے ووٹ کو خراب کرنا ہے۔اس مقصد کے لیے ووٹ کو پھاڑا جاسکتا ہے یا ایک کے بجائے زیادہ ناموں پر مہریں لگائی جاسکتی ہے جس سے بیلیٹ پیپر ضائع ہوجاتا ہے۔ایسے حلقے جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں پر تھوڑی تعداد میں بھی ووٹ خراب کرکے نتیجے کو بدلا جاسکتاہے اور کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔

ووٹنگ مشین میں گڑبڑ کرنا
ترقی یافتہ ملکوں میں الیکشن کے لیے ووٹنگ مشینوں کا استعمال عام ہوچکا ہے۔اس کے ساتھ ہی ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑ کرکے دھاندلی کرنے کے طریقے بھی وجود میںآچکے ہیں۔اس میں مشین کے سافٹ وئر میں گڑبڑ کرکے ووٹوں کی تعداد کو گھٹایا یا بڑھایا جاسکتا ہے۔اس طرح بعض مشینوں میں سمارٹ کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فراڈ سمارٹ کارڈ کے ذریعے ووٹنگ تک رسائی حاصل کرکے ایک سے زیادہ ووٹ کاسٹ کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح الیکشن حکام سے ساز باز کرکے بھی ووٹنگ مشینوں میں ایک سے زائد مرتبہ ووٹ ڈالا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلی پر ایک نظر

پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں ہونے والے زیادہ تر عام انتخابات دھاندلی اور بدعنوانی سے پاک نہیں ہیں۔بعض حلقے تو یہاں تک قرار دیتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے اب تک کے تمام انتخابات میں جزوی یا کلی طورپر دھاندلی کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے۔اس طرح سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں طویل عرصہ فوجی آمروں نے حکومت کی۔سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے مطابق ان آمروں نے جو الیکشن کرائے ، انہیں کوئی بھی ذی شعور شخص منصفانہ اور شفاف قرار نہیں دے سکتا۔ بلکہ یہ الیکشن تو محض ان آمروں کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دینے کا ایک بہانہ تھے۔

ان کے اس عمل سے جمہوریت اور انتخابی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔آمر فوجی حکمرانوں نے الیکشن میں اپنی بقاء کے لیے صرف ایسے سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو کامیاب کرایا جو ان کے ہر قانونی و غیرقانونی اقدام پر لبیک کہہ سکتے تھے۔اس طرح کرپٹ سیاست دانوں کی ایک پوری فصل تیارکی گئی۔اختلاف رکھنے والے تمام سیاست دانوں کو یا تو مختلف حیلوں ہتھکنڈوں سے سیاست سے دور کردیا گیا یا انہیں بیرون ملک جلا وطن کردیاگیا۔نہ صرف سیاست دانوں بلکہ جمہوریت اور شفاف الیکشن کی بات کرنے والے دانشوروں ، شاعروں ، سیاسی کارکنوں ، عمرانی ماہرین سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مخالفین کو کھڈے لائن لگادیاگیا یا جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ آمرانہ ادوار کے علاوہ سویلین ادوار میں بھی الیکشن میں دھاندلی کے واقعات کی کمی نہیں۔1977ء میں ذولفقار علی بھٹو کی انتظامیہ کے تحت کرائے جانے والے انتخابات کو بھی دھاندلی پر مبنی قراردیتے ہوئے اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے 1947ء میں اپنی تخلیق سے لے کر نو سال تک پاکستان آئین سے محروم رہا اور ملک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت چلتا رہا۔خدا خدا کرکے آئین بنا لیکن سات اکتوبر 1958 کو اسی آئین کو روندتے ہوئے صدر سکندر مرزا نے فیروزخان نون کی حکومت برطرف کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو برخاست کرکے فوجی حکومت یعنی مارشل لاء کا اعلان کردیا۔سیاسی جماعتوں کو معطل کرکے نوزائدہ جمہوریت کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر حکومت پر قبضہ کرلیا تو جمہوریت کے خلاف نئے اقدامات کیے اور ایبڈو نامی نام نہاد قانون کے تحت چھ ہزار سے زائد سیاست دانوں کو الیکشن لڑنے یا کوئی سیاسی عہدہ رکھنے سے روک دیا۔اس نے ملک کو اپنا آئین دیا اور خود ہی صدر بن بیٹھا۔ایوب کے دور میں ذولفقار علی بھٹو ابھرتے ہوئے دکھائی دیے۔لیکن شخصی اقتدار کو دوام نہیں چنانچہ ایوب خان کا سورج غروب ہوا تو عنان اقتدار یحییٰ خان نے سنبھالی۔

یحیٰی خان نے 1970ء میں الیکشن کرائے جن کو ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے ان انتخابات میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دھاندلی کا ارتکاب کیا۔ انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو دہشت زدہ کیے رکھا اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی سیاسی پارٹی کو کوئی جلسہ تک نہ کرنے دیا اور یوں الیکشن میں ''شاندار کامیابی'' حاصل کی۔ اس کے بعد بھی مجیب الرحمان کو اقتدار نہ سونپا گیا تو وہ کچھ ہوا جس کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں۔مشرقی پاکستان ''بنگلہ دیش'' بن گیا۔

1977ء میں بھٹو انتظامیہ کی جانب سے الیکشن کرائے گئے۔کہا جاتا ہے کہ ان الیکشن میںبھی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی جس کے نتیجے میں پی این اے کی تحریک وجود میں آئی اور نتیجہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہوا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء نے بھی جمہوریت اور اس کی ریڑھ کی ہڈی یعنی انتخابی نظام کے ساتھ کھلواڑکا سلسلہ جاری رکھا اور پیپلزپارٹی کی دشمنی میں ان تمام سیاست دانوں کو آگے بڑھایا جو اس کے غیرقانونی اقدامات کے حامی تھے یا عہدوں کی ہوس رکھتے تھے۔جاہ پرست جنرل ضیاء نے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور اس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔ ضیاء الحق نے جونیجو کووزیراعظم تو بنوادیا لیکن''قابو ''سے باہر ہونے پرکچھ عرصے بعد انہیں بھی وزارات عظمیٰ سے برخاست کردیا۔

طیارہ حادثے میں جنرل ضیاء کی ہلاکت ہوئی تو 1988 کے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔یہ انتخابات کہاں تک شفاف تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لیے ان انتخابات میں ایجنسیوں کی مدد سے آئی جے آئی کو تراشا گیا۔ آزاد امیدواروں کو خریداگیا اور یوں بے نظیر بھٹو ایک کمزور اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت پائیں تو انہیں غلام اسحاق خان کو ہی صدر کے طور پر قبول کرنا پڑا ۔آخر کار غلام اسحاق کی جانب سے بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف اور اسمبلیوں کو تحلیل کردیا گیا۔اس طرح 1990ء کے انتخابات میں بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان میں ایجنسیوں کی جانب سے مداخلت اور دھاندلی کی گئی۔

2002ء کے الیکشن جنرل پرویز مشرف نے کرائے جنہوں نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیاتھا۔مشرف کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر پری پول یعنی قبل از انتخابات دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ان کا مقصد مشرف کی حامی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو ساتھ ملانا تھا۔ان الیکشنز میں مختلف ایجنسیوں کو استعمال کیاگیا۔ نیب کی مدد سے پیپلزپارٹی کے لوگوں کو توڑا گیا۔ تاہم اس قدر جوڑ توڑ کرنے اور دو سرکردہ سیاسی لیڈروں کی بیرون ملک جلاوطنی کے باوجود مشرف کے نامزد کردہ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے سربراہ میجر (ر)جنرل احتشام ضمیر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 2002 کے انتخابات میںدھاندلی کی گئی۔

2008ء کے الیکشن میں اگرچہ نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تمام سرکاری محکموں سے فوج کو واپس بلالیا اور تمام فوجی اداروں کو الیکشن میں مداخلت سے روک دیا تاہم اس کے باوجود نگران حکومت اور حکومت کی پسندیدہ سیاسی جماعتوں نے الیکشن جیتنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے۔ ان الیکشنز میں لبرل سیاسی پارٹیوں نے کامیابی حاصل کی۔اس موقع پر جو واحد پہلو حکومت کے خلاف گیا ، وہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی کامیابی تھی۔ مرکز میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی۔

ان الیکشنز میں دھاندلی کا اندازہ کروڑوں جعلی ووٹوں کے انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے۔ جعلی ووٹوں کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔اس سے انہیں اور پوری قوم کو اس ہولناک حقیقت کا پتہ چلا کہ 2008 میں ڈالے گئے چالیس سے پنتالیس فیصد ووٹ جعلی تھے۔اس کا مطلب تھا کہ تین کروڑ سترلاکھ ووٹ بوگس تھے۔عمران کا موقف تھا کہ این آر او کے خاتمے اور جعلی ووٹوں کے انکشاف کے بعد اس وقت کی حکومت غیرقانونی ہوچکی تھی اور اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ان ووٹوں کی تصدیق کرے تو دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے آئین میں بیسویں ترمیم کا اضافہ کیا گیا۔بوگس ووٹوں کا انکشاف انتخابات میں دھاندلی کی بدترین مثال تھی۔

اگرچہ ملک میں انتخابات کرانے والی سب سے بڑی اتھارٹی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے موجودہ سربراہ ایک انتہائی دیانت دار اور سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول شخصیت ہیں۔تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کیسے کراتے ہیں اور کس طرح ماضی میں انتخابی دھاندلی کے ناپاک عمل کا خاتمہ کرتے ہیں۔
Load Next Story