جمہوریت میں ہی زندگی ہے
ایسی قدرتی انسانی خواہشیں کسی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اور وہ ان پہ فخر کرتا ہے
کوئی بھی جب نیا دیس اور ملک دیکھتا ہے اور اس نئی دنیا کو اپنے ذہن اور دل میں سمو لیتا ہے تو وہ اپنے مشاہدے میں اس اضافے پر دل ہی دل میں فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی اس مستعار زندگی میں ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے، اس کی دنیا پہلے سے کچھ وسیع ہو گئی ہے اور وہ اپنے آپ کو دائیں بائیں پھیلتا اور بڑھتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ اپنی حدوں سے باہر قدم رکھنا کسی بھی انسان کی ایک قدرتی خواہش ہوتی ہے جسے وہ پورا کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کی دنیا اس کے چاروں طرف ہی پھیلتی ہے اور اس پھیلاؤ کو وہ اپنی وسعت سمجھتا ہے۔
آگے بڑھنا اور دائیں بائیں پھیلنا کسی انسان کی ایک قدرتی خواہش ہوتی ہے اس کا قد بت تو پیدائشی ہو تا ہے جس میں وہ کوئی اضافہ نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ قدرت سے مل جاتا ہے اسے سنوارنا اور اسے بناؤ سنگار سے سجائے رکھنا انسان کے بس میں ہوتا ہے اور خوبصورت ذہن رکھنے والے انسان اپنے وجود کو آراستہ کرتے رہتے ہیں، بن سنور کر رہنا انسا ن کی جبلی خواہش ہے جو اسے پیدائش کے ساتھ ہی ملتی ہے اور اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا اور ممتاز رکھے ۔ انسانوں نے اسی امتیازی خصوصیت کے لیے ہمیشہ بہت محنت کی ہے اور بناؤ سنگار انسانی خواہش کا ایک حصہ رہا ہے جسے وہ سنبھال کر رکھتاہے اور یہ نعمت اس کو قدرت سے عطا ہوتی ہے اسے وہ اپنی کسی خصوصی صلاحیت کی مددسے حاصل نہیں کرتا۔
ایسی قدرتی انسانی خواہشیں کسی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اور وہ ان پہ فخر کرتا ہے ۔یہی فخر کسی انسان کا ایک خصوصی امتیاز بھی ہوتا ہے جس پر وہ فخر کرتا ہے اور اس امتیاز کو وہ ایک قدرتی نعمت سمجھتا ہے ۔ وہ ا پنے اس امتیاز پر نازاں بھی رہتا ہے بشرطیکہ وہ اس امتیازاپنی خصوصیت ثابت کر سکے جو اسے اس کے ہم عصروں پہ ممتاز کرتی ہو ۔ہماری سیاست اسی امتیاز کی کشمکش سے عبارت ہے اور عوام کو کوئی بھی سیاست دان مرعوب کر کے اپنی اس طاقت میں اضافہ کرتا ہے اور یہ اضافہ ہی اس کے مرتبے کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔کامیاب سیاست اسی امتیازی خصوصیت کا ایک نام اور عبارت ہے ۔
یہ سب اپنی جگہ درست لیکن انسان کی ہر خواہش تو پوری نہیں ہوتی بعض خواہشیںاس پر ایک بوجھ بھی بن جاتی ہیں یا حالات کسی خواہش کو کسی پر دشوار کر دیتے ہیں ۔ انھی دنوں ہم نے دیکھا کہ نامور اور خوش مزاج اور خوش پوش انسان اپنی کسی خواہش کا ناگوارنشانہ بھی بن جاتے ہیں اور حالات اس کے بس سے باہر نکل جاتے ہیں یا وہ حالات کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے، اس کی خواہشیں اس کی ایک ایسی ذمے داری بن جاتی ہے جن کو وہ نبھا نہیں سکتا اور مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔یہ وہ خواہشیں بھی ہیں جو کسی انسان سے لپٹ جاتی ہیں اور اس کے وجود کا ایک حصہ بن کر زندہ رہتی ہیں۔کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ خواہشیں اس کا دامن نہیں چھوڑتیں بلکہ بعض اوقات تو یہ الٹی بھی پڑ جاتی ہیں،انسان ان کا شکار بن کر رہ جاتا ہے اور بعض اوقات یہ خواہشیں بے رحم ہو کر کسی انسان کو دبوچ لیتی ہیں ۔
انھی دنوں ہمارے بعض لیڈروں پر سیاہی پھینکی گئی اور جوتے برسائے گئے جن کا ہر کسی نے برا منایا، پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیاسی مخالفت کے اس انداز کو قطعاً غیر سیاسی اور غیر اخلاقی قرار دیا گیا اور یہ حرکت اس کے کرنے والوں پر الٹی پڑ گئی۔اس مذموم حرکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ سیاست ایک خوبصورت عمل کا نام ہے جس میں اس طرح کی اوچھی حرکتیں اس کو داغدار کر دیتی ہیں ۔ سیاسی مخالفت اور ناپسندیدگی اپنی جگہ لیکن اپنا غصہ نکالنے کایہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں اگر کوئی جماعت یا لیڈر آپ کو پسند نہیں تو عوام کو چاہیے کہ الیکشن میں اسے ناپسند کر دیں اور حکمرانی کی دوڑ سے باہر کریں جو کہ ایک جمہوری عمل ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا لیکن ان اوچھی حرکتوں سے ملک بھر کی بدنامی ہوتی ہے اور بطور قوم ہمارا تشخص مجروح ہوتا ہے ۔ ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہماری سیاست میں نہیں ہیں ۔
ان دنوں سینیٹ کے الیکشن کا زرو شور رہا اور اس میں زبردست جوڑ توڑ ہوتے رہے، کل کے سیاسی دوست آج کے سیاسی مخالف اور دشمن کا دشمن آج آپ کا دوست بن گیا۔ سیاست بڑی بے رحم ہے، اس میں بہت کچھ تول کر بولنا چاہیے تا کہ کل کلاں آپ کے بولے کو تولا نہ جا سکے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اپوزیشن اتحاد نے بلوچستان سے چیئر مین نامزد کیا اور اسے کامیاب بھی کرایا۔ موجودہ حکومت کے خلاف پہلی دفعہ اپوزیشن متحد نظر آئی اور کامیاب بھی ہوئی ۔
سیاست میں الیکشن ایک لازمی عمل ہے جس سے چارو نا چار گزرنا پڑتا ہے اور آج جب کچھ لیڈر سخت برہم ہو رہے ہیں اور اس منصب پر فائز ہونے پر مصر ہیں تو ان کے دوست بھی ان کے مخالف ہو گئے ہیں کہ اب آپ دوسروں کو بھی موقع دیں جب کہ آپ نے کئی برس تک اس ممبری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہر کیف سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے اور اب سیاسی مفادات میں نیا کھیل شروع ہو چکا ہے اور کسی نہ کسی سیاسی ادارے کا الیکشن سامنے ہے ۔الیکشن جمہوریت کا ایک خوبصورت مرحلہ ہے جس کے بغیر وہ چل نہیں سکتی اور اس کے اندر وہ حسن پیدا نہیں ہوتا جو جمہوریت کا زیور ہے اور اسے آراستہ کرتا ہے۔
آپ الیکشن کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور یہی الیکشن ہے جو جمہوریت کو آراستہ کرتا ہے اور اس طرح اس کا زیور بن جاتا ہے ۔ جمہوریت جہاں بھی ہو گی وہ الیکشن کے زیور سے آراستہ ہو گی اور اس پر فخر کرے گی۔ آپ الیکشن یعنی اس سیاسی مقابلے کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہی کسی ملک کو آراستہ کرتی ہے اور اس کا زیور بن جاتی ہے۔ یہ زیور جس قدر خوبصورت ہوگا جمہوریت بھی اتنی ہی حسین ہو گی ۔ جمہوریت کسی قوم کا زیور ہے جس کے بغیر اس کے حسن کاتصور بھی ممکن نہیں ۔ جمہوریت ہی کسی انسانی معاشرے کو حسن بخشتی ہے اور اسی جمہوریت کی تلاش میں کوئی انسانی معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔
آگے بڑھنا اور دائیں بائیں پھیلنا کسی انسان کی ایک قدرتی خواہش ہوتی ہے اس کا قد بت تو پیدائشی ہو تا ہے جس میں وہ کوئی اضافہ نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ قدرت سے مل جاتا ہے اسے سنوارنا اور اسے بناؤ سنگار سے سجائے رکھنا انسان کے بس میں ہوتا ہے اور خوبصورت ذہن رکھنے والے انسان اپنے وجود کو آراستہ کرتے رہتے ہیں، بن سنور کر رہنا انسا ن کی جبلی خواہش ہے جو اسے پیدائش کے ساتھ ہی ملتی ہے اور اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا اور ممتاز رکھے ۔ انسانوں نے اسی امتیازی خصوصیت کے لیے ہمیشہ بہت محنت کی ہے اور بناؤ سنگار انسانی خواہش کا ایک حصہ رہا ہے جسے وہ سنبھال کر رکھتاہے اور یہ نعمت اس کو قدرت سے عطا ہوتی ہے اسے وہ اپنی کسی خصوصی صلاحیت کی مددسے حاصل نہیں کرتا۔
ایسی قدرتی انسانی خواہشیں کسی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اور وہ ان پہ فخر کرتا ہے ۔یہی فخر کسی انسان کا ایک خصوصی امتیاز بھی ہوتا ہے جس پر وہ فخر کرتا ہے اور اس امتیاز کو وہ ایک قدرتی نعمت سمجھتا ہے ۔ وہ ا پنے اس امتیاز پر نازاں بھی رہتا ہے بشرطیکہ وہ اس امتیازاپنی خصوصیت ثابت کر سکے جو اسے اس کے ہم عصروں پہ ممتاز کرتی ہو ۔ہماری سیاست اسی امتیاز کی کشمکش سے عبارت ہے اور عوام کو کوئی بھی سیاست دان مرعوب کر کے اپنی اس طاقت میں اضافہ کرتا ہے اور یہ اضافہ ہی اس کے مرتبے کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔کامیاب سیاست اسی امتیازی خصوصیت کا ایک نام اور عبارت ہے ۔
یہ سب اپنی جگہ درست لیکن انسان کی ہر خواہش تو پوری نہیں ہوتی بعض خواہشیںاس پر ایک بوجھ بھی بن جاتی ہیں یا حالات کسی خواہش کو کسی پر دشوار کر دیتے ہیں ۔ انھی دنوں ہم نے دیکھا کہ نامور اور خوش مزاج اور خوش پوش انسان اپنی کسی خواہش کا ناگوارنشانہ بھی بن جاتے ہیں اور حالات اس کے بس سے باہر نکل جاتے ہیں یا وہ حالات کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے، اس کی خواہشیں اس کی ایک ایسی ذمے داری بن جاتی ہے جن کو وہ نبھا نہیں سکتا اور مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔یہ وہ خواہشیں بھی ہیں جو کسی انسان سے لپٹ جاتی ہیں اور اس کے وجود کا ایک حصہ بن کر زندہ رہتی ہیں۔کوئی چاہے یا نہ چاہے یہ خواہشیں اس کا دامن نہیں چھوڑتیں بلکہ بعض اوقات تو یہ الٹی بھی پڑ جاتی ہیں،انسان ان کا شکار بن کر رہ جاتا ہے اور بعض اوقات یہ خواہشیں بے رحم ہو کر کسی انسان کو دبوچ لیتی ہیں ۔
انھی دنوں ہمارے بعض لیڈروں پر سیاہی پھینکی گئی اور جوتے برسائے گئے جن کا ہر کسی نے برا منایا، پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیاسی مخالفت کے اس انداز کو قطعاً غیر سیاسی اور غیر اخلاقی قرار دیا گیا اور یہ حرکت اس کے کرنے والوں پر الٹی پڑ گئی۔اس مذموم حرکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ سیاست ایک خوبصورت عمل کا نام ہے جس میں اس طرح کی اوچھی حرکتیں اس کو داغدار کر دیتی ہیں ۔ سیاسی مخالفت اور ناپسندیدگی اپنی جگہ لیکن اپنا غصہ نکالنے کایہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں اگر کوئی جماعت یا لیڈر آپ کو پسند نہیں تو عوام کو چاہیے کہ الیکشن میں اسے ناپسند کر دیں اور حکمرانی کی دوڑ سے باہر کریں جو کہ ایک جمہوری عمل ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا لیکن ان اوچھی حرکتوں سے ملک بھر کی بدنامی ہوتی ہے اور بطور قوم ہمارا تشخص مجروح ہوتا ہے ۔ ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہماری سیاست میں نہیں ہیں ۔
ان دنوں سینیٹ کے الیکشن کا زرو شور رہا اور اس میں زبردست جوڑ توڑ ہوتے رہے، کل کے سیاسی دوست آج کے سیاسی مخالف اور دشمن کا دشمن آج آپ کا دوست بن گیا۔ سیاست بڑی بے رحم ہے، اس میں بہت کچھ تول کر بولنا چاہیے تا کہ کل کلاں آپ کے بولے کو تولا نہ جا سکے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اپوزیشن اتحاد نے بلوچستان سے چیئر مین نامزد کیا اور اسے کامیاب بھی کرایا۔ موجودہ حکومت کے خلاف پہلی دفعہ اپوزیشن متحد نظر آئی اور کامیاب بھی ہوئی ۔
سیاست میں الیکشن ایک لازمی عمل ہے جس سے چارو نا چار گزرنا پڑتا ہے اور آج جب کچھ لیڈر سخت برہم ہو رہے ہیں اور اس منصب پر فائز ہونے پر مصر ہیں تو ان کے دوست بھی ان کے مخالف ہو گئے ہیں کہ اب آپ دوسروں کو بھی موقع دیں جب کہ آپ نے کئی برس تک اس ممبری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہر کیف سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے اور اب سیاسی مفادات میں نیا کھیل شروع ہو چکا ہے اور کسی نہ کسی سیاسی ادارے کا الیکشن سامنے ہے ۔الیکشن جمہوریت کا ایک خوبصورت مرحلہ ہے جس کے بغیر وہ چل نہیں سکتی اور اس کے اندر وہ حسن پیدا نہیں ہوتا جو جمہوریت کا زیور ہے اور اسے آراستہ کرتا ہے۔
آپ الیکشن کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور یہی الیکشن ہے جو جمہوریت کو آراستہ کرتا ہے اور اس طرح اس کا زیور بن جاتا ہے ۔ جمہوریت جہاں بھی ہو گی وہ الیکشن کے زیور سے آراستہ ہو گی اور اس پر فخر کرے گی۔ آپ الیکشن یعنی اس سیاسی مقابلے کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہی کسی ملک کو آراستہ کرتی ہے اور اس کا زیور بن جاتی ہے۔ یہ زیور جس قدر خوبصورت ہوگا جمہوریت بھی اتنی ہی حسین ہو گی ۔ جمہوریت کسی قوم کا زیور ہے جس کے بغیر اس کے حسن کاتصور بھی ممکن نہیں ۔ جمہوریت ہی کسی انسانی معاشرے کو حسن بخشتی ہے اور اسی جمہوریت کی تلاش میں کوئی انسانی معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔