آواز دو کہاں ہو
انھوں نے ریگل سینما کے قریب پیراماؤنٹ ریڈیو والوں کے پاس بطور مکینک ملازمت کر لی
مصباح سے میری پہلی ملاقات نوابشاہ میں ہوئی تھی، یہ 1968ء کے آخری دنوں کی بات ہے، ہمارے بہنوئی بھائی عبداللہ نے، جو پولیس میں ملازم تھے، لائن پار مریم روڈ پر میرے نام سے سائیکلوں کے اسپیئر پارٹس کی دکان کھولی تھی، میں چونکہ فارغ تھا اس لیے میرا زیادہ وقت وہیں گزرتا تھا، قریب ہی مصباح کا گھر تھا جواپنی سسرال میں رہتے تھے، دکان پر پنکچر لگانے اور مرمت کا دوسرا کام کرنیوالا مکرانی ملازم واجہ درمحمد انھیں یوں جانتا تھا کہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور عجیب اتفاق کہ دونوں رہنے والے تو کراچی کے تھے لیکن بوجوہ وہاں اپنی اپنی سسرال میں رہائش پذیر تھے۔
وہ کبھی کبھی جب انھیں کہیں دورجانا ہوتا، سائیکل کرایہ پر لینے آتے، ایک بار آئے تو انھیں کوئی نصف گھنٹہ انتظار کرنا پڑا کیونکہ سب سائیکلیں کرائے پر گئی ہوئی تھیں، تب ہمارے درمیان رسمی علیک سلیک ہوئی تھی پھر یوں ہوا کہ مسعود گھڑی ساز، جو سوئی سدرن گیس کمپنی کے مقامی افسر کے بھائی تھے ایک دن لوکل بورڈ کے اکاؤنٹنٹ رحمت نور کے حوالے سے میرے پاس آئے اور دکان کے چبوترے پر چھوٹا سا شوکیس اور ایک کرسی رکھ کرکام کرنے کی اجازت مانگی، مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا، وہ فوراً ہی جاکر اپنا سامان لے آئے اورکام شروع کر دیا۔ پروفیسر کامران مقامی گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے اور طلبہ کے ہنگاموں کی وجہ سے خبروں میں ہوا کرتے تھے۔ ان کا بچہ مشنری اسکول میں پڑھتا تھا جو ہماری دکان سے ذرا آگے مریم اسپتال کے کمپاؤنڈ میں تھا، اس کو لینے ایک روز وہ کچھ جلدی آگئے۔
گرمیوں کے دن تھے، انھوں نے کار دکان کے آگے درخت کے سائے میں کھڑی کی اور چھٹی کی گھنٹی بجنے کا انتظار کرنے لگے۔ ہم انھیں نہیں جانتے تھے، مسعود علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ اشعار کے حوالے سے اپنی تحقیق پر بات کر رہے تھے ، پروفیسر کامران بڑی دلچسپی اور توجہ سے ان کی باتیں سنتے رہے، جوں ہی وہ سانس لینے کو رکے انھوں نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا اور انھیں کالج آنے کی دعوت دی، اس کے بعد یہ ہوا کہ مسعود ہر ہفتے طلبہ کو اقبالیات پر لیکچر دیا کرتے تھے۔ ان کی پرمغز اور دلچسپ باتوں نے ہمیں (مجھے اور مصباح کو) دوست بنا دیا۔
وہ پیشے کے اعتبار سے ریڈیو مکینک تھے اور ریلوے اسٹیشن کے قریب لیاقت مارکیٹ میں اسلامیہ ہائی اسکول سے متصل دکان پر کام کرتے تھے۔ ہمیں ان کے بڑی توپ چیز ہونے کا پتہ اس وقت چلا جب ایک دن خفیہ ایجنسیوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے اچانک چھاپہ مار کر انکو دکان سے اٹھالیا اور کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرکے کئی دن تک تفتیش کرتے رہے۔ معلوم ہوا انھوں نے بلوچ رہنما عبد الباقی کو، جو مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے تھے اور پہاڑوں میں روپوش ہوکر ایوب خانی آمریت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے، وائرلیس طرزکی کوئی ایسی ڈیوائس بنا کردی تھی جسکی رینج کافی وسیع تھی اور جسکی مدد سے ریڈیو نشریات جام کرکے اپنے پیغامات نشرکیے جا سکتے تھے تاہم عدم ثبوت کی بنیاد پر ایجنسیوں کو بالآخر انھیں آزاد کرنا پڑا۔ وہ رہا تو ہوگئے لیکن اب ان کا نوابشاہ میں رہنا خطرے سے خالی نہ تھا اس لیے وہ کراچی منتقل ہوگئے۔
یہاں آکر انھوں نے ریگل سینما کے قریب پیراماؤنٹ ریڈیو والوں کے پاس بطور مکینک ملازمت کر لی، رہائش ان کی البتہ ڈرگ کالونی میں جڑواں سینماؤں چاندنی اور شمع کے پاس گلی میں تھی، دو کمروں کا کوارٹر ٹائپ یہ گھر ان کے مرحوم والد کو تحریک پاکستان میں ان کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف میں الاٹ ہوا تھا جس میں ان کے چھوٹے بھائی جو مشین ٹول فیکٹری میں کلرک تھے اور بہن جو پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں پہلے سے رہتے تھے۔ مارچ 1969ء میں شادی کے فوراً بعد میں بھی کراچی آگیا، میرا پہلا پڑاؤ یہی مصباح کا گھر تھا، تینوں بھائی بہن صبح جلدی اپنے اپنے کام پر چلے جاتے جب کہ میں دیر تک پڑا سوتا رہتا، جب اٹھتا تو تیار ہوکر باہر نکلتا، گھرکو تالا لگا کر پہلے قریبی ڈھابہ ٹائپ ہوٹل میں ناشتہ کرتا اور پھر صدر جانیوالی اومنی بس پکڑ کر مصباح کے پاس پہنچتا اور انھیں بتاکر کہیں گھومنے چلا جاتا، اکثر فریئر ہال جایا کرتا جہاں کا پرسکون ماحول مجھے بہت پسند تھا۔
شام کو مصباح کی چھٹی ہوتی تو گھر لوٹنے سے پہلے ہم اوڈین سینما کے پلانٹ انجنیئر ظہور سے ملنے ضرور جاتے جو مصباح کے بہت اچھے دوست تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ مجھے کام کی تلاش ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنے سیٹھ (سینما کے مالک حاجی صاحب) سے بات بھی کر چکے تھے۔ اس روز بھی ہم دونوں ظہور کے پاس بیٹھے چائے پی رہے تھے جب حاجی صاحب ٹہلتے ہوئے وہاں آ نکلے، ظہور نے تعارف کرایا تو انھوں نے مجھے ملازمت کی پیشکش کرتے ہوئے کہا گوادر میں ان کا خشک جھینگے ٹین کے ڈبوں میں پیک کرنے کا پلانٹ ہے اور انھیں وہاں لیبر کی اجرت اور پروڈکشن کا حساب کتاب رکھنے کے لیے آدمی کی ضرورت ہے اور تو سب ٹھیک تھا بس ذرا گوادر جانے سے میں ہچکچا رہا تھا سو میں نے ان سے سوچنے کے لیے دو دن کا وقت مانگا۔
ان کو گئے ابھی بمشکل ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ ظہور صاحب کے ایک اور دوست ان سے ملنے آئے اور چھوٹتے ہی بولے وہ تم نے جس آدمی کی جاب کے لیے کہا تھا اس سے کہو کل بولٹن مارکیٹ جا کر لکشمی بلڈنگ کے سامنے فدوی چیمبر میں میکسویل پروڈکشن کے دفتر میں کمپنی کے مالک امیر صفدر علی خان سے مل لے، میں نے بات کرلی ہے، اس کا کام ہو جائے گا یوں اگلے دن سے میں وہاں ملازم ہوگیا۔ صفدر صاحب نے ملازمت کے ساتھ مجھے لسبیلہ چوک پر رہائش کی سہولت بھی دے رکھی تھی۔
وہیں رہتے ہوئے میں نے اپنی لوکل نیوز ایجنسی اے ایس پی (ایجنسی سندھ پریس) لانچ کی تھی جو کراچی کے تقریباً تمام اخبارات کو اندرون سندھ کی خبریں مہیا کرتی تھی، اس کی مفصل کہانی میں اپنے کسی کالم میں پہلے سنا چکا ہوں۔ میکسویل سے میری وابستگی 1972ء میں بھٹو کے اخبار ہلال پاکستان کے اجراء تک جاری رہی۔ اس وقت تک بھی ہمارا (میرا اور مصباح کا) ایک دوسرے سے رابطہ قائم تھا، میرا صدر جانا ہوتا تو مصباح کے پاس بھی ضرور جاتا، وہ بھی کبھی کبھی ہمارے دفتر تشریف لاتے اور کہتے مرغ چھولے کھانے کو جی چاہ رہا تھا سو آگیا، جلدی سے منگوالو، میں نے جلدی واپس جانا ہے۔ اس زمانے میں لائٹ ہاؤس کے اسٹاپ پر ایک ٹھیلے والے کے مرغ چھولے بہت مشہور تھے پھر ایک دن میں صدر گیا تو پتہ چلا مصباح نے کہیں اور ملازمت کرلی ہے، میں اس کی راہ تکتا رہا کہ آج نہیں تو کل ملنے ضرور آئینگے۔ بہت دنوں بعد ہمارے ایک پڑوسی سے جو اتفاق سے خود بھی ریڈیو مکینک تھے، پتہ چلا کہ مصباح سعودی عرب منتقل ہوگئے ہیں۔
تیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، میں نے کراچی میں اپنے پہلے پڑاؤ (مصباح کے گھر) جا کر بھی ان کا پتہ کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود، پتہ توکیا ملتا گھر ہی نہیں ملا۔ ڈرگ کالونی کے شاہ فیصل کالونی بننے کے بعد اس کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ مسعود صاحب بھی کراچی میں آبسے تھے اور بلدیہ کے علاقے میں کہیں رہتے تھے، ایک بار پریس کلب سے آتے ہوئے ان سے سر راہ ملاقات ہوگئی تھی، میں انھیں اصرارکر کے گھر بھی لے آیا تھا پھر ہم لوگ انکا وعدہ وفا ہونے کا انتظار ہی کرتے رہے کہ وہ کسی دن بچوں کے ساتھ ضرور آئینگے۔ اصل میں کراچی کی مشینی زندگی نے ہم سے وہ بہت سے انسانی اوصاف چھین لیے ہیں جوکبھی ہماری پہچان ہوا کرتے تھے، اب کسی کو آواز بھی دو تو وہ اس تک پہنچنے کے بجائے دورکہیں خلاؤں میں گم ہوجاتی ہے ۔