اداروں کااحترام
قوم اب اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ احتساب کے نام پر کیاکچھ ہو رہا ہے
جب انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے سب سے اہم منصب اور مسند پر فائز شخص اپنے ہی فیصلوں کی عظمت کے لیے قسمیں کھا کر قوم کو یقین دلارہا ہوکہ اُس نے یہ سارے فیصلے قانون اورانصاف کے اعلیٰ معیارکو بنیاد بناکر کیے ہیں تو اُن فیصلوں پر شکوک و شبہات کے سائے ویسے ہی منڈلانے لگتے ہیں۔
جب عدلیہ کے 17 معزز ججوں میں سے صرف 5ججوں سے سارے فیصلے کروائے جارہے ہوں اور باقی 12ججوں کے ناموں اورکاموں سے کوئی واقف ہی نہ ہو تو عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال تو اُٹھیں گے۔ جب عدلیہ برسوں سے زیرالتواء اپنے ہزاروں کیسوں کوسننے کی بجائے سارا وقت صرف چند سیاسی مقدمات نمٹانے پر خرچ کررہی ہوتو اُس کی نیک نیتی پراعتراضات توکیے جائیں گے ہی ۔ جب عدلیہ پاناما پیپرز میں کسی ایک کیس کو بھی قابل سماعت نہیں سمجھ رہی ہو اور صرف نواز شریف ہی کو تختہ مشق بنا رہی ہو تو پھر انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے، زریں اُصولوں پر سوالات تو اُبھریں گے۔ جب عدلیہ اپنی مرضی و منشاء مسلط کرکے نیب اور الیکشن کمیشن سمیت دوسرے اداروں کو بھی اپنی اطاعت اور تابعداری پر مجبور کر رہی تو پھر اُس کے غیر جانبدار ہونے اور غیر سیاسی ہونے پر شک تو کیا جائے گا۔
ہو سکتا ہے انصاف فراہم کرنے والے ہمارے موجودہ معزز منصفیںاپنی دانست میں سارے فیصلے انصاف کے مقررہ اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کررہے ہوں لیکن جب وزارت عظمیٰ کے اتنے بڑے اور اہم عہدے پر فائز شخص کوصرف غیر ملکی اقامہ رکھنے پرفارغ کردیا جائے تواُس پر اعتراضات کا کیا جانا ایک لازمی امر ہے۔ ہمارے یہاں الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں غلط بیانی کی ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی جنھیں اگر اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرکے کنگھالاجائے توساری پارلیمنٹ ہی نا اہل ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں342 ارکان اسمبلی سے صرف ایک شخص کو نااہل قرار دیاجانا قبول نہیں۔
ویسے بھی معاملہ جب پاناما کیس کا ہو اور فیصلہ اقامہ پر دیا جائے تو ایسے فیصلوں سے عدلیہ کی عزت پر حرف توآئے گا۔ پھر عدلیہ اپنے اِس فیصلے کو قابل قبول بنانے کے لیے ریاست کے کسی دوسرے ادارے پر دباؤ ڈال کر اُس کے ذریعے کوئی دوسرا فیصلہ کروانے کوکوششیں کرے تو اُس کی نیک نیتی اور غیر جانبداری پر شکوک تو پیداہونگے۔ہم سب جانتے ہیں کہ آئین کی شق نمبر 62 اور 63 پر کوئی بھی شخص پورا نہیں اُتر تا۔ خود عدلیہ کے بہت سے ججوں کو اگر اِسی شق کے تحت تولا جائے تو شاید ہی کوئی محفوظ رہ پائے گا۔
الیکشن کمیشن کے گوشوارے ہوں یا انکم ٹیکس کے ہمارے نوے فیصد لوگ اِس کے اندراجات درست اور صحیح طور پر نہیں کیا کرتے۔اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر عدلیہ اقامہ پر نااہلی کا فیصلہ دینے کی بجائے کرپشن کے کسی الزام کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرتی تو شاید پھر میاں صاحب کے بیانیے کو ہمارے عوام کی جانب سے اتنی پذیرائی نہیں ملتی۔اب عدلیہ لاکھ جتن کر لے اپنے اُس کمزور فیصلے کومضبوط اور با وزن بنانے کا جو نقصان اُس کی ساکھ کو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے ذہین اور قابل ماہرین کے نظر میں بھی یہ فیصلہ ہماری عدلیہ کی تاریخ کا ایک بہت ہی کمزور فیصلہ ہے۔ اِس فیصلے سے اُس کی تعظیم اور توقیر میں اضافے کی بجائے کچھ کمی ہی واقع ہوئی ہے۔
عدلیہ نے پاناما کیس میںفیصلہ دینے سے پہلے اُس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک چھ رکنی جے آئی ٹی بھی بنائی تھی۔ اُس ٹیم کے ممبران کے انتخاب کے لیے بھی اُس نے خود اپنی پسند کے چند نام تجویزکیے تھے۔اُس جے آئی ٹی نے دس جلدوں پر مشتمل اپنی تحقیقاتی ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی۔اُس رپورٹ کے بارے میں بھی بہت سے قیاس آرائیاں کی گئیں، مگر اُن تمام جلدوں میںسے اب تک کچھ بھی سامنے نہیں آسکا۔28 جولائی 2017ء کے ہماری عدلیہ کے سنہری فیصلے سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ اُس تحقیقاتی رپورٹ میں سے اگر کچھ نچوڑ نکلاتو وہ بھی صرف ایک اقامہ نکلا۔اُس اقامے کو بنیاد بناکر اتنا بڑا فیصلہ کردیا گیا۔ عدلیہ کے لیے بہت بہتر ہوتا اگر اِس فیصلے تو اُس وقت تک موخر کردیا جاتا جب تک مبینہ کرپشن سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرلیاجاتا۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ہمار ی سپریم کورٹ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کوئی اورکام نہیں کر رہی۔صرف میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے لوگوں سے متعلق کیسوں کو نمٹا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی رجسٹری میں ایسے بہت سے کیسز بھی ہیں جنھیں کئی سال سے سنا ہی نہیں گیا۔کئی مقدمات تو ایسے ہیں جن کے ملزمان نے دس دس سال قید بھی کاٹ لی ہے مگر اُن کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔ موجودہ حکومت کے آئینی مدت اب ختم ہونے والی ہے۔ دوماہ بعد نئے الیکشن ہونے والے ہیں۔میاں نواز شریف کے خلاف نیب عدالت میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی چھ ماہ کی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے۔اب اُس میں دو ماہ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ لگتا ہے یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ الیکشن سے ٹھیک چند روز قبل اِن مقدمات کا فیصلہ بھی کردیا جائے گا۔اُنہیں اتنی مہلت بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ ووٹنگ سے قبل عوام کے سامنے جاکر اپنی صفائی پیش کرسکیں۔
قوم اب اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ احتساب کے نام پر کیاکچھ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں نااہل ہونے والے دونوں اشخاص میں سے صرف ایک شخص کو روزانہ احتساب عدالت کے روبرو طلب کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے شخص یعنی جہانگیر ترین کو صرف نااہل قراردیکر چھوڑ دیا گیا ہے۔اُن کے خلاف کسی قسم کی کوئی تحقیقات بھی نہیں ہورہی ہیں۔
وہ نااہل ہوکر بھی پارٹی کے فیصلوں میں ڈی فیکٹو جنرل سیکریٹری کے طور پر برابر شریک ہورہے ہیںاور کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔اُنہوں نے لودھراں کے الیکشن میں اپنے فرزند ارجمندکو پارٹی کا ٹکٹ دلواکر بلے کے نشان پر الیکشن بھی لڑوا لیا لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، جب کہ میاں نواز شریف کے نامزد کردہ سینیٹ کے تمام امیدواراپنی پارٹی کے نام اور نشان دونوں ہی سے محروم کردیے گئے۔صوبہ بلوچستان میں کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہی۔ پیسوں کے بل بوتے پر لوگوں کو خریدا جاتا رہا اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ نہ کسی الیکشن کمیشن نے خود نوٹس لیا اور نہ کسی منصف نے سوموٹو۔ میڈیا کے شور کرنے پر الیکشن کمیشن نے بڑی بے اعتنائی اور بے دلی سے ایکشن لیتے ہوئے اعتراض کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو طلب کرکے بظاہر اپنا فرض پورا کردیا۔خود خان صاحب شروع شروع میں اِس مبینہ ہارس ٹریڈنگ پر بڑا شور کرتے رہے لیکن جب کارروائی کا وقت آیا تو وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔
جوڑ توڑ اور مفاہمت کے سیاست کے سب سے بڑے علمبردار آصف زرداری نے سینیٹ کے اِس الیکشن میں اپنی کارکردگی کے خوب جوہر دکھائے۔آنے والے ا نتخابات میں بھی وہ اپنی اِسی صلاحیت اور قابلیت کو بھر پور طریقے سے آزمائیں گے۔سینیٹ کا الیکشن تو اُنہوں نے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر کھیلا ہے۔مفاہمت کی سیاست کے وہ واحد اِس ملک میں سب سے بڑے معروف کھلاڑی ہیں۔ کوئی دوسراشخص اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سیاسی پارٹیوں اورلیڈروں سے تو وہ ایسا کرنے میں پہلے ہی ماہر تصورکیے جاتے رہے ہیں لیکن اِس بار اُنہوں نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اِس ڈیل میں شامل کرلیا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیوں کے بعد بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں قابل قبول بنا لینا اُن کی اِن اعلیٰ صفت خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔میاں رضاربانی کو بطور چیئرمین سینیٹ نامزد نہ کرنا بھی اُن کی اِسی خفیہ مصالحت اور مفاہمت کو ظاہر کرتا ہے۔مذکورہ بالا بیان کردہ تمام حقائق اگلے الیکشن کے نتائج کو ابھی سے جاننے اور سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔
جب عدلیہ کے 17 معزز ججوں میں سے صرف 5ججوں سے سارے فیصلے کروائے جارہے ہوں اور باقی 12ججوں کے ناموں اورکاموں سے کوئی واقف ہی نہ ہو تو عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال تو اُٹھیں گے۔ جب عدلیہ برسوں سے زیرالتواء اپنے ہزاروں کیسوں کوسننے کی بجائے سارا وقت صرف چند سیاسی مقدمات نمٹانے پر خرچ کررہی ہوتو اُس کی نیک نیتی پراعتراضات توکیے جائیں گے ہی ۔ جب عدلیہ پاناما پیپرز میں کسی ایک کیس کو بھی قابل سماعت نہیں سمجھ رہی ہو اور صرف نواز شریف ہی کو تختہ مشق بنا رہی ہو تو پھر انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے، زریں اُصولوں پر سوالات تو اُبھریں گے۔ جب عدلیہ اپنی مرضی و منشاء مسلط کرکے نیب اور الیکشن کمیشن سمیت دوسرے اداروں کو بھی اپنی اطاعت اور تابعداری پر مجبور کر رہی تو پھر اُس کے غیر جانبدار ہونے اور غیر سیاسی ہونے پر شک تو کیا جائے گا۔
ہو سکتا ہے انصاف فراہم کرنے والے ہمارے موجودہ معزز منصفیںاپنی دانست میں سارے فیصلے انصاف کے مقررہ اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کررہے ہوں لیکن جب وزارت عظمیٰ کے اتنے بڑے اور اہم عہدے پر فائز شخص کوصرف غیر ملکی اقامہ رکھنے پرفارغ کردیا جائے تواُس پر اعتراضات کا کیا جانا ایک لازمی امر ہے۔ ہمارے یہاں الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں غلط بیانی کی ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی جنھیں اگر اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرکے کنگھالاجائے توساری پارلیمنٹ ہی نا اہل ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں342 ارکان اسمبلی سے صرف ایک شخص کو نااہل قرار دیاجانا قبول نہیں۔
ویسے بھی معاملہ جب پاناما کیس کا ہو اور فیصلہ اقامہ پر دیا جائے تو ایسے فیصلوں سے عدلیہ کی عزت پر حرف توآئے گا۔ پھر عدلیہ اپنے اِس فیصلے کو قابل قبول بنانے کے لیے ریاست کے کسی دوسرے ادارے پر دباؤ ڈال کر اُس کے ذریعے کوئی دوسرا فیصلہ کروانے کوکوششیں کرے تو اُس کی نیک نیتی اور غیر جانبداری پر شکوک تو پیداہونگے۔ہم سب جانتے ہیں کہ آئین کی شق نمبر 62 اور 63 پر کوئی بھی شخص پورا نہیں اُتر تا۔ خود عدلیہ کے بہت سے ججوں کو اگر اِسی شق کے تحت تولا جائے تو شاید ہی کوئی محفوظ رہ پائے گا۔
الیکشن کمیشن کے گوشوارے ہوں یا انکم ٹیکس کے ہمارے نوے فیصد لوگ اِس کے اندراجات درست اور صحیح طور پر نہیں کیا کرتے۔اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر عدلیہ اقامہ پر نااہلی کا فیصلہ دینے کی بجائے کرپشن کے کسی الزام کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرتی تو شاید پھر میاں صاحب کے بیانیے کو ہمارے عوام کی جانب سے اتنی پذیرائی نہیں ملتی۔اب عدلیہ لاکھ جتن کر لے اپنے اُس کمزور فیصلے کومضبوط اور با وزن بنانے کا جو نقصان اُس کی ساکھ کو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے ذہین اور قابل ماہرین کے نظر میں بھی یہ فیصلہ ہماری عدلیہ کی تاریخ کا ایک بہت ہی کمزور فیصلہ ہے۔ اِس فیصلے سے اُس کی تعظیم اور توقیر میں اضافے کی بجائے کچھ کمی ہی واقع ہوئی ہے۔
عدلیہ نے پاناما کیس میںفیصلہ دینے سے پہلے اُس معاملے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک چھ رکنی جے آئی ٹی بھی بنائی تھی۔ اُس ٹیم کے ممبران کے انتخاب کے لیے بھی اُس نے خود اپنی پسند کے چند نام تجویزکیے تھے۔اُس جے آئی ٹی نے دس جلدوں پر مشتمل اپنی تحقیقاتی ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی۔اُس رپورٹ کے بارے میں بھی بہت سے قیاس آرائیاں کی گئیں، مگر اُن تمام جلدوں میںسے اب تک کچھ بھی سامنے نہیں آسکا۔28 جولائی 2017ء کے ہماری عدلیہ کے سنہری فیصلے سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ اُس تحقیقاتی رپورٹ میں سے اگر کچھ نچوڑ نکلاتو وہ بھی صرف ایک اقامہ نکلا۔اُس اقامے کو بنیاد بناکر اتنا بڑا فیصلہ کردیا گیا۔ عدلیہ کے لیے بہت بہتر ہوتا اگر اِس فیصلے تو اُس وقت تک موخر کردیا جاتا جب تک مبینہ کرپشن سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرلیاجاتا۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ہمار ی سپریم کورٹ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کوئی اورکام نہیں کر رہی۔صرف میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے لوگوں سے متعلق کیسوں کو نمٹا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی رجسٹری میں ایسے بہت سے کیسز بھی ہیں جنھیں کئی سال سے سنا ہی نہیں گیا۔کئی مقدمات تو ایسے ہیں جن کے ملزمان نے دس دس سال قید بھی کاٹ لی ہے مگر اُن کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔ موجودہ حکومت کے آئینی مدت اب ختم ہونے والی ہے۔ دوماہ بعد نئے الیکشن ہونے والے ہیں۔میاں نواز شریف کے خلاف نیب عدالت میں کئی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی چھ ماہ کی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے۔اب اُس میں دو ماہ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ لگتا ہے یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ الیکشن سے ٹھیک چند روز قبل اِن مقدمات کا فیصلہ بھی کردیا جائے گا۔اُنہیں اتنی مہلت بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ ووٹنگ سے قبل عوام کے سامنے جاکر اپنی صفائی پیش کرسکیں۔
قوم اب اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ احتساب کے نام پر کیاکچھ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں نااہل ہونے والے دونوں اشخاص میں سے صرف ایک شخص کو روزانہ احتساب عدالت کے روبرو طلب کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے شخص یعنی جہانگیر ترین کو صرف نااہل قراردیکر چھوڑ دیا گیا ہے۔اُن کے خلاف کسی قسم کی کوئی تحقیقات بھی نہیں ہورہی ہیں۔
وہ نااہل ہوکر بھی پارٹی کے فیصلوں میں ڈی فیکٹو جنرل سیکریٹری کے طور پر برابر شریک ہورہے ہیںاور کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔اُنہوں نے لودھراں کے الیکشن میں اپنے فرزند ارجمندکو پارٹی کا ٹکٹ دلواکر بلے کے نشان پر الیکشن بھی لڑوا لیا لیکن کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، جب کہ میاں نواز شریف کے نامزد کردہ سینیٹ کے تمام امیدواراپنی پارٹی کے نام اور نشان دونوں ہی سے محروم کردیے گئے۔صوبہ بلوچستان میں کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہی۔ پیسوں کے بل بوتے پر لوگوں کو خریدا جاتا رہا اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ نہ کسی الیکشن کمیشن نے خود نوٹس لیا اور نہ کسی منصف نے سوموٹو۔ میڈیا کے شور کرنے پر الیکشن کمیشن نے بڑی بے اعتنائی اور بے دلی سے ایکشن لیتے ہوئے اعتراض کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو طلب کرکے بظاہر اپنا فرض پورا کردیا۔خود خان صاحب شروع شروع میں اِس مبینہ ہارس ٹریڈنگ پر بڑا شور کرتے رہے لیکن جب کارروائی کا وقت آیا تو وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔
جوڑ توڑ اور مفاہمت کے سیاست کے سب سے بڑے علمبردار آصف زرداری نے سینیٹ کے اِس الیکشن میں اپنی کارکردگی کے خوب جوہر دکھائے۔آنے والے ا نتخابات میں بھی وہ اپنی اِسی صلاحیت اور قابلیت کو بھر پور طریقے سے آزمائیں گے۔سینیٹ کا الیکشن تو اُنہوں نے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر کھیلا ہے۔مفاہمت کی سیاست کے وہ واحد اِس ملک میں سب سے بڑے معروف کھلاڑی ہیں۔ کوئی دوسراشخص اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سیاسی پارٹیوں اورلیڈروں سے تو وہ ایسا کرنے میں پہلے ہی ماہر تصورکیے جاتے رہے ہیں لیکن اِس بار اُنہوں نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اِس ڈیل میں شامل کرلیا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیوں کے بعد بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں قابل قبول بنا لینا اُن کی اِن اعلیٰ صفت خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔میاں رضاربانی کو بطور چیئرمین سینیٹ نامزد نہ کرنا بھی اُن کی اِسی خفیہ مصالحت اور مفاہمت کو ظاہر کرتا ہے۔مذکورہ بالا بیان کردہ تمام حقائق اگلے الیکشن کے نتائج کو ابھی سے جاننے اور سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔