محض وظیفۂ لب
موسموں کی تبدیلی تخلیق کائنات کے وقت سے جاری ہے اور یہ خدا کی تخلیقی مصلحت کا حصہ ہے
پی آئی اے، قومی ایئرلائن، ایک زمانے میں لاجواب لوگوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور اپنے حسن کارکردگی کے باعث واقعی لاجواب بھی مگر سیاستدانوں اور انتظامی عہدیداروں کی کینہ پروری کے باعث ادارے میں غیر ضروری افراد کو اہم اور منافع بخش عہدوں پر اس کثرت سے تقررکیا گیا کہ ادارہ پاکستان کے لیے کمائی کرنے کے بجائے اربوں کے نقصان میں چلنے لگا اور آج بھی ادارہ اربوں روپے کے خسارے میں چل رہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر ضروری عملے کو بالاقساط فارغ کیا جاتا اور ایسے منصوبے بنائے جاتے جو پی آئی اے کے لیے آمدنی کا باعث ہوتے مگر جو بھی حل و عقد کے منصب پر فائز ہیں ان کی سمجھ نے کسی اور طرح کام کیا۔ انھوں نے آمدنی کو بڑھانے کے لیے ''روشن خیالی'' کو ضروری خیال کیا اور ایسی روشن خیالی جسے صرف پاکستانی ایئر لائن کی انتظامیہ روشن خیالی سمجھتی ہے ورنہ جو کچھ ہوا وہ فضائی اڑان کے ضوابط اور سول ایوی ایشن کے قانون کے قطعی خلاف ہے اور اس پر ان سب لوگوں سے جواب طلب کیا جانا چاہیے جنھوں نے اس روشن خیالی کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔
خبر یہ ہے کہ گزشتہ بدھ کو کراچی سے لاہور جانے والی پرواز میں موسم بہار کی آمد پر جشن منانے کا اہتمام کیا گیا۔ خواتین مسافروں کو فضائی میزبانوں نے گیندے کے گجرے اورکنگن پیش کیے، مرد حضرات کو تحفے تقسیم کیے اور اس عمل کے دوران وہ رقص فرماتی رہیں۔ ان کو رقص کناں دیکھ کر چند منچلے مسافر بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے بھی تھرکنا شروع کردیا۔ ''خوش ذوق'' لوگوں نے موبائل پر گانے کھول دیے جو فضائی پرواز کے دوران ممنوع ہوتے ہیں مگر موسم بہار کی آمد پر ہر ناجائز چیز جائز قرار دے دی گئی۔
بعض مسافر جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سفر کررہے تھے اس صورتحال سے بڑے پریشان ہوئے اور یہ ''بیہودگی'' ان کی بد مزگی کا باعث بنی مگر رنگا رنگی اور مستی کے اس ماحول میں چند دنیا بیزار لوگوں کی بد مزگی کی کون پرواہ کرتا۔ معلوم ہوا ہے کہ موسم بہار کا یہ استقبال ایک ماہ تک جاری رہے گا۔ یہ بھی خبر ہے کہ پی آئی اے کے ترجمان نے موسم بہار کی آمد پر متعدد پروگراموں کے ترتیب دیے جانے کا مژدہ سنایا ہے اور توقع ہے کہ موسم بہار کا استقبال اسی طرح ہوگا جس کا افتتاحیہ بدھ کے دن ہوا ۔
موسموں کی تبدیلی تخلیق کائنات کے وقت سے جاری ہے اور یہ خدا کی تخلیقی مصلحت کا حصہ ہے، اس کی ضرورت ہے، فوائد ہیں اور اہمیت ہے جو قدرت نے خود مقررکی ہے اور یہ ہماری ضروریات کی تکمیل کے لیے خدا کی عنایت ہے۔
مگر مشرکانہ معاشروں نے ان تبدیلیوں کو دیوی دیوتاؤں سے منسوب کر دیا ہے اور دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ ان مواقعے پر جشن مناتے ہیں۔ یونانی دیومالا کے مطابق پاتال کا دیوتا زمین کی دیوی کی بیٹی کو اغوا کرکے لے گیا، دیوی نے دیوتاؤں سے شکایت کی مگر پاتال کا دیوتا اسے پاتال میں لے جاکر اس پر قابض ہو چکا تھا اور وہاں سے اس کی واپسی بغیر پاتال کے دیوتا کی مرضی کے ممکن نہ رہی۔ چنانچہ معاہدہ یہ ہوا کہ لڑکی چند ماہ اپنے ناجائز شوہر کے ساتھ پاتال میں رہے گی اور چند ماہ کے لیے وہ اپنی ماں کے پاس آ جایا کرے گی۔ اب جب وہ اپنی ماں موسم کی دیوی کے پاس آجاتی ہے تو بہار آجاتی ہے اور جب پھر وہ اپنے مبینہ سسرال پاتال میں چلی جاتی ہے تو اس کی ماں دیوانہ وار اس کی تلاش میں اب بھی نکل کھڑی ہوتی ہے اور یوں دنیا میں خزاں کا راج ہوجاتا ہے۔
کچھ ایسی ہی کہانی ہندو دیومالا میں بھی ہے اور وہ لوگ بھی موسمی تبدیلیوں کی اپنے دیوتاؤں کی مہربانی و قہرمانی قرار دے کر جشن اور سوگ کی صورت میں مناتے ہیں۔
پی آئی اے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی ایئر لائن نے جس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی شعائر کے مطابق عمل پیرا ہوکر اپنے کارکنوں کے ذریعے مسافروں کو ایسی سہولتیں فراہم کریں کہ وہ ان کی بہتر خدمات کے بھی قائل ہوں اور انھیں اسلامی اخلاق کے مطابق سمجھ کر ان کی تحسین و توصیف کرسکیں۔
مگر ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم ہر وہ طریقہ استعمال ضرور کریںگے جو مشرکانہ معاشروں کی من گھڑت داستانیں ہیں جو ان کے مذہب کا حصہ بن چکی ہیں اور خزاں و بہار کی آمد دیوتاؤں کی باہمی چپقلش اور کمزور دیوی کی لاچاری اور طاقتور یکا وتنہا دیوتا کی دیدہ دلیری کے آگے سارے دیوتاؤں کی بے چارگی کی علامت قرار دی جا چکی ہیں۔
کیا پی آئی اے کے ارباب حل و عقد نے کبھی سوچا کہ بہا کی آمد پر اس طرح خوش ہونا اور رقص فرماکر اپنے کسٹمرز کو خوش کرنا اسلامی ضابطۂ اخلاق کی کون سی دفعہ کے تحت جائز ہے۔
کبھی سوچا کہ یہ مشرکانہ نظریات جو صدیوں سے ان کے مذہب کا حصہ تھے مگر اب ان کا کلچر اور ثقافت بن چکے ہیں اور آپ اس ثقافت کے کب سے اور کیوں امین بن بیٹھے ہیں۔
پچھلی قومیں جب آسمان پر بادل دیکھتی اور بارش کی ہوائیں چلتیں تو خوش ہوتے جشن مناتے اور یہی بادل ان پر پتھر برساکر انھیں ہلاک کردیتے تھے۔
ہم جب آمد بہار کا جشن مناتے ہیںتو وہ اﷲ رب العالمین کی مصلحت کی پابند ہے اور ہم نہیں جانتے کہ آنے والی بہار ہمارے لیے خوشی اور خوش گواری لائے گی یا ہمارے لیے آزمائش کا باعث بنے گی۔ اب عذاب نہیں آیا کرتے مگر اب بھی انبیاؑء کی تعلیم کو نظر انداز کرکے مشرکانہ تہذیبوں کا اتباع کرنے پر سزا کا امکان موجود ہے۔
مگر روشن خیالی کی اس یلغار میں قدامت پسندی کی یہ باتیں بھی شاید پی آئی اے کے ارباب حل و عقد کو گراں گزرے گی اور وہ ان باتوں کو ازکار رفتہ شخص کو فضول گوئی قرار دے کر نظر انداز کردیںگے۔
کیا حکومتی حلقوں میں کسی کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دلچسپی نہیں رہی کہ وہ پی آئی اے کے ارباب حل و عقد سے یہ معلوم کرسکے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایئر لائن کا یہ رویہ کیا معنی رکھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اب من حیثیت القوم ہیں اسلام سے دلچسپی نہیں بس وظیفہ لب کی حد تک کوئی ہرج بھی نہیں۔