سرمایہ داری بے نقاب ہوگئی
دنیا میں سب سے زیادہ نومولود بچے جن کی عمریں ایک دن سے 30 دن تک کی ہوتی ہے
عالمی سرمایہ دارنہ نظام، مسلسل ناکامی اورانحطاط پذیری کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ یہ عمل 1997ء اور 2008ء میں مارکیٹ اکانومی کے انہدام، سوویت یونین کے انہدام سے زیادہ خطرناک اور ہیبت ناک ہے۔ پہلے چین کی جی ڈی پی شرح نمو11 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد پرآگئی، جرمنی کی شرح نمو 8 فیصد سے گھٹ کر 2 اور جاپان کی منفی ایک پر آگئی۔ یہ تو رہا سرمایہ دارانہ نظام کی جی ڈی پی کا گورکھ دھندا۔اب رہی شکست وریخت کی بد ترین تاریخ اورکمیونسٹ نظریہ و مزدور جدوجہد پھر سے ایک بار ابھرنا شروع ہوگئی ہے۔
امریکا میں ایک جانب سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرزکا صدارتی امیدوارکے طور پہ امریکا میں مقبول ہونا تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا 35 فیصد پر آجانا ہے۔ اسی طرح ایک جانب برطانیہ کے وزیراعظم تھریسا مے کی مقبولیت کا گراف تنزلی کا شکار ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف لیبر پارٹی کے رہنما جیفری کوبورن کی مقبولیت میں اضافہ ہے۔ حالیہ اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس میں منتقل کرنے پر جیرمی کوبورن کی مخالفت اور امریکا کے اسکولوں کے استادوں اور طلبہ کی جا نب سے 17مارچ کا ''واک آؤٹ'' یعنی کلاسوں کا احتجاجی بائیکاٹ کا اعلان ہے۔گزشتہ ماہ امریکا میں 17اسکولوں کے طلبہ کا گولیوں سے قتل ہونے کے بعد کانگریس میں اسلحہ رکھنے پر پابندی کے خلاف بل پیش کرنے پر صرف 36 ووٹ ملے جب کہ اسلحہ رکھنے کے حق میں 71 ووٹ پڑے۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک طلبہ احتجاج کرتے رہے،اب ہڑتال کرنے جارہے ہیں۔
پاکستان میں اس سے بھی زیادہ گھناؤنے انداز سے سرمایہ داری بے نقاب ہوگئی ہے۔ایک جانب ہر سال 12 ہزار افراد بون ٹرانس پلانٹ کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں، جن کے لیے کم ازکم 2 ہزارفزیشن اور200 ٹرانس پلانٹ کے مراکز ہونے چاہیے جب کہ فزیشن صرف 11ََِاور ٹرانس پلانٹ کے مراکز صرف 4 ہیں۔ پاکستان میں گردے، جگر اور پھیپھڑوں کے ٹرانس پلانٹ ہوسکتے ہیں، لیکن اس کی سہولت کاری اور اخراجات کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ نومولود بچے جن کی عمریں ایک دن سے 30 دن تک کی ہوتی ہے، ہر 22 بچوں میں سے ایک کی موت ہوجاتی ہے۔ یہ تعداد دنیا بھر ممالک میں سے پاکستان میں زیادہ ہے ۔اس سے بہتر صورتحال افغانستان، نائیجیریا اور مغربی صحارا کی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ غذائی قلت اور بیماری کے شکار بچے تھرپارکر، نگر پارکر اور مٹھی کے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ 12سال سے 16سال کی نوعمر لڑکیوں کی زیادتی تھر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے جہاں پینے کا شفاف پانی میسر نہیں۔ غذا ئی ملاوٹ بھی سب سے زیادہ پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ لڑکیوں کا اغوا، ریپ اور پھر قتل کرنے کے واقعات بھی سب سے زیادہ پا کستان میں ہورہے ہیں۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ایسی حیران کن بات نظر آتی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن مختلف اداروں میں تو ہوتی ہی رہی ہے، مگر اب سینیٹ میں سینیٹروں کی خریدوفروخت تو عوام کے سامنے سارے بورژوا رہنما بے نقاب ہوچکے ہیں۔ بورژوا نظام میں اسٹیبلشمنٹ ہو یا سول حکمران، سب ایک ہی حمام میں ننگے کھڑے ہیں۔کبھی سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے بھائی کامران کیانی 10 ارب روپے لے کر فرار ہو جا تے ہیں توکبھی اربوں رو پے کا الزام ایک بلڈر پر لگتا ہے۔کبھی آصف زرداری، جہانگیرترین اور نوازشریف پر لگتا ہے۔ کسی کا سوئس بینک،کسی پر سرے محل اورکسی کی لندن میں جائیداد پرکرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف عوام بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ امریکا ہم پر سیکڑوں ڈرون برساچکا ہے۔ اس کے باوجود ان ڈرونزکو نہیں مارگرایا گیا، جب کہ ہندوستان کا مارگرایا گیا۔
یہ بالکل درست مقولہ ہے کہ ''گڑکھائیں اورگلگلوں سے پرہیز'' عمران خان کہتے ہیں کہ ''ہمارے لوگ سینیٹ کے انتخابات میں بکے ہیں'' فاروق ستار فرماتے ہیں کہ ہما رے لوگوں کو پی پی پی نے خریدا،کوئی کہتا ہے کہ چارچارکروڑ میں،کوئی کہتا ہے کہ پانچ پانچ کروڑ میں بکے، کوئی کہتا ہے کہ چالیس کروڑ میں۔ ادھر لوگ بھوک، افلاس، بیماری اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف دفاعی بجٹ 930 ارب روپے کا مختص کیا گیا ہے۔
ایک جانب 18 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں تو دوسری جانب تقریبا 100 حکمران طبقات کے مقدمات بھگتائے جارہے ہیں۔ ان واقعات اور اقدامات پر حیران اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ یہ تمام خرابیاں، لوٹ مار، مفاد پرستی اور موقع پرستی سرمایہ دارانہ نظام میں ناگزیر ہے۔کہیں کم کہیں زیادہ۔کہیں درپردہ اورکہیں کھلے عام۔ چونکہ ریاست خود جبرکا ادارہ ہے اور صاحب جائیداد طبقات کا محافظ ہے۔ وہ کبھی بھی عوام کی بھلا ئی پر غور نہیں کرسکتا ہے۔
ہاں مگر جب یہ نظام ڈانواں ڈول ہونے لگتا ہے تو قومی ریاستوں کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دیا جاتا ہے، ورنہ عوام اگر بھوک سے مرجائیں تو پروا کون کرے گا؟ پیرس کمیون 70 دن اور روس کا سوشلسٹ انقلاب 70 سال قائم رہا لیکن کوئی بھو ک سے مرا اور نہ کو ئی لا علاج رہا۔ ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ اگر سوشلسٹ نظام سے فوری طور پرکمیونسٹ سماج کے قیام کی جا نب تیز تر پیش رفت کی جاتی توسوویت یونین کا انہدام نہ ہوتا۔ بہرحال دنیا بھرکے عوام جس جرات اور بہادری سے کمیونسٹ نظام کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچیں گے۔ پاکستان میں نابیناافراد، معذور افراد، خواجہ سراء اور پیرا میڈیکل اسٹاف جس جرات مندی سے لڑرہے ہیں، اس کی مثال کم ملتی ہیں۔
سندھ میں ایک جانب سینیٹروں کی خریدوفروخت ہورہی ہے تو دوسری جانب پیرا میڈیکل اسٹاف کے کارکنان کے مطالبات ماننے کے بجائے ان پر بدترین تشدد کیا جارہا ہے۔ ان حکمرانوں کے ظلم وجبرکا جواب ایک کمیونسٹ انقلاب میں ہی مضمر ہے۔
امریکا میں ایک جانب سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرزکا صدارتی امیدوارکے طور پہ امریکا میں مقبول ہونا تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا 35 فیصد پر آجانا ہے۔ اسی طرح ایک جانب برطانیہ کے وزیراعظم تھریسا مے کی مقبولیت کا گراف تنزلی کا شکار ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف لیبر پارٹی کے رہنما جیفری کوبورن کی مقبولیت میں اضافہ ہے۔ حالیہ اسرائیل کا دارالحکومت بیت المقدس میں منتقل کرنے پر جیرمی کوبورن کی مخالفت اور امریکا کے اسکولوں کے استادوں اور طلبہ کی جا نب سے 17مارچ کا ''واک آؤٹ'' یعنی کلاسوں کا احتجاجی بائیکاٹ کا اعلان ہے۔گزشتہ ماہ امریکا میں 17اسکولوں کے طلبہ کا گولیوں سے قتل ہونے کے بعد کانگریس میں اسلحہ رکھنے پر پابندی کے خلاف بل پیش کرنے پر صرف 36 ووٹ ملے جب کہ اسلحہ رکھنے کے حق میں 71 ووٹ پڑے۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک طلبہ احتجاج کرتے رہے،اب ہڑتال کرنے جارہے ہیں۔
پاکستان میں اس سے بھی زیادہ گھناؤنے انداز سے سرمایہ داری بے نقاب ہوگئی ہے۔ایک جانب ہر سال 12 ہزار افراد بون ٹرانس پلانٹ کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں، جن کے لیے کم ازکم 2 ہزارفزیشن اور200 ٹرانس پلانٹ کے مراکز ہونے چاہیے جب کہ فزیشن صرف 11ََِاور ٹرانس پلانٹ کے مراکز صرف 4 ہیں۔ پاکستان میں گردے، جگر اور پھیپھڑوں کے ٹرانس پلانٹ ہوسکتے ہیں، لیکن اس کی سہولت کاری اور اخراجات کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ نومولود بچے جن کی عمریں ایک دن سے 30 دن تک کی ہوتی ہے، ہر 22 بچوں میں سے ایک کی موت ہوجاتی ہے۔ یہ تعداد دنیا بھر ممالک میں سے پاکستان میں زیادہ ہے ۔اس سے بہتر صورتحال افغانستان، نائیجیریا اور مغربی صحارا کی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ غذائی قلت اور بیماری کے شکار بچے تھرپارکر، نگر پارکر اور مٹھی کے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ 12سال سے 16سال کی نوعمر لڑکیوں کی زیادتی تھر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے جہاں پینے کا شفاف پانی میسر نہیں۔ غذا ئی ملاوٹ بھی سب سے زیادہ پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ لڑکیوں کا اغوا، ریپ اور پھر قتل کرنے کے واقعات بھی سب سے زیادہ پا کستان میں ہورہے ہیں۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ایسی حیران کن بات نظر آتی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن مختلف اداروں میں تو ہوتی ہی رہی ہے، مگر اب سینیٹ میں سینیٹروں کی خریدوفروخت تو عوام کے سامنے سارے بورژوا رہنما بے نقاب ہوچکے ہیں۔ بورژوا نظام میں اسٹیبلشمنٹ ہو یا سول حکمران، سب ایک ہی حمام میں ننگے کھڑے ہیں۔کبھی سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے بھائی کامران کیانی 10 ارب روپے لے کر فرار ہو جا تے ہیں توکبھی اربوں رو پے کا الزام ایک بلڈر پر لگتا ہے۔کبھی آصف زرداری، جہانگیرترین اور نوازشریف پر لگتا ہے۔ کسی کا سوئس بینک،کسی پر سرے محل اورکسی کی لندن میں جائیداد پرکرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف عوام بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ امریکا ہم پر سیکڑوں ڈرون برساچکا ہے۔ اس کے باوجود ان ڈرونزکو نہیں مارگرایا گیا، جب کہ ہندوستان کا مارگرایا گیا۔
یہ بالکل درست مقولہ ہے کہ ''گڑکھائیں اورگلگلوں سے پرہیز'' عمران خان کہتے ہیں کہ ''ہمارے لوگ سینیٹ کے انتخابات میں بکے ہیں'' فاروق ستار فرماتے ہیں کہ ہما رے لوگوں کو پی پی پی نے خریدا،کوئی کہتا ہے کہ چارچارکروڑ میں،کوئی کہتا ہے کہ پانچ پانچ کروڑ میں بکے، کوئی کہتا ہے کہ چالیس کروڑ میں۔ ادھر لوگ بھوک، افلاس، بیماری اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف دفاعی بجٹ 930 ارب روپے کا مختص کیا گیا ہے۔
ایک جانب 18 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں تو دوسری جانب تقریبا 100 حکمران طبقات کے مقدمات بھگتائے جارہے ہیں۔ ان واقعات اور اقدامات پر حیران اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ یہ تمام خرابیاں، لوٹ مار، مفاد پرستی اور موقع پرستی سرمایہ دارانہ نظام میں ناگزیر ہے۔کہیں کم کہیں زیادہ۔کہیں درپردہ اورکہیں کھلے عام۔ چونکہ ریاست خود جبرکا ادارہ ہے اور صاحب جائیداد طبقات کا محافظ ہے۔ وہ کبھی بھی عوام کی بھلا ئی پر غور نہیں کرسکتا ہے۔
ہاں مگر جب یہ نظام ڈانواں ڈول ہونے لگتا ہے تو قومی ریاستوں کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دیا جاتا ہے، ورنہ عوام اگر بھوک سے مرجائیں تو پروا کون کرے گا؟ پیرس کمیون 70 دن اور روس کا سوشلسٹ انقلاب 70 سال قائم رہا لیکن کوئی بھو ک سے مرا اور نہ کو ئی لا علاج رہا۔ ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ اگر سوشلسٹ نظام سے فوری طور پرکمیونسٹ سماج کے قیام کی جا نب تیز تر پیش رفت کی جاتی توسوویت یونین کا انہدام نہ ہوتا۔ بہرحال دنیا بھرکے عوام جس جرات اور بہادری سے کمیونسٹ نظام کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچیں گے۔ پاکستان میں نابیناافراد، معذور افراد، خواجہ سراء اور پیرا میڈیکل اسٹاف جس جرات مندی سے لڑرہے ہیں، اس کی مثال کم ملتی ہیں۔
سندھ میں ایک جانب سینیٹروں کی خریدوفروخت ہورہی ہے تو دوسری جانب پیرا میڈیکل اسٹاف کے کارکنان کے مطالبات ماننے کے بجائے ان پر بدترین تشدد کیا جارہا ہے۔ ان حکمرانوں کے ظلم وجبرکا جواب ایک کمیونسٹ انقلاب میں ہی مضمر ہے۔