خدارا مکمل نقصان سے بچئے
ایسوپ قدیم یونان کا ایک مشہور قصہ گو تھا اس کا زمانہ 620 / 564 قبل از مسیح مانا جاتا ہے
مسائل جن، بھوت یا چڑیل نہیں ہوتے جو خود بخود آکر چمٹ جاتے ہیں بلکہ مسائل وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم خود پیدا کرتے ہیں لیکن قصور وار ہمیشہ اوروں کو ٹہراتے ہیں۔ ٹھنڈے دل ودماغ، سمجھ داری، دانش مندی و تجربے کی مدد سے مسائل سے ہمیشہ ہمیشہ دور رہا جا سکتا ہے لیکن کیا کریں ہم میں سے اکثروں کو سکون میں تسکین ہی نہیں ملتی ہے وہ ہمیشہ ٹکراؤ، محاذ آرائی، الجھنوں اور مسائل ہی میں تسکین پاتے ہیں۔ ایسے شخصوں کو ڈھونڈنا اور تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
آپ اپنے آس پاس، ارد گرد نظریں دوڑا لیجیے کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی لیکن اگر آپ پھر بھی ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں تو پھر آپ اورکچھ نہ کریں ملکی سیاست کے بعض اہم کرداروں کی زندگی کا مکمل جائزہ لے لیں آپ کی کامیابی شرطیہ ہے۔ ان میں بعض تو ایسے بھی ہیں جن کو ان کی زیادہ ہوشیاری لے ڈوبی ہے۔
انھوں نے اپنی دانست اور سمجھ بوجھ میں بڑی ہی ہوشیاری اور باریکی کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی حد سے زیادہ ہوشیاری اور باریکی ان کے لیے جن، بھوت اور چڑیل ثابت ہوگئیں، اب وہ ان سے جتنا اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں وہ اتنا اور ان سے چمٹ جاتی ہیں وہ ان سے جتنا دور بھاگتے ہیں وہ ان سے اتنا نزدیک ہوجاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو تو برا بھلا کہہ نہیں سکتے، اس لیے انھیں جو بھی سامنے نظر آتا ہے اسے برا بھلا اور مورد الزام ٹہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے غصے، طیش، جھنجھلاہٹ دیکھ کر ان کے بعض ساتھیوں نے تو انھیں ہر وقت ایمبولینس ساتھ ساتھ رکھنے کا مشورہ تک دے ڈالا ہے جسے سن کر وہ اور غصے اورطیش میں آگئے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر ایسوپ کی حکایت ''گدھا اور نمک'' باربار یاد آجاتی ہے۔
ایسوپ قدیم یونان کا ایک مشہور قصہ گو تھا اس کا زمانہ 620 / 564 قبل از مسیح مانا جاتا ہے۔ اس کی لکھی کہانیاں ہم تک Aesop's Fabless کی شکل میں پہنچی ہیں وہ اپنی اس حکایت میں لکھتا ہے ''ایک سوداگر دریا کے پاس سے اپنے گدھے پر نمک کے بھاری ڈلے لادے گھر جا رہا تھا، راستے میں دریا کی ذرا کم پانی والی وہ جگہ آگئی جہاں سے وہ بناکسی حادثے کے روزگزرتا تھا لیکن اس روز درمیان میں جا کر گدھے کا پاؤں پھسلا اور وہ پانی میں گر گیا اور جب تک سوداگر نے اسے دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا تو آدھے سے زیادہ نمک پانی میں حل ہوچکا تھا، اس جانکاری کے بعد اس کا بوجھ کتنا کم ہوگیا ہے گدھے نے باقی کا سفر خوشی خوشی طے کیا۔
اگلے دن سوداگر پھر نمک لینے گیا، واپسی پر گدھے کو یاد تھا کہ کم پانی والی جگہ پر ایک روز پہلے کیا ہوا تھا، چنانچہ اس نے وہاں پہنچ کر خود کو جان بوجھ کر پانی میں گرا لیا اور اپنے بوجھ کے ایک بڑے حصے سے جان چھڑالی۔ سوداگر کو سخت غصہ آیا اس نے اسی وقت گدھے کا رخ موڑا اور اسے واپس منڈی لے گیا وہاں اس نے گدھے پر اسفنج سے بھر ے دو بڑے بورے اس پر لاد دیے واپسی پر کم پانی والی جگہ پہنچ کر گدھا پھر سے پانی میں گر گیا لیکن جب وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوا تو اسے لگ پتہ گیا اب وہ اک بے کس گدھا تھا جسے گھر تک اس بوجھ کو ڈھونا پڑا جو پہلے سے کہیں دس گنا بھاری تھا۔'' اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ایک جیسے اٹھا ئے گئے اقدامات ہر طرح کے حالات میں کام نہیں آتے۔ اور قصوروں کے معاملے میں تو باکل ہی نہیں آتے ہیں۔
شیکسپیئر اپنے ڈرامے "Hamlet" میں لکھتا ہے ''جب ہم اپنی بے گناہی پر زیادہ سے زیادہ اصرار کرتے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ زیادہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں'' ہو سکتا ہے کہ ہمارے ضرورت سے زیادہ ہوشیار یہ بات سن کر شیکسپیئر کو ہی برا بھلا کہنے بیٹھ جائیں اور اسے اپنے دشمنوں کا ساتھی ثابت کرنے کی جدوجہد کا آغاز کردیں وہ اور ان کے ساتھی یہاں تک چلے جائیں کہ شیکسپیئر ان کی عوامی مقبولیت سے جلتا اور کڑھتا تھا اور ان سے حد سے زیادہ حسد کرتا تھا اور پھر وہ اپنے جلسوں میں اس کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دیں اور ساتھ ساتھ اس کے خلاف ٹویٹ پہ ٹویٹ کرکے اس کا قبر میں چین اور سکون لوٹ لیں۔
اب آپ جو چاہیں کر لیں لیکن اپنے مسائل سے جان پھر بھی نہیں چھڑا سکیں گے آپ جتنا چاہیں غم وغصہ کرلیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں آپ اتنا ہی اپنا اور نقصان کر لیں گے اور ساتھ ہی ساتھ غصے اور طیش کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو جسمانی طور پر بھی خطرے میں ڈال دیں گے اگر آپ نے اپنے آپ کو مکمل نقصان پہنچانے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر اور بات ہے لیکن اگر آپ ابھی بھی اپنے مسائل سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو پھر آپ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ آدم اسمتھ کی مندرجہ ذیل بات غور سے پڑھ لیجیے ۔
''ہم اپنے جذبات اور محرکات کا معائنہ خود نہیں کرسکتے ہم ان سے متعلق کبھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے جبتک کہ ہم گویا کہ اپنے آپ کو اپنے قدرتی مقام سے ہٹا نہیں دیتے اور انھیں اپنے سے ایک خاص فاصلے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن ہم ایسا اور کس طرح سے نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ ہم انھیں دوسرے لوگوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں یا اس نگاہ سے دیکھنے کی کو شش کریں جس طرح دوسرے لوگ ممکنہ طور پر دیکھ سکتے ہوں'' یاد رکھیں مکمل نقصان سے بچنے کے لیے ابھی بھی آپ کے پاس وقت ہے اس وقت کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں اس لیے خدارا مکمل نقصان سے بچئے۔
آپ اپنے آس پاس، ارد گرد نظریں دوڑا لیجیے کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی لیکن اگر آپ پھر بھی ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں تو پھر آپ اورکچھ نہ کریں ملکی سیاست کے بعض اہم کرداروں کی زندگی کا مکمل جائزہ لے لیں آپ کی کامیابی شرطیہ ہے۔ ان میں بعض تو ایسے بھی ہیں جن کو ان کی زیادہ ہوشیاری لے ڈوبی ہے۔
انھوں نے اپنی دانست اور سمجھ بوجھ میں بڑی ہی ہوشیاری اور باریکی کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی حد سے زیادہ ہوشیاری اور باریکی ان کے لیے جن، بھوت اور چڑیل ثابت ہوگئیں، اب وہ ان سے جتنا اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں وہ اتنا اور ان سے چمٹ جاتی ہیں وہ ان سے جتنا دور بھاگتے ہیں وہ ان سے اتنا نزدیک ہوجاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو تو برا بھلا کہہ نہیں سکتے، اس لیے انھیں جو بھی سامنے نظر آتا ہے اسے برا بھلا اور مورد الزام ٹہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے غصے، طیش، جھنجھلاہٹ دیکھ کر ان کے بعض ساتھیوں نے تو انھیں ہر وقت ایمبولینس ساتھ ساتھ رکھنے کا مشورہ تک دے ڈالا ہے جسے سن کر وہ اور غصے اورطیش میں آگئے ہیں ان کی یہ حالت دیکھ کر ایسوپ کی حکایت ''گدھا اور نمک'' باربار یاد آجاتی ہے۔
ایسوپ قدیم یونان کا ایک مشہور قصہ گو تھا اس کا زمانہ 620 / 564 قبل از مسیح مانا جاتا ہے۔ اس کی لکھی کہانیاں ہم تک Aesop's Fabless کی شکل میں پہنچی ہیں وہ اپنی اس حکایت میں لکھتا ہے ''ایک سوداگر دریا کے پاس سے اپنے گدھے پر نمک کے بھاری ڈلے لادے گھر جا رہا تھا، راستے میں دریا کی ذرا کم پانی والی وہ جگہ آگئی جہاں سے وہ بناکسی حادثے کے روزگزرتا تھا لیکن اس روز درمیان میں جا کر گدھے کا پاؤں پھسلا اور وہ پانی میں گر گیا اور جب تک سوداگر نے اسے دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا تو آدھے سے زیادہ نمک پانی میں حل ہوچکا تھا، اس جانکاری کے بعد اس کا بوجھ کتنا کم ہوگیا ہے گدھے نے باقی کا سفر خوشی خوشی طے کیا۔
اگلے دن سوداگر پھر نمک لینے گیا، واپسی پر گدھے کو یاد تھا کہ کم پانی والی جگہ پر ایک روز پہلے کیا ہوا تھا، چنانچہ اس نے وہاں پہنچ کر خود کو جان بوجھ کر پانی میں گرا لیا اور اپنے بوجھ کے ایک بڑے حصے سے جان چھڑالی۔ سوداگر کو سخت غصہ آیا اس نے اسی وقت گدھے کا رخ موڑا اور اسے واپس منڈی لے گیا وہاں اس نے گدھے پر اسفنج سے بھر ے دو بڑے بورے اس پر لاد دیے واپسی پر کم پانی والی جگہ پہنچ کر گدھا پھر سے پانی میں گر گیا لیکن جب وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوا تو اسے لگ پتہ گیا اب وہ اک بے کس گدھا تھا جسے گھر تک اس بوجھ کو ڈھونا پڑا جو پہلے سے کہیں دس گنا بھاری تھا۔'' اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ایک جیسے اٹھا ئے گئے اقدامات ہر طرح کے حالات میں کام نہیں آتے۔ اور قصوروں کے معاملے میں تو باکل ہی نہیں آتے ہیں۔
شیکسپیئر اپنے ڈرامے "Hamlet" میں لکھتا ہے ''جب ہم اپنی بے گناہی پر زیادہ سے زیادہ اصرار کرتے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ زیادہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں'' ہو سکتا ہے کہ ہمارے ضرورت سے زیادہ ہوشیار یہ بات سن کر شیکسپیئر کو ہی برا بھلا کہنے بیٹھ جائیں اور اسے اپنے دشمنوں کا ساتھی ثابت کرنے کی جدوجہد کا آغاز کردیں وہ اور ان کے ساتھی یہاں تک چلے جائیں کہ شیکسپیئر ان کی عوامی مقبولیت سے جلتا اور کڑھتا تھا اور ان سے حد سے زیادہ حسد کرتا تھا اور پھر وہ اپنے جلسوں میں اس کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دیں اور ساتھ ساتھ اس کے خلاف ٹویٹ پہ ٹویٹ کرکے اس کا قبر میں چین اور سکون لوٹ لیں۔
اب آپ جو چاہیں کر لیں لیکن اپنے مسائل سے جان پھر بھی نہیں چھڑا سکیں گے آپ جتنا چاہیں غم وغصہ کرلیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں آپ اتنا ہی اپنا اور نقصان کر لیں گے اور ساتھ ہی ساتھ غصے اور طیش کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو جسمانی طور پر بھی خطرے میں ڈال دیں گے اگر آپ نے اپنے آپ کو مکمل نقصان پہنچانے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر اور بات ہے لیکن اگر آپ ابھی بھی اپنے مسائل سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو پھر آپ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ آدم اسمتھ کی مندرجہ ذیل بات غور سے پڑھ لیجیے ۔
''ہم اپنے جذبات اور محرکات کا معائنہ خود نہیں کرسکتے ہم ان سے متعلق کبھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے جبتک کہ ہم گویا کہ اپنے آپ کو اپنے قدرتی مقام سے ہٹا نہیں دیتے اور انھیں اپنے سے ایک خاص فاصلے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن ہم ایسا اور کس طرح سے نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ ہم انھیں دوسرے لوگوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں یا اس نگاہ سے دیکھنے کی کو شش کریں جس طرح دوسرے لوگ ممکنہ طور پر دیکھ سکتے ہوں'' یاد رکھیں مکمل نقصان سے بچنے کے لیے ابھی بھی آپ کے پاس وقت ہے اس وقت کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں اس لیے خدارا مکمل نقصان سے بچئے۔