نقیب اللہ قتل کیس سپریم کورٹ کوراؤانوارکا ایک اورخط موصول
راؤانوار کی سپریم کورٹ سے بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کی استدعا
نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمٰی کو راؤ انوار کا ایک اور خط موصول ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران عدالت کے معاون وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ نقیب اللہ کیس میں 24 ملزمان ہیں لیکن ابھی تک 10 لوگ ہی گرفتار ہوئے ہیں، ریاست کی اتھارٹی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ راؤ انوار کا ایک اور خط آیا ہے، معلوم نہیں خط اصلی ہے یانقلی، خط کو فائل میں رکھوا دیا ہے، خط میں راؤ انوار نے کہا ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹ بحال کردیں، پولیس کی رپورٹس تو مل رہی ہیں لیکن کیس میں پیش رفت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا ایم آئی اورآئی ایس آئی آپ کی معاونت کررہے ہیں، جس پرآئی جی سندھ نے کہا کہ دونوں سیکیورٹی ادارے معاونت کررہے ہیں، اب تک 12 ملزمان گرفتارہوچکے ہیں، باقی ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کررہے ہیں، پہلی ایف آئی آر منسوخ کردی ہے۔ مقدمے کا چالان داخل کردیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ظاہرہے کوئی نہ کوئی ملزمان کو تحفظ فراہم کررہا ہے، کیا شرپسند انھیں تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ ایک بڑا سوال ہے، کیا راؤ انوارسیاسی پناہ میں نہیں ہے، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ بطور ذمہ دار آفیسر یہ نہیں کہہ سکتا کہ راؤانوار سیاسی پناہ میں ہے، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارے صوبے میں نہیں اور اس کی آخری لوکیشن بھیرہ تھی۔
چیف جسٹس نے عدالت کا آئی جی سندھ کو راؤانوارکی کراچی اور اسلام آباد سی سی ٹی وی فوٹیج پر ان کیمرا بریفنگ دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہوسکتا ہے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد مل جائے ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں، عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل ائیرپورٹس سیکیورٹی کو بھی طلب کرلیا۔ کیس کی مزید سماعت اب 16 مارچ کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کو کراچی میں گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلے میں 3 مزید افراد کے ساتھ ہلاک کیا گیا تھا، راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب مطلوب دہشتگرد تھا تاہم تحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ تھا اور اسے گرفتار کرنے کے کئی روزبعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران عدالت کے معاون وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ نقیب اللہ کیس میں 24 ملزمان ہیں لیکن ابھی تک 10 لوگ ہی گرفتار ہوئے ہیں، ریاست کی اتھارٹی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ راؤ انوار کا ایک اور خط آیا ہے، معلوم نہیں خط اصلی ہے یانقلی، خط کو فائل میں رکھوا دیا ہے، خط میں راؤ انوار نے کہا ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹ بحال کردیں، پولیس کی رپورٹس تو مل رہی ہیں لیکن کیس میں پیش رفت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا ایم آئی اورآئی ایس آئی آپ کی معاونت کررہے ہیں، جس پرآئی جی سندھ نے کہا کہ دونوں سیکیورٹی ادارے معاونت کررہے ہیں، اب تک 12 ملزمان گرفتارہوچکے ہیں، باقی ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کررہے ہیں، پہلی ایف آئی آر منسوخ کردی ہے۔ مقدمے کا چالان داخل کردیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ظاہرہے کوئی نہ کوئی ملزمان کو تحفظ فراہم کررہا ہے، کیا شرپسند انھیں تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ ایک بڑا سوال ہے، کیا راؤ انوارسیاسی پناہ میں نہیں ہے، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ بطور ذمہ دار آفیسر یہ نہیں کہہ سکتا کہ راؤانوار سیاسی پناہ میں ہے، اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارے صوبے میں نہیں اور اس کی آخری لوکیشن بھیرہ تھی۔
چیف جسٹس نے عدالت کا آئی جی سندھ کو راؤانوارکی کراچی اور اسلام آباد سی سی ٹی وی فوٹیج پر ان کیمرا بریفنگ دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہوسکتا ہے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد مل جائے ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں، عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر جنرل ائیرپورٹس سیکیورٹی کو بھی طلب کرلیا۔ کیس کی مزید سماعت اب 16 مارچ کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کو کراچی میں گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلے میں 3 مزید افراد کے ساتھ ہلاک کیا گیا تھا، راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب مطلوب دہشتگرد تھا تاہم تحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ تھا اور اسے گرفتار کرنے کے کئی روزبعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔